تحریر: شاہ خالد مصباحی، سدھارتھ نگر
وہ مہکتے آشیانے جو آج صدیوں سے اس بنجر زمین پر گل کھلا رہے ہیں ، تاریک دلوں کے ماہ جبین آفتاب بریں پر اپنے تخیلات کا نقشہ کھینچ رہے ہیں ؛
اور یہ شعور لاطوری ایک فن کی حیثیت سے دور بہ دور زمانے کے ماہرین میں منتقل ہو رہی ہیں ۔۔
مگر اس کے باوجود بھی صحرائی خیال ایک نقص کے طور پر زمانے کو ترجیحی بنیادوں کی طرف دھکیل رہے ہیں ۔۔!!!!!
میرا خیال ہے کہ جس زمانے میں ایسے باقدر افراد کی موجودگی میں ایک اپاہج نما ترقیاتی ڈھانچہ عمل میں آتا ہو ،
تو یہ ماہرین زمانہ پر ایک نقص ہے ، داغ ہے اور لیاقت پر دھبہ ہے!!! جس کو سلجھانے اور عمل کی طاقت رکھنے کے باوجود بھی اس کے سلوشن salutations پر غور نہیں کیا جاتا۔۔۔
وسائل بھی موجود ہیں اور افکار عالیہ کے مقتدر بھی!!! لیکن صاحب ذوق کی بے قدری نے اس معاشرے و سماج کا رخ اندھیروں کی طرف موڑ دیا ہے ۔۔۔۔جس کو ارباب بصیرت محسوس بھی کررہے ہیں۔۔۔
جشن حضور حافظ ملت کے موقع پر اس ناچیز کو، عظمتوں کا رنگ لیے ہوئے بارگاہوں میں ،
حاضر ی دینے کا شرف حاصل ہوا ، مخلص و محب الطلبا و العلما استاذی علامہ مولانا ہارون رضا مصباحی مد ظلہ العالی نے حالات پر تذکروں کا یوں نیا موڑ دیا کہ حضرت مفتی عابد رضا مصباحی ، فخر مصباحیت حضرت علامہ مولانا فیاض احمد برکاتی مصباحی صاحب قبلہ و فاضل اشرفیہ دلشاد احمد مصباحی ، محب الحق مصباحی اور نعمان رضا مصباحی وغیرھم مجلس میں حاضرین کے لب رواں کلمات پر دنگ ، حالات کے زخم بے ڈھنگ ، حد تو اب یہ ہے کہ اشک رواں آنکھیں دریائے تلاطم کا خواب سجائے ہوئے اور دامن زار پر بحر احمر کی شرخیوں کی تازگی لیے ، پھرتے ہوئے یوں گویا ہوئے کہ۔۔۔
بہت برباد ہیں لیکن صدائے انقلاب آئے گا
وہیں سے وہ پکار اٹھے گا جو ذرہ جہاں ہوگا
(علی سردار جعفری )
گورنمنٹ مدارس کی اف کردہ ، شکستہ ماحول پر طنز کستے ہوئے علامہ فیاض احمد مصباحی برکاتی کا ایک درد بھرا ٹکڑا کہ ۔۔۔۔مدارس میں نوکری وہی کرے جو ذہنی طور سے اپاہج ہو ،
اس جملے کو اگر فکری طور پر نہ لیا جائے اور رشوت کے تئیں بدلتے مدارس کے منظرات اور نظما مدارس کے بدلتے تیور پر نظر رکھ کر اگر آج علما کرام شکنجہ نہیں کستے ہیں تو وہ دن دور نہیں کہ نیکوں کی آماجگاہیں برائیوں کی خیمہ گاہ بن جائیں ، جیسا کہ خطیب ہندوستان حضرت علامہ عبید اللہ خان مصباحی مدظلہ العالی نے عزیز المساجد میں منعقد عرس عزیزی کے پروگرام میں اپنے ایک آئ اے ایس دوست، آفیسر کے حوالے سے بتایا کہ ،کسی اور ڈپارٹمنٹ میں رشوت خوری کا بازار اتنا گرم نہیں، جتنا کہ ایڈیڈ مدارس میں ہے۔۔۔۔۔۔۔
رشوت خوری سے پاک سماج و معاشرے کی تعلیم دینے والی وہ جگہیں!! جن کو ہم مدارس کے نام سے جانتے ہیں ، حلال و حرام کی تمیز دینے والی یہ جگہ افسوس!!! کہ حاشا کلا اب بد تمییز افراد سے پاک نہیں۔
میں مانتا ہوں کہ زمانے کا ہر شعبہ رشوت کا رخ لے چکا ہے کہ جدھر دیکھئے ہرطرف رشوت خوری کابازار گرم ہے،آپ کاکوئی کام بغیررشوت کے نہیں ہوسکتا، رشوت خوری کی وبا اس قدرعام ہے کہ اس کی وجہ سے قانون چند ٹکوں کے بدلے بکتاہے اوراسکی سرعام بولی لگتی ہے،بےگناہ غریب مجرم اورقاتل ٹھہرتا ہےاورسرمایہ دار رشوت کے جادو سے بےگناہ اورپاکباز بن جاتاہے،قاتل اورمنشیات فروش، رشوت کے دم قدم سے سوسائیٹی کامعزز ممبرشمار ہوتاہے،اس پرکسی کوہاتھ ڈالنے کی جرات نہیں ہوتی،”گویا رشوت دیکر آپ انسانوں کاخون ناحق بہاسکتے ہیں،انکے مستقبل سے کھیل سکتے ہیں انکی صلاحیتوں کو تباہ وبرباد کرسکتےہیں،اسکے ذریعہ آپ قانون خرید سکتے ہیں،جھوٹے گواہوں کاانتظام کرسکتےہیں،زمینوں اورمکانوں پرناجائز قبضہ کرسکتےہیں،من گھڑت میڈیکل رپورٹس حاصل کرسکتے ہیں،امتحانات میں اعلی نمبرات سے پاس ہوسکتے ہیں،
یاد رکھیں!! گورنمنٹ کے عہدے بھی حاصل کرسکتے ہیں،پانی اوربجلی کے کنکشن لےسکتےہیں،ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیاں کرسکتے ہیں،انتخابی نتائج تبدیل کرواسکتے ہیں” _ کوئی شعبہ ہو آج کل تو شاد نذر و رشوت کا راج ہوتا ہے (شمشاد شاد) لیکن نظام مدارس پر اس کا پڑتا ہوا اثر ضرور مدارس کے مقاصد کو کھو رہا ہے اور بزرگوں کے دیرینہ خواب بکھر رہے ہیں ۔۔۔ ہم نے تو پاکیزہ ، صالح اور ایک مثالی معاشرے کی تعمیر میں حصہ لینے کے لیے مدارس کا قیام عمل میں لایا تھا ، لیکن ہمیں اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ ہم ارباب مدارس بہت پہلے اپنے مقاصد کو پس پرد ڈال چکے ہیں ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ابن عطیہؒ نے فرمایا ہے کہ جس کام کا پوراکرناکسی شخص کے ذمہ واجب ہو اسکے پوراکرنے پر کسی سے کوئی معاوضہ لینا اوربغیرلئے نہ کرنا اللہ کاعہد توڑنا ہے،اس طرح جس کام کا نہ کرنا کسی کے ذمہ واجب ہے کسی سے معاوضہ لیکر اسکو کردینا یہ بھی اللہ کا عہد توڑناہے، عہد الہی کے وفا کرنے کی تعلیم دینے والے وہ رشوت خور نظما مدارس!!! شریعت کے کس پیج میں اپنا چہرہ چھپائیں گے ، حق و انصاف کی آواز ڈھڑاھٹ آہستہ آہستہ ہمارے معاشرے سے مفقود ہوتی چلی گی!! اور یہ بھی بس_ ایک آواز در گزر!!!
نماز بھی ادا ہوتی رہی ان کی مگر جب بھی
ملی رشوت تو حاکم نے چھپا کر جیب میں رکھ لی
غیروں کا ہماری زبانوں پر ، عزت و شوکت پر مسلط ہونا ، ہماری مساجدوں میں آگ لگانا ، ہماری شرافتوں پر گندگیوں کو اچھالنا اور حد تو یہ ہے کہ اب ہمارے ہر ایکٹیویٹی پر ان کا ایک بنا بنایا جال سیٹ ہے کہ ابھرتے ہی ہمارے اوپر ڈال دیا جائے ،
اور ہم پر یوں غنودگی طاری ہے کہ حالات کی بے بسی پر چوں چرا بھی نہیں کرسکتے!!!!
معلوم کیا ہوتا ہے کہ ساری قومیں سکھ اور چین کی زندگی گزار سکتے ہیں ، ہر قوم کا بچہ اپنی لیاقت کو بڑھ چڑھ کر ابھار سکتا ہے ، ہر محفل اپنی مذہبیت بھری اثرات سے مجمع کو رنگ دے سکتی ہے لیکن ہم ایسا نہیں کرسکتے!!!
قصور ہمارا کیا ہے ، جرم ہمارا کیا ہے اور اتنے بڑے سماج میں مجرم ہم ہی کیوں بنے بیٹھے ہیں!!!
صرف اور صرف اس لیے کہ ہم مسلمان ہیں!!!
کیا ان ارباب مدارس کو یاد نہیں جو صبح و شام اپنے تقریروں میں بیان کرتے رہتے ہیں کہ جب کسی قوم میں رشوت عام ہوجاتی ہے تواس پردشمن کارعب مسلط کردیا جاتا ہے”(مشکوٰۃ)ایک دوسری جگہ آپ ﷺ کاارشاد ہےکہ”رشوت دینے اورلینے والے دونوں پراللہ کی لعنت ہے”(ترمذی)اسکے علاوہ اوربھی بہت ساری روایات موجود ہیں جس میں رشوت کاتذکرہ کیاگیا ہے،رشوت ایک انتہائی بری اورخسیس عادت ہےجوپورے معاشرے کےلئے مضرِ ہےاس کا لینا دینادونوں ناجائز ہے،رشوت دینے والااس سے ناجائز مقصد حاصل کرتاہے ہےاوررشوت لینے والاپیسے لے کر ظالم کی مدد کرتاہے اورمظلوم کومحروم کردیتاہے جوبہت بڑاظلم ہے،اس سے قوم کے مظلوم اورپسماندہ افراد سسک سسک کرزندگی گزارتے ہیں جوانتہائ افسردہ اور ہماری نسلوں پر غلط طریقہ کار ثابت ہوتا چلا جارہا ہے۔
انقلاب آئے گا رفتار سے مایوس نہ ہو
بہت آہستہ نہیں ہے جو بہت تیز نہیں