تحریر: محمد زاہد علی مرکزی کالپی شریف
چئیرمین: تحریک علمائے بندیل کھنڈ
رکن :روشن مستقبل دہلی
عبرت مچھلی شہری کا یہ شعر مجھے بار بار یاد آرہا ہے
سنا ہے ڈوب گئی بے حسی کے دریا میں
وہ قوم جس کو جہاں کا امیر ہونا تھا
قصبہ چنڈوت، ضلع علی گڑھ اور آسام کے” درانگ” سے کچھ مردوں نے اپنی بے بسی پر عموماً تمام مسلمانان ہند اور خصوصاً قائدین اہل سنت کے نام ایک خط لکھا ہے جو آپ کی خدمت میں من وعن پیش کیا جارہا ہے –
پیارے زندہ مسلمانو اور قائدین اہل سنت! ہمارے باطنی حالات کی تمہیں خبر نہیں اس لیے تمہاری بے حسی اور بے اعتنائی سے ہمیں کوئی شکوہ نہیں ہے، دنیا کا یہی حال ہے، ویسے تو ہم کوئی خط لکھنے کے موڈ میں نہیں تھے مگر چند باضمیر مُردوں نے غیرت دلائی اور قلم کی آبرو نیلام نہ کرنے کا دباؤ بنایا، کچھ مردوں کو تو کوئی مطلب ہی نہیں، بالکل زندوں کی طرح پیش آرہے ہیں، انھیں زیادہ جھنجھوڑنے پر جواب ملتا ہے "یہ وقت بھی گزر جائے گا” ان کے اس جملے کو سن کر محسوس ہوا کہ بعد مرنے کے بھی ابھی ان میں زندہ انسانوں کی عادات کا خمیر بدستور باقی ہے، ورنہ کون سا مردہ ہے جو اپنے اوپر ہونے والے مظالم پر خاموش بیٹھ سکتا ہے؟ سوچا تھا بعد مرنے کے انسانوں کے منھ لگنے سے چھٹکارا مل جائے گا پر ایسا نہ ہو سکا…..-
آسام میں جس طرح ایک لاٹھی لیے شخص کو پولیس نے گولی ماری اور قریب 800 لوگوں کو ٹارگیٹ کیا وہ مسلم قیادت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگی ایسا لگ رہا ہے، اس پر بھی جی نہیں بھرا تو پھر کیمرا مین نے جس طرح آخری سانسیں لے رہے شخص کی چھاتی پر کود کر اپنا شوق پورا کیا وہ ہم مردوں کو سوچ میں ڈال رہا ہے کہ کیا وہ زندہ انسانوں سے کسی ہمدردی یا خیر کی توقع کریں یا پھر ان زندہ لوگوں کے مردہ دل ضمیروں پر مرثیہ پڑھ کر یوم آخرت کا انتظار کریں!!!
__ سارے مردوں نے اپنی گردن زندوں کے ہاتھ میں دینے سے ایسے بچالی کہ ہمیں کچھ آتا ہی نہیں ہے، ہم نے قلم پکڑا ہی کب تھا، اسکول کا منھ نہیں دیکھا تو ہمارے لیے "کالا اکچھر(لفظ) بھینس برابر” ہی ٹھہرا، اب لے دے کر ایک پڑھا لکھا مردہ بچا تھا سو خواہی نخواہی اسے "اوکھلی میں سر دینا پڑا ” یہ اور بات ہے کہ زندہ لوگ مردوں کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے لیکن بیٹھے بٹھائے کسی کو دشمن بنانا بھی تو دانشمندی نہیں ہے –
خیر! مطلب کی بات کرتے ہیں….. ساری مردہ برادری کی جانب سے عرض ہے کہ آپ لوگوں کی خاموشی ہم مردوں کا نام خراب کر رہی ہے، ہم مردہ ہو کر تو بولتے ہیں لیکن آپ زندہ ہوکر چپ رہتے ہیں، جب کوئی کسی کو برا کہتا ہے تو یہی کہتا ہے کہ تم تو بالکل مردہ ہو، تم میں کوئ حس نہیں،لیکن معاملہ بر عکس ہے، مردہ برادری اس پر سراپا احتجاج ہے کہ ہماری جائدادیں کھا رہے ہو، ہمیں بدنام کر رہے ہو اور ہمارے لیے ہی زبان پر تالے لگے ہوے ہیں، افسوس اس بات کا بھی ہے کہ تمہیں ہماری قبروں پر چلتے بلڈوزر اور ہماری ہڈیوں کا چُورہ کرتے لوہے کے برمے(جن سے پلر کھودتے ہیں) اور مَنوں سیمینٹ، گٹی ،ریت کا ہماری قبروں پر انڈیلا جانا بھی نہیں کھٹکتا – اور لاشوں پر اچھلتے کودتے لوگ بھی نہیں دکھتے ،بعد موت بھلائی کا بھروسا دے کر زندگی کی ساری جمع پونجی لے جانے والے ہمارے مذہبی قائدین کہاں ہیں؟
ع تم مسلماں ہو یہ انداز مسلمانی ہے؟
…….. آج ہماری قبروں پر ” رام لیلا میدان” بنایا جارہا ہے، ابھی تک ہم پانچ وقت مسجد کی اذان سنتے تھے اور اللہ کی رحمتوں سے مالا مال ہوتے تھے، اب دکھ اسی بات کا ہے کہ اب مسجد سے اذان نماز کا سلسلہ دھیرے دھیرے موقوف ہوجائے گا، اگر اذان، نماز نہ ہوتی تو نعمت سے ہی محروی تھی، لیکن اب یہاں جو بھجن اور غیر اللہ کی تعریفیں ہونگی تو ایسی جگہوں پر اللہ کا عذاب ہی اترا کرے گا –
اے مسلمانو!
ہماری قبریں صاف دکھ رہی ہیں اور انھیں زمیں دوز کیا جارہا ہے یہ بھی کسی سے چھپا نہیں، کتنے تعجب کی بات ہے کے اپنے مردہ معتقدین کی کسی قائد، رہبر کو پرواہ نہیں ہے، نہ کوئی گروپ ان پر اپنا ہونے کا ٹھپہ لگا رہا ہے ، ہم زندگی بھر میرا قائد میرا قائد ، کا نعرہ بلند کرتے رہے اور آج ہماری بے بسی پر تم آہ بھی نہیں کرتے!!!!! ہم جیسے اندھے معتقدین کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہیے،شاید یہی ہماری سزا ہے، ہو سکتا ہے کہ محترم قائدین ہم مردہ معتقدین سے یہ بدلہ لینے کی کوشش کر رہے ہوں کہ تم ہمارے آباؤ اجداد کے ہاتھوں پر ہاتھ کیوں دیے ؟ اگر آج ہوتے اور ہمارے اکاؤنٹ میں اضافہ کیا ہوتا تو ہم کچھ سوچتے، اب بُھگتو!
بھئی اب ہم کسی کو نذرانہ دینے لائق تو بچے نہیں کہ کوئی ہماری فکر کرے، پھر ہم ٹھہرے مردہ! اب ہمارے لیے کچھ کرنے کا مطلب نہیں کیونکہ ہم آپ کو سیدھا فائدہ پہنچانے سے رہے – معتقد سادہ ہی ہوتا ہے خواہ مردہ ہو یا زندہ! یہی وجہ ہے کہ وہ زندگی میں بھی آنسو بہاتا ہے اور مرنے کے بعد بھی اپنے مزار کا بجھتا ہوا چراغ ہی ہوتا ہے – غم اس بات کا بھی ہے کہ ہمارے بچے جو کبھی بھولے بھٹکے کچھ ایصال ثواب کردیتے تھے، چند سالوں بعد وہ بھی نہ ہو سکے گا، ہمارے بچوں کی اولادیں کبھی منوں مٹی تلے دبے اپنے نانا، نانی دادا، دادی، پھوپھی وغیرہ کی قبروں پر آکر اپنی توتلی زبانوں سے رب کا نام لیتے، ہمارے ارد گرد دوڑتے پھرتے تھے اور اللہ سے ہماری مغفرت چاہتے تھے اب وہ سلسلہ بھی بند ہوجائے گا!!!
ہمارا حال تو اب یہ ہے کہ
کتنا ہے بد نصیب ظفر دفن کے لیے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں
ہمیں جو تصوف بتایا جاتا تھا وہ کچھ اور ہوتا تھا اور جو یہ خود اپناتے ہیں وہ کچھ اور ہے –
ساری دنیا کو تصوف اور قناعت کا درس دینے والے خود ہی لاکھوں کی گاڑیوں اور جنت نما محلوں میں عیش کر رہے ہیں، انکے مردے محفوظ ہیں انھیں غریب مردوں سے کیا غرض؟
یہ مسائل تصوف یہ تیرا گمان چاچا
مصنوعی قائدین
ہمارے فاتح یوروپ، فاتح افریقہ، شیر بنگال، شیر ہند، ببر شیر مہاراشٹر، قاضی فلاں، محافظ فلاں، شان ملت، جان ملت پیکر رشد و ہدایت………. سارے کہاں ہیں؟
تم سبھی کچھ ہو یہ بتاؤ کہ مسلمان بھی ہو؟
یہ کیسا تصوف اور کیسے مسائل تصوف ہیں جہاں نذرانہ لینا تو سنت دکھتا ہے لیکن سرکار اقدس علیہ السلام کا 27 غزوات میں بنفس نفیس شریک ہونا نہیں دکھتا!!!
سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی تین درہم سے زیادہ نہ رکھے، جو آتا سب غریبوں میں بانٹ دیتے یہ ان متصوفین کو کیوں نہیں دکھتا؟؟؟
اسلام کی تبلیغ کے لیے سارے عرب سے تنہا لڑ جانا نہیں دکھتا!!!!
یہ کیسا تصوف ہے جس میں میٹھا ہپ ہپ، کڑوا کڑوا تھو تھو کا درس دیا جاتا ہے!!!!
یہ کیسا تصوف ہے جس میں مسلمان کی جیب سے سب کچھ لینے کی ترکیبیں تو بنائی جاتی ہیں لیکن اسلام اور مسلمانوں پر ہوتے مظالم پر صم، بكم، عمی کی پالیسی اپنائی جاتی ہے!!!
مسجدوں، قبروں کی فکر کرنے سے کیا ہوگا صاحب! ابھی اپنے ممدوح کی عزت پہ تو بات ہو جائے، نہ پارلیمنٹ میں اسلام مخالف بل کی کسی کو پرواہ ہے اور نہ روزانہ بھیڑ بکریوں کی طرح قتل ہو تے مسلمانوں کی فکر ہے، جب تمہیں اپنے زندوں کی فکر نہیں تو اپنے مردوں کی فکر کیا ہوگی، لیکن پھر بھی امید پر دنیا قائم ہے اس لیے "قصہ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم” –
ہمیں امید ہے کہ زندہ کہلانے والے لوگ مندرجہ ذیل شعر کے برعکس اپنے آپ کو پیش کرنے کی کوشش کریں گے –
بے حسی شرط ہے جینے کے لیے
اور ہم کو احساس کی بیماری ہے
نوٹ :صوفیا نہیں، متصوفیین مراد ہیں، لہذا بے جا انرجی ضائع مت کریں۔