تحریر: محمد مدبر عالم نور جامعی
استاذ: دارالعلوم غوثیہ رضویہ کورہی ضلع باندہ یوپی
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
امابعد
آپ اگر کسی مسجد کے امام ہیں اور امامت کے منصب پر فائز ہیں ، لوگوں کو نماز پڑھاتے ہیں ، آپ کی اقتدا میں لوگ نماز پڑھتے ہیں، تو یہ آپ کے لیے بڑی خوش نصیبی کی بات ہے کہ اللہ رب العزت نے آپ کو اپنی بارگاہ میں روزانہ پانچ مرتبہ سر بسجود ہونے والوں کا رہبر و امام بنایا ہے –
یقینا امامت کا منصب ملنا من جانب اللّہ ایک نعمتِ عظمی سے سرفراز ہونا ہے-
اور یہ امامت امام الانبیاء نائبِ خالقِ کائنات حضور رحمت عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی پیاری سنت بھی ہے –
حدیث شریف میں ہے حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا امام و مؤذن کو ان کے برابر ثواب ہے جنہوں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی ہے- (بہار شریعت : ج ١ ، ص: ٥٥٨ ،مطبوعہ المکتبۃ المدینہ)
مذکورہ حدیث سے اندازہ لگائیں اور تنہائی میں بیٹھ کر سوچیں کہ شریعت میں امام کا مقام و مرتبہ کتنا عظیم ہے! کوئی شخص اگر نماز پڑھتا ہے یا کوئی نیک کام کرتا ہے تو صرف اور صرف وہی عابد اور صالح نیکی و ثواب سے ہمکنار ہوتا ہے مگر امامت ایک ایسا نیک عمل ہے کہ جس کے کرنے سے صرف اپنی ہی نماز کا ثواب نہیں بلکہ سب نمازیوں کے برابر کا ثواب ملتا ہے اور اللّہ تعالٰی اس کے نامئہ اعمال میں بے حساب نیکیوں کا اضافہ فرماتا ہے،اور ان شاءاللہ امام بروز قیامت ضرور کامیابی سے سرفراز ہوگا ، جنت الفردوس میں اعلی مقام کا مستحق ہوگا-
اور ایک دوسری حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا "مَنْ صَلَّی خَلْفَ عَالِمٍ تَقِیٍ فَکَانَّمَا صَلّی خَلْفَ نَبِیٍ” جس نے کسی پرہیزگار عالم دین کے پیچھے نماز پڑھی تو وہ ایسا ہے کہ جیسے اس نے کسی نبی کے پیچھے نماز پڑھی-(بدائع الصنائع: ج ١ ،ص ٢٣٥ بحوالہ امام اور مقتدی ص ١٣ مطبوعہ اسلامی کتب خانہ بریلی شریف )
دیکھئے حضور نے کتنا عظیم درجہ سے نوازا ہے امام کو ،ایک متقی ،پرہیزگار ،باعمل عالم دین امام کی اقتدا میں نماز ادا کرنے کو انبیائے کرام کی اقتدا میں نماز ادا کرنے کے جیسا بتادیا – حدیث مذکور سے معلوم ہوا کہ امام کا مقام و مرتبہ شریعت میں بہت ہی ارفع و اعلی ہے –
اورحضور فقیہ ملت حضرت علامہ مفتی جلال الدین احمد امجدی علیہ الرحمہ ایک سوال کے جواب میں رقم طراز ہیں کہ "اگر امام فاسقِ معلن نہیں ہے تو برائی کرنے والا سخت گنہگار حق العباد میں گرفتار ہوگا” – (فتاوی فیض الرسول ج ١،ص: ٢٧٢)
آپ ہی سے سوال ہوا کہ
امام کیسا ہونا چاہئے؟خوبی بتلائیے – تو آپ اس کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
"امام سنی صحیح العقیدہ ہو ، وہابی دیوبندی وغیرہ بد مذہب نہ ہو ، صحیح الطھارہ یعنی وضو ، غسل اور کپڑے وغیرہ کی طہارت رکھتا ہو ، صحیح القراءت ہو مثلاً ا ، ع ، ت ، ط ، ث ، س ، ش ، ص ، ہ، ح ، ذ ، ض اور ز ، ض ، میں فرق کرتا ہو فاسقِ معلن نہ ہو اسی طرح اور امور جو منافی امامت ہیں ان سے پاک ہو” – (مرجع سابق ،ص: ٢٦٧)
مذکورہ عبارت سے یہ بات واضح ہوئی کہ وہی شخص امامت کے لائق ہوں گے جن کے اندر مذکورہ خوبیاں موجود ہوں گی اور الحمد للہ ! ہمارے اکثر ائمہ کرام کے اندر یہ خوبیاں بدرجہ اتم موجود ہوتی ہیں اور یقینا جو ان خوبیوں کا حامل ہوگا وہ ضرور متقی و پرہیز گار اور مکرم ہوگا۔
اور قرآن مقدسہ میں اللہ رب العزت مکرمین و متقین لوگوں سے متعلق ارشاد فرماتا ہے اِنَّ اَکْرَمَکُمُ عِنْدَ اللّہِ اَتْقَاکُمْ بےشک تم میں اللہ تعالی کے نزدیک سب سے مکرم وہ ہیں جو زیادہ پرہیز گار ہیں ۔
اور ایک دوسری جگہ فرماتا ہے
اِنْ اَوْلِیا٘ءہ اِلا الْمُتقُون یعنی اللہ کے محبوب صرف وہی لوگ ہوتے ہیں جو متقی و پرہیزگار ہوا کر تے ہیں ۔
اور حدیث شریف میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ "میں جنت میں گیا ، اس میں موتی کے گنبد دیکھے ، اس کی خاک مشک کی ہے ، فرمایا "اے جبریل! یہ کس کے لیے ہے؟ عرض کی حضور کی امت کے مؤذنوں اور اماموں کے لیے (بہار شریعت: ج ١ ، ص: ٤٦٠ مطبوعہ المکتبۃ المدینہ )
مذکورہ بالا دونوں آیات اور حدیث سے یہ بات امس و شمس کی طرح لائح ہوگئی کہ اللہ تبارک و تعالی کے نزدیک امام کا مقام و مرتبہ نہایت ہی بلند و بالا ہے ، ان کی حقیقی شان و عظمت کیا ہے ؟ اسے اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں ۔
اور ایک حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں "اگر لوگوں کو معلوم ہوتا کہ اذان کہنے میں کتنا ثواب ہے ، تو اس پر باہم تلوار چلتی -(مرجع سابق)
اس حدیث سے بھی اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جب اذان دینے میں اتنا ثواب تو امامت میں کتنا ثواب ملتا ہوگا! اور امامت کا رتبہ کتنا ارفع و اعلی ہوگا ! بلا ریب جو لوگ منصب امامت کی اہم ذمہ داری کو بحسن و خوبی ادار کر رہے ہیں وہ قابل مبارکباد بھی ہیں اور لائق صد توقیر و تعظیم بھی اور عند اللہ با کرامت و با عظمت ہونے کے ساتھ ساتھ بے شمار اجر کے مستحق بھی ہوں گے ۔
مزید مرتبہ امامت کی وضاحت فرماتے ہوئے آقا صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں”کوئی شخص کسی مقرَرہ امام کے ہوتے ہوئے امام نہ بنے اور کسی کے گھر میں اس کی مسند پر نہ بیٹھے ہاں جب کہ اجازت دے-(صحیح مسلم ج ١ ،ص٢٣٦)
اس حدیث کی شرح میں امام نوی فرماتے ہیں
وَاِنْ کَانَ ذلِکَ الْغَیْرُ افقہُ وَ اقراءُ وَ اَورَعُ وَ اَفضَلُ مِنہُ اگر چہ یہ دوسرا شخص اس سے علم و قراءت ، پرہیزگاری اور فضیلت میں زیادہ ہو-
(بحوالہ۔ امام اور مقتدی صاحب ٢٣)
اور فتاوی بحر العلوم جلد اول ص: ٣٥٧ میں ہے
"امام کی اجازت کے بغیر امامت کرنا مقررہ امام کی حق تلفی اور غلط ہے”-
انتباہ
آج کے اس پرفتن دور میں کچھ لوگ امام کو حقیر و ذلیل سمجھ کر ان کی توہین کرتے ہیں ، بلا وجہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ٹوکتے رہتے ہیں اور کبھی کبھی نازیبا کلمات کہہ کر دل شکنی کرتے ہیں – ایسے جاہل ، احمق اور بے ہودہ لوگوں کو چاہیے کہ امام کو اپنا پیشوا ، دین کا رہبر ، نائبِ انبیا اور ایک عالمِ دین سمجھے اور ادب و احترام کے دائرے میں رہ کر ان سے کلام کرے-
اس تعلق سے فتاوی فقیہ ملت ج ١،ص : ١٤٧ پر ایک فتوی ہے جس کو پڑھ کر ایسے لوگوں کو نصیحت حاصل کرنی چاہیے –
کتاب مذکور میں سوال ہوا کہ "بعض لوگ عوام میں ایسے پائے جاتے ہیں جو امام صاحب کی بلاوجہ خامیوں اور کمیوں کی تلاش میں لگے رہتے ہیں اور کوئی کمی نظر نہیں آتی تو صرف اتنی ہی بات پر کہ امام صاحب اگر ہفتہ یا عشرہ میں گھر یا کہیں اور اپنی ضرورت سے چلے گئے تو اس بات کو لے کر مسجد یا دوکان یا روڈ پر چند لوگوں کی جمی مجلس میں امام صاحب کو برا بھلا کہنا اور اس طرح بولنا کہ یہ بہت آزاد ہوگئے ہیں یا یہ شخص رکھنے کے قابل نہیں ہے اسی طرح بعض نازیبا کلمات بکنا کیا شرعاً یہ باتیں درست ہیں ؟ اگر نہیں تو جو لوگ افعال مذکورہ کے مرتکب ہیں ان کے لئے شرعاً کیا حکم ہے ؟
اور ظاہر ہے امام صاحب انسان ہیں ان کی اپنی ذاتی گھریلو وغیرہ بہت سی ضروریات ہیں کیا ان کی فراہمی کے لیے ان کا ناغہ کرنا شرعاً گرفت کا سبب ہے؟ اگر نہیں تو جو لوگ اس بنیاد پر امام کو ہدف ملامت یا مورد طعن و تنقید بنائیں ان کے لئے شریعت مطہرہ کیا حکم رکھتی ہے؟”۔
تو شاگردِ حضور فقیہ ملت حضرت علامہ مفتی حبیب اللّہ مصباحی صاحب قبلہ اس کا جواب دیتے ہوئے یوں رقم طراز ہیں۔
"بلاوجہ شرعی کسی مسلمان کے پیچھے پڑنا ، اس کی خامیوں اور کمیوں کی تلاش میں لگا رہنا اور برا بھلا کہنا خصوصاً برسرِبازار فسق و گناہ ہے – حدیث شریف میں ہے "لیس المؤمن بالطعان و لا اللعان و لا الفاحش و لا البذا ” یعنی مسلمان لعن طعن کرنے والا ، فحش گو اور بے ہودہ گو نہیں ہوتا – (ترمذی شریف: ج: ٢ ، ص: ١٨)
اور جو شخص مسجد کا امام ہے ظاہر ہے کہ وہ بھی انسان ہی ہے اس کی اپنی بھی کچھ ضروریات ہیں جن کے لیے اسے گھر جانا ہوگا اس پر لوگوں کا برا بھلا کہنا بد تمیزی سے پیش آنا قطعاً درست نہیں بلکہ ایک مسلمان کو تکلیف دینا ہے اور مسلمان کو تکلیف پہونچانا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف پہونچانا ہے – حدیث شریف میں ہے مَنْ اَذی مسلماً فقد اذانی و من اذانی فقد اذی اللّہ-
ہاں اگر امام مسجد کے متولی کو آگاہ کئے بغیر ناغہ کرے تو اسے پوچھنے کا حق ہے نہ کہ ہر شخص کو – اور امام کو رسوا کرنے والے یہ جان لیں کہ وہ جیسا امام کے ساتھ کریں گے اللّہ تعالٰی ان کے ساتھ بھی ویسا ہی برتاؤ کرے گا – حدیث شریف میں ہے کَما تدینُ تدان یعنی جیسا تو دوسرے کے ساتھ کرے گا ویسا ہی اللّہ تیرے ساتھ کرے گا – (کنزالعمال ج: ١٥ ، ص: ٧٧٢) لھذا عوام پر لازم ہے کہ وہ امام کو رسوا کرنے او اس کو برا بھلا کہنے سے باز آئیں اور اس سے معافی مانگیں اور آئندہ ایسا نہ کرنے کا عہد کریں-
اس کے علاوہ اور بھی باتیں ہیں مگر مضمون کی طوالت قارئین کی اکتاہٹ کا باعث بن سکتی ہے اسی بنا پر انہیں چند باتوں پر اکتفا کیا جاتا ہے –
بارگاہِ پروردگار عالم میں دعا گو ہوں کہ مولی تعالی ہم لوگوں کو امام کے مراتب سمجھ کر ان کی عزت و احترام بجا لانے کی توفیق بخشے آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم