"عقائد اسلامی سے بے خبری، مسائل سے لاعلمی اور تاریخ سے جہل نے ذلت مسلط کر دی”
تحریر: غلام مصطفیٰ رضوی
نوری مشن مالیگاؤں
ہم مطالعہ نہیں کرتے۔ کتابوں سے گھبراتے ہیں۔ کتابوں سے دوری بنائے ہوئے ہیں۔ کتاب دوستی نہیں کرتے۔ خود بھی کتابیں نہیں پڑھتے؛ دوسروں کو ترغیب بھی نہیں دیتے۔ بلکہ کتاب بیزاری کو پروان چڑھاتے ہیں۔ کتابوں کو قابلِ توجہ نہیں سمجھتے۔ نظر انداز کرتے ہیں۔ جس کے نقصانات جھیل رہے ہیں۔ لیکن احساس مُردہ ہے؛اس لیے نقصانات کا اندازہ نہیں۔
چھوٹی سی کتاب: ایک ذی علم سے گفتگو ہوئی۔ انھیں اِس بات پر اعتراض تھا کہ نوری مشن سے ’’چھوٹی سی کتاب‘‘ چھپتی ہے۔ راقم نے سمجھانے کی کوشش کی؛ کہ آج اکثر لوگ بزنس، کاروبار، مسائل میں مبتلا ہیں۔ وقت نہیں۔ چھٹی نہیں۔ کتابوں سے دل چسپی نہیں۔ مطالعہ کی لگن نہیں۔ مطالعہ سے بیزاری ہے۔ انھیں مطالعہ کی رغبت دلانے کے لیے، دینی معلومات پر مشتمل کتابیں مختصراً شائع کرتے ہیں کہ مطالعہ کر لیں۔ تھوڑے وقت میں علم حاصل کر لیں۔ بہر کیف! کام چھوٹا نظر آیا۔ غیر معمولی محسوس ہوا۔ کم صفحات کا شکوہ رہا۔ مواد/عنوان/جامعیت کا احساس رُخصت ہوا؛ اِس لیے چھوٹی سی کتاب کہہ کر تضحیک کا رویہ اپنایا گیا۔ یہ اہلِ علم کا حال ہے۔ عمومی صورت یہی ہے کہ لوگ کتابوں کی اہمیت کھوتے جا رہے ہیں۔ حالاں کہ اکابر اسلام کی کتابوں میں بہت سی کتابیں بالکل مختصر ہیں۔ جیسے :
[۱] الفقہ الاکبر(امام اعظم)
[۲] العقیدۃ النسفیہ(امام نجم الدین نسفی)
[۳] العقیدۃ الطحاویہ(امام ابوجعفر طحاوی)
[۴] ایھاالولد(امام غزالی)
[۵]الدرالثمین فی مبشرات النبی الامینﷺ(شاہ ولی اللہ محدث دہلوی)
[٦] تدبیر فلاح و نجات و اصلاح(اعلیٰ حضرت)
[۷] قمر التمام (اعلیٰ حضرت)
مزید ہزاروں اہم کتابیں پیش کی جا سکتی ہیں جو حجم میں کم اور مقام میں بلند ہیں۔ جو محض چند صفحات یا اجزا پر مشتمل لیکن مواد و مفاہیم کے اعتبار سے سیکڑوں صفحات پر بھاری ہیں۔ یہاں بتانا یہ مقصود ہے کہ مواد اگر صالح، تحقیقی، علمی اور اسلامی عقائد و نظریات کا ترجمان ہے، جامع ہے، اسلاف کی فکر کا آئینہ دار ہے تو اس کی افادیت و اہمیت بہت ہے۔ کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ طویل کلام پر ایک جملہ حاوی اور مؤثر ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اولیاے کرام اور سلفِ صالحین کے ایک ایک جملے حروفِ زریں سے لکھے اور شائع کیے جاتے ہیں۔ مثلاً حضور حافظ ملت (بانی الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور) کے چند اقوال پڑھیں؛ جو جہان بھر میں مشہور اور دسیوں صفحات پر بھاری ہیں:
*زمین کے اوپر کام، زمین کے نیچے آرام
*میرے نزدیک ہر مخالفت کا جواب کام ہے-
*احساس ذمہ داری سب سے قیمتی سرمایہ ہے-
مطالعہ کا وقت نہیں: کاروبار بڑا ہے۔ دوسری مصروفیات ہیں۔ دوکان داری ہے۔ کام طویل ہوتا ہے۔ اِس لیے مطالعہ کا وقت نہیں ہے۔ وجوہات بھی درست اور مصروفیات بھی بجا؛ لیکن مطالعہ سے مکمل گریز یقیناً نقصان دہ ہے۔ اِس کے نقصانات کا اندازہ لگانا اس لیے مشکل ہے؛ کہ کبھی مطالعہ سے بے رغبتی کا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اسلامی قوانین، مسائل و عقائد سے بے خبری کے باعث انسان گمرہی و ضلالت کی وادیوں میں غرق ہو جاتا ہے، فتنوں کا شکار ہو جاتا ہے، غلط نظریات کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔ گھر میں معقول تربیت نہ ہونے کے باعث بچے بے راہ ہو جاتے ہیں۔ دین سے ناواقفیت کے سبب بچے بھی دین سے دور ہوتے ہیں۔ اچھے برے کی تمیز نہیں رکھ پاتے۔ نور و ظلمت، اُجالے و اندھیرے، خوب و ناخوب سے بے خبری نسلوں کو خراب کر دیتی ہے۔ آج بے دینی کا طوفان ایسے ہی دین سے دور نسلوں کو جکڑ رہا ہے۔
