تحریر: محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہا ر، اڈیشہ وجھارکھند
تعلیم کتاب وحکمت کا ر نبو ت میں شامل ہے اور اس کے لئے اللّٰہ کی جانب سے اجر کا وعدہ ہے اسی کے لئے انبیا ء کرام علیہم السلام نے بار بار {اِنْ اَجْرِ یَ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ} کا اعلان کیا ،اس کام کو تجارت بنا دینا اور اسکی پاکیزگی کو حصول منفعت کا ذر یعہ بنا نا ،اس پورے کا م کی توہین کے متر ادف ہے ۔
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
علماء کو چھوڑ ئے ،ان کا تو مشن ہی جہالت کی تاریکی میں علم وحکمت کے چر اغ روشن کرنا تھا ،دوسرے لوگ بھی اسے روٹی رو زی کا علم کہنے پر چر اغ پا ہو جا تے تھے ،پڑھے لکھے لوگ جانتے ہیں کہ جب معاشیات کے باوا آدم ،اسمتھ نے اکنو مکس کو ’’بر یڈا ینڈ بٹر ‘‘کا علم کہا تھا تو علمی دنیا میں بھو نچال آگیا تھا اور آج تک اس تعر یف کی مذمت اسی نام پر کی جاتی ہے ۔
اب نہ اسمتھ رہے اورنہ ان کی مذمت کرنے والے ،کاش وہ ہوتے توکھلی آنکھوں دیکھ لیتے کہ آج سارے علوم کی ڈور ’’بریڈاینڈ بٹر ‘‘سے ہی جو ڑ دی گئی ہے ۔اور مدارس اسلامیہ تک کی تعلیم میں یہ دیکھنے کی کو شش کی جا رہی ہے کہ پڑھ کر یہ کیا کریںگے ؟یعنی ان کی روٹی کا کیا ہوگا ؟ مولا نا ابوالکلام آزاد نے کلکتہ میںایک بار تقریر کر تے ہوئے فرمایا تھا کہ’’ عصری اداروں میں طلبہ کی جو بھیڑ ہے وہ تشنگان علوم کی نہیں ،ان لوگوں کی ہے جنہیں بتایا گیاہے کہ اس تعلیم سے روٹی کے دو ٹکر ے اور شو ر بہ کی ایک پیالی مل سکتی ہے ۔‘‘
اس سو چ نے جن اداروں کو پیدا کیا ان کی بڑی بڑی فیس نے تعلیم کے کام کو مشکل تر کر دیا، وہی پڑھ رہے ہیں ،جن کی تجو ریاں بھر ی ہوئی ہیں اور وہ ان اداروں کی موٹی فیس اداکر سکتے ہیں۔ رہ گئے وہ غریب جن کے نام پر ادارے قائم کئے گئے تھے اور زکوۃ و خیرات تک کی رقم لیکر شرعی و غیر شرعی انداز میں بلڈ گیں کھڑی کی گئیں ،ان کے لئے آج بھی ’’دلی دور ہے‘‘
تعلیم کو تجا رت بنا دینے کا سب سے بڑا نقصان غریب لو گوں کو ہی ہو اہے ،جو پیٹ کی آگ بجھانے اور دو وقت کی روٹی کے لئے دو ڑ لگا رہے ہیں ،وہ اس مو ٹی فیس کی ادا ئیگی سے قاصر رہتے ہیں اور ان کے لیے اپنے چھو ٹے چھوٹے بچوں کو ز ری کے کا رخا نو ں اور ہو ٹل میں بھیج دینا زیا دہ آسان ہو تاہے۔ہما رے دینی مکا تب جو کل بھی اور آج بھی تعلیم کے فر و غ کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں اور وہ مدا رس جو آ ج بھی غر یب طلبہ کی کفا لت کر کے ا نہیں علم سے آشنا کرتے ہیں ان کے غیر معیا ری ،قدامت پسند ہو نے کا ایسا پر وپیگنڈہ کیا گیا کہ امر اء کے بچوں نے ادھر کا رخ کر نا چھو ڑ دیا ۔یہی وجہ ہے کہ خیر ات و زکو ۃ اور دو سر ے مد ا ت سے و ہ اس کی بھر پو ر مد د کر تے ہیں لیکن اپنے بچے کو وہ ان اداروں میں دینے سے کتر اتے ہیں، وہ مذہبی تعلیم سے محبت نہیں کر تے ،اسے ضر وری بھی نہیںسمجھتے ،بس ثوا ب کے لئے دیتے ،دلا تے رہتے ہیں ۔اگر انہیںمذہبی تعلیم سے محبت ہو تی او راس کی ضر ورت کو سمجھتے تو اپنے چشم و چراغ کو اس دو لت سے کیو ں محر وم رکھتے ۔اس پر و پیگنڈ ہ کے نتیجہ میں لو گو ں کا اعتما د بھی ان پر کم ہو نے لگا او رلو گو ں نے کنو نٹ و غیر ہ کی طر ف معیار او رجد ت کے نا م پر دو ڑ لگائی ۔لڑکو ں پر بستہ کا بو جھ بڑھا اور گا رجین پر اخر اجا ت کا ،اور با ت وہیں کی وہیں رہی ،بلکہ کہنا چا ہئے کہ جس کا م کے لئے ہم لڑ کو ں کو تیار کررہے تھے ،کو چنگ کر ارہے تھے ،اس میں کا میا بی کا تنا سب گھٹتا چلا گیا ۔
اس سے زیا دہ تشو یشنا ک با ت یہ ہے کہ مسلما نوں کے چھ سے پند رہ سا ل کے بچوں میں پند رہ فی صد وہ ہیں جنہیں کسی تعلیمی ادا رہ کا منہ دیکھنا نصیب نہیں ہو تا، وجہ ؟معا شی بدحالی اور حصو ل تعلیم کے لئے رو ز مر ہ گر اں ہو تی فیس ہے،مد ارس کا رخ تو اس لئے نہیں ہو تا کہ اتنے وقت میں پیٹ کی آگ بجھا نے کے لئے بچہ کچھ کما لے گا پھر اس لیے کہ ان مدا رس کے تعلیمی معیار کے با رے میں ہما را ذہن صا ف نہیں ہے ،اس ذہنی پر اگند گی کے نتیجے میں سچر کمیشن کی رپورٹ کے مطا بق چا رفی صد بچے ہی ادھر کا رخ کر تے ہیں پھر ان میں بھی کتنے درمیان میں ہی ڈ ر اپ آؤٹ کر جا تے ہیں ۔اس سا ری صو رت حا ل سے نمٹنے کے لئے کچھ ادارے مفت تعلیم اور کچھ اسکا لر شپ ،وظائف و غیرہ کا نظم کر تے ہیں لیکن ان ادا رو ں میں شفافیت کی کمی ہوتی ہے ،ان میں اقر باء نوازی کی جڑیں اتنی مضبو ط اور پختہ ہو تی ہیں کہ ’’گھر ‘‘سے با ہر جا نے والے و ظا ئف محدو د تر ہو جا تے ہیں ،اور نتیجہ وہی ڈھا ک کے تین پا ت ۔مستثنیا ت سب جگہ ہوتے ہیں ،یہاں بھی ہیں لیکن عمومی حال یہی ہے جس کا ذکر کیا گیا ۔
ایسے تعلیمی اداروں سے جو طلبہ فارغ ہو تے ہیں ان کے ذہن کی اٹھا ن معا شی بنیا دوں پر ہو تی ہے ،ان کے ذہن میں ما دی تر قی کا ایک مینا ر ہو تاہے او ر اس بلند ی تک پہنچنے کے لئے وہ کچھ بھی کر گز ر نے کو تیار ہو تے ہیں ،سما ج میں رشو ت کے بڑھتے رو اج کی یہ بھی ایک وجہ ہے، لینے والا اپنی معاشی خوا ہشات کی تکمیل کے لیے لیتا ہے اور دینے والا اپنی معاشی اڑان کے حصو ل کے لئے دیتاہے ۔آخر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو نوں کو جہنم کی وعید یو ں ہی نہیںسنادی {الرَّ اشِیْ وَ الْمُرْ تَشِی کِلَا ھُمَا فِیْ النَّا رِ}مدارس کے فا رغین کی بھی ایک بڑی تعداد سر کا ری اداروں کی طر ف اسی نقطہ ٔ نظر سے بھا گتی ہے۔
ایسے میں ضرو رت اس بات کی ہے کہ ہم تعلیم کو سستا اورعام انسانوں کی پہنچ کے لا ئق بنادیں۔ہما را المیہ یہ ہے کہ جب ساری کمپنیا ں اپنی مصنو عات کے نر خ کو کمپٹیشن ما رکیٹ میں کم کر تی ہیں ، ہما رے یہاں مقابلہ فیس کے بڑ ھا نے کا ہو تا رہا ہے ،بلکہ ’’زیادہ فیس معیا