از قلم: محمد توصیف رضا قادری علیمی (بانئ الغزالی اکیڈمی و اعلیٰحضرت مشن، آبادپور تھانہ (پرمانیک ٹولہ) ضلع کٹیہار بہار، الھند : متعلم دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی،بستی۔ یوپی)
قرآنِ مجید میں ارشاد ہے: ”فاسئلوااھل الذکران کنتم لاتعلمون“ اے لوگو! علم والوں سے پوچھو اگر تمہیں علم نہیں۔(الانبیاء 21: 7)
اس آیت کے تحت حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:اس سے تقلید کا وجوب ثابت ہوا کیونکہ جو چیز معلوم نہ ہو وہ جاننے والے سے یہ پوچھنا لازم ہے (نور العرفان)
جیسا کہ دورِ رسالت ﷺ میں متعدد مواقع پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آنحضرت ﷺ سے روزمرہ زندگی اور مادی امور کے متعلق سوالات کیے اور وہ سوالات بھی کیے جو انسانی علم سے باہر ہیں، نہ انسان انہیں دیکھ سکتا ہے، نہ ان کی گواہی دے سکتا ہے کیوں کہ معمولی سا سوال بھی پیدا ہو تو شکوک و شبہات میں اضافہ ایمان کو کمزور کرسکتا ہے
بہار شریعت میں مرقوم ہے: خلفائے راشدین کے زمانہ مسعودو مبارک میں بھی مخصوص افراد صحابہ و تابعین میں سے ایسے تھے جن سے مسائل کے احکام معلوم کرنے میں رجوع کیا جاتا تھا۔ہر صحابی یا ہر تابعی کو یہ مقام حاصل نہ تھا۔ اس لئے احکامِ شرعیہ کو حاصل کرنے میں اور دوسروں کو بتلانے میں فقہی کتابوں کے مطالعے کے ساتھ صاحبِ فہم و اِدراک صحیح العقیدہ دینی عالم سے رجوع کرنا بہرحال ضروری ہے ملخصاً (بہار شریعت: ج 3_ب، حصّہ 19،ص 1022، نئی ایڈیشن دعوتِ اسلامی)
اور امام اہل سنت اعلٰیحضرت امام احمد رضا خاں قادری قدس سرہ الباری تحریر فرماتے ہیں: مسلمانوں کو یہی حکم ہے کہ جو بات نہ جانے خود اس پر کوئی حکم نہ لگائے بلکہ اہل شرع سے دریافت کرے۔ ملخصاً(فتاویٰ رضویہ: ج 24،ص 526، رضا فاؤنڈیشن لاہور)
لیکن آج کا المیہ یہ کہ لوگ سوال پوچھتے ہی نہیں (إلا ماشالله) اور بعض اوقات ہم سنجیدہ سوالات کرنے سے ڈرتے اور شرماتے بھی ہیں جب کہ قرآنی تعلیمات کبھی سوال کرنے کی حوصلہ شکنی نہیں فرمائی آپ قرآن مجید تلاوت کیجئے تو معلوم ہوگا کہ انبیائے کرام علیہم السلام نے اللہ تعالیٰ سے سوالات کیے نیز احادیثِ مبارکہ میں نبی کریم رؤف ورحیم ﷺ سے صحابہ کرام اور صحابہ کرام سے تابعین اسی طرح بزرگانِ دین سے عام اہلِ ایمان تک سوال پوچھنے کی روایت جاری رہا ہے
ہمیں سوچنا چاہیے کہ سوال کرنے سے علم میں اضافہ ہوتی ہے بلکہ حصول علم کے لیے سؤال کرنا ضروری ہے اسی لیے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم“ یعنی علم دین کا سیکھنا ہرمسلمان پر فرض ہے ۔اور علم ہی ہے کہ جس کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”اِنَّمَا یَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُاؕ“اللہ سے اس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں(سورہ 35، آیت 28)
تنبیہ: صرف سؤال کرنے سے نہیں ہوتا، سؤال کرنے کے کچھ آداب بھی ہوتے ہیں بالخصوص صاحب شرع سے مسئلہ پوچھتے وقت اُن کا ادب واحترام ملحوظ رکھنا ضروری ہے، اپنی گفتگو، حرکات وسکنات کی وجہ سے ان کو تکلیف دینے سے پرہیز کرنا چاہیے۔
نیز جن (مفتی یا مولانا پر اعتماد ہے) سے مسئلہ پوچھیں تو ان سے بحث ومباحثہ سے پرہیز کریں اگر کوئی جواب سمجھ نہ آئے تو اعتراض نہ کریں بلکہ تہذیب کے ساتھ مناسب انداز میں دوبارہ پوچھ لینا چاہیے۔۔۔۔۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو باادب سؤال کرنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)