مطالعہ کی اہمیت: مطالعہ کا وقت نہیں! حالاں کہ شریعت کے احکام نہیں معلوم۔ مطالعہ کا وقت نہیں! حالاں کہ تاریخ اسلامی سے واقفیت نہیں۔ مطالعہ کا وقت نہیں! حالاں کہ پاکی و ناپاکی کے احکام سے بے خبر ہیں۔ مطالعہ کا وقت نہیں! حالاں کہ تجارت کا علم نہیں پھر بھی تجارت کر رہے ہیں، حرام و حلال کے احکام سے بے خبر ہیں۔ جب کہ علم دین کا حاصل کرنا فرض ہے۔ علم سیکھنے سے آتا ہے، کتابوں کے ذریعے اور استاذ کی درس میں بیٹھنے سے حصولِ علم ہوتا ہے۔ تجارت سے جُڑے ہیں تو تجارت کے مسائل سیکھنا فرض ہے۔ اگر مطالعہ کا معمولی وقت بھی نہیں نکال پاتے؛ تو کمانا، جینا، کھانا پینا،مر جانا کیا یہی زندگی ہے؟ نہیں بلکہ ایک مسلمان کی زندگی دین کے تابع ہوتی ہے۔ دین کا علم حاصل کیے بغیر جینا کیا جینا ہے، ترقی کیا ترقی ہے۔ کیا مال کا ذخیرہ بخشش کو کافی ہے! کیا مال ایمان کی حفاظت کر لے گا! یقیناً یہ سوچنے کا مقام ہے۔ غور کی منزل ہے۔ مطالعہ کیجیے۔ پہلے دین کا، مسائل و احکام کا۔ دین کی بنیادی باتوں کا مطالعہ کیجیے۔ کئی کتابیں مستند دینی احکام کی موجود ہیں، اردو بھی ہندی بھی اور انگریزی بھی۔ جیسے بہارِ شریعت، قانونِ شریعت، انوارِ شریعت، احکامِ شریعت وغیرہ وغیرہ۔
سیرت النبی ﷺ پر مطالعہ کے لیے مختصر اور عام فہم کتاب ’’سیرت مصطفیٰ ﷺ‘‘ از مولانا عبدالمصطفٰی اعظمی اردو، ہندی اور انگریزی میں چھپتی ہے؛ جسے عام آدمی بھی بہ آسانی پڑھ کر سیرت پاک سے آگہی حاصل کر سکتا ہے۔ وقت قیمتی نعمت ہے۔ تجارت کیجیے اور مطالعہ بھی کیجیے۔ سروس کیجیے لیکن کتابیں بھی ذوق کا حصہ بنائیے۔ ہر فیلڈ میں رہ کر کتابوں سے رشتہ استوار کیجیے۔ روز مرہ کی مصروفیات اپنی جگہ؛ دس پندرہ منٹ مطالعہ کی نذر کیجیے۔ ہر صالح عنوان اور علم پر کتابیں موجود ہیں۔ علما سے مشورہ کیجیے تا کہ کتابوں کا انتخاب آسان ہو۔
تقاریر کی اہمیت اپنی جگہ۔ لیکن سب کچھ تقریر نہیں۔ ہاں بعض محققانہ خطاب اور دین کے مطابق مواد معنویت رکھتے ہیں؛جن سے دل کی دُنیا میں انقلاب آتا ہے۔
یو ٹیوب کافی ہے؟ علم و تحقیق مسلمانوں کی فطرتِ ثانیہ ہے؛ جس سے روگردانی کے سنگین نتائج مشاہدہ کر رہے ہیں۔ علم سے رشتہ استوار کیے بنا ہم نہ تو ترقی کر سکتے ہیں نہ ہی مفلوک الحالی دور کر سکتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ دین کہ لیے ہمیں علم دین حاصل کرنا ہوگا۔ اب یہ کہنا کہ یو ٹیوب کافی ہے ہماری لاپروائی کی دلیل ہے۔ یوٹیوب اچھے برے مواد سے بھرا ہے۔ اس میں خوب و ناخوب کی نشاندہی کون کرے؟ جب علم دین سے بے بہرہ ہیں۔ مطالعہ پسند نہیں تو یوٹیوب سے کون سا دین سیکھیں گے؟ جب کہ اسی یو ٹیوب پر قادیانیت و بہائیت اور دیگر گستاخ فرقوں کی دھمک ہے، رسول اللہ اور صحابہ کے گستاخ بھی ہیں۔ جاہلانہ روایات کی کثرت بھی ہے اور یہود و نصاریٰ کی تخریب بھی۔ اگر دین کے لیے یو ٹیوب سے رجوع کیا جائے اور اسی پر بھروسہ کر لیا جائے تو گمرہی کے خدشات شدید ہیں۔
بہر کیف مطالعہ کے فروغ کے لیے ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اس کے لیے عملاً کام کریں۔ مقررین بھی اپنے مفادات سے پرے دینی فریضہ کو اہمیت دیں، عوام کو علما سے قریب کریں۔ مطالعہ کا ذوق دلائیں۔ مستند کتابوں کی نشاندہی کریں۔ ذوقِ علم بیدار کریں۔ عقائد، احادیث، فقہ، مسائل،اکابر کے تذکرے سبھی کچھ مطالعہ کیے جائیں تا کہ ایک صالح معاشرہ تشکیل پائے۔ ایمان و عقیدہ کے معاملے میں درست راہ چلیں اور ایمان کی تازگی مسلم گھرانوں میں باقی رہے؎
مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا