ازقلم: محمد ایوب مصباحی
پرنسپل دار العلوم گلشنِ مصطفی بہادرگنج مراداباد، یو-پی،انڈیا
آج ہر گھر باہمی اختلاف ونزاع کا شکار ہے، رشتہ داریوں میں نااتفقیاں ہیں، ہر کوئی اس کا ذمہ دار دوسرے کو ٹھراتا ہوا نظر آرہاہے، حالاں کی اگر ہم غور کریں تو خامیاں ہم سب میں ہیں کسی میں کم کسی میں زیادہ، باہمی رنجش کی کئ ایک وجوہات ہوسکتی ہیں، جیسے :حسد، بغض، کینہ، غیبت چغلخوری۔ لیکن ان کے علاوہ رشتوں میں درار کی ایک وجہ صلہ رحمی نہ کرنا بھی ہے ۔اب صلہ رحمی کیا ہے؟ اس کی شرعی حیثیت کیاہے؟ کن لوگوں سے صلہ رحمی کرنا ضروری ہے؟ آج ہم اسی عنوان پر مختصر سی روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے۔
صلہ رحمی کی شرعی حیثیت:
صلہ رحمی واجب ہے، اور قطعِ رحم یعنی رشتہ داری کو ختم کرنا حرام اور گناہِ کبیرہ ہے۔ اس پر دلیل "صحیح مسلم شریف” میں حضرتِ ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ مرفوع روایت ہے: کہ "اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا، یہاں تک کہ جب اس سے فارغ ہوگیا تو رحم یعنی رشتہ داری کھڑی ہوئی اور رحمان کے دامنِ رحمت میں پناہ لی، اور عرض کیا: "کہ یہ اس شخص کا مقام ہے جو قطعِ رحم سے تیری پناہ مانگے؟” فرمایا:”ہاں، اور کیا تو اس سے راضی نہیں کہ میں اس سے تعلق جوڑوں جو تجھ سے تعلق جوڑے اور اس سے قطعِ تعلق کروں جو تجھ سے قطعِ تعلق کرے؟” عرض کیا: کیوں نہیں؛ فرمایا:”تو یہی تیرا مقام ہے،” راوی بیان کرتے ہیں کہ آقاے کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اگر تم چاہو تو یہ آیت تلاوت کرسکتے ہو” اگر تم پھر گئے توکیا تم سے یہ توقع کی جاسکتی کہ تم زمین میں فساد کروگے اور اپنی رشتہ داریوں کو ختم کروگے یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت فرمائی تو انھیں بہرا کردیا اور ان کی آنکھوں کو اندھا کردیا تو کیا یہ قرآن میں غورو فکر نہیں کرتے؟ یا ان کے دلوں پر تالے پڑے ہیں۔”(صحیح مسلم، باب:صلۃ الرحم)
صحیح ابنِ حبان میں حضرتِ عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، کہ ان لوگوں پر رحمت نازل نہیں ہوتی جن میں رشتہ داری ختم کرنے والا ہو۔
المعجم الکبیر للطبرانی میں حضرتِ سلیمان اعمش سے روایت ہے، کہ حضرتِ عبد اللہ ابن مسعود نماز فجر کے بعد لوگوں کے حلقے میں بیٹھے تھے تو آپ نے فرمایا:میں رشتہ داری ختم کرنے والے کو اللہ کی قسم دیتاہوں کہ وہ ہمارے پاس سے اٹھ کھڑا ہو اس لیے کہ ہم اپنے رب سے دعا کرنا چاہتے ہیں اور بیشک آسمان کے دروازے رشتہ داروں سے قطعِ تعلق کرنے والے پر بند کردیے جاتے ہیں۔
صلہ رحمی کا مطلب کیاہے؟
صلہ رحمی کا مطلب یہ ہے کہ رشتہ داروں کو نہ بھولے، ان سے ملاقات کرتارہے، ان کے گھروں پر آنا جانا رکھے جب قدرت ہو تو تحفہ تحائف بھی بھیجے اور ہاتھ یا زبان کے ذریعہ ان کی مدد بھی کرے۔
صلہ رحمی کی حد کیا ہے؟ اور اس کی کیا کیا صورتیں ہوسکتی ہیں؟
اس کی کم از کم مقدار یہ ہے کہ خود انھیں سلام کرے، اگر دور ہو تو سلام بھیج دے، یا خط لکھ دے، اور اس میں کوئی قید نہیں کہ سلام یا خط کتنے دن کے اندر اندر بھیجنا ہے، بلکہ عرفِ عام کا اعتبار ہے۔بعض علما نے فرمایا:”یہ تین سال کے اندر اندر ضروری ہے، کتاب "الدرر”میں ہے :”صلہ رحمی سلام و ھدیہ و تحیت کے ذریعہ واجب ہے۔اور یہ قریبی رشتہ داروں کی باہم مدد کرنا، ان کے ساتھ احسان کرنا، ان کے ساتھ نرمی کرنا، بیٹھنا اور باہم ان سے گفتگو کرناہے؛ اور رشتہ داروں کو تاخیر سے ملنے جائے کہ یہ محبت کو بڑھاتاہے، بلکہ اپنے رشتہ داروں کی ہر جمعہ یا ہر مہینہ ملاقات کیا کرے، ہر قبیلہ اور ہر خاندان باہمی مدد کرنے اور دوسروں کے خلاف مدد کرنے میں ایک ہاتھ ہوں، عزت دینے، فرماں برداری کرنے اور اطاعت کرنے میں چچا، بھائی اور اور موموں کو باب کے درجہ میں رکھے اور خالہ، پھوپھی کو ماں کے درجے میں رکھے۔”
صلہ رحمی کے بابت اصلِ کلی
صلہ رحمی ہر ذی رحمِ محرم کے ساتھ واجب ہے۔”شرح المشارق”میں ہے:”اس رشتہ داری کے بارے میں جس کے ساتھ صلہ و نرمی واجب ہے علما کا اختلاف ہے، علما کی ایک جماعت نے کہا:کہ "وہ ہر ذی رحم محرم کی قرابت ہے۔” اور دوسری جماعت نے کہا: کہ "وہ ہر قریبی کی قرابت ہے محرم ہو یا نہ ہو، علامہ نووی نے فرمایا:”صلہ رحمی کے صلہ رحمی کرنے والے کی فراخیی و تنگدستی کے اعتبار سے کئی مراتب ہیں، اس کا ادنی درجہ یہ ہے کہ اپنے قریبی کو بلکل چھوڑ نہ بیٹھے۔
غیر محرم کے ساتھ صلہ رحمی کی جائیگی یانہیں
غیر محرم سے صلہ رحمی کے بارے میں علما کا اختلاف ہے، "شرح الشرعہ” میں ہے:”قرابت کا اطلاق عصبہ، صاحبِ فرض (قرآن وحدیث یا اجماع میں جائداد میں جس کا حصہ بیان کردیا گیا ہو) یا ذی رحم پر ہوتاہے۔جیسے:چچا کی لڑکی اور ماموں وغیرہ پر ہوتاہے۔
غیر محرم سے صلہ رحمی کے واجب نہ ہونے پر دلیل اس سے نکاح کا جائز ہونا ہے، اس لیے کہ جوازِ نکاح قطعِ رحم کی علامت ہے۔ لیکن اس سے مراد شاید وجوب کی نفی ہے استحباب کی نہیں اس لیے کہ دور والوں سے صلہ رحمی کرنا قریب والوں کی بنسبت متفق علیہ کے درجہ میں ہے۔
صلہ رحمی کا فائدہ:
صلہ رحمی کے فائدے کے بابت حضرت ضحاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے وہ حدیث مروی ہے جو انھوں نے اللہ تعالیٰ کے ارشاد :(یَمْحُوْ اللّٰہُ مَا یَشَاءُ وَیثْبِتُ)کے متعلق روایت کی ہے۔”کہ انسان صلہ رحمی کرتاہے اور اس کی عمر سے تین دن باقی بچتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس کی عمر میں تیس سال کا اضافہ فرمادیتاہے، اور جو انسان رشتہ داری کو توڑتاہے اور اس کی عمر میں تیس سال ابھی باقی ہوں تو اللہ تعالی انھیں گھٹا کر تین کردیتا ہے۔
ابن کمال کی "حدیثِ اربعین” میں ہے :”صدقہ اور صلہ رحمی گھروں کو آباد کرتے ہیں اور عمروں میں اضافہ کرتے ہیں –
قطعِ رحم کی ایک قسم قول یا فعل سے تصریح، تعریض اور کنایہ کے ذریعہ بیوی کا اپنے شوہر کو ایذا دینا ہے اور ان امور میں جو معصیت نہ ہوں نافرمانی کرناہے اور اس کے حقوق کی رعایت نہ کرنا ہے۔
میاں بیوی کے درمیان باہم نزاع کی اصل وجہ
میاں بیوی کا جھگڑا بھی آج کسی پر مخفی نہیں ہے ،ہر گھر آج جہنم کدہ بناہوا ہے ،اس کی بےشمار وجہ ہیں، لیکن سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ آج میاں بیوی میں سچی محبت نہیں، جن مردو زن میں سچی محبت ہوتی ہے وہ کبھی نہیں لڑتے اور اگر لڑتے بھی ہیں تو بہت جلد ایک دوسرے کو راضی کرلیتے ہیں، اب یہ بھی ایک مسئلہ ہے کہ میں بیوی میں باہم سچی محبت ہوتی کیوں نہیں؟ تو اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ ہماری قوم آج تیزی سے مغربی تہذیب وکلچر کو اپنارہی ہے اور مغربی تمدن اسلام کے مزاحم ومخالف ہمیشہ سے رہاہے اور رہے گا بھی اور مغربی تہذیب وتمدن میں سے ایک چیز "عشقِ مجازی” ہے آج بنام ترقیاتی دنیا اس بلا میں پوری گرفتار ہے اور اس پر "موبائل” اور "فلم انڈسٹریز” نے اہم رول ادا کیا ہے اب جب نو شادی شدہ لڑکیوں کا دل پہلے سے ہی کسی اور کی محبت کا اسیر ہے تو پھر شوہر سے محبت وہ کیسے کرسکتی ہیں ، اب جب محبت نہیں تو نہ اس کے مقام ومرتبہ کو پہچان سکتی ہے،بلکہ کیا کیا کہا جائے سینکڑوں برائیاں یہیں سے جنم لیتی ہیں۔ اس کے برخلاف اگر ہم آج بھی مغربی کلچر کو بالاے طاق رکھتے ہوئے قرآن وحدیث کو اپنے لیے نمونہ عمل بنائیں تو ہماری دنیا وآخرت دونوں سنور سکتی ہیں۔
شوہر کا مقام احادیث شریف میں:
"جامع ترمذی” میں حضرتِ ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ روایت ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:کہ”اگر میں کسی کو یہ حکم دیتا کہ وہ اللہ کے علاوہ کسی کو سجدہ کرے تو عورت کو یہ حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔”
"جامع ترمذی” میں حضرت عبد اللہ بن یزید کے والد سے روایت ہے، کہ ایک بدوی شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے پھر عرض کیا آپ مجھے کوئی ایسی چیز دکھادیجیے جس سے ایمان و ایقان بڑھ جائے ،فرمایا:کیا چاہتے ہو؟ عرض کیا اس درخت کو بلائیے کہ وہ آپ کے پاس آجائے، فرمایا:”جاؤ ، اور اسے بلالاؤ” تو وہ اعرابی شخص گئے اور اس درخت سے کہا میرے ساتھ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے پاس چلو،وہ درخت اپنی ایک جانب جھکا تو اس کی جڑیں ٹوٹ گئیں یہاں تک کہ وہ درخت حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بارگاہ میں پہونچ گیا، اعرابی نے کہا:”بس مجھے کافی ہے” تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس درخت کو واپس جانے کا حکم دیا، درخت واپس چلا گیا اور اپنی جڑیں اسی جگہ جمالیں جہاں سے آیا تھا اور سیدھا کھڑا ہوگیا، تو اعرابی نے کہا:”یارسول اللہ! آپ مجھے اجازت دیجیے کہ آپ کے مبارک سر اور قدموں کا بوسہ لوں، پس آقاے کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اجازت مرحمت فرمائی اور اس نے آپ کے سر اور قدموں کا بوسہ لے لیا، پھر عرض کیا:”اجازت دیجیے! کہ آپ کو سجدہ کروں” ارشاد فرمایا:”کوئی شخص کسی بھی مخلوق کو سجدہ نہیں کرسکتا، اگر میں کسی کو اس کی اجازت دیتا تو ضرور عورت کو حکم دیتا کہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔”
"مسندِ احمد” میں ہے:”اگر مرد کے قدم سے اس کے سر کی مانگ تک پھوڑے پھنسی ہوں جن سے پانی اور پیپ بہ رہی ہو پھر اس کی بیوی اس کے سامنے آئے اور اسے چاٹے تب بھی اس نے شوہر کا حق ادا نہیں کیا۔ یہی حدیث "مسندِ احمد” میں دوسری سند سے اس طرح مروی ہے کہ ایک گھر والوں کا ایک اونٹ تھا جس سے وہ اپنے کام کاج لیتے تھے ایک مرتبہ اونٹ نے اپنے اوپر کچھ لادنے سے انکار کردیا اور شوخی کی تو گھر والوں نےحضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو یہ خبر دی کہ کھیت اور باغات سوکھ چکے ہیں (کیا کریں) حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:چلو، تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ایک دیوار کے پاس آئے اور اونٹ اس کی ایک طرف بندھا ہوا تھا، گھر والے بولے:” یہ تو کتے کی طرح ہوگیا ہے کہ کتا تمھیں اپنے دبدبہ سے ڈراتاہے” آپ نے فرمایا:”مجھے اس سے کوئی حرج نہیں” تو جب اونٹ نے آپ کی طرف دیکھا تو آپ کی طرف متوجہ ہوا حتی کہ آپ کے سامنے سجدے میں گرگیا تو آپ نے اس کی پیشانی پکڑ کر کام میں لگادیا، لوگ بولے:” یہ ناسمجھ جانور آپ کو سجدہ کررہاہے اور ہم عقلمند ہیں تو ہم زیادہ اس کے حقدار ہیں کہ آپ کو سجدہ کریں، آپ نے ارشاد فرمایا:کسی انسان کے لیے مناسب نہیں کہ وہ کسی دوسرے انسان کو سجدہ کرے،اگر یہ صحیح ہوتا تو ضرور میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے اس لیے کہ شوہر کا حق عورت پر عظیم ہے، یہاں تک کہ مرد کے قدم سے اس کے سر کی مانگ تک پھوڑے ہوں جن سے پیپ بہ رہی ہو پھر عورت اس کے سامنے آئے اور پھر اسے چاٹنے لگے تب بھی اس کا حق ادا نہیں کیا۔
"بخاری ومسلم” میں حضرتِ ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےمرفوعا روایت ہے، کہ جب مرد اپنی بیوی کو بستر کی طرف بلائےاور وہ آنے سے انکار کردے اور پوری رات اس حال میں گزارے کہ اس کا شوہر اس سے ناراض ہو تو صبح تک فرشتے اس پر لعنت بھیجتے ہیں ۔
شارحین فرماتے ہیں کہ یہ وعید اس وقت ہے جب بغیر عذر کے عورت انکار کردے، اور اگر عذر ہو جیسے:حیض، بیماری اور روزہ تو گناہگار نہ ہوگی ،امام نووی نے فرمایا:کہ حیض (پیریڈ) بستر پر ناجانے میں عورت کا عذر نہیں اس لیے کہ اس حالت میں شوہر کا حق مافوق الازار سے متعلق ہے اس سے استمتاع کرسکتاہے ۔
حدیث شریف میں ہے:”کہ عورت جب نماز پڑھے اور اپنے شوہر کے لیے دعا نہ کرے تو اس کی نماز مردود کر دی جاتی ہے جب تک کہ اپنے شوہر کے لیے دعا نہ کرلے۔
المعجم الکبیر للطبرانی میں حضرتِ عبد اللہ ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنھما مرفوعا روایت ہے:کہ”شوہر کا بیوی پر یہ حق ہے کہ شوہر کی اجازت کے بغیر نفلی روزہ نہ رکھے، اگر اس نے ایسا کیا تو بھوکی پیاسی رہی اور یہ روزہ اس کا قبول نہیں کیا جائے گا، اور اپنے گھر سے اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر نہ نکلے اور اگر اس نے ایسا کیا تو اس ہر آسمان کے فرشتے، رحمت کے فرشتے اور عذاب کے فرشتوں کی لعنت ہے۔
عورت کے متعلق کچھ ضروری باتیں
جب مرد اپنی بیوی سے جماع کرنا چاہے اور عورت حیض و نفاس والی اور روزہ دار نہ ہو تو اس پر ضروری ہے کہ اپنے شوہر کی اطاعت کرے۔عورت پر گھریلو کام کرنا-جیسے:کھانا بنانا، جھاڑو لگانا، کپڑے اور برتن دھونا اور روٹی پکانا دیانۃ واجب ہے اگرچہ وہ شریف زادی کیوں نہ ہو اس لیے کہ اسے ایسا کرنے پر اجر دیا جائے گا اور اگر اس نے ایسا نہ کیا تو گناہگار ہوگی۔اس پر دلیل یہ ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے خاتون جنت حضرتِ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اسی طرح حکم دیا تھا، لیکن قضاءً اسے مجبور نہیں کیا جائے گا، لیکن فتاوی بزازیہ میں ہے:” نکاح یا عدت والی عورت بیمار ہو یا شریف خاندان کی بیٹی ہو اور وہ روٹی بنانے سے منع کردے تو شوہر کی ذمہ داری ہے کہ روٹی بنانے والی کا انتظام کرے اور اگر ایسی ہو کہ خود ان کاموں کو کرتی ہے تو اسے ان کاموں کے کرنے پر مجبور کیا جائے گا
خلاصئہ کلام یہ ہے کہ نکاح ایک قسم کی رقیت ہے لہذا عورت پر ضروری ہے کہ مطلقا شوہر کی اطاعت کرے اور گھریلو کام کاج بھی کرے، شوہر کی اجازت کے بغیر گھر کی کوئی چیز کسی کو نہ دے، اور اہم ترین حق دو چیزیں ہیں، ایک رازداری اور شرمگاہ کی حفاظت اور دوسرا ضرورت سے زیادہ کے مطالبے (ڈمانڈ) سے باز رہنا اور شوہر سے کسب مال کا مطالبہ نہ کرنا جب کہ مال حرام کا ہو۔
ہمارے اسلاف کی عورتوں کا طرزِ عمل اور آج کی عورتیں!!
"مفتاح السعادہ” میں ہے:”ہمارے اسلاف کی عورتوں اور ان کی بیٹیوں کا طرزِ عمل یہ تھا کہ وہ اپنے شوہروں کو اس کی تاکید کرتی تھیں”کہ حرام مال کمانے سے بچنا ، اس لیے کہ ہم بھوک برداشت کرسکتے ہیں لیکن جہنم کی آگ برداشت نہیں کرسکتے”،اور شوہر کا مال خرچ کرنے میں حد سے آگے نہیں بڑھتی تھیں اس لیے کہ عورت نے شوہر کا مال اس حال میں کھایا کہ اس کا شوہر اس سے راضی ہو تو جتنا اجر شوہر کو اپنی بیوی پر خرچ کرنے پر ملتاہے اتنا ہی اس کی بیوی کو بھی ملتاہے ورنہ صرف شوہر کو اجر ملتاہے اور عورت گناہگار ہوتی ہے۔مروی ہے کہ حضرت اسماء بنت خارجہ نے اپنی بیٹی کی شادی کے وقت اسے نصیحت کرتے ہوئے کہا:” اے میری بیٹی! آج تو ایک ایسے گھونسلے سے باہر نکل رہی ہے جس میں تو ہمیشہ رہتی تھی اور ایسے بستر کی طرف جارہی ہے جسے تو پہچانتی بھی نہیں ہے اور ایسے شخص کے ساتھ رہنے جارہی ہے جس سے تجھے ابھی کوئی الفت بھی نہیں ہے تو تو اس کی زمین ہوجا وہ تیرا آسمان ہوجائے گا، تو اس کا فرش ہوجا وہ تیرا ستون ہوجائےگا، تو اس کی باندی ہوجا وہ تیرا غلام ہو جائے گا تو اسے کوئی نقصان مت پہونچانا کہ وہ تجھے چھوڑدے ،تو اس سے دوری مت بنانا کہ وہ تجھے بھول جائے، اگر وہ قریب آے تو تو اس کے قریب ہونا اور اگر وہ دور جائے تو تو بھی دور رہنا؛ اس کی ناک، کان اور آنکھ کی ہمیشہ حفاظت کرنا:کہ وہ تجھ سے کبھی نہ سونگھے مگر خوشبو، تجھ سے کبھی نہ سنے مگر اچھی بات، اور تجھ میں کبھی نہ دیکھے مگر خوبصورتی
اسی میں ہے:کہ تمام باتوں کو جامع یہ ہے کہ عورت اپنے گھر میں بیٹھے، ہمیشہ اپنے شوہر کے ساتھ رہے، اپنے پڑوسیوں سے بات کم کرے، اس کا مشن اپنے کاموں کی اصلاح اور اپنے گھر کی تدبیر ہو، روزہ نماز کی پابند رہے، اپنے شوہر کی طرف سے اتنے پر ہی جو اللہ نے اسے عطا فرمایا صبر و شکر کرنے والی ہو، شوہر کے حق کو اپنے اور تمام اعزاء و اقربا کے حقوق پر مقدم رکھے اور تمام حالات میں اپنی پاکی اور صفائی ستھرائی کا خیال رکھے۔
ماخوذ :البریقہ شرح الطریقہ لابی سعید الخادمی القونوی