ملک کے ناگفتہ بہ حالات کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں؛ آئے دن روزانہ کہیں نہ کہیں سے فساد کے معاملات سامنے آرہے ہیں۔ حکومت کی کیا پالیسی ہے وہ جگ ظاہر ہورہی ہے گذشتہ دنوں ایک بددہن پنڈت نے امن و سلامتی کے رہبر و رہنما پیغمبر آخرالزماں ﷺ کی شان میں شدید ترین گستاخی کرتے ہوئے آپ کا پتلا جلانے کا اعلان کیا جس کے بعد مسلمانوں نے اس کی گرفتاری کی مانگ شروع کردی مگر انتظامیہ اور حکومت اپنی اسی دوہری پالیسی کے مطابق سکوت اختیار کیئے ہوئے ہے بلکہ غازی آباد کے ڈاسنہ علاقے سے 6 اور سہارنپور سے 18 مسلم نوجوانوں کو صرف اس لیے گرفتار کر سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا کہ انھوں نے اس ملعون کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی۔ وہیں دوسری طرف وہی یوگی حکومت سن ۵۱۰۲ء میں کان پور میں ہوئے ہندو مسلم فساد جس میں ہندو فریق کے ۱۳/ لوگوں کے خلاف فوج داری کا مقدمہ چل رہا تھا ان سے مقدمہ واپس لے لیا۔
اب آپ ذرا غور کریں کہ کیا یہ رویہ یوگی حکومت کی مسلم دشمنی کا اعلان نہیں کرتا ہے؟ کیا ایک جمہوری ملک میں کسی مخصوص طبقے کے ساتھ یہ ناروا سلوک ملک کے امن و اتحاد کا شیرازہ بکھیرنے والا عمل نہیں؟ اب آئیے ذرا ملک کے ایک دوسرے کونے میں چلتے ہیں صوبہ کا نام ہے تری پورہ۔ یہ وہی تری پورہ ہے جہاں دو ڈھائی سال قبل انسانیت کا ننگا ناچ کھیلا گیا تھا، درجنوں مسجدوں کو نذر آتش کیا گیا تھا نہ جانے کتنے مسلمانوں کے آشیانوں کو اجاڑ پھینکا گیا تھا۔ آج پھر سے اسی تری پورہ کے حالات بدتر ہوئے جارہے ہیں جہاں کچھ شرپسندوں نے پہلے مسلمانوں سے درگا پوجا کے لیئے چندہ مانگا اور جب مسلمانوں نے انکار کیا تو وہ آگ بگولہ ہوگئے اور ایک مسجد میں گھس کر نہ صرف توڑ پھوڑ کی بلکہ مقدس قرآن کو جلا ڈالا۔ جس کے بعد وہاں کرفیو نافذ ہے۔ وہاں بھی ڈبل انجن کی سرکار ہے اور وہاں بھی مسلم اقلیت کے ساتھ ناروا سلوک ماضی کی طرح اب بھی جاری ہے۔
ان سارے واقعات کے پیش نظریہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے ہمارے ملک میں جمہوریت کاغذ کے اوراق کا حصہ بن کر رہ گئی ہے فقط، ورنہ تو مسلمانوں کے خلاف ہر کوئی چراغ پا ہے اور مسلمانوں کو ان مظالم کی مخالفت کا بھی حق نہیں رہا۔ ؏
اپنی بربادی کا چپ چاپ تماشہ دیکھو
سانس بھی لوگے تو غدار کہا جائے گا
تحریر: محمد شعیب رضا نظامی فیضی
استاذ: جامعہ رضویہ اہلسنت، گولا بازار ضلع گورکھ پور
9792125987