تحریر: مدثر احمد، شیموگہ
9986437327
ملک میں مسلمانوں کے مسائل روزبروز بڑھتے جارہے ہیں،ان حالات میں مسلمان اپنا شدید ردِ عمل ظاہر کرنے کے بجائے جس طرح سےمسائل کونظرانداز کررہے ہیں اور خاموشی اختیار کرنےکو حکمت بتا رہے ہیں وہ دراصل حکمت نہیں بلکہ بزدلی اور چاپلوسی کی نشانی ہے اور ایسی حکمت کی ماں کی۔ جو مسلمانوں کو بزدل قوم میں شمار کروارہی ہے۔تاریخ اسلام میں شایدہی کوئی ایسا دور گذرا ہے جس میں اس طرح کے بزدل ،ڈرپُک،بے شرم،بے حیا اور ناکارا لوگ پیدا ہوئے ہیں جن کا وجود ہی نہیں ہے، بلکہ عورتوں کی عزت کی طرح ان کے وقار اور عزت کا ریپ ہورہاہے۔باربار ریپ ہونے کے بعد بھی قوم کی قیادت کے دعویدار یہ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں حکمت سے کام لینا ہوگااور اپنے آپ کو نمونہ حیات بنا کر پیش کرنا ہوگا۔بھلا بتائیے کہ بار بار اپنے ضمیر اور عزت کا ریپ کروانے کے بعد بھی مسلمان کونسی حکمت کی بات کررہے ہیں۔آنکھوں کے سامنے بابری مسجدتوڑی گئی، مسلمانوں کا قتلِ عام ہورہاہے، گجرات، مظفر نگر، آسام اور کرناٹک میں مسلمانوں کی لاشیں بجھائی گئیں ،مسلمانوں کی حالت دلتوں سے بدترہے اوراس کی تصدیق بھی ہوئی۔طلاق ثلاثہ میں حکومتی مداخلت ہوئی، شادیوں کو لوجہاد کانام دیاگیا،بڑے جانوروں کے ذبیحہ پر پابندی عائد کی گئی ،اب قوم کے مالدار طبقے کے پاس سے رام مندر بنانے کیلئے پیسے وصولے جارہے ہیں ،یہ سب حرکتیں مسلمانوں کی تذلیل نہیں تو اور کیاہے؟۔ان سب کے باوجود باربار اُمت کے قائدین کو اٹھانے کی اور قیادت کی ذمہ داریوں کو نبھانے کی اپیلیں کی جارہی ہیں ،باوجود اس کے قائدین یہ کہہ رہے ہیں کہ کیا کرسکتے ہیں،لوگ سمجھ نہیں رہے ہیں یا پھرحکمتاً ایسا کرنا پڑرہاہے۔حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے مسلمانوں کو شریعت، حکمت ،شجاعت کے الگ الگ طریقے بتائے ہیں ، کہاں حکمت سے کام کرنا ہے,کہاں شجاعت سےکا م کرناہےاور کہاںشریعت سے کام کرنا ہے، اسکی مثالیں حیاتِ طیبہﷺ میں مل جاتی ہیں۔ مسلمانوں نے آزادی کے بعد سے اب تک مکی دور ختم کرلیا اور اب مدنی دورمیں زندگی گذار رہے ہیں، مسلمانوں کے پاس و ہ تمام وسائل ہیں جو مدنی دور میں تھے،یعنی کہ مال کا ذریعہ،افراد کا ذریعہ،بیرونی امداد کا ذریعہ،حاکمین کی تائید،مدنی دورکے مسلمانوں کوحاصل تھی، یہی وجہ تھی کہ مسلمانوں نے مکہ کو فتح کیا،لیکن آج کے مسلمانوں کے پاس اُس سے زیادہ وسائل کی دستیابی ہے، مسلمان اب بھی طاقتورہیں،دولت مند ہیں، عقلمندہیں ،اگر نہیں ہیں تو صرف توکل پر!۔مسلمانوں کاتوکل اللہ پر نہیں رہا،اسی لئے یہ رام مندرکی تعمیر کی تائید کر رہے ہیں ،خلاف شریعت نافذ کردہ قوانین کو قبول کررہے ہیں ،مسلمانوں کے بہتے ہوئے خون کو دیکھ کر بھی سبق حاصل نہیں کر رہے ہیں اور آخرمیں کہہ رہے ہیں کہ اللہ دیکھ رہاہے۔اللہ تو جنگ اُحد میں بھی کافروں کو دیکھ رہاتھا، جنگ خندق میں بھی دیکھ رہاتھا،بیت المقدس کے فتح پر بھی عیسائیوں اور سلطان صلاح الدین ایوبی کو دیکھ رہاتھا،محمد بن قاسم اور دشمنان اسلام کو دیکھ رہاتھا تو کیا اُس وقت کے مسلمان خاموش بیٹھے ہوئے تھے نہیں نا۔کتنے شرم کی بات ہے کہ آج مسلمان میدان جہادمیں نہ سہی ایوان اقتدارمیں آواز اٹھانے سے ڈر رہے ہیں عدالت میں اپنے انصاف کی آواز بلند کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں، کرناٹک میں ڈی جے ہلی اور کے جے ہلی کے معاملات میں بے قصور نوجوانوں کوگرفتارکیا گیا، اس گرفتاری کے خلاف کمربستہ ہونےجائے پارٹی پارٹی کا کھیل کھیل رہے ہیں اور تنظیم تنظیم کاناٹک کررہے ہیں۔بہت ہوچکااب تو حکمت کی ماں کو روند کر حقیقت کےباپ کاہاتھ تھاما جائے اور شجاعت وعمل کے ذریعے سے اپنے وجود کو بچایاجائے۔