خیال آرائی: فیضان علی فیضان
سچ کہوں گا میری شنا سا ہو
تم نے شاید مجھے بھی دیکھا ہو
اپنی حالت بیان کیسے کروں
ذہن جب الجھنوں میں الجھا ہو
بات اپنی رکھوں تیرے آگے
تو مقابل جو آ کے بیٹھا ہو
میرے دل کو سکون دیتا ہے
زخم الفت کا جتنا گہرا ہو
تپتے صحرا میں جیسے چھاؤں ملے
پاس میرے اگر وہ ٹھہرا ہو
ہمسفر ہم کو کوئی تم سا ملے
سوچئے کیا سفر سہانا ہو
کیسے فیضان ہوں ملاقاتیں
روز ملنے کو اک بہانا ہو