از: سرفراز عالم ابو طلحہ ندوی، بابوآن ارریہ
یقینا یہ دور نہایت ہی پر فتن اور پر آشوب دور مانا جا رہا ہے ،جس نے انسانی زندگی اور انسانی حقوق کو یک لخت ناکارہ بنا دیا ہے، چاہے وہ کرونا وائرس ہو یا پھر کسان آندولن ہو یا پھر این آر سی یا این پی آر ہو آج اس سے ہر کوئی پریشان و افسردہ ہی ہے،لیکن اس کے ساتھ ساتھ معاشرہ بھی متاثر ہوتا جارہا ہے، ہر طرف ناچاقی کا دور دورہ جب ایک نیک اور صالح انسان اپنی نگاہیں بلند کرتا ہے تو انہیں ہر چہار جانب لوٹ مار ،قتل و غارت گری، ظلم و ستم، نا حق خونریزی ، ناانصافی اور نا خواندگی، زناکاری عیاشی پورے شباب پر نظر آتا ہے،یہ ہی نہیں بلکہ آج حکومت یا معاشرہ میں معصوم و بے قصور ماموں کو زندہ درگور کرنے کے خوفناک نتائج سامنے آرہے ہیں، جس سے آئے دن لوگ پریشان ہوتے جارہے ہیں اسی طرح جہیز کے نام پر معصوم بچیوں کو موت کے گھاٹ اتاری جا رہی ہیں، الغرض معاشرہ اور سماج بداخلاقی ،بدمزاجی اور فحش و ناپاک چیزوں کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے،ہر آدمی برائی کے دلدل میں پھنسا جارہا ہے ، اب تو صورتحال یہ ہو چلا ہے کہ مسلم معاشرہ بھی ان ناپاک چیزوں سے بچ نہیں پا رہا ہے ،مسلم گھرانے بھی بھائی بھائی کے خون کے پیاسے ہورہے ہیں، لا تعداد برائیاں آج معاشرے میں قدم جمانے پر کامیاب ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے، ان تمام برائیوں اور ناچاقیوں کو ختم کرنے کا واحد راستہ دین اسلام کی صحیح و درست اشاعت و ترویج ہے اور اسی طرح اسلامی تعلیمات اصول و ضوابط کو اپنے اندر داخل کرنے کی اشدت ضرورت ہے، اخلاق حسنہ ،کردار فاضلانہ اور کلمات ناصحانہ کی ترویج و اشاعت لازمی ہے اور اس کی صحیح تعلیمات کو معاشرے ہر افراد تک پہنچانے کی ضروت ہے ،ان تمام چیزوں کی اشاعت صرف اور صرف قرآن و حدیث کی تناظر میں ہی پانا ممکن ہے، ان کے علاوہ کسی دوسری چیزوں میں اس کا حل تلاشنا ممکن ہی نہیں بلکہ محال ہے، معاشرہ سوسائیٹی اور سماج کو امن و امان کا گہوارہ بنانے میں سب سے اہم اور بنیادی چیز وہ گفتار و کردار کیونکہ اللہ نے قولوا قولا سدیدا کا حکم دیکر حقوق انسانی کا احترام کرتے ہوئے لسانی فسادات کو روکا ہے اور کہا کہ سیدھی اور سچی باتیں کیا کرو ،لیکن جب ہم اس کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ آج ہم خود اپنےنفس کو گفت و شنید میں درست نہیں کر سکے تو کیا ہم دوسروں کی اصلاح کر سکیں گے اسی چیز کو جب ہم اپنے اندر دیکھتے ہیں تو بہت خرابیاں پاتے ہیں ، جس خرابیوں کو دور کرنا ہمارا اولین اور اہم فریضہ ہے کیونکہ اللہ تعالی نے اس کی وضاحت صاف لفظوں کر دیا ہے ،کہ جس چیز کو تم خود کرتے ہو اس چیز سے دوسروں کیوں روکتے ہو ،يا "أيها الذين آمنوا لما تقولون ما لا تفعلون "
کہ تم وہ باتیں کیوں کہتے ہو جس کو تم نہیں کرتے ہو ،اسی چیز کو ثابت کرنے کے لئے اللہ تعالی نے مزید فرما یا "أتامرون الناس بالبر و تنسون انفسكم ” کہ تم لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو ،ان دونوں آیتوں میں اللہ تعالی نے اپنے نفس کو پاک و صاف رکھنے کی ہدایت دی ہے، معاشرہ کو بہتر بنانے کے لیے اقوال رسول و افعال رسول اسی طرح اقوال صحابہ و افعال صحابہ پر گہری نظر رکھتے ہوئے معاشرے کے تمام تر برائیوں کا خاتمہ کریں، جب جاکر ہمارا معاشرہ ترقی کے راہ پر گامزن ہوگا، اسی طرح ہمیں دین اسلام کے اصولوں پر اپنی زندگی کو گزارنا ہوگا ،دین کے اندر پھیلی ہوئی برائیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور دین اسلام کے اندر نئی نئی ایجادات جیسے جہیز ،غلط رسم و رواج کی روک تھام کے لئے ہر آنے والی پریشانی و مصیبتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی کوشش کرنی چاہئے کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دین اسلام کے اندر نئی چیز کے ایجادات سے روکا ہیں، اور اس کی تمام قسموں سے باز رہنے کی تاکید کی ہیں،قرآن مجید میں کہا گیا کہ رسول تمہیں جو دے اسے بخوشی لے لو ،اور جس چیز سے روکے اس سے روک جاو ،یہی اصل دین اور اصل شریعت ہے،لیکن آج معاشرہ اس کے برعکس نظر آرہا ہے، ہر جگہ دین کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں، دین کے اندر مداخلت بڑے پیمانے پر ہورہی ہیں، چاہئے وہ طلاق کا مسئلہ ہو یا بیوی شوہر کا مسئلہ ہو یا لین دین کا مسئلہ ہو ہر چیز میں کچھ نا کچھ گڑبڑی پائی جارہی ہیں، جس کو روکنا نہایت ہی ضروری امر ہے، معاشرہ امن و امان کے بجائے بدامنی کا شکار ہو رہا ہے ،بھائی بھائی میں دشمنی، عدوات،مارپیٹ کے واقعات کھل کر سامنے آرہے ہیں ،ہمارے معاشرے میں شراب نوشی اور منشیات کو کھلے عام استعمال کئے جارہے ہیں اسی طرح گانجہ، چارس، کھینی، بیڑی سرعام استعمال ہو رہے ہیں، جس کو کہ اللہ تعالی نے حرام کیا اور زندگی کو ہلاکت میں ڈالنے کے مترادف قرار دیا اور ولاتلقوا بایدیکم الی التھلكة کا کھلے عام اعلان کرکے جان و مال کی حفاظت کرنے کی تاکید کی ہے، لیکن باوجود اس کے کہ آج ہمارا معاشرہ امور مشتبہات سے بھی بچ نہیں پا رہے ہیں جس کو حدیث کی کتابوں میں بالکل واضح کر دیا گیا ہے ،وبینھما امور مشتبہات کہ امور مشتبہات سے بچا کرو ،ایسے امور میں بھی آج ہمارے جوانون طبقے کافی دلچسپی دیکھا رہے ہیں، جس کی روک تھام کے لئے معاشرے کے علما کرام، سرغنہ ،لیڈران ،مکھیا سیمتی، اور سرپنچ آگے آئیں اور ایک کمیٹی تشکیل دی جائے اور اس بات پر اتفاق کیا جائے کہ جو بھی حرام اور ناپاک چیزوں کو اپنے لئے جائز سمجھے گا انہیں معاشرے سے بے دخل کر دیا جائے گا، انہیں مکمل طور پر بائکاٹ کر دیا جائے گا ،اگر ایسا ہو جائے تو پورے وثوق کے ساتھ کہا جائے گا کہ یقینا ہمارا معاشرہ ترقی یافتہ معاشرہ ہے جس کی عظمت و بقاء امت مسلمہ کے لئے عظیم ترین مقصد حیات بن جائے گی،اور ہم کامیابی و کامرانی حاصل کرنے لگیں گے،اس سے بھی آگے نکل کر ہم مثالی قوم بن جائیں گے۔
اللہ تعالی ہمیں مزید ان باتوں پر غور و فکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین یا رب العالمین