تعلیم

تعلیمی اداروں میں تصورِ سزا و ضابطۂ اخلاق

طلبہ و اساتذہ اپنی اپنی ذمہ داریاں کماحقہٗ ادا کریں تو سزا کے واقعات پر قابو پایا جا سکتا ہے

ازقلم: غلام مصطفیٰ رضوی
(نوری مشن، مالیگاؤں)

    تعلیمی اداروں، تدریسی سرگرمیوں، جامعات و مدرسوں اور دینی درس گاہوں میں یہ پہلو موضوعِ بحث رہا ہے کہ طلبہ کو سزا دینا کیسا ہے؟ یا یہ کہ سزا کی قدر یا نوعیت کیسی ہونی چاہیے؟ یا سزا بالکل نہ دی جائے! مختلف آرا ہیں۔ مختلف نظریات اور خیالات ہیں۔ تاہم مقصد و مدعا یہ ہے کہ طلبہ کا معیارِ تعلیم بلند کیا جائے، صلاحیتوں کی حوصلہ افزائی اور تعلیم کے تئیں سنجیدہ فکر کی پرورش ہو! طلبہ کے اندر حصولِ علم کے احساس کو کس طرح بیدار کیا جائے، اس سلسلے میں بھی کبھی سزا کی نوبت آن پڑتی ہے ۔ قومی تعمیر کے لیے تعلیم ہی بنیادی اساس ہے۔ اس کے لیے لگن پیدا کرنا ضروری ہے؛ جس میں بے اعتنائی کی فضا ختم کرنے کی غرض سے بسا اوقات سزا کی ضرورت درپیش آتی ہے۔
ضابطۂ  اخلاق اور تصورِ سزا:
    فی زمانہ محزبِ اخلاق تعلیم و تعلّم کا دور دَورہ ہے ۔ ایسے میں اخلاقی خوبیوں کا پایا جانا مشکل ہے۔ اسلام نے اخلاق کوتربیت میں بنیادی حیثیت دی ہے اور اسے علم کا لازمی حصہ بنادیا ہے ۔ استاذ دورانِ درس متعلم کی اصلاح کے لیے اور اس کے تعلیمی ذوق کو بڑھانے کے لیے سزا دینے کا مجاز ہے؛ لیکن اس کے لیے بھی ضابطۂ اخلاق او ر اُصول مدِ نظر رہے ۔سلیم اللہ جندر ان رقم طراز ہیں:
    امام احمد رضا خاں بریلوی ( ۱۳۱۰ھ) ’فتاویٰ رضویہ‘ جلد دہم ، باب دہم، علم التعلیم اور عالم و متعلم میں استاد کے لیے یہ ضابطۂ اخلاق دیتے ہیں: ’’(استاذ) پڑھانے سکھانے میں رفق و نرمی ملحوظ رکھے، موقع پر چشم نمائی، تنبیہ تہدید کرے مگر کو سنا نہ دے کہ اس کا کوسنا ان کے لیے سببِ اصلاح نہ ہوگا بلکہ زیادہ فساد کا اندیشہ ہے۔ مارے تو منہ پر نہ مارے، اکثر اوقات تہدید و تخویف پر قانع رہے، کوڑا قمچی اس کے پیش نظر رکھے کہ دل میں رعب رہے۔‘‘
    امام احمد رضا خاں تدریس میں نرمی اور حکمت کے ذریعے ضبط قائم کرنے پر زور دیتے ہیں۔ (ماہ نامہ ضیاے حرم لاہور، نومبر ۲۰۰۰ء، ص ۴۳۔۴۴)
انگریزی کی ایک کہاوت ہے:
"Spare the rod and spoil the child.”
چھڑی رکھ دو گے تو بچہ خراب ہو جائے گا… سزا کو ترک کر دو گے تو بچہ بگڑ جائے گا… سزا کا ترک بھی موجبِ نقصان اور زیادتی بھی باعثِ عار…
    ۱۹؍ شوال المکرم ۱۳۱۵ھ کو مولانا خلیل احمد خان پیشاوری نے فارسی میں ایک سوال بھیجا، جس میں امام احمد رضا سے پوچھا کہ استاد اپنے شاگرد کو بدنی سزا دے سکتا ہے یانہیں؟ اس کے جواب (بزبان فارسی) کے اردو ترجمے کا ایک حصہ ملاحظہ فرمائیں:
    ’’ضرورت پیش آنے پر بقدرِ حاجت تنبیہ، اصلاح اور نصیحت کے لیے بلا تفریق اُجرت و درم اُجرت استاد کا بدنی سزا دینا اور سرزنش سے کام لینا جائز ہے، مگر یہ سزا لکڑی ڈنڈے وغیرہ سے نہیں بلکہ ہاتھ سے ہونی چاہئے اور ایک وقت میں تین مرتبہ سے زائد پٹائی نہ ہونے پائے۔‘‘( فتاویٰ رضویہ، جدید، ج ۲۳، مرکز برکات رضا، پور بندر گجرات، ص ۶۵۲)
نتائج:
[۱] بوقت ضرورت استاذ سزا دے سکتا ہے۔
[۲] سزا کی مقدار معمولی ہو۔ یعنی لکڑی ڈنڈے کی بجائے ہاتھ سے ہو تا کہ ضرب ہلکی/خفیف لگے اور تکلیف کا باعث نہ بنے۔
[۳] عموماً تنبیہ و نصیحت سے ہی بات بنانے کی کوشش ہو۔
[۴] تمام کوششیں کارگر نہ ہوں تو پھر ازراہِ مجبوری ہاتھ سے سزا دی جائے۔
[۵] یک بارگی تین بار سے زیادہ نہ مارے۔
[۶] سزا کا مقصد اصلاح ہو؛ اور پڑھائی کی جانب توجہ دلانا ہو۔
[۷] بالکل سزا ختم کر دینا بھی مفید نہیں اور سزا میں شدت بھی غیر مناسب۔ بلکہ بسا اوقات سزا کی شدت ظلم کا نمونہ پیش کرتی ہے- اعتدال کی راہ یہی ہے کہ بہت ضروری ہوا تو معمولی و ہلکی سزا ہو، ورنہ تنبیہ و تاکید سے کام لیا جائے بلکہ یہی طرز انسب و بہتر-
[۸] جہاں سزا کے بغیر کام چل جائے اس راہ کو ترجیح دی جائے۔
[۹] سزا کی ضرورت ہو تو اسے ذاتی، انتقامی، زیادتی کی نیت کا شکار نہ بنایا جائے۔ محض اصلاح مقصود ہو۔
[۱۰] ذوقِ علم کے لیے معمولی سزا کا تصور اسلاف کے یہاں موجود ہے۔ جس کا مدعا سرزنش و سدھار و نکھار ہے۔
    اساتذۂ کرام سے بھی عرض ہے کہ آپ! حتی المقدور سزا سے اجتناب کریں۔ تنبیہ، نصیحت، اصلاح و سمجھانے بجھانے پر قناعت کریں۔ بہت مجبوری ہو اور تمام کوششیں کارگر نہ ہونے پائیں اس صورت میں معمولی نوعیت کی سزا دی جا سکتی ہے۔ وہ بھی ایسی نہ ہو کہ طالبِ علم مصائب میں مبتلا ہو جائے، یا دیرپا تکلیف کا باعث نہ بنے۔ کبھی یہ دیکھا جاتا ہے کہ معمولی غلطی پر بھی غصہ نکالنے میں اساتذہ پیچھے نہیں ہٹتے۔ بسا اوقات کم زور بچہ شدید سزا سے بلبلا اُٹھتا ہے۔ یہ غلط طریقہ ہے۔ (بلکہ اس عہد میں ظالمانہ سزاؤں کے خلاف مملکتوں نے قانون بھی بنا دیے ہیں جس سے ایسا استاد خود تکلیف میں آ سکتا ہے-) ہاں! بغرضِ اصلاح یک بارگی تین بار معمولی مار سے کام لینا مناسب۔ طلبہ کو بھی چاہیے کہ استاذ کی تنبیہ و سزا کا بُرا نہ مانیں۔ بلکہ اسے اپنے تعلیمی مفاد میں افادہ بخش جانیں اور تعصب و غیبتِ استاذ سے باطن کو صاف رکھیں۔ انتقامی کارروائی سے گریز کریں۔عمدہ و بہتر پڑھائی کا مزاج بنائیں تا کہ کسی بھی طرح کی سزا کے حق دار نہ بنیں۔
    تعلیمی مرحلے میں میانہ روی، اعتدال اور حکمت و دانش سے کام لینا چاہیے۔ طلبہ اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں۔ شکایت کا موقع نہ دیں۔ اساتذہ اپنی ذمہ داریوں کو صحیح صحیح طور پر انجام دیں تو ان شاء اللہ مسائل رونما نہیں ہو سکیں گے۔اور قومی وقار کی بلندی کے لیے بہتر نسل پروان چڑھے گی۔
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے