تحریر: طارق انور مصباحی، کیرالہ
رام مندر زیر تعمیر ہے۔جا بجا مسلمانوں سے بھی مندر کی تعمیر کے لیے زبردستی چندہ وصول کیا جا رہا ہے۔چند ہفتے قبل ایم پی میں اسی وجہ سے شروفساد پھیلایا گیا۔
بہت سے سیاسی مسلمان خوشی سے چندہ دے رہے ہیں۔کل یہ لوگ رام مندر کا دزشن کرنے بھی جا سکتے ہیں اور پوجا پاٹ بھی کر سکتے ہیں۔
مندر تعمیر ہونے کے بعد بھارتی مسلمانوں کو بھی رام بھگتی کا سبق پڑھایا جائے گا۔کہا جائے گا کہ رام سب کے ہیں۔
کئی سالوں سے مسلمانوں کو زبردستی جے شری رام کا نعرہ لگانے کہا جا رہا ہے۔جے شری رام نہیں کہنے پر ماب لنچنگ کر دی جاتی ہے۔
اسلامی شریعت کے اعتبار سے رام بھگتی کے احکام لکھے جاتےہیں۔رام دراصل ایک فرضی اوتار ہے۔اس کا وجود تاریخی روایات سے ثابت نہیں۔
1-رام اگر فرضی شخص کا نام ہے تو وہ محض معبود کفار ہے اور معبودان کفار کی تعظیم و توقیر کفر ہے۔
2-رام کو اگر عہد ماضی کا ایک آدمی مانا جائے تو وہ راجہ دسرتھ کا بیٹا ہے اور راجپوتوں کی سب سے اعلی نسل راج بنسی قبیلے کا ایک فرد ہے۔
رام سے پہلے بھی اور رام کے بعد بھی راج بنسی خاندان کے لوگ سورج کو پوجتے تھے۔یہاں واضح قرینہ ہے کہ اپنے آبا واجداد کے مذہب کے مطابق رام بھی سورج کا پجاری ہو گا۔اس اعتبار سے رام مشرک قرار پایا اور معبود کفار بھی۔
معبود کفار کی تعظیم و توقیربھی کفر ہے اور کافر ہونے کے اعتبار سے کافر کی تعظیم و توقیر بھی کفر ہے۔
3-بعض تحقیق کے مطابق پشیا متر شنگ کو رام کہا جاتا ہے۔یہ ایک برہمن تھا,جس نے موریہ سلطنت کے آخری راجہ کو قتل کر کے بہت سے علاقوں پر قبضہ جما لیا تھا۔یہ ویدک دھرم(ہندو دھرم/سناتن دھرم)کا ماننے والا تھا۔یہ بھی مشرک اور معبود کفار ہے تو اس کی تعظیم و توقیر بھی کفر ہے۔
رام کے معبود ہونے کی حیثیت سے قطع نظر کر لیا جائےتو بھی کافر کی تعظیم و توقیر لازم آئی۔رام کے مشرک ہونے کا ثبوت ملتا ہے,لیکن مومن یا موحد ہونے کا ثبوت نہیں ملتا۔
رام کی شہرت اور اس کا چرچا ہندو مسلم سب کے یہاں معبود ہنود ہونے کی حیثیت سے ہے۔راجہ یا راجکمار ہونے کی حیثیت سے نہیں۔
ہندو قوم میں بہت سے راجہ/مہاراجہ ہوئے,لیکن نہ ان کو پوجا جاتا ہے,نہ ان لوگوں کا اس قدر چرچا ہوتا ہے۔رام کو اوتار اور بھگوان سمجھا جاتا ہے اور اسی اعتبارسے اس کی شہرت و قبولیت ہے۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام بھی معبود نصاری ہیں تو جواب یہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام مسلمان و نصاری دونوں قوموں کے یہاں ایک پیغمبر و رسول کی حیثیت سے متعارف ہیں۔گرچہ نصاری ابن اللہ سمجھ کر ان کی عبادت بھی کرتے ہیں۔
نیز پیغمبر خدا ہونے کے سبب مذہب اسلام کا براہ راست حضرت عیسی علیہ السلام سے تعلق ہے,کیوں کہ مذہب اسلام میں اللہ تعالی کے بھیجے ہوئے تمام پیغمبران کرام علیہم الصلوۃ والسلام پر ایمان کا حکم ہے۔
حضرت عیسی علیہ السلام سے مسلمانوں کا تعلق نبی ورسول ہونے کی حیثیت سے ہے۔رام کا تعلق مسلمانوں سے کسی طرح نہیں۔
حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام پر رام کو قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے۔
رام کی تعریف و توصیف کے سبب ایک مشہور دانشور کا مسئلہ الجھ کر رہ گیا ہے۔کسی نے اس کو کفر اور کسی نے عدم کفر بتایا۔
رام کتھا کی مجلس ایک مذہبی تقریب ہے۔کسی غیر مذہب کی مذہبی تقریب میں شریک ہونا اور اس کے معبود کی تعریف میں رطب اللسان ہونا دونوں جرم ہیں۔
بیان حکم میں اہل فتوی کا اختلاف ہے تو ایسی صورت میں دانشور مذکور کو مشروط توبہ کر لینی چاہئے کہ اگر دین خداوندی کے مطابق مجھ پر توبہ کا حکم عائد ہوتا ہے تو میں نے توبہ کی۔
بعد موت قبر سے اٹھ کر توبہ کرنے آج تک کوئی نہیں آیا۔نہ ہی بعد موت توبہ مقبول ہے۔
دانشور مذکور کی عدم توبہ کے سبب مسلمانوں میں رام بھگتی کا فروغ ہو گا۔
شخص مذکور مفتی و مناظر تو نہیں,لیکن دانشور ضرور ہیں۔ہم ان کی دانشوری سے غوروفکر کی امید رکھتے ہیں۔
ع/ گر قبول افتد زہے عزو شرف
آج کل کے لبرل اور روشن خیال لوگ اتحاد کے چکر میں اپنے دین و مذہب سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور جب انہیں ان کے کیے کی جانب متوجہ کیا جاتا ہے تو بے جا تاویل اور لیت ولعل سے کام لیتے ہیں اور اسلام سے ہاتھ دھو لیتے ہیں اور بسا اوقات اپنی انا اور نفس کا مسئلہ بنا لیتے ہیں اور کچھ علماء اور مفتیان ان کو تنبیہ کرنے کے بجائے بے جا حمایت میں اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور وہ انسان اپنے کردہ گناہوں پر دلیر ہو جاتا ہے اور ببانگ دہل کہتا ہے کہ فلاں مفتی صاحب نے مجھ پر حکم نہیں لگایا ۔کیا ان کو شرعی احکام معلوم نہیں ہے ؟
الاماں والحفیظ
بقول شاعر
مانے نہ مانے ہم انہیں سمجھائے جاتے ہیں
آپ نے شریعت کا حکم بتا ہی دیا ہے۔عمل کرنا نہ کرنا قائل کا کام ہے۔اللہ حق سمجھنے کی توفیق بخشے
(مفتی) محمد شریف الرحمن رضوی صاحب قبلہ
جنرل سکریٹری:سنی علما بورڈ کرناٹک