ملک فارس کے شمالی حصے میں بحیرہ خزر کے جنوبی ساحل سے ملا ہوا شہر گیلان کا چھوٹا سا مگر زرخیز صوبہ آباد ہے. اس صوبے کے ایک گاؤں میں سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی بغدادی رضی اللہ تعالی عنہ 470 ہجری میں پیدا ہوئے. آپ ثابت النسب سید ہیں اپنے والد ماجد کی طرف سے حسنی اور والدہ ماجدہ کی طرف سے حسینی ہے .آپ کے والد بزرگوار حضرت سیدنا ابو صالح موسی جنگی دوست رضی اللہ تعالی عنہ کا شمار اللہ تبارک و تعالی کے محبوب بندوں میں ہوتا ہے. وہ خود اللہ تبارک و تعالی کی بارگاہ اقدس میں بہت ہی زیادہ محبوب تھے آپ کی والدہ ماجدہ بھی ولیہ و زاہدہ تھی: اور آپ کے نانا جان حضرت عبداللہ صومعی رضی اللہ تعالی عنہ بڑے زاہد و مستجاب الدعواۃ ولی تھے: حضرت غوث پاک رضی اللہ تعالی عنہ نے تصوف کے گہوارے میں پرورش پائی تھی. ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ولادت کے تھوڑے عرصہ بعد آپ کے والد بزرگوار انتقال فرما گئے تھے اس لیے آپ کی کفالت کی عظیم ذمہ داری آپ کے نانا جان حضرت عبداللہ صومعی رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی کنارے عاطفت میں لے لیا تھا. غرض 18 برس کی عمر تک آپ شہر جیلان ہی میں رہے پھر اپنے قدوم میمنت لزوم سے بغداد کو شرف بخشا حضرت ابو عبداللہ محمد بن قائدانی کا قول ہے وہ بیان فرماتے ہیں کہ میں حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ کی بارگاہ بابرکت میں حاضر خدمت تھا ایک شخص نے آپ کی بارگاہ میں عرض کیا یا غوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ آپ نے اپنے امر کی بنیاد کس چیز پر رکھی ہے ؟آپ نے فرمایا سچ پر. میں نے اپنی زندگی میں کبھی جھوٹ اور کذب بیانی نہیں کی ہے .ایک مرتبہ ایک زمیندار کے بیل کے پیچھے ہو لیا تو اس نے کہا اے عبدالقادر جیلانی تمہیں اس کام کے لیے پیدا نہیں کیا گیا ہے سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ ارشاد فرماتے ہیں اس کے بعد اپنی والدہ بزرگوار کی بارگاہ میں حاضر خدمت ہوا اور اس واقعے کا تذکرہ کیا اور یہ منشاء بھی ظاہر کی اے امی جان میں اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لیے بغداد شریف جانے کی اجازت طلب کرتا ہوں تو اس وقت ماں نے 40 اشرفی مجھے عطا فرمای .آپ رضی اللہ تعالی عنہ ارشاد فرماتے ہیں ماں نے مجھے وصیت فرمائی کہ بیٹا کسی بھی حالت و کیفیت میں جھوٹ مت بولنا. چنانچہ جب یہ قافلہ جنگلات میں پہنچا تو رہزنوں کا ایک گروہ اس پر حملہ آور ہو گیا اور اس نے قافلے کا سارا ساز و سامان لوٹ لیا اورایک رہزن میرے پاس بھی آیا مجھ سے سوال کیا کہ کیا تمہارے پاس بھی کچھ ہے تو میں نے جواب دیا ہاں میرے پاس بھی 40 اشرفیاں ہیں اس طرح ایک باں دیگرے رہزن آتے رہے اور اس کے بعد آخر میں مجھ کو رہزنوں کے سردار کے پاس حاضر کیا گیا اس نے بھی یہی سوال کیا تو میں نے وہی جواب دیا ڈاکوؤں کے سردار نے برجستہ کہا وہ حسن و جمال کے ننھے بچے اگر تو چاہتا تو ایک جھوٹ بول کر اپنے مال اور جان کی حفاظت کر لیتا مگر تو نے اس راز کو ظاہر کیوں کیا تو آپ نے سنجیدگی سے جواب دیا کہ میں نے ماں سے واعدہ کیا تھا کہ میں جھوٹ نہیں بولوں گا سو اسی وقت اللہ کے فضل و کرم سے ڈاکوؤں کے سردار نے تمام گناہوں سے توبہ فرمایا .اور اس کے ساتھ ساتھ تمام ساتھیوں نے بھی توبہ فرمایا. اور آپ رضی اللہ تعالی عنہ ارشاد فرماتے ہیں یہ سب سے پہلے لوگ ہیں جنہوں نے میرے ہاتھ پر توبہ فرمائی حضور غوث پاک سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ کے کمالات کا اندازہ انہی مشائخ کرام کے اقوال سے ہو سکتا ہے جو بحر عرفہ کے شناور ہیں حضرت تاج العارفین ابو محمد کا کیس رحمہ اللہ ایک روز وعظ فرما رہے تھے اتنے میں سیدنا عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ آپ کی مجلس نور میں حاضر ہوئے تو آپ نے انہیں باہر نکالنے کا حکم صادر فرمایا. بعدہ پھر غوث پاک رضی اللہ تعالی عنہ مجلس نور میں حاضر ہوئے تو تاج العارفین غوث اعظم کی پیشانی مبارک کو بوسہ دیتے ہیں اور ارشاد فرماتے ہیں اے لوگوں عبدالقادر کو مجلس سے باہر کرنا ان کی اہانت کے لیے نہیں تھا بلکہ اس لیے تھا کہ تم سب لوگ انہیں شناخت کر لو تاج العارفین ارشاد فرماتے ہیں محبوب حقیقی کی عزت کی قسم اس کے سر پر جھنڈے ہیں جو مشرق و مغرب سے تجاوز کر گئے ہیں پھر آپ نے فرمایا عبدالقادر اب ہمارا وقت ہے یہ عنقریب تمہارا ہو جائے گا اے عبدالقادر ہر مرغ بانگ دیتا ہے پھر چپ ہو جاتا ہے مگر تیرا مرغ تا قیامت بانگ دیتا رہے گا اسی پر سرکار اعلی حضرت مجدد دین و ملت عاشق غوث اعظم ارشاد فرماتے ہیں جو ولی قبل تھے یا بعد ہوئے یا ہوں گے سب ادب رکھتے ہیں دل میں میرے اقا تیرا اسی لیے تمام عاشقان غوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کو چاہیے کہ جہاں اگیارویں شریف کے پربہار موقع پر فاتحہ تو شہ غوثیہ کا اہتمام کرتے ہںں. وہیں پر یہ بھی دل کے اندر عزم مصمم کر لے.کہ ہم سرکار غوث اعظم کی تعلیمات و ارشادات پر عمل پیرا ہوں گے اور ان کے قول و فعل کے خوگر ہو کر رہیں گے اگرچہ سرکار غوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے تقوی و طہارت کے سمندر کو ھم حاصل نہیں کر سکتے .لیکن اگر اس سمندر سے ایک قطرہ بھی حاصل ہو گیا تو یہی ہمارے لۓ آخرت میں نجات کا ذریعہ اور بخشش کا پروانہ بن جائے گا۔
تحریر: صدام حسین امجدی
مقیم حال: دارالعرفان اسلامک اکڈمی کرلا