دامن کو آنسوؤں سے بھگونے نہیں دیا
خود کو کسی بھی حال میں رونے نہیں دیا
چین و سکون چھین لیا میرا اس طرح
مجھ کو غم حیات نے سونے نہیں دیا
وابستگی ہی ایسی رہی تیری ذات سے
اپنے سوا کسی کا بھی ہونے نہیں دیا
اب کیا کہوں کہ گردش حالات نے مری
آنکھوں کو کوئی خواب سنجونے نہیں دیا
کیا تھا مرا قصور بتا مجھکو زندگی
وہ کون سا ہے درد جو تو نے نہیں دیا
روشن ہمارے سر پہ یتیمی کا بوجھ تھا
اس پہ ستم کی لوگوں نے ڈھونے نہیں دیا
افروز روشن کچھوچھوی