نتیجۂ فکر: ذکی طارق بارہ بنکوی
سعادت گنج بارہ بنکی، یو۔پی۔ بھارت
جو سکھانا ہے تو پھر اس ڈھنگ کی باتیں سکھا
کر لوں سب کے دل میں گھر ایسی مناجاتیں سکھا
مجھ کو تنہا کرنے سے پہلے اے میرے ہم نفس
کیسے کاٹوں گا میں تیرے ہجر کی راتیں سکھا
دور سے دیدار کی بس پوری ہونگی حسرتیں
جو بنا دیں آشنا ایسی ملاقاتیں سکھا
اپنے شوقِ گریہ سے موسم زدہ بادل کو تو
کیسے بے موسم ہوا کرتی ہیں برساتیں سکھا
رات کو دن کرنے والے اے مرے شاطر عزیز
جیسے تو چلتا ہے یوں چلنا مجھے گھاتیں سکھا
ورد نے جن کے تجھے خوشیاں ہی خوشیاں بخشی ہیں
مجھ کو بھی پڑھنا محبت کی وہ آیاتیں سکھا
دردِ دل، آنکھوں میں آنسو اور تبسم، پیار میں
کیسے دی جاتی ہیں یہ انمول سوغاتیں سکھا
میں بھی معراجِ محبت چاہتا ہوں جانِ من
مجھ کو اندازِ محبت کی ہدایاتیں سکھا
عشق سے ناآشنا ہوں تیرے جلوؤں کی قسم
آ کے اپنے حسنِ دلکش کی مداراتیں سکھا