حذیفہ ایوبی محمدی
رمضان المبارک کے آتے ہی کچھ لوگ میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوس کندھوں پر تھیلا لٹکائے ہاتھوں میں رسید اور قلم لئے در در کی ٹھوکریں کھاتے ہیں ہمارے معاشرے میں جنہیں مختلف القابات سے نوازا جاتا ہے کوئی چندہ خور تو کوئی ڈاکو تو کوئی چور وہ جدھر کا رخ کرتے ہیں تو اکثریت گری ہوئی نگاہوں سے دیکھتی ہے بعض دیکھ کر راستہ تبدیل کرجاتے ہیں ۔
آخر کیوں؟
کیا ان کے اپنے نہیں ہیں؟
کیا ان کے بچے سحر و افطار میں بابا کا انتظار نہیں کرتے؟
کیا وہ اپنے والدین کی آنکھوں کے تارے نہیں؟
کیا وہ افطار پر اپنی والدہ کے ہاتھ کا شربت پینا نہیں چاہتے؟
یقینا چاہتے ہیں یقینا ان کے بچے انکا انتظار کرتے ہیں پر وہ اللہ کے بندے ان تمام چیزوں کی پرواہ کیے بغیر اپنی دھن میں مگن رہتے ہیں۔
کیونکہ انہیں رسول اللہ کے مہمانوں کی فکر ہے، انہیں امت کے مستقبل کی فکر ہے، آپ بھلے ہی نا جانتے ہوں پر وہ جانتے ہیں کہ ہماری بقا کے ضامن یہی مدارس ہیں، وہ جانتے ہیں کہ جب تک مدارس ہیں ہم ہیں، وہ جانتے ہیں جب تک مدارس ہیں دنیا قائم ہے۔
خدا کے واسطے ان سفرا کی قدر کریں اگر یہ آپ کے دروازے پر آپکی دکان پر آپ کے مکان پر آئیں تو انہیں ذلت آمیز نگاہوں سے دیکھنے کے بجائے ان کے ساتھ عزت و احترام کا مظاہرہ کریں۔
شاید آپ واقف نا ہوں میں اچھے سے واقف ہوں کہ وہ کتنی دشواریوں کا سامنا کرکے آپ کے دروازے پر پہنچتے ہیں کیوں کہ میں بھی ابن سفیر ہوں ۔
ان مانگنے والوں کو ہر گز نہ گدا سمجھو
یہ شان نبوت ہے