اصلاح معاشرہ

جادہ اعتدال سے ہٹتے مذہبی القابات: ایک لمحۂ فکریہ

استاذ گرامی،حضرت مولانا حافظ سعید صاحب قبلہ اشرفی، بانی و مہتمم دارالعلوم فیضان اشرف باسنی نے آج دور حاضر میں عام ہوتے بے جا القابات پر حیف جتایا ،ایک مضمون کی اصلاح بھی فرمائی۔ اسی سے اثر پذیر ہوتے ہوۓ راقم نے یہ مضمون ترتیب دیا ہے۔

تحریر: خلیل احمد فیضانی
استاذ: دارالعلوم فیضان اشرف باسنی،ناگور شریف

اعتدال اس امت کے لیے عطیہ ایزدی ہے
میانہ روی اور وسطیت اس کی شناخت ہے، مگر کچھ لوگوں کو اس قدرتی شناخت سے روگرداں ہونے کی لا علاج بیماری لاحق ہوتی ہے۔
ہر موڑ پر ایسے لوگ کہیں نہ کہیں سے افراط و تفریط کے دام میں آہی جاتے ہیں
اس طرح کی غلط روی سے منازل کا بعد بڑھتا ہے۔
عوائق فاسدہ جنم لیتے ہیں اور بالآخر وسطیت و اعتدالیت کا خاتمہ ہوجاتا ہے
اسی غلط روی کے نتائج میں سے ایک بری روش یہ ہے کہ
جماعت میں آج کل بے جا اور "وضع الشی علی غیر محلہ ظلم”کے مصداق القابات کا بہت بڑا سیل رواں آیا ہے؛ اس پر بند باندھنا سنجیدہ،دانش ور اور محتاط علما کے لیے ضروری ہوگیا ہے ۔ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ عصری تعلیم یافتہ طبقہ یا نیم مذہبی اور نیم دنیادار افراد اسلاف کی علمی شخصیتوں سے ہی متنفر نہ ہوجاۓ یہ سوچ کر کہ ان کی بھی شخصیتوں اور القابات میں کوئی تطابق نہیں تھا یا جہلاے عصر نے انہیں بھی آج کل کے سطحی لوگوں کی طرح بے جا القابات سے نواز رکھا تھا ۔
القابات اپنے آپ میں امانت ہوا کرتے ہیں
اگر وہ غیر اہل کو تفویض ہوں گے تو یہ نہایت ہی بڑی بے ایمانی ہوگی
اور بچی کھچی مذہبی وقعت پر خطرے کا سائن بھی۔
اس لیے راہ اعتدال کو اپنائیے جو کہ ہمارے اسلاف کی فکری اور علمی تراث ہے
لفظ:”علامہ”کو ہی لیجیے
یہ لفظ دوچار صدی بلکہ ایک صدی پہلے تک ان علمی شخصیتوں کے لیے موزوں ثابت ہوتا تھا جو بیک وقت معقولات و منقولات اور دیگر علوم اسلامیہ میں اتھارٹی کی حیثیت رکھتے تھے
جن کے پاس لسیانیت سے لے کر دینیات تک کی ہر گتھی سلجھانے کا ہنر تھا
جن کا سمند علم ہر مقام پر اپنی نادر تخلیقات و علمی کاوشوں کے نقوش چھوڑجاتا تھا
جن کی شخصیتوں میں بےپناہ گہرائی و گیرائی پنہاں تھی
تحقیقات نادرہ ،تنقیحات بازغہ اور رشحات انیقہ کے ذریعے جنہوں نے اپنے علوم کا دنیا بھر میں لوہا منوایا
ان کے لیے لفظ:”علامہ”استعمال کیا جانا بالکل حق بجانب اور بر محل تھا
تاہم ان ربانی اور قدسی صفات علما کا یہ وطیرہ تھا کہ اسے بھی وہ :”و یحبون ان یحمدوا بما لم یفعلوا”کے زمرے میں رکھتے تھے اور ہر لمحہ احتساب نفس کرتے رہتے تھے
مگر اس وقت کی بے فیضی اور بے برکتی دیکھیے کہ ان مقدس اور خالص علمی القابات کا جم کر استحصال ہورہا ہے جس کا رنج ہر محتاط فکر اور سنجیدہ شخص کو ہورہا ہے اور ہونا بھی چاہیے

اس حوالے سے ہمیں کرنا یہ ہے کہ جو شخص جس پوزیشن کا ہے اسے وہ مقام دیجیے
نہ افراط راہ پاۓ اور نہ ہی تفریط کی کوئی گنجائش رہے
جس کا جو ریئل مقام ہے اسے دیجیے
مگر علمی خیانت تو مت کیجیے

اسی حوالے سے سید انور شاہ کا ایک مضمون ،موقع کی مناسبت سے یہاں نقل کیا جاتا ہے
جو کہ کافی اہم ہے اور معلوماتی بھی
اسے پڑھیے اور جلسے جلوس کے پوسٹرز،پمفلٹ اور مذہبی شخصیات کے القابات کا جائزہ لیجیے
لکھتے ہیں:-
اسلام جہاں غلو، غلط بیانی اور بے جا مبالغہ سے منع کرتا ہے، وہی ہر معاملے میں راہِ اعتدال اپنانے کی تاکید کرتا ہے۔ یہی دینِ اسلام کی ایک بڑی خوبی ہے کہ اس نے اعتدال، توسط اور میانہ روی کی تلقین کی ہے اور ہمیں اُمتِ وسط بنایا۔ یہی وجہ ہے کہ اعتدال اپنانے والوں کو کبھی بھی گمراہی اور پچھتاوے کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ اس کے بر عکس وہ لوگ جو اعتدال کے دامن کو چھوڑ کر دوسری راہ اختیار کیے ہوئے ہیں، وہ یا تو افراط کا شکار ہوکر گمراہ ہوجاتے ہیں یا پھر تفریط کی کھائی میں جاگرتے ہیں۔ اسی طرح دینِ اسلام سادگی اور للہیت کو بڑی اہمیت دیتا ہے، جبکہ نام ونمود، دکھاوے اور نمائش کی مذمت کرتا ہے۔
آج کل ہمارے معاشرے میں مذہبی القاب کے استعمال کرنے میں جو بے اعتدالیاں پائی جارہی ہیں، وہ کسی پر اوجھل نہیں۔ نام کے آگے القابات پرالقابات جڑ دیے جا تے ہیں، خواہ وہ شخص ان صفات کا حامل ہو یا نہ ہو۔ آئے روز نئے سے نئے اوربڑے سے بڑے القابات سامنے آتے ہیں۔ بعض اوقات تو جلسوں میں اور بعض دیگر مجالس میں امیروں، وزیروں، عہدیداروں، پیروں اور خصوصاً علما کی تعریفوں میں زمین و آسمان کے قلابے ملادیئے جاتے ہیں، مثلاً کسی کے لیے حجۃ الاسلام، کسی کے لیے شیخ الاسلام، کسی کے لیے شیخ الفقہ، کسی کے لیے شیخ الحدیث، کسی کے لیے مفتی اعظم، کسی کے لیے خطیب بے بدل، خطیبِ زماں، نمونہ ٔاسلاف، محققِ دوراں، محقق العصر، علامۃ العصر، محدث العصر، فقیہِ زماں، جامعِ علوم عقلیہ و نقلیہ، شیخ المشائخ، اعلیٰ حضرت، مفکرِ اسلام، غزالیِ وقت، غزالیِ دوران، شہنشاہِ خطابت، محقق علی الاطلاق، محدثِ اعظم، ، ولیِ کامل، رہبرِ شریعت، ثانیِ جنید وغیرہ وغیرہ۔
افسوس ناک بات یہ ہے کہ بعض حضرات تو باقاعدہ اپنے حلقۂ احباب کو اس طرح بڑے بڑے القاب اپنے نام کے ساتھ لگانے کی تاکید کرتے ہیں، اور القاب کے بغیر پکارے جانے پر بے التفاتی اور ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں۔ اور اب تو معاملہ یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ علمائے کرام کی اکثر مجالس اس قسم کے القابات سے گونجتی ہوئی نظر آتی ہے۔ مذہبی القابات کے متعلق یہی بے اعتدالیاں‘ پمفلٹوں اور اشتہارات میں بھی واضح طور پر نظر آتی ہیں۔ اور نہایت بے احتیاطی کے ساتھ شریعت کے تقاضوں کو فراموش کیا جارہا ہے۔ ایک طرف تو یہ معاملہ ہے، جبکہ دوسری طرف کچھ حضرات ایسے بھی ہیں جو اپنے لیے ایسے القاب تجویز کرتے ہیں جس سے گناہ گاری ٹپکتی ہو، جیسے: العبد العاصی، عاصی وغیرہ، حالانکہ یہ بھی درست نہیں۔ یہ ساری باتیں اور احکام سمجھنے کے ہیں۔ ان کے نہ سمجھنے کی وجہ سے لوگ افراط و تفریط اور متضاد پہلوؤں کا شکار ہیں۔ اس موضوع پر انتہائی عمدہ اور تفصیلی گفتگو علامہ ابن الحاج المالکی المصری علیہ الرحمہ نے اپنی مشہور کتاب ’’المدخل‘‘ کی پہلی جلد ’’فصل فی ذکر النعوت‘‘ کے تحت فرمائی ہے۔ واضح رہے کہ علامہ ابن الحاج کا شمار مسلک مالکیہ کے مشہور اور بڑے فقہاء میں ہوتا ہے:’’وقد ذکرہ السیوطي فی من کان بمصر من فقھاء المالکیۃ۔‘‘ (حسن المحاضرۃ، السیوطی، ج:۱،ص:۳۸۲) ان کی وفات مصر کے مشہور شہر قاہرہ میں ہوئی۔ ’’المدخل‘‘ فقہ مالکیہ کی نہایت معتبر اور انفع کتاب ہے۔

القابات کے ارتقا کا پسِ منظر

علامہ ابن الحاج المالکی المصری ان القاب کے رائج ہونے کے اسباب بیان کرتے ہیں:
’’ ان کی ترویج میں سب سے بڑا کردار عجمیوں کا رہا ہے، اور وہ اس طرح کہ جب ترک مسندِ خلافت پر غالب آگئے، اور حکومت کی باگ ڈور خود سنبھال لی، تو انہوں نے اپنے لیے مختلف قسم کے القابات اختیار کر لیے، جیسے :شمس الدولۃ، ناصر الدولۃ، نجم الدولۃ وغیرہ، چونکہ ان القابات کا استعمال حکومت کے مناصب پر فائز بڑے بڑے عہدے داروں کے لیے ہوتا تھا، اس لیے لوگ ان القاب کو باعثِ عظمت و فخر سمجھنے لگے، اس وجہ سے عام لوگوں نے ان میں انتہائی دلچسپی ظاہر کی۔ لیکن حکومت میں منصب اور عہدہ نہ ہونے کی بنا پر ان کے لیے اپنے لیے ان القاب کا رکھنا ممکن نہیں تھا، چنانچہ جب انہوں نے اس کے حصول کے لیے کوئی راستہ نہیں پایا تو اب انہوں نے اس کمی کو پورا کرنے کے لیے مذہب کا راستہ اختیار کر لیا: ’’نجم الدولۃ نہ سہی تو نجم الدین ہی سہی۔ ‘‘
اس زمانے میں ان القابات کی انتہائی اہمیت اور وقعت تھی اور بڑی باعثِ عظمت اور قابلِ فخر چیز تھی۔ یہی وجہ تھی کہ حکومت نے ان ناموں اور القاب کے رکھنے پر سخت پابندی عائد کی تھی، لہٰذا جب کوئی اپنی اولاد کے لیے اس قسم کا لقب رکھنا چاہتا تو اسے حکومت کو ایک بھاری رقم ادا کرنی ہوتی، اور حکومت سے باقاعدہ اجازت نامہ لینا ہوتا۔ یوں ہی لوگ حکومت کی مقرر کردہ بھاری رقم ادا کرتے تھے اور اپنی اولاد کے لیے اس قسم کے القاب تجویز کرتے تھے۔ کچھ عرصہ کے بعد خلافتِ عباسیہ پر ترک نے مکمل طور پر قابض ہوکر ہر قسم کا کنٹرول اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ زمانہ گزرنے کے ساتھ ان القابات کی اہمیت باقی نہیں رہی؛ کیونکہ اب حکومت ان کے لیے ایک قسم کی لونڈی بن چکی تھی، اس لیے اب وہ مذہبی القابات میں کشش محسوس کرتے ہوئے ان کی طرف متوجہ ہوگئے اور ان کے لیے نجم الدولۃ کے بجائے نجم الدین جیسے القاب زیادہ باعثِ عظمت و فخر بن گئے۔ اس دوران حکومت نے پابندی ختم کر کے عام لوگوں کو کھلی چھوٹ دے دی۔ یہ القابات اس قدر تیزی کے ساتھ رائج ہوگئے کہ کوئی بھی اس کی زد سے محفوظ نہیں رہا، امیر غریب، چھوٹے بڑے سب اس وبا کی زد میں آگئے، یہ معاملہ اس سطح پر پہنچ گیا کہ علماء نے بھی اس سے مانوس ہو کر ان کے رکھنے میں کوئی برائی محسوس نہیں کی اور لوگوں سے متاثر ہو کر ان کو قبول کرنے لگے۔‘‘ (المدخل ،ج:۱،ص:۱۱۰، فصل فی النعوت)
القابات کی اس ترویج کے متعلق علامہ ابن خلدون نے بھی مقدمہ تاریخ ابنِ خلدون میں اس کے قریب قریب گفتگو فرمائی ہے۔

مذہبی القابات کی شرعی حیثیت
قرآن کریم اور احادیثِ طیبہ سے یہ بات واضح طور پر معلوم ہوتی ہے کہ کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے تزکیہ کا اعلان کرے، یا اپنے لیے ایسے القاب اختیار کرے جس میں پاکیزگی اور تقدس کا پہلو پایا جاتا ہو، چنانچہ ذیل میں اس کے متعلق چند آیاتِ کریمہ مفسرین کی تشریح کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیے:
۱:-’’أَلَمْ تَرَ إِلَی الَّذِیْنَ یُزَکُّوْنَ أَنْفُسَھُمْ بَلِ اللّٰہُ یُزَکِّيْ مَنْ یَّشَائُ وَلَا یُظْلَمُوْنَ فَتِیْلاً۔‘‘ (النساء :۴۹ )
’’کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو اپنے آپ کو بڑا ہی پاکیزہ بتاتے ہیں ؟ حالانکہ پاکیزگی تو اللہ جس کو چاہتا ہے عطا کر دیتا ہے، اور کسی پر اس عطا میں ایک دھاگے کے برابر بھی ظلم نہیں کیا جائے گا۔‘‘
اس آیت کے شانِ نزول میں مفسرین لکھتے ہیں کہ:
’’یہود اپنے آپ کو بڑے پاکیزہ اور مقدس بتلاتے تھے کہ ہم اللہ کے بیٹے اور محبوب ترین لوگ ہیں۔ اس آیتِ کریمہ میں ان کی مذمت کی گئی ہے کہ ذرا ان لوگوں کو دیکھو! جو اپنی پاکی بیان کررہے ہیں، ان پر تعجب کرنا چاہیے۔ ‘‘

۲:-’’فَلَا تُزَکُّوْا أَنْفُسَکُمْ ھُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰی۔‘‘ ( سورۃ النجم :۳۲)
’’تم اپنی پاکیزگی مت بیان کرو، وہ خوب جانتا ہے کہ کون متقی ہے۔‘‘
اس آیت سے ثابت ہوا کہ دعواے تقدس منع ہے
القابات میں مبالغہ آرائی احادیثِ طیبہ کی روشنی میں
القابات میں مبالغہ آرائی سے ممانعت پر اب چند احادیثِ طیبہ ملاحظہ فرمائیے:
