گذشتہ شام ممبئی کے باندرہ علاقے میں قدآور مسلم نیتاضیاء الدین عرف بابا صدیقی کو گولی مار کر قتل کردیا گیا، واردات کے بعد سے ہی ممبئی میں دہشت کا ماحول بن گیا ہے۔ مہاراشٹرا سمبلی انتخابات سر پر ہیں ایسے میں یوں سر عام ایک قدآور نیتا کا گولی مار کر قتل کردینا بہت بڑے سیاسی بھوچال کی نشانی مانی جارہی ہے۔
بابا صدیقی سے قبل اترپردیش کے الہ آباد(پریاگ راج) میں پولیس تحویل میں ہی دو بڑے نیتا عتیق احمد اور ان کے بھائی اشرف احمد کا بھی سر عام گولی مار کر قتل کردیا گیا تھا۔ علاوہ ازیں یوپی کے ہی مؤ ضلع کے معروف نیتا مختار انصاری کو جیل ہی میں (ان کے بیٹے عمرانصاری کے دعویٰ کے مطابق) زہر دے کر مار دیا گیا۔
ان تینوں معاملات کو بغور دیکھا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کس طرح مسلمانوں کے خلاف باقاعدہ پروپیگنڈہ رچا جارہا ہے اور آئے دن نفرتی بیان بازیوں کا بازار گرم کرکے ملک کے اکثریتی طبقے کو مسلمانوں کو خلاف اکسایا جارہا ہے تاکہ اپنی سیاسی روٹی سینکی جاسکے اور ”پھوٹ ڈالو، راج کرو“ کی ذلیل و غلیظ داؤپیچ اپنا کر ملک پر راج کیا جا سکے۔
آئیے قتل کے ان تین واردات پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔۔۔
(۱) بابا صدیقی: مہاراشٹرا کی سیاست میں ایک نمایاں مقام رکھنے کے ساتھ فلمی دنیا کے چھوٹے بڑے سبھی اداکاروں کے ساتھ گہرے مراسم رکھتے تھے، ان کے ذریعہ منعقد کی جانے والی افطار پارٹی نہ صرف ممبئی بلکہ ملک بھر میں اپنی نوعیت کی منفرد تقریب مانی جاتی تھی، ملک کے بڑے سے بڑے سیاسی نیتا اور فلمی دنیاپر راج کرنے والے اداکار اس تقریب میں شرکت کرنے کو اپنے لیے باعث فخر تصور کرتے تھے۔ سیاسی دنیا میں انھوں نے 1977میں قدم رکھا اور نیشنل یونین آف انڈیا(ممبئی) کے رکن بنے، پھر باندرہ سے کانگریس یوتھ کے جنرل سکریٹری بنائے گئے، کچھ سالوں بعد ممبئی میونسپل کارپوریشن (نگر نیگم) کا الیکشن جیت کر دس سالوں تک میونسپل کاؤنسلر بنے رہے۔ اس کے بعد 1999 سے 2014 تک مسلسل تین بار ایم۔ایل۔اے۔ بنے اس دوران سابق وزیر اعلیٰ ولاش راؤ دیشمکھ کے کابینہ میں وزیر صحت وغیرہ بنائے گئے۔
گزشتہ شام ان کے بیٹے ذیشان صدیقی (جو کہ موجودہ ایم۔ایل۔اے۔ ہیں) کے دفتر کے باہر ہی باندہ ایسٹ جیسے علاقے تین یا چار حملہ آوروں نے ان پر گولی چلا دی، پیٹ وغیرہ میں گولی لگی فوراً ہسپتال لے جایا گیا مگر راستے ہی میں انھوں نے دم توڑ دیا، حملہ آوروں میں سے دو حملہ آور موقع پر ہی پکڑ لیئے گئے، پولیس نے پوچھ تاچھ کرنے کے بعد ملک کے نامی دہشت گرد لارینس بشنوئی گینگ کے ملوث ہونے کی تصدیق کی۔
اب ذرا غور کریں کہ کیا یہ واردات اس نفرتی پروپیگنڈہ کا نتیجہ نہیں ہے جو دن و رات ملک میں پھیلایا جارہا ہے؟ ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ جس علاقے میں ہمیشہ چہل پہل رہتی ہو اور جہاں ہر وقت پولیس والے موجود رہتے ہوں وہاں سرعام وہ بھی اتنے بڑے سیاسی لیڈر اور سماج میں اثر و رسوخ اور صاف و شفاف تصویر رکھنے والے انسان کو گولی مار دی جائے۔ اس معاملہ کسی بڑی سیاسی سازش کے ساتھ مسلمانوں کے تئیں نفرتی ذہن سازی کی اثر آفرینی بھی ضرور شامل ہے۔
(۲) عتیق و اشرف: عتیق احمد اترپردیش کے الہ آباد(موجودہ پریاگ راج) اسمبلی حلقہ سے (1989 سے 2004 تک) مسلسل پانچ بار ایم۔ایل۔اے۔ رہے تھے اور پھول پور پارلیمانی علاقہ سے ایک بار(2004 میں) ایم۔پی۔ بھی بنے۔ شروعات میں تو وہ آزادانہ طور پر الیکشن جیتتے رہے پھر انھوں نے سماجوادی پارٹی اور اپنا دل وغیرہ جوائن کرلیا۔ اس دوران ان پر کچھ جرائم میں شمولیت کے الزامات لگے اور وہ جیل میں ڈال دیئے گئے۔
گزشتہ سال اپریل کے وسط میں عدالت نے عتیق اور ان کے بھائی اشرف دونوں کا میڈیکل چیک اپ کرانے کا حکم دیا، پولیس اہلکاروں اپنی تحویل میں انھیں ہسپتال لے گئے، اس دوران میڈیاصحافی ان سے سوالات کرنے لگے ابھی وہ جواب دے ہی رہے تھے کہ انھیں صحافیوں میں سے تین لوگوں نے ان کے سروں پر گولی مار دی جس سے جائے واردات پر ہی ان دونوں کی موت ہوگئی، آزاد بھارت میں یہ شاید پہلا موقع تھا جب کسی کے گولی مارے جانے کا منظر میڈیا چینلوں پر لائیو ٹیلی کاسٹ ہوا۔ تینوں حملہ آوروں نے (جوکہ میڈیا صحافی بن کر آئے تھے) بالکل بھی بھاگنے کی کوشش نہیں کی اور ”جئے شری رام“ کا نعرہ لگا کر خود کو پولیس کے حوالے کردیا۔
اب ذرا غور کریں کہ چاروں طرف پولیس والے موجود ہوں، میڈیا والے انٹریو کو اپنے چینلوں پر براہ راست(لائیو) دکھا رہے ہوں ایسے میں کون یہ جرأت کرے گا کہ کسی کو گولی مار دے مگر حملہ آور تو مسلمانوں سے نفرت کے نشے میں شرابور تھے، کہ اپنا مذہبی نعرہ لگاتے ہوئے اور شان دکھاتے ہوئے خود کو پولیس کے حوالے کیا جیسے انھوں نے کوئی جرم نہ کیا ہو بلکہ کوئی بہت بڑی جنگ جیت لی ہو۔ کیا یہ اسی ذہن سازی کا نتیجہ نہیں تھا جو نام نہاد فرقہ پرست تنظیمیں اور مفاد پرست سیاسی لیڈران آئے دن کرہے ہیں کہ مسلمانوں کو ستانا ہی سب سے بڑا دھرم کا کام ہے۔
(۳) مختار انصاری: یوپی کے پروانچل علاقے میں انصاری خاندان کو کون نہیں جانتا ہے؟ مختار انصاری اسی خاندان سے تعلق رکھنے والے عظیم مسلم نیتا تھے۔ ان علاقوں میں انھیں غریبوں کا مسیحا تصور کیا جاتا تھا۔ مختار انصاری نے سن 1996 میں سیاست میں قدم رکھا،سن 1996 میں پہلی مرتبہ مؤ اسمبلی حلقہ سے الیکشن جیت کر ایم۔ایل۔اے۔ بنے اور سن 2022 تک مسلسل پانچ بار ایم۔ایل۔اے۔ بنے۔ سن 2022 میں انھوں نے اسی مؤ اسمبلی حلقہ سے اپنے بیٹے عباس انصاری کو میدان سیاست میں اتارا اور عباس پہلی بار ایم۔ایل۔اے۔ بنے اور ابھی تک ہیں۔ مختار انصاری کے بڑے بھائی افضال انصاری بھی مسلسل پانچ بار محمدآباد اسمبلی حلقہ سے ایم۔ایل۔اے۔ رہ چکے ہیں اور غازی پور پارلیمانی حلقہ سے فی الحال تیسری بار ایم۔پی۔ بنے ہیں۔ دوسرے بھائی صبغت اللہ انصاری بھی محمدآباد اسمبلی حلقہ سے دو بار ایم۔ایل۔اے۔ بنے پھر اپنے بیٹے صہیب انصاری کو اپنی وراثت سونپ دی چنانچہ سن 2022 سے اب تک صہیب انصاری محمدآباد اسمبلی حلقہ سے ایم۔ایل۔اے۔ ہیں۔ یہی نہیں دو مرتبہ بھارت کے نائب صدر جمہوریہ رہ چکے جناب حامد علی انصاری ان کے چچا ہیں اور ان کے دادا (مرحوم مختاراحمد انصاری) ملک کے پہلے وزیر اعظم جناب جواہر لال نہرو کے والد موتی لال نہرو سے بھی پہلے کانگریس کے صدر بنائے گئے تھے۔ غرض کہ انصاری خاندان آزادی کے پہلے سے لے کر اب تک مسلسل سیاست کے میدان میں جما رہا ہے اور ایسے خاندان کے فرد مختار انصاری کو اسلحہ کے فرضی لائسنس رکھنے کے الزام میں جیل میں ڈال دیا گیا۔
امسال مارچ کے وسط میں بارہ بنکی کی ایک عدالت میں مختار انصاری نے جیل سلو پوائزن (سست زہر) دیئے جانے کا دعویٰ کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ ان کے اعصاب و اعضا میں مسلسل درد ہوتا ہے جس کی وجہ کوئی زہریلا مادہ ہے جو میرے کھانے میں ملاد کردیا جاتا ہے۔ مختار انصاری کے اس دعویٰ کی تفتیش میں حکومت نے تین رکنی مجسٹریل تحقیقات کی کمیٹی تو بنا دی مگر کوئی ٹھوس تحقیقات عمل میں نہ آئی اور دس روز کے بعد رمضان کے مہینے میں مختار انصاری کی موت ہوگئی۔ دہلی ایمس کے ڈاکٹروں نے موت کی وجہ دل کا دورہ پڑنا(ہارٹ اٹیک) بتایا۔
اس معاملہ میں بھی غور کرنے پر یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ کیا یہ کوئی سازش نہیں تھی؟ ورنہ کیسے کوئی شخص اپنی موت کے محض چند ہی روز قبل سلو پوائزن یعنی آہستہ آہستہ اثر کرنے والے زہر دیئے جانے کا دعویٰ کرتا؟
دوسری طرف اعظم خان جیسے عظیم سیاسی رہنما، مولانا قمر غنی عثمانی اور مفتی سلمان ازہری جیسے بلند پایہ عالم دین اور شرجیل و خالد جیسے بے شمار مسلم نوجوانوں کو بے جرم و خطا جیلوں میں ڈالا جا چکا ہے نیز سن 2022 کے یوپی اسمبلی انتخابات میں حصہ لینے پر ملک کے ایک اور قدآور و بے باک مسلم لیڈر جناب اسدالدین اویسی صاحب(جنھیں سانسد رتن ایوارڈ تک مل چکا ہے) پر بھی نام نہاد فرقہ پرست تنظیم کے کارکنان کے ذریعہ جان لیوا حملہ کیا جا چکا ہے مگر خدا کا شکر ہے کہ وہ بچ گئے۔
ان تمام معاملات پر بنظر عمیق غور کیا جائے تو لگتا ہے کہ پوری منصوبہ بندی کے تحت یہ سارے کام ہورہے ہیں تاکہ مسلمانوں کی آواز بلند کرنے والا نہ کوئی طاقت ور سیاسی رہنما رہے، نہ کوئی عالم دین، نہ کوئی ابھرتا ہوا مستقبل(نوجوان) اور نہ ہی کوئی تنظیم، جس کے بعد تو مسلمانوں کو غلام بنانا آسان ہو ہی جائے گا۔
یہ وہ خدشات ہیں جن کا اظہار آج اس لیے کرنا پڑ رہا ہے کیوں کہ باقی دیگر (مقتولین) لیڈران پر تو الزامات بھی لگے تھے مگر بابا صدیقی کسی بھی طرح کے مجرمانہ الزامات سے بری تھے اور تمام افراد میں یکساں مقبول بھی تھے۔ پھر ایسے شخص کا یوں سرعام قتل کیا جانا اسی بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔
تحریر: محمد شعیب رضا نظامی فیضی
چیف ایڈیٹر: ہماری آواز، گولا بازار ضلع گورکھ پور
9792125987