زبان و ادب

اردو زبان کےتشکیلی عہد میں رفاعی سلسلہ کی لسانی خدمات

اردو زبان کے تشکیلی عہد میں صوفیاء کی جو لسانی خدمات رہی ہیں ، اس سے ہرگز انکار نہیں کیا جا سکتا ، صوفیاء کی جو لسانی خدمات ہیں اس نے اردو کو ہندوستان میں بحیثیت زبان اس ملک کے کونے کونے تک پھیلایا اور عوام کو اس زبان سے اتنا قریب کر دیا کہ یہ ایک بولی سے زبان کی صورت اختیار کرتی چلی گئی ، چنانچہ جب مسلم درویش ہندوستان کے ان علاقوں میں پہنچے جہاں لوگ اسلام کے نام سے بھی واقف نہیں تھے ، ان درویشوں نے تعلیم و تلقین کا سلسلہ شروع کیا ، تو عوامی بولی بھی اختیار کرنی پڑی ، درویشان ہند نے اپنے باطن کی روشنی کو عوام الناس تک پہنچانے کے لئے اردو الفاظ کا سہارا لیا اور قربت و اپنائیت کا جذبہ پیدا کیا ، سلسلہ چشتیہ کے پیشوا خواجہ معین الدین چشتی نے ملتان میں قیام کے دوران مقامی زبان میں مہارت حاصل کی ، وہ رشد و ہدایت کا درس مقامی ہندوی زبان میں دیتے تھے ۔

اردو زبان کےتشکیلی عہد میں صوفیاء کی اہم اور قابل ذکر لسانی خدمات رہی ہیں – اس ضمن میں جن صوفیاء کو سب سے زیادہ اعتبار حاصل ہے ان میں خواجہ بندہ نواز گیسو دراز (متوفی 1422 ) شیخ عبدالقدوس گنگوہی (متوفی 1538ء) شیخ برہان الدین جانم (متوفی 1582ء) شیخ خوب محمد چشتی (متوفی 1614ء) عبدالرحیم خان خاناں (متوفی 1626ء ) بلھے شاہ (متوفی1787ء) وارث علی شاہ (متوفی 1905ء) وغیرہ شامل ہیں۔ ان تمام صوفیاء کی جو لسانی خدمات ہیں اس نے اردو کو ہندوستان میں بحیثیت زبان اس ملک کے کونے کونے تک پھیلا یا اور عوام کو اس زبان سے اتنا قریب کر دیا کہ یہ ایک بولی سے زبان کی صورت اختیار کرتی چلی گئی ۔

اس طرح صوفیاء کرام نے اردو کی ابتدائی نشو و نما میں جو خدمات انجام دی ہیں ، مولوی عبد الحق نے اس کتاب میں انھی صوفیاء کا تذکرہ بڑی تحقیقی کے ساتھ کیا ہے ، اس کے لئے مولوی صاحب نے خواجہ معین الدین چشتی سے لیکر بابا شاہ حسینی معروف بہ پیر بادشاہ کی ادبی خدمات تک کا جائزہ لیا ہے ۔ یہ ایک نادر موضوع ہے جس میں اردو زبان کی ترویج و ترقی میں صوفیاء کرام کےکردار پر بحث کی گئی ہے ۔ ان میں شاہ علی رفاعی جیو گام دھنی (متوفی 1565ء) بھی اس فہرست میں نمایاں ہیں ۔ انہوں نے گجرات میں اپنے روحانی صحن سے مقامی زبان میں اردو میں عقیدتی نظمیں لکھنا شروع کیں۔

بابائے اردو مولوی عبدالحق نے اردو کی ترقی کے لئے اپنی زندگی کو وقف کردیا تھا ۔ ان کی زبان کا کوئی لمحہ ایسا نہ تھا جو اردو کی فکر سے خالی ہو ۔ یہ ان کی خدمات کا اعتراف ہی ہے کہ وہ ہر جگہ بابائے اردو کے نام سے جانے جاتے ہیں ۔

چودہویں صدی میں گجرات میں اردو زبان کی خدمت کرنے والوں میں سلسلہ رفاعیہ کی اہم شخصیت حضرت سید شاہ علی محمد المعروف شاہ علی جیوگاؤ دھنی رفاعی رحمتہ اللہ علیہ ( متوفی 973 ھ ، 1565ء ) کی تھی ۔ آپ ممتاز صوفی شاعر تھے اور اہل گجرات کی آبرو بھی ۔
آپ کے والد محترم کا نام اور شجرہ مبارکہ

حضرت سید شاہ ابراہیم رفاعی بن حضرت سید شاہ عمر جیش اللہ حسینی رفاعی بن حضرت سید رضی الدین ابراہیم رفاعی بن حضرت سید محمد معدن اسرار اللہ رفاعی بن حضرت سید احمد کبیر رفاعی
والد کی طرف سے سلسلہ نسب بانی سلسلہ رفاعیہ سید احمد کبیر رفاعی رحمتہ اللہ علیہ اور والدہ معظمہ کی طرف سے حضرت سید عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ تک سلسلہ نسب پہنچتا ہے ۔
ان کا نقش نگیں ” اللہ باقی محمد ساقی ” تھا ۔ برگ تبنول کی شکل میں یہ نقش کندہ تھا ۔ جو شجرہ مریدوں کو دیے جاتے تھے ان پر اس کی مہرلگائی جاتی تھی ۔ شاہ علی جیوگاؤ دھنی رفاعی وحدت الوجود کے قائل تھے ۔ باہر سے جو بزرگ گجرات آتے ان کے یہاں قیام کرتے ۔ شیخ بہاء الدین برناوی گجرات آے تو شاہ علی رفاعی کے مہمان ہوے ۔ شاہ علی رفاعی نے ایک ان کو اپنا ہندی کلام سنایا ، شیخ نے اسے پسند کیا ۔
حضرت شاہ علی جیوگاؤ دھنی رفاعی رحمتہ اللہ علیہ کی نظموں کا مجموعہ ” جواہر اسرار اللہ ” ہے ، جو جامعہ عثمانیہ ، حیدرآباد سے محترمہ پروفیسر ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ صاحبہ سابق صدر شعبہ اردو جامعہ عثمانیہ کی نگرانی میں ” جواہر اسرار اللہ کی تنقیدی تدوین ” کے نام سے جناب محمد سراج الحسن صاحب نے 1989 ء 1990 ء میں پی ایچ ڈی کر کے ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی ۔
مرآت احمدی کے مصنف جناب مرزا محمد حسن ملقب بہ علی محمد خان بہادر نے اسے طرز فکر اور معنی کے لحاظ سے ” دیوان مغربی ” کے ہم پایہ خیال کیا ہے ۔ ان کے کلام کو ان کے ایک مرید ابوالحسن فتح محمد ابن عبدالرحیم قریشی احمد نے مرتب کیا تھا ، ابتدا میں ایک فارسی دیباچہ اور بارہ شعروں کی مدحیہ نظم ہے ، بعد میں معتقدین کے اصرار پر ان کے پوتے سید شاہ ابراہیم رفاعی رحمتہ اللہ علیہ نے ایک مبسوط دیباچہ لکھ کر دوبارہ مرتب کیا تھا ۔ اس میں پہلی ترتیب کا ذکر ہے ، مدحیہ نظم بھی شامل ہے اور پہلے عربی میں دیباچہ ہے اور پھر فارسی میں دیباچہ ہے ۔ ان کا کلام توحید اور وحدت الوجود کے اسرار و رموز سے بھرا ہوا ہے اس میں سوز و گداز ہے ، خیالات اور جذبات ہندوستانی ہیں ، چند نظموں میں فارسی مضامین بھی ہیں ، میلاد النبی ، مدح سید احمد کبیر رفاعی ، آفرینش کے عنوان سے عمدہ نظمیں ہیں ، بارہ ماسہ کی طرز کی ایک سہ حرفی بھی لکھی ہے ۔
باباے اردو مولوی عبدالحق صاحب ” اردو کی ابتدائی نشوونما میں صوفیاےکرام کا کام ” میں لکھتے ہیں :
شاہ علی جیوگام دھنی رفاعی کا مولد و منشا گجرات ہے آپ گجرات کے کامل عارفوں اور درویشوں میں سے ہیں ۔ اہل گجرات پر آپ کی تعلیم و ہدایت کا بہت اثر تھا ۔ آپ کا انتقال سنہ 1515 ء / 973 ھ میں ہوا ۔
آپ کے کلام کا مجموعہ جو ” جواہر اسرار اللہ ” کے نام سے موسوم ہے ، آپ کے دادا کے ایک مرید اور آپ کے معتقد شیخ حبیب اللہ نے جمع کیا ہے ۔ اسی کلام کا دوسرا نسخہ آپ کے پوتے سید ابراہیم رفاعی نے مرتب کیا ہے ۔ شاہ علی جیو رفاعی بڑے پایہ کے شاعر ہیں ۔ ان کا کلام توحید اور وحدت وجود سے بھرا ہوا ہے اور اگر چہ وحدت وجود کے مسلے کو وہ معمولی باتوں اور تمثیلوں میں بیان کرتے ہیں مگر ان کے بیان اور الفاظ میں پریم کا رس گھلا ہوا معلوم ہوتا ہے ۔ وہ عاشق ہیں اور خدا معشوق ہے اور اپنی محبت کو طرح طرح سے جتاتے ہیں ۔ طرز کلام ہندی شعرا کا ساہے اور عورت کی طرف سے خطاب ہے ۔ زبان سادہ ہے لیکن چونکہ پرانے اور غیر مانوس الفاظ استعمال کئے گئے ۔ اس لئے کہیں کہیں سمجھنے میں مشکل پڑتی ہے ۔ چند آسان نمونے پیش کرتا ہوں ۔

تم ری پیا کو دیکھو جیسا
ہورجیوں پر تھوسائیں ایسا
سوے تمہیں ہو ناں وہ ایسا

ایک سمندسات کہا دے
دھونوس بادل میہ برسادے
وہی سمند ہو بوند دکھالے
ندیاں نالے ہوکر چالے

پیو ملاگل لاگ رہی جے
سکھ منہ دکھ کی بات نہ کیجئے

جے ہے سوے نہیں نہیں
چھٹ ایک وہی ہے سہو کہیں

کہیں سومجنوں ہوبر لاوے
کہیں سو لیلٰی ہوے دکھا دے
کہیں سو خسرو شاہ کہادے
کہیں سو شیریں ہوکر آوے

ادھر پنوالی چک رتنالی
بینی باسک ہورتل کا لی
ایہ جیومانگیں بہویں دمالی

آپیں کھیلوں آپ کھلاؤں
آپیں آپس لے گل لاوں

بھیس بندوں کے کر سو بندگی اوبھاہوہو نماز گزاروں
ہوں حاجی ہوں کعبہ آہوں آپیں آپس اوپرداروں

کھبیں سوہوے اندھیاری راتا
سانج بتی کرلاوے دھاتا
ہوکر دیوار راتیں ساری
لاکر جوت دکھاوے ساری

کہیں سو عاشق ہوکر راوں کہیں عارف ہوے پھچھانوں
کہیں موحد کہیں محقق کہیں سوجانوں کہیں نجانوں

جو جیوڑا پیوسوں لاگا
ہئے جس نیہ کی آگا
تمنھوں کا لوجہ سب بھا گا
جنھوںمن پرم کا بھڑکا
تلیں تل ینہہ کا کھڑکا
سو جانے مرم کا ٹبکا

(اردو کی ابتدائی نشوونما میں صوفیاے کرام کا کام ، 65 ، 66 ، 67)

ازقلم: سید حسام الدین ابن سید جمال الدین رفاعی
خانقاہ رفاعیہ ، بڑودہ ، گجرات
9978344822

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے