تعلیم

صرف علم دین حاصل کریں ؟؟؟

ہمارے علماء و مشائخ نے مسلسل ایک طویل عرصے تک اپنے تلامذہ و مریدین کو ایک سبق پڑھایا ہے۔ مسلسل یہ کہتے رہے کہ صرف علمِ دین حاصل کریں، اللہ تمہاری دنیوی ضروریات بھی پوری کر دے گا۔ لیکن اب حقائق تبدیل ہو گئے ہیں۔
جنہوں نے صرف قرآن کریم حفظ کیا، تجوید پڑھی، درسِ نظامی مکمل کیا، اس کے بعد امامت و خطابت میں مصروف ہو گئے وہ خود بھی مشکل میں ہیں اور ان کے خاندان بھی پریشان ہیں۔ اس کی متعدد وجوہات ہیں۔

عوام و معاشرہ منتشر ہے، وہ محافل و مجالس میں چسکا لینے جاتے ہیں۔ الا ماشاء اللہ۔ ان محافل میں پڑھے گئے کلام، انداز اور شرکاء شرعی حدود و قیود سے تجاوز کرتے ہیں، خطباء سریلے و دروغ گو ہیں، لوگ انہی کو پسند کرتے ہیں اور ان پر نوٹ نچھاور کرتے ہیں۔ ایسے میں اچھے حافظ و قاری، عالم دین و معتدل خطیب کی کوئی خدمت و مدد نہیں ہوتی۔ لہٰذا شریف النفس و اور سلجھے ہوئے علماء کی دیانت داری و سفید پوشی انہیں مزید پیچھے دھکیل دیتی ہے۔

پیران عظام کی شادیوں اور خوشیوں پر رونقیں دیکھیں تو آپ کو قارون و فراعین کی سلطنتیں اور اموال حقیر و ذرہ برابر نظر آئیں گے کیونکہ پیروں نے مریدین کو فقر سکھایا ہے، خود انٹرنیشنل ہوٹلز، انڈسٹریز اور پراپرٹیز میں انویسٹ کر رکھا ہے۔ پیروں اور خطیبوں کی اولاد انتہائی مہنگے تعلیمی اداروں میں ٹیکنالوجی اور سائنس پڑھ رہے ہیں جب کہ غریب مرید و مولوی کے بچے سرکاری سکول میں ماسٹر بشیر کے ہاتھوں پامال ہو رہے ہیں۔

ایسے میں آپ کی نجات، آپ کی اولاد کی فلاح و مستقبل کی حفاظت اسی میں ہے کہ فورا ایسے پیروں اور خطیبوں کی گمراہی پر مبنی مجالس سے اٹھ جائیں اور اپنی اولاد کو رسول اللہ ﷺاور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سنت پر عمل کرتے ہوئے ہنر و کسب سکھائیں۔ نبی کریم ﷺاور آپ کے صحابہ نے اپنے ہاتھوں سے محنت کی، مزدوری کی، ہاتھ پاوٴں پر چھالے برداشت کیے اور رزق حلال کمایا۔ نبی رحمت علیہ الصلاة والسلام کا فرمان ہے الکاسب حبیب اللہ یعنی اپنی محنت سے کمانے والا اللہ تعالٰی کا دوست ہے۔

تجارت و ہنر سیکھیں، مسجد میں امامت اور دین کی خدمت کے ساتھ ساتھ اپنا روزگار چلائیں۔ اپنے بند باکس سے باہر نکل کر سوچیں، گولی ٹافی اور دودھ دہی کی دوکان سے اوپر جائیں۔ وقت ضرور لگے گا، لیکن آج کے دور میں ہنر سیکھنا، کم محنت کرتے ہوئے گھر بیٹھ کر کام کرنا ممکن ہے۔ متعدد ائمہ و علماء مجھ سے پوچھتے ہیں اور اجازت چاہتے ہیں کہ ہمیں روحانی علاج سکھائیں، تسخیر کا عمل دیں، حاضرات سکھائیں وغیرہ تاکہ ہم عوام کی خدمت کر سکیں۔ میں ہر کسی کو ایک ہی جواب دیتا ہوں کہ آپ عوام کی "خدمت” صرف اسی صورت میں کر سکتے ہیں جب مالی اعتبار سے مضبوط ہوں گے ورنہ آپ ۱۵ کا تعویذ دے کر ۱۰۰ روپے کی خاطر منہ لٹکائے پھرتے رہیں گے۔ دنیا میں عزت اسی امام کی ہے جو مالی طور پر آزاد اور دنیا داروں سے بے نیاز ہو گا۔

میں کوشش کروں گا، آنے والے دنوں میں کچھ تجارتی و کاروباری مشورے پیش کروں، جس سے آپ حضرات کے لیے فیصلہ کرنا اور کوئی مناسب پیشہ اختیار کرنا آسان ہو جائے گا۔ اس کے لیے مجھے انباکس نہ کریں کیونکہ میرے لیے میسجز کے جوابات دینا آسان عمل نہیں۔ ادھر فیس بک پوسٹس پر ہی فالو کرتے رہیں اور اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہیں۔ کمنٹ باکس میں جاری بحث یعنی سوالات و جوابات سے زیادہ فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ ایک فرد کا سوال دیگر بہت سارے پڑھنے والوں کے لیے مفید ہو سکتا ہے۔

تحریر: محمد افتخار الحسن

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے