ازقلم: محمد عارف رضا نعیمی مرادآبادی
طالب علم کا استاد کے ساتھ انتہائی مقدس رشتہ ہوتا ہے لہذا طالب علم کو چاہیے کہ اپنے استاد کو اپنے حق میں حقیقی باپ سے بڑھ کر خاص جانے کیونکہ والدین اسے دنیا کی آگ اور مصائب سے بچاتے ہیں جب کہ استاد اسے نار دوزخ اور مصائب آخرت سے بچاتا ہے۔
اگرچہ کسی استاد سے ایک ہی حرف پڑھا ہو اس کی بھی تعظیم بجا لایئے کہ حدیث پاک میں ہے :
نبی کریم جناب سید عالم صلیﷲ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
جس نے کسی آدمی کو قرآن کریم کی ایک آیت پڑھائی وہ اس کا آقا ہے۔
(المعجم الکبیر، الحدیث: 7528، جلد 8 ص 112)
استاد کی غیر موجودگی میں بھی ان کا ادب کیجئے، ان کی جگہ پر نہ بیٹھئے۔ چلتے وقت ان سے آگے نہ بڑھئے – استاد سے جھوٹ بولنا باعث محرومی ہے لہذا استاد سے ہمیشہ سچ بولئے – ان سے نگاہ نہ ملایئے بلکہ نگاہ نیچی رکھئے – اسی طرح ہر نماز کے بعد اپنے اساتذہ اور والدین کے لئے ہمیشہ دعا کرتے رہئے – آپ جہاں پڑھتے ہیں اس مدرسہ کے دیگر اساتذہ کرام جو آپ کو اگرچہ نہیں پڑھاتے ان کا ادب بھی لازم وضروری جانئے – استاد کی ناشکری سے بچئے کیونکہ یہ ایک خوفناک بلا اور تباہ کن بیماری ہے اور علم کی برکتوں کو ختم کر دیتی ہے – چنانچہ حدیث پاک میں ہمارے پیارے آقا نبی کریم صلیﷲ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
جس نے لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کیا اس نے ﷲ عزوجل کا شکر ادا نہیں کیا۔
(سنن الترمذی، کتاب البروالصلۃ، باب ماجاء فی الشکر … الخ، الحدیث: 1962، جلد 3 ص 384)
درجے سے باہر آتے جاتے اپنے استاد محترم صاحب سے اجازت ضرور لیجئے – استاد محترم آپ کو جو بھی جدول بنا کر دیں اس پر مدرسے اور گھر میں عمل کرکے وقت پر اپنے اسباق سنا کر استاد محترم کے دل سے دعائیں لیجئے – استاد کی سختی کو اپنے لئے باعث رحمت جانئے – قول مشہور ہے کہ : جو استاد کی سختیاں نہیں جھیل سکتا اسے زمانے کی سختیاں جھیلنی پڑتی ہیں۔