علامہ اقبال یورپ کے دورے پر تھے-
ایک روز شام کے وقت ایک پارک میں بچوں کو کھیلتے دیکھ لطف اندوز ہورہے تھے-
اچانک ان کی نگاہ پارک کے کونے میں بیٹھے ایک ایسے بچے پر پڑی جو پڑھائی کر رہا تھا-
علامہ اقبال کو حیرت ہوئی-
کیونکہ وہ بچوں کی فطرت (child psychology) سے بخوبی واقف تھے، اس لئے بچے کو پڑھتا دیکھ انہیں ذرا تعجب ہوا-
انہیں عجیب لگا کہ ایک بچہ اس ماحول میں پڑھ بھی سکتا ہے-
انہیں یہ بچہ کچھ extra ordinary لگا-
وہ اٹھ کر اس بچے کے پاس گئے،
اور اس سے بولے،
” کیا آپ کو کھیلنا پسند نہیں؟”
بچے کے جواب نے انہیں حیران کردیا-
” ہم دنیا میں مٹھی بھر ہیں، اگر میں کھیلنے میں وقت ضائع کروں گا تو میری قوم مٹ جائے گی،
مجھے اپنی قوم کو بچانا ہے-"
علامہ: "آپ کس قوم سے ہو”؟
بچہ: ” میں یہودی ہوں”-
” میں یہودی ہوں "
یہ الفاظ اور یہ عزم،
علامہ اقبال کے ہوش فاختہ ہوگئے-
ان کاذہن کسی اور ہی دنیا میں چلا گیا-
اور آنکھوں سے بے ساختہ آنسو بہنے لگے-
وہ یونان، اسپین، مصر، ایران کی فتح کی کہانیوں سے لیکر ان کو گنوا دینے تک کی وجوہات کا سفر کرنے لگے-
شاید دل چیخ رہا ہوگا کہ،
ہائے میری قوم،
ہائے ہمارے بچے،
میں تم میں شاہین ڈھونڈ رہا ہوں،
لیکن عقاب تو یہودی گھروں میں پل رہے ہیں-
حقیقت خرافات میں کھو گئی،
یہ امت روایات میں کھو گئی-
منقول ممتاز عبید