نتیجۂ فکر: محمد شکیل قادری بلرام پوری
قلبِ مضطر کے لیے ایک دَوا کافی
لب پہ بس صلِّ علیٰ، صلِّ علیٰ کافی ہے
مالکِ کون و مکاں قاسمِ نعمت ہیں جو
ہم فقیروں کے لیے ان کی عَطا کافی ہے
آتے ہی ساری بلائیں مری ٹل جاتی ہیں
اِن بلاؤں کے لیے ماں کی دُعا کافی ہے
حدت حشر کا کچھ خوف نہیں ہے مجھ کو
میرے چھپنے کو شہِ دیں کی ردا کافی ہے
گلشنِ فکر کو مہکانے کی خاطر میرے
شہ کے دربار سے آئے جو ہَوا کافی ہے
کیسے کہہ دوں کہ نہیں میراجہاں میں کوئی
میری خاطر تو وہ محبوبِ خُدا کافی ہے
کاش کہہ دیں وہ سرِ حشر کہ میرا ہے شکیلؔ
میری بخشش کے لیے ان کا کہا کافی ہے