چَونک گئے کیا؟ چونکیے مت! یہ اسی ہزار نہیں آٹھ لاکھ ہی ہیں، کل ایک شادی میں جانا ہوا، اسٹیج پر پہنچے تو قاضی صاحب رجسٹر پُر کر رہے تھے، پھر تھوڑی دیر بعد ہی رجسٹر پر نظر پڑی تو ہم چونک گئے، کیوں کہ اس قبل ہم نے اتنے مہر والی شادی نہیں دیکھی تھی، (ہمارے یہاں پچاس ہزار ایک لاکھ بہت ہوتے ہیں،) ہندسوں پر نظر پڑی تو سوچا اسی ہزار ہونگے، چوں کہ زیرو کچھ زیادہ لگ رہے تھے تو تجسس ہوا کہ کیا یہ واقعی اسی ہزار ہیں یا اس سے زائد، پھر لفظوں میں دیکھا تو صاف آٹھ لاکھ ہی تھے، ہمیں اپنے علاقے کی مثال یاد آگئی "ہر لگے نہ پھٹکری رنگ چوکھا آجائے” اسے کہا جاتا ہے دونوں چولہے جلا کر شادی کرنا، ہم سوچ رہے تھے لڑکی والوں کا جتنا خرچ نہیں ہوا اس سے زیادہ تو مہر ہی مل گیا –
مہر کی شرعی حیثیت
ارشادباری ہے "وَآتُوا النِّسَآءَ صَدُقَاتِھِنَّ نِحْلَةَ” (سورة النساء:۴) اور عورتوں کے مہر بخوشی ادا کردیاکرو۔ فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِه مِنْھُنَّ فَاٰتُوْھُنَّ اُجُوْرَھُنَّ فَرِیْضَةً” (النساء :۲۴) پس جو لطف تم نے ان سے اٹھایاہے اس کے بدلے ان کے مہر کو ایک فرض کے طورپر اداکرو۔ حدیث شریف میں ہے کہ جس نے کسی عورت سے نکاح کیا اور نیت یہ رکھی کہ مہر دینا نہیں ہے تو وہ زانی ہے اور جو مہر اداکیے بغیر مرجائے وہ قیامت کے دن زانیوں کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔مقدارِ مہر کی تعیین میں بے اعتدالی نہ برتی جائے اس کی مقدار اتنی ہوکہ مرد بہ آسانی بغیر قرض لیے اسے ادا کردے "لَاتَغْلُوْا فِیْ مُھُوْرِ النِّسَآءِ لِتَکُوْنَ عَدَاوَةً” (مسند احمد) عورتوں کے مہر کے معاملے میں اتنا غلو نہ کرو کہ عداوت کاسبب بن جائے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنھا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتی ہیں "اِنَّ اَعْظَمَ النِّسَاءِ بَرَکَةً أیْسَرُھُنَّ صَدَاقاً”- (مسنداحمد ، بیہقی)
سب سے زیادہ برکت والی خاتون وہ ہے جس کا مہر سہل اور آسان ہو۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ زیادتی مہر کے بہت خلاف تھے مہر کی زیادتی نہ عزت و شرف کی چیز ہوتی ہے، نہ ہی اللہ کے نزدیک تقوی، پرہیزگاری کا عمل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بارہ اوقیہ سے زیادہ کسی بیوی یا بیٹی کا مہر مقرر نہیں فرمایا۔سوائے ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے جن کے مہر کو نجاشی نے طے کیاتھا۔ اور اسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہدیہ کے طور پر ادا کردیا تھا۔
خیر! کھانا پینا ہوا، ہم اپنے ملنے والے ایک ڈاکٹر صاحب کے ساتھ واپس ہوے، ہم نے ڈاکٹر صاحب سے کہا :ڈاکٹر صاحب مہر بہت رکھا گیا ہے، بولے کتنا؟ ہم نے کہا 8 لاکھ، ڈاکٹر صاحب نے کہا یہاں تو ایسا ہی ہوتا ہے، ہم نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا اتنا زیادہ؟ ڈاکٹر صاحب بولے حضرت! یہاں ایسا ہی ہوتا ہے کیوں کہ مہر کوئی دیتا ہی نہیں، اس لیے چاہے جتنا لکھوا دیا جائے اس سے کیا فرق پڑتا ہے، پھر ڈاکٹر صاحب نے اپنا قصہ سنایا جیسے ہم حیران ہوے تھے ایسے ہی ڈاکٹر صاحب بھی حیران ہوے تھے –
ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں جب ہم اس علاقے میں نئے نئے آئے تھے تو ایک شادی میں جانا ہوا، بارات پہنچی لیکن دلہن کے اہل خانہ کے سبھی ذمہ دار افراد ندارد تھے، کافی وقت ہوگیا تو تلاش ہوئی کہ بارات آگئی ہے آخر لڑکی والے کہاں ہیں؟ تو ایک شخص بولا وہ کہیں نکل گئے ہیں آپ ہمیں بتائیں کیا بات ہے؟ انھوں نے کہا بھئی نکاح کی تیاری کرائیں تاکہ بارات کا کھانا چالو ہو، بولے ٹھیک ہے، کچھ دیر بعد وہ صاحب آئے اور بولے سب تیار ہے بس مہر کی بات فائنل ہو جائے، لڑکے والوں نے کہا کہ آپ کتنا مہر رکھنا چاہتے ہیں؟ انھوں نے کہا گیارہ لاکھ، لڑکے والوں نے کہا یہ تو بہت ہے، معاملہ طول پکڑا یہاں تک کہ ایک دو گھنٹے لگے، جو ڈیل کر رہا تھا وہ آٹھ لاکھ تک آیا، جب زیادہ کہا گیا تو بولا مجھے اس سے کم کرنے کی اجازت نہیں، پھر کافی دیر کی کھینچ تان کے بعد بالآخر 7 لاکھ طے پایا، ڈاکٹر صاحب بتاتے ہیں کہ پڑھے لکھے لوگ آپس میں باتیں کر رہے تھے چاہے جتنا بندھوا دو کیوں لڑ رہے ہو، کہاں دینا ہے جو اتنی دیر سے سب کو پریشان کر رہے ہیں –
وجہ کیا ہے؟
اس علاقے میں طلاق کثرت کے ساتھ ہوتی ہیں اس لیے اس علاقے کو لوگ مہر کو ڈفینس کا طریقہ سمجھ کر کام کرتے ہیں، مزید بات چیت میں مہر زیادہ ہونے کی دو وجہیں سمجھ آئیں (1) اس لیے زیادہ رکھا جائے تاکہ شوہر طلاق نہ دے (2) اگر طلاق دے دے تو پھر اسی مہر سے لڑکی کا خرچا چل جائے یا دوسری شادی کرنا پڑے تو اسی مہر سے شادی ہو جائے، بہر حال دونوں صورتوں میں میں لڑکی کا حق مارا جاتا ہے، زیادہ ہونے کی بنا پر شوہر دیتا نہیں اور طلاق ہونے کی صورت میں لڑکی کو ملتا نہیں، کیوں کہ یہی مہر دوسری شادی میں کام آنا ہے – ظاہر ہے دوسری شادی میں مہر زیادہ ہو نہیں سکتا –
لڑکیوں کے حقوق مارنے میں مسلمان بہت آگے نکل چکے ہیں، میراث کا ایک روپیہ لڑکیوں کو نہیں ملتا، مہر کا پیسہ یا تو ملتا نہیں یا بعض جگہوں پر پر ملتا ہے تو والدین اموشنل بلیک میل کرکے اسے شادی کے خرچ میں ڈال دیتے ہیں، بسا اوقات ایسا ہوتا ہے مہر سالوں بعد ملتا ہے، کبھی ملتا ہی نہیں شوہر معاف کرا لیتا ہے، کبھی شوہر کی موت کے بعد مجبوراً عورت کو مہر معاف کرنا پڑتا ہے، علما کو مہر کے متعلق لڑکیوں کو بتانا چاہیے کہ یہ آپ کا حق ہے اور لڑکیوں کو بھی اپنے اس حق کے متعلق جان کاری حاصل کرنا چاہیے، یوں ہی وراثت کے متعلق بھی لڑکیوں کو آگاہی ہونا چاہیے –
اللہ رب العزت ہم کو حقوق نسواں کی حفاظت کی توفیق عطا فرمائے، آمین ثم آمین۔
تحریر: محمد زاہد علی مرکزی
چئیرمین تحریک علمائے بندیل کھنڈ
7/10/2024
3/4/1446