۱:-ایک مرتبہ ایک شخص نے جناب نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے سامنے ایک دوسرے آدمی کی خوب مدح و تعریف کی، اس پر آپ نے فرمایا :’’وَیْحَکَ، قَطَعْتَ عُنُقَ صَاحِبِکَ۔‘‘۔۔۔۔۔ ’’افسوس ہے تجھ پر، تو نے تو اپنے ساتھی کی گردن کاٹ دی۔‘‘ پھر فرمایا کہ: اگر تمہیں کسی کی تعریف کرنی ہو تو ان الفاظ سے کرو کہ میرے علم کے مطابق یہ شخص نیک و متقی ہے۔ ’’وَلَا أُزَکِّیْ عَلَی اللّٰہِ أَحَداً‘‘ یعنی ’’میں یہ نہیں کہتا کہ اللہ کے نزدیک بھی وہ ایسا ہی ہے جیسا میں سمجھ رہا ہوں۔ ‘‘ (صحیح بخاری، کتاب الشہادات و الادب۔ مسلم ،کتاب الزہد)
۲:- حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہمیں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا:
’’أَنْ نَّحْثُوَ فِيْ وُجُوْہِ الْمَدَّاحِیْنَ التُّرَابَ۔‘‘
’’ہم تعریف کرنے والوں کے چہروں پر مٹی دیں، یعنی ان کو ناکام بنادیں۔‘‘

۳:- ایک روایت میں ہے کہ حضرت زینب بن أبی سلمہ فرماتی ہیں کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ: تمہارا نام کیا ہے؟ چونکہ اس وقت میرا نام ’’برّہ‘‘ تھا (جس کے معنی ہیں نیک وگناہوں سے پاک عورت) میں نے وہی بتلایا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لَاتُزَکُّوْا أَنْفُسَکُمْ، اَللّٰہُ أَعْلَمُ بِأَھْلِ الْبِرِّ مِنْکُمْ‘‘ (رواہ مسلم و بخاری ، باب تحویل الاسم) یعنی ’’تم اپنے آپ کی گناہوں سے پاکی بیان نہ کرو، کیونکہ یہ علم صرف اللہ ہی کو ہے کہ تم میں سے نیک اور پاک کون ہے۔‘‘ پھر ’’برہ‘‘ کے بجائے آپ نے زینب نام رکھا۔ مطلب یہ ہے کہ جب کسی کا نام ’’برہ‘‘ (نیک عورت) ہوگا تو اس سے جب دریافت کیا جائے گا کہ تم کون ہو؟ تو ظاہر سی بات ہے کہ وہ یہ کہے گی ’’برّہ‘‘ یعنی میں نیک اور گناہوں سے پاک خاتون ہوں، اس میں چونکہ بظاہر صورتاً خود اپنی زبان سے نیک ہونے کا دعویٰ پایا جاتا ہے، اس لیے آپ نے اس سے منع فرمایا۔

۴:-علامہ ابن الحاج مالکی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’سنن ابوداؤد‘‘ کے حوالے سے یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک وفد حاضر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو سنا کہ وہ اپنے سردار کو ’’ابو الحکم‘‘ سے پکار رہے تھے، چنانچہ آ پ نے اس کنیت کو ناپسند فرمایا، ان کے سردار کو بُلایا اور ان سے پوچھا کہ آپ کو ’’ابو الحکم‘‘ کیوں کہتے ہیں؟ اس نے جواب میں کہا کہ: میری قوم میں جب کوئی دو فریق اختلاف کریں تو وہ میرے پاس فیصلہ کرنے کے لیے آتے ہیں، پھر میں ان کے درمیان فیصلہ کرتا ہوں۔ تو دونوں فریق اس فیصلہ کو تسلیم کر لیتے ہیں، آپ نے اس سے پوچھا: آپ کی اولاد ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں! میرے تین بیٹے ہیں: شریح، عبداللہ، مسلم۔ آپ نے اس سے پوچھا: ان میں بڑا کون ہے؟ انہوں نے کہا: شریح۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ: آپ ابو شریح ہیں نہ کہ ابو الحکم۔ کیونکہ اس میں تقدس اور بڑائی کا پہلو پایا جاتا ہے۔ (المدخل ،ج:۱:،ص:۱۱۰، فصل فی ذکر النعوت)
۵:-خود جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذاتِ اقدس کے متعلق ارشاد فرمایا: ’’لَا تُطْرُوْنِیْ کَمَا أَطْرَتِ النَّصَارٰی عِیْسَی بْنَ مَرْیَمَ۔‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’لوگو! میری تعریف میں مبالغہ سے کام نہیں لینا، جیسا کہ نصاریٰ نے حضرت عیسی بن مریم علیہ السلام کے متعلق مبالغہ اختیار کیا ہے۔‘‘ انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو الوہیت کا درجہ دے کر خود کافر اور مشرک بن گئے، میرے ساتھ ایسا معاملہ نہ کرنا ’’إِنِّيْ عَبْدُاللّٰہِ وَ رَسُوْلُہٗ‘‘ ۔۔۔ ’’میں تو اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔‘‘ لہٰذاتم بھی مجھے اللہ کا بندہ اور رسول ہی کہو۔ (بخاری، باب ’’و اذکر فی الکتاب مریم ‘‘)

ایک اعتراض اور اس کا جواب
یہاں پر یہ سوال ہو سکتا ہے کہ بعض مواقع پر آپ نے خود بعض صحابہ کرام کی مدح اور تعریف فرمائی ہے، اور ان کو اچھے اچھے القابات سے نوازا ہے۔ حضرت عثمان کے بارے میں فرمایا:’’ وَأَصْدَقُھُمْ حَیَاء عُثْمَانُؓ‘‘ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں فرمایا :’’وَأَقْضَاھُمْ عَلِيٌّ‘‘ حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ اور بعض دیگر صحابہ کرام کے بارے میں فرمایا :’’وَأَمِیْنُ أُمَّتِيْ أَبُوْعُبَیْدَۃُ بْنُ الْجَرَّاحِ، وَ أَعْلَمُ أُمَّتِيْ بِالْحَلَالِ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ، وَأَقْرَأُھُمْ أَبُوْ مُوْسٰی، نِعْمَ الْعَبْدُ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ وَ غَیْرُ ذٰلِکَ۔‘‘
جواب :۔۔۔ اس سوال کا جواب امام نووی، حافظ ابن حجر، اور علامہ ابن بطال نے یہ ذکر کیا ہے کہ صرف حقیقتِ حال بیان کرنے کی اجازت ہے کہ میرے علم کے مطابق فلاں آدمی میں یہ خوبی ہے، اس میں مبالغہ سے کام لینا جائز نہیں، جیسا کہ ’’الْمَدَّاحِیْن‘‘ (بہت زیادہ تعریف کرنے والے ) کا لفظ بھی اس پر دلالت کرتا ہے۔ یہ بھی صرف اس شخص کے متعلق کہا جاسکتا ہے جس کے متعلق تکبر اور عجب کے فتنہ کا اندیشہ نہ ہو، جیسا کہ آنحضرت کو صحابہ کرامکے بارے میں یقین تھا کہ وہ حضرات اس سے فتنہ میں مبتلا نہیں ہوں گے ؛ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تعریف فرمائی، چونکہ صحابہ کرام کے علاوہ دیگر لوگوں کے متعلق فتنہ میں ابتلا کا اندیشہ غالب ہے، لہٰذا دوسرے لوگوں کی تعریف سے بچنا چاہیے۔ (شرح صحیح البخاری لابن البطال: باب ما یکرہ من التمادح ، ج:۹،ص:۲۵۳۔ فتح الباری : باب ما یکرہ من التمادح ، ج:۱۰، ص:۴۷۶۔ شرح النووی علی صحیح مسلم، باب النہی عن المدح )

فقہائے کرام کے اقوال کی روشنی میں
قرآن وسنت کے ماہرین حضرات فقہائے کرام نے بھی نیکی، تقدس، پاکیزگی، بڑائی اور مدح سرائی میں مبالغہ کا تأثر دینے والے ان القاب کو ناجائز قرار دیا ہے۔
چنانچہ مالکیہ کے مشہور فقیہ علامہ ابن الحاج المالکی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: اس بدعت سے بچنا ضروری ہے جو وبا کی طرح پھیل گیا ہے اور شاید ہی اس کی زد سے کوئی بڑا چھوٹا محفوظ رہا ہو، اور وہ یہ نئے اور خود ساختہ القابات ہیں جو شریعت کے سراسر مخالف ہیں، وہ ہیں: ’’فلان الدین و فلان الدین‘‘ عالم کے لیے تو اور زیادہ ضروری ہے کہ وہ اس جیسے القاب سے اپنے آپ کو محفوظ رکھے۔ اس سلسلے میں لوگوں کو بھی سمجھائیں کہ یہ القاب شریعت کے مخالف ہیں، لہٰذا ان کو اس جیسے القاب سے نہ پکاریں۔ ایسے القاب و اسما کو استعمال کرنا جو تزکیہ اور تعریف پر مشتمل ہو، اس کی ممانعت کتاب اللہ، سنت رسول اور علما کے اقوال سے ثابت ہوتی ہے۔ نیز یہ غلط بیانی اور جھوٹ میں داخل ہوکر سلفِ صالحین کے عمل کے بالکل مخالف ہے۔
آگے فرماتے ہیں کہ: اگر ان القاب و اسماء کا استعمال جائز ہوتا تو اُمتِ محمدیہ میں اس کے سب سے زیادہ حقدار اور مستحق صحابہ کرام تھے، جو ہدایت کے سورج اور اندھیروں کے چراغ تھے، اور دین کے سب سے پہلے مددگار تھے، جیسا کہ قرآن نے اس کی گواہی دی ہے۔ اسی طرح ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالی عنھن جن کو اللہ تعالیٰ نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے چنا اور جن کی فضیلت کی گواہی اللہ تعالیٰ نے خود دی ہے۔ ام المومنین حضرت زینب کا پہلے نام ’’برہ‘‘ تھا، آپ نے تبدیل کردیا، حالانکہ وہ اس کی مصداق اور حقدار تھیں، تو پھر ہم کون ہیں کہ اپنے لیے ایسے القاب تجویز کریں، لہٰذا نجات اور کامیابی صحابہ کرام کی اتباع میں ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے امام نووی کا مشہور اور معروف واقعہ بھی نقل کیا ہے۔ امام نووی مشہور شافعی عالم دین ہیں جو کئی مفید اور بڑی کتابوں کے مصنف ہیں، جن میں شرح مجموع مہذب، اور شرح مسلم جو کئی جلدوں پر مشتمل ہے اور ریاض الصالحین وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ یہ شافعیہ میں بڑی عبقری شخصیت گزرے ہیں جن کی تصنیفات سے اُمت کا ایک بڑا طبقہ استفادہ کرتا چلا آرہا ہے، دینی و علمی خدمات کی بنیاد پر جب ان کے معاصرین نے ان کو محی الدین کے لقب سے موسوم کیا تو انہوں نے سخت ناراضگی کااظہار کیا، اور فرمایا:’’ إِنِّيْ لَا أَجْعَلُ أَحَداً فِيْ حِلِّ مَنْ یُّسَمِّیْنِيْ بِمُحْيِ الدِّیْنِ۔‘‘ یعنی میں کسی کو بھی محی الدین کے لقب سے پکارنے کی اجازت نہیں دیتا، حالانکہ وہ اس لقب کے حق دار بھی تھے، یہی وجہ ہے کہ امت نے انہیں انتقال کے بعد اس لقب سے موسوم کیا، مگر اپنی زندگی میں انہوں نے سخت ناراضگی کا اظہار کیا اور ظاہر ہے کہ ناراضگی کی وجہ صرف یہی تھی کہ اس میں مذہبی تقدس کا پہلو تھا۔ (المدخل،ج :۱،ص:۱۱۱ ، فصل فی النعوت)
مولانا عبدالحئی لکھنوی نے ’’فوائدِ بہیہ‘‘ کے آخر میں لکھا ہے کہ عراق کے فقہا میں عام طور پر القاب میں سادگی تھی، وہ کاروبار، محلہ، قبیلہ یا گاؤں کی طرف نسبت کرنے پر اکتفا کیا کرتے تھے، جیسے جصاص (گچ والا)، قدوری (ہانڈی والا)، طحاوی (طحا گاؤں کا باشندہ)، کرخی (مقام کرخ کا باشندہ)، صیمری (صمیرہ کا باشندہ )، اور خراسان اور ماوراء النہر میں عام طور پر القاب میں مبالغہ کیا جاتا تھا، اور دوسروں پر ترفع ظاہر کیا جاتا تھا، جیسے: شمس الائمہ، فخر الاسلام، صدر الاسلام، صدرِ جہاں، صدر الشریعہ وغیرہ اور یہ صورت زمانۂ ما بعد میں پیدا ہوگئی تھی۔ پہلے زمانے کے لوگ اس قسم کی باتوں سے پاک تھے۔ ابو عبداللہ قرطبی اسماء اللہ الحسنیٰ کی شرح میں لکھتے ہیں کہ:
’’قرآن و حدیث سے اپنا تزکیہ کرنے کی ممانعت ثابت ہوتی ہے۔ ہمارے علماء نے فرمایا ہے کہ: مصر کے علاقوں میں اور دیگر بلادِ عرب و عجم میں جو رواج ہوگیا ہے کہ اپنے لیے ایسی صفات استعمال کی جاتی ہیں جو تزکیہ اور تعریف پر دلالت کرتی ہیں وہ بھی اس ممانعت میں داخل ہے، جیسے زکی الدین، محی الدین، علم الدین، اور اسی طرح کے دیگر القاب۔
اور محی الدین نحاس کی ’’تنبیہ الغافلین‘‘ میں جہاں منکرات کا تذکرہ ہے، لکھا گیا ہے کہ منکرات میں سے وہ بھی ہے جو وبا کی طرح پھیل گیا ہے، یعنی وہ جھوٹ جو زبانوں پر رائج ہوگیا ہے اور وہ خود ساختہ القاب ہیں: جیسے محی الدین، نور الدین، عضد الدین، غیاث الدین، معین الدین، اور ناصر الدین وغیرہ۔
یہ ان کے لیے جو ان القابات کا استحقاق نھیں رکھتے
باقی جن بزرگان دین کے ساتھ یہ القابات ذکر کیے جاتے ہیں وہ بالکل حق بجانب اور سچ ہے
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام کے سامنے یہ بات خوب واضح کر لی جائے،کہ اس طرح بے محل القاب استعمال کرنا ہر گزر درست نہیں، بلکہ یہ غلط بیانی اور جھوٹ میں داخل ہے۔ نیز مدارسِ دینیہ میں طلبہ کرام کی اس طرح تربیت کی جائے کہ وہ اپنے لیے ایسے القاب پسند ہی نہ کریں، بلکہ سادگی کے ساتھ اپنے نام کو ہی پسند کریں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس سلسلے میں افراط و تفریط سے بچنے اور راہِ اعتدال پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے