تبصرہ نگار: وزیر احمد مصباحی، بانکا
شعبہ تحقیق: جامعہ اشرفیہ مبارک پور
حسد، تکبر اور ریا، یہ تینوں ایسی بیماریاں ہیں کہ اگر کسی انسان سے حقِ رفاقت حاصل کرنے میں ایک نے بھی اپنا راستہ صاف کر لیا تو پھر یقین مانیں کہ یہ انسانی چین و سکون غارت کرنے کے ساتھ ساتھ آدمی سے اس کی روحانی لذت و راحت بھی چھین لیتی ہے۔ قرآن کریم میں کئی ایک آیات کریمہ ان بیماریوں کی مذمت میں وارد ہوئی ہیں، احادیث مبارکہ بھی ان کی مخالفت و مذمت کرتی ہیں اور سلف صالحین کے آئینے میں دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ کئی ایک بزرگوں نے ان بیماریوں سے متعلق کتابیں تصنیف فرما کر بھی امتِ مسلمہ کی ہدایت و رہنمائی کے سلسلے میں بیداری کا علم بلند کیا ہے۔ مکاشفۃ القلوب، کشف المحجوب، جذب القلوب اور احیاء العلوم جیسی معرکۃ الآرا کتابیں حسد، بغض، تکبر اور ریا جیسے عناوین و موضوعات پر ہی مشتمل ہیں۔
پتہ نہیں میرا ایقان یہ کیوں کہتا ہے کہ دور حاضر میں یہ بیماریاں تقریباً ہر شخص پر اپنا قبضہ جما چکی ہیں۔ یقین نہ آئے تو آپ دور نہ جا کر بس اپنے گھروں اور پاس پڑوس کا ہی منصفانہ جائزہ لے لیں، حقیقت آشکارا ہوتے ہوئے لمحہ بھر بھی دیر نہیں لگے گی۔ در اصل یہ ساری بیماریاں ایسی ہیں ہی کہ مریض بروقت اسے بھانپ ہی نہیں پاتا ہے، اسے اس بات کا اندازہ ہی نہیں ہو پاتا ہے کہ وہ حسد، تکبر یا پھر ریا جیسی مہلک بیماری میں قید ہو چکا ہے۔ حالانکہ وہ اندر ہی اندر ہلاکت و تباہی کے دہانے پر جا رہا ہوتا ہے۔ یقیناً ان کی نشانیاں بڑی لطیف و باریک ہوا کرتی ہیں، حتی کہ عبادت و ریاضت میں بھی یہ بیماریاں اپنا راستہ بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔ عام اشخاص تو ان کی شناخت سے بالکل نابلد ہوتے ہیں، مگر وہ لوگ جو انسانی نفسیات کا ادراک رکھتے ہیں اور یک گونہ تجربہ کا مالک ہوتے ہیں، وہ اسے ثانیے بھر میں ہی پکڑ لیتے ہیں۔
در اصل حالیہ چند دنوں سے شیخ المسلمین سید شاہ محمد حسنین رضا قادری رحمانی[سجادہ نشین: خانقاہ رحمانیہ کیری شریف، بانکا، بہار] کی اسی نوعیت کی ایک تازہ دم کر دینے والی تصنیف لطیف "معراج القلوب” سے آنکھیں ملانے کا موقع میسر آیا ہے۔ کتاب میں حسد، تکبر اور ریا سے متعلق موجود بھیانک نتائج و انجام پڑھ کر جہاں دل کانپ اٹھتا ہے وہیں شیخ المسلمین کی شگفتہ اور سبک و شیریں نثر پڑھ کر ذوق و وجدان جھوم اٹھتے ہیں۔ کتاب میں موجود اسلوب تحریر کا حسن و جمال اور مواد و معلومات کی فراوانی یقیناً شیخ المسلمین کی وسعت مطالعہ کے غماز ہیں۔ پڑھتے وقت نہ تو صرف زبان و ادب کا لطف حاصل ہوتا ہے بلکہ متعلقہ موضوعات پر نادر و نایاب اور قیمتی باتیں قاری کو مکمل طور پر جکڑنے والی ہیں۔ یہ حقیقت دو دو چار کی طرح عیاں ہے کہ ریا، تکبر اور حسد وغیرہ پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ سلف صالحین نے ایک طرف اگر ان موضوعات پہ قلمی جولانیاں بکھیرنے کا کام کیا ہے تو وہیں دوسری جانب انھوں نے اپنے اقوال و افعال کی روشنی میں ان سے اجتناب و افتراق کی کرنیں عام کرنے کا فریضہ بھی خوب نبھایا ہے۔ مصنف موصوف نے تینوں عناوین پر جس طرح مفصل و مدلل گفتگو کی ہے وہ قاری کو اپنی تشنہ لبی کا شکوہ کرنے کے لیے کوئی بھی موقع فراہم نہیں کرتی ہے۔ کتاب کا ایک دوسرا عربی نام "معراج العبد بتزکیۃ القلب” بھی ہے، مگر قارئین کی آسانی کے لیے ” معراج القلوب” سے موسوم کیا گیا ہے۔ مجموعی طور پر زیر تبصرہ کتاب ۱۰۹/ صفحات پر مشتمل ہے۔ شروع میں فہرست کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر محمد نورالدین رضا نوری[ممبر آف: ڈی،بی،اے بھاگلپور] کی طرف سے "پیش لفظ” کی صورت میں تقریباً چار صفحات پر مشتمل ضروری اور بنیادی باتیں رقم کی گئی ہیں۔ ایک مختصر تجزیہ کی صورت میں ڈاکٹر موصوف نے جتنی باتیں بھی لکھی ہیں وہ حق بجانب ہیں۔ خصوصاً یہ اقتباس:
"موصوف نے انسانی ادراکات و نفسیات کا بالاستیعاب مطالعہ کیا اور پھر نفس کے ذریعہ ہونے والے نقصان و نفع کو قرآن شریف، سنت رسول اکرم ﷺ، سلف صالحین اور اکابرین امت کے اقوال زرّیں سے آشکارا کیا ہے۔ گویا کہ آپ کے نوک قلم سے صفحہ قرطاس پر ان مضامین کا رونما ہونا عنایت رب العالمین اور فضل رحمانی کے علاوہ کیا کہا جا سکتا ہے”۔[ص:۶]
یقیناً مصنف موصوف کی ذات گرامی یکتا، منفرد اور بافیض ہے۔ خانقاہ رحمانیہ کی بے شمار ذمہ داریوں کے علاوہ مدرسہ خانقاہ رحمانیہ کا نظم و نسق بھی آپ ہی کے ذمہ ہے، اسی طرح خانگی ذمہ داریوں کی تکمیل کے ماسوا ارشاد و تبلیغ اور بیعت و ارادت کے لیے دور دراز مقام پر بھی تشریف لے جاتے ہیں، مگر پھر بھی اپنے قیمتی اوقات میں سے چند لمحے بچا کر معراجِ روحانیت، غیبت کی تباہ کاریاں، معراج زندگی در بندگی، معراج التصوف فی الاسلام، حیات مخدوم اور صفحات توحید جیسے شہ پارے منصہ شہود پر لے آنا، آپ کی علمی لیاقت و مہارت اور قلمی شغف کو خوب اجاگر کرتا ہے۔ میں اس بات کا بخوبی اعتراف کر سکتا ہوں کہ جس طرح آپ کی زبان اصلاح معاشرہ پر قینچی کی طرح چلتی ہے، ٹھیک یہ تابانی آپ کے سیال قلم میں بھی موجود ہے۔ اصلاح معاشرہ ایک ایسا موضوع ہے جس میں آپ کی بلند ذات اس معالج کے طور پر اپنا نقش قائم کرنے میں کامیاب ہے، جو معاشرے میں ہر اس انسانی وجود پر اپنے نسخے آزمانا چاہتی ہے جن کی روحانیت ماند پڑ گئی ہو اور اس میں چمک دمک پیدا کرنے والی ساری نسیں سوکھ گئی ہوں۔ زیر تبصرہ کتاب ” معراج القلوب” اصلاح معاشرہ کے باب میں کسی رہنما سے کم درجہ نہیں رکھتی ہے۔ حسد، تکبر اور ریا جیسی غلیظ خصلتیں یقیناً کسی بھی قلب مومن سے نور سلب کر لیتی ہیں اور اسے کہیں کا نہیں چھوڑتی ہیں۔ تکبر، ہی وہ شئ ہے جس نے ابلیس کو راندۂ بارگاہ بنا دیا۔ کتاب ہذا کے مطالعہ کے بع
د یہ
بات میں وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ وہ بندہ جو مذکورہ بیماریوں میں مبتلا ہو، اگر وہ زیر تبصرہ کتاب سے اپنی آنکھ و دماغ کا رشتہ ہموار کر لے تو پھر وہ اپنے قلب پر ضرور نزول سکینہ کا احساس جمال کرتا ہوا نظر آئے گا۔
زیر نظر کتاب مطالعہ کرتے ہوئے میں اس وقت واقعی تھوڑی دیر کے لیے حیران ہو گیا جب "پیش لفظ” پڑھنے کے بعد زبان پر اپنی انگلیاں پھیرتے ہوئے خفیف سی لمس کے سہارے آئیندہ صفحہ پلٹا اور کتاب کے پہلے باب ” حسد کی بیماری اور اس کے علاج کے بیان میں” پر یکا یک آنکھیں رُک گئیں۔ عموماً یہ میری عادت رہی ہے کہ اصل مضمون مطالعہ کرنے سے قبل مصنف کی لکھی ہوئی بنیادی باتیں ضرور پڑھتا ہوں۔ مگر زیر نظر کتاب میں مصنف موصوف نے عام تصنیفی ڈھب کے برخلاف ” اپنی بات” وغیرہ کسی بھی سرخی کے تحت کوئی صفحہ مختص کرنے کی بجائے بالکل سادگی کے ساتھ صفحہ نمبر:۱۱/ پر چند سطروں کے سہارے وجۂ تصنیف بیان کرکے مقصود کی طرف بڑھ گیے ہیں۔ آپ لکھتے ہیں:
” بعدہ حمد و صلوٰۃ اس گدائے قادری کے اندروں یہ جذبہ موجزن ہوا کہ اس دور میں انسان اپنے امراض قلوب کے دفعیہ کی تدبیر کرتا ہرگز نظر نہیں آتا۔ اس لیے خیال آیا کہ امراض قلوب کا بیان اور اسی کے ہمراہ تصفیہ قلوب کے طریقہ کا انکشاف کیا جائے۔ فقط امراض کی تشخیص سے معاملہ کا حل نہیں ہوگا جب تک کہ معالج سے اس کے علاج کی طرف اپنے ذہن و فکر کو ملتفت نہ کیا جائے۔ کیوں کہ اگر دفع کی تدبیر نہ کی جائے تو امراض قلوب اپنی گرفت مضبوط کرنے لگتے ہیں اور دل فیوض رحمانی سے محروم ہونے لگتا ہے”۔ [ص:۱۱]
کتاب میں شامل موضوعات پہ مشترکہ طور پر گفتگو کرنے کی بجائے مصنف موصوف نے ہر ایک موضوع پر فرداً فرداً گفتگو کرنے کا ایسا انداز اپنایا ہے جو عقل و خرد کو خوب بھاتا ہے۔ ساتھ ہی اس روش سے جہاں قاری کو ایک موضوع پر کھل کر اس کے تمام تر نشیب و فراز سے واقف ہونے کا موقع ملتا ہے، وہیں اس کی لطیف طبیعت کو بھی کوئی زک نہیں پہنچتی بلکہ مطالعہ کا تسلسل برقرار رہتا ہے اور قاری آخر تک ملول خاطر ہوئے بغیر پڑھتا چلا جاتا ہے۔ بابِ اوّل؛ تقریباً ۴۸/ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس باب کی ابتدا امراض جسمانی و روحانی کے بیان اور ہابیل وقابیل کے واقعہ کی روشنی میں کی گئی ہے۔ حسد کے مضر نتائج سے آگاہ کرنے کے بعد بغض و کینہ، حسد، رشک اور غیرت کے درمیان بہترین تفریق کی طرف بھی نشاندہی کی گئی ہے۔ آپ لکھتے ہیں:
"حسد کا مفہوم یہ ہے کہ کسی برادر مومن کے ذمے اللہ تعالی کی نعمت دیکھ کر یہ تمنا کرنا کہ یہ نعمت عظمیٰ اس سے سلب کر کے میری جانب منقلب کر دی جائے، بغض و کینہ میں حسد کی فقط صورت اول یعنی زوال نعمت کی آرزو پائی جاتی ہے، رشک میں حسد کی نوع ثانی یعنی حصول نعمت کی تمنا ہوتی ہے، جب کہ غیرت میں حسد کی صورت اول یعنی زوال نعمت کی تمنا تو ہوتی ہے مگر؛ نیت خیر و صلاح کی ہوتی ہے۔
شرعی نقطہ نظر سے حسد و کینہ حرام ہے اور اس کا مرتکب گناہ کبیرہ کا مجرم اور توبہ لازم ہے اور اگر توبہ نہ کرے تو دخول فی النار اس کے لیے مستلزم ہے۔ جب کہ رشک و غیرت بہ اعتبار شرع مطہرہ جائز اور بعض صورت حال میں باعث ثواب بھی ہے”۔ [ملخصاً و مفہوماً، ص: ۱۸ تا ۲۰]
اس کے بعد حسد کے حرام ہونے کی وجوہات، حاسد کی علامتیں، وجوہات حسد اور علاج امراض باطنی وغیرہ پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔ کسی مرض کی تشخیص کر لینا یقیناً کمال امر ہے، مگر انتہائے کمال نہیں، ہاں! انتہائے کمال یہ ہے کہ آپ مریض کے سامنے دفع مرض کے تمام تر نسخے بھی واضح کر دیں تا کہ وہ اس پر عمل کرکے صحت یاب ہو سکے۔ اس کسوٹی پر اگر زیر نظر کتاب کو پرکھیں تو یہ واضح ہوتا نظر آئے گا کہ مصنف موصوف نے نہ یہ کہ صرف بیماریوں سے پردہ اٹھایا ہے بلکہ کمال دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سہل و سادہ انداز و بیان میں ان سے گلو خلاصی کے عمدہ اور آسان طریقے بھی ضبط تحریر کر دیا ہے۔
دوسرا باب چوں کہ تکبر اور اس سے نجات کی تدبیر کے بیان میں ہے اور یہ تقریباً ۳۰/ صفحات پر مشتمل ہے۔ قرآن و احادیث سے تکبر پر روشنی ڈالنے کے ساتھ اس کی علامتیں، اقسام، شرعی حکم اور نجات کے طریقے وغیرہ ضروری گوشوں پر بھرپور روشنی ڈالی گئی ہے۔ ص: ۷۱/ پر تکبر کی پانچویں اور چھٹی علامت کے طور پر جن چیزوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، آج وہ ہمارے معاشرے میں عام ہیں اور تقریباً ہر شخص اس میں مبتلا نظر آتا ہے۔ آپ لکھتے ہیں:
” وہ شخص جس سے ظلم و زیادتی سرزد ہو جائے اور اپنی غلطی کا اعتراف نہ کرے، زبان سے دل آزاری والے کلمات نکالے، اور کسی کی ناصحانہ گفتگو تسلیم نہ کرے، وہ متکبر ہے۔ اسی طرح وہ شخص بھی متکبرین میں سے ہے، جو ہر لمحہ اپنی غلط رائے کو بھی صحیح و درست ثابت کرنے پر آمادہ رہتا ہو”۔ [مفہوماً و ملخصاً،ص: ۷۱]
آپ مذکورہ اقتباس کی روشنی میں اس حقیقت کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آج ہم میں سے کتنے شخص اس خطرناک بیماری میں گرفتار ہیں۔ ص:۸۱/ پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی متواضع بھری زندگی کا جو خوبصورت واقعہ نقل کیا گیا ہے، وہ ہمارے لیے رہنما کی حیثیت رکھتا ہے، یقینا یہ دعوت فکر دیتا ہے اور اس بات پر آمادہ کرتا ہے کہ ہم تکبر جیسی مہلک بیماری سے بچنے کی کوشش کریں۔ تاریخ الخلفا کے حوالے سے مصنف موصوف لکھتے ہیں:
"حضرت عبد اللہ بن عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں سفر حج میں حضرت امیر المومنین کے ہمراہ تھا، جب کسی مقام پر قیام فرماتے تو آپ کے لیے کوئی خیمہ نصب نہیں کیا جاتا تھا بلکہ کسی درخت کے سائے میں کمبل یا چادر تان کر اس کے سائے میں آرام فرماتے تھے”۔
صفحہ ۸۳/ سے تیسرا باب ” ریا کی بیماری اور اس کے
علاج کی تدبی
ر میں” نمودار ہو جاتا ہے۔ یہ باب بھی تقریباً ۲۵/ صفحات پر محیط ہے۔ اس میں ” ریاے مخلوط و غیر مخلوط، ریا کی علامتیں، علاج کے طریقے، اپنی ذات میں ریا کی تلاش اور قیامت کی رسوائی” وغیرہ سرخیوں کے تحت بڑی جامع اور نفیس گفتگو کی گئی ہے۔ باب کے شروع میں ریا کے حوالے سے جن احادیث نبویہ کا انتخاب کیا گیا ہے انھیں پڑھتے ہوئے آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔ اللہ کے رسول ﷺ نے ریا کو "شرک اصغر” سے تشبیہ دی ہیں۔ ص:۹۶/ پر ریا کی شناخت کے حوالے سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی طرف منسوب تین ذکر کردہ اقوال پڑھ کر دل جھوم اٹھتا ہے اور عقل و دماغ اپنے اندر موجود ریا کے جراثیم تلاش کرنے میں سرگرداں ہو جاتے ہیں۔ مگر لگے ہاتھوں مصنف موصوف نے عقل و خرد کی رہنمائی کے لیے پے در پے ریا کے علاج کے چھ تفصیلی طریقے بیان کرنے کے ساتھ ساتھ قارئین سے اپنے ذاتی تجربات بھی شئیر کیا ہے۔ یہ باب بھی سلف و خلف کے اقوال اور نادر و نایاب باتوں سے خوب مزین ہے۔
اختتام کے قریب پہنچ کر مصنف موصوف نے اپنے قارئین سے ایک درد مندانہ عریضہ بھی پیش کیا ہے کہ: ” آپ تینوں ابواب کا بغور و فکر اور حضور قلب سے مطالعہ کرنے کی سعی جمیل کریں اور حتی المقدور اپنے اندرون وجود سے امراض باطنی حسد و بغض اور کینہ و نفرت اور ریا و نخوت اور انا و خودی اور ان اقسام کے امراض باطنی کے دفعیہ کی تدبیر کریں اور دوسروں تک میرا پیغام پہنچا کر ان کے لیے طمانیت کے اسباب کی فراہمی کریں”۔
آخر کے کچھ صفحات میں خانقاہ رحمانیہ، آستانہ مخدوم عالم پناہ اور الحسین اورینٹل لائیبریری وغیرہ کی چند دلکش تصاویر ثبت ہیں۔ یقین مانیں! مصنف موصوف نے حسد، بغض اور ریا جیسے پامال موضوعات پر اس طرح بیدار مغزی کے ساتھ قلم اٹھایا ہے کہ انھیں اپنی بے پناہ علمیت اور تحقیقی سر برآوردگی کی رفاقت میں قارئین کے لیے دلچسپ بنا دیا ہے۔ آپ کی ذہنِ رسا نے قلب مومن کو بقعہ نور بنانے کے لیے اندرون صفحات نوع بنوع علمی و فکری ہیرے کا انتخاب کیا ہے۔ سہل اردو زبان و بیان میں تحریر کردہ یہ کتاب عوام و خواص کے لیے یکساں مفید ہے۔ گنجلک و پیچیدہ عبارتوں سے دامن بچانے کے ساتھ سادگی کا رنگ و روپ سطر سطر سے نمایاں کرنے کی سعی جمیل کی گئی ہے۔ مصنف کی دیگر کاوشوں کی طرح یہ کتاب بھی ظاہر و باطن کے حسن و جمال سے آراستہ ہے۔ ٹائیٹل پیج کی خوبصورتی اول مرحلہ میں قاری کے حسن نظر کو اپنی جانب کھینچتی ہے۔ مجھے امید ہے کہ اس کا مطالعہ علم و ادب کے شائقین خصوصاً روحانی امراض میں مبتلا اشخاص کے لیے بے پناہ فائدہ مند ثابت ہوگا۔
نوٹ:- خواہش مند حضرات اس کتاب کو الرحمن اسلامک تحقیقاتی مشن، مدرسہ خانقاہ رحمانیہ، کیری شریف، بونسی بانکا، بہار سے حاصل کر سکتے ہیں۔