تحریر: افتخار احمد قادری برکاتی
کریم گنج،پورن پور،پیلی بھیت،مغربی اتر پردیش
iftikharahmadquadri@gmail.com
فرقہ پرست طاقتوں اور آر ایس ایس ذہنیت رکھنے والوں کی نظر سے مدارس اسلامیہ، مساجد و خانقاہوں وغیرہ کی اہمیت کس طرح اوجھل ہو سکتی ہیں، جہاں سے علم کے چشمیں پھوٹتے ہیں- اسلامی تحریکات و احیاء دین کے شعور کو بیدار کیا جاتاہے- عام مسلمان دینی و عصری تعلیم کی طرف راغب ہوتا ہے، جہاں ان میں ایک نئی روح پھونکی جاتی ہے، یہیں سے دعوت وتبلیغ کی سرگرمیاں پورے آب و تاب کے ساتھ زندگی کے ہر شعبے میں کارہائے نمایاں انجام دیتے ہیں- یہیں سے عزم و حوصلہ میسر آتا ہے کہ کس طرح زراعت و حرفت،صنعت و تجارت کی طرف پیش قدمی کریں اور اس میں درپیش مسائل سے عہد برآں ہونے کی ہمت و خوداعتمادی انہیں تعلیمی اداروں مدارس، مساجد و خانقاہوں سے ملتی ہے- اور یہیں قائد و رہنما پیدا ہوتے ہیں،جو پوری ملت اسلامیہ کا رخ احکام شرعیہ کے مطابق متعین کرتے ہیں- لہٰذا ضروری ہوجاتا ہے کہ ان پر روک لگا کر مسلمانوں کو مزید مفلوج و معزور کیا جائے- آئے دن کسی نہ کسی مدرسے کو یہ فرقہ پرست اپنی چال سے اس پر بلڈوزر چلوا رہے ہیں- سوچنے کی بات یہ ہے ابھی تک کئی مدارس کو توڑا جاچکا ہے الجامعتہ الشرفہ پر بھی ان کا بلڈوزر چل چکا ہے مگر بااثر علماء، مسلم قائدین اس پر پوری طرح سے خاموش ہیں احتجاج تو کجا کچھ بولنے تک کے لئے تیار نہیں ہیں شاید انہیں خوف ہے کہ کہیں ہماری خانقاہ یا مدارس کا نمںر نہ آجائے خدارا اپنی اس خاموشی کو توڑئے مدارس و مساجد کی چہار دیواری سے نکل کر دین کے مضبوط قلعوں کی حفاظت کے لئے کوئی لائحہ عمل تیار کیجئے ورنہ کوئی وعید نہیں کہ کل بابا جی کا بلڈوزر آپ کی خانقاہ یا مدارس پر دستک دے دے پھر کیا کریں گے- اصل میں ہمارے علماء سیاست میں نکلنا نہیں چاہتے نہ سیاسی معاملات میں بولنا پسند کرتے ہیں اسی بنیاد پر طبقہ علماء کی نسبت یہ مشہور کر دیا گیا ہے کہ یہ سیاست سے قطعی نابلد ہیں ان کو نظم ونسق کے کسی کام میں بھی دخل نہیں دینا چاہئے، یقین جانئے علم و فضل والا یہ
طبقہ اگر اس جانب متوجہ ہوگیا تو بہت سی نشستیں لے جائے گا اور لوگوں کے لئے کرسیاں کم رہ جائیں گی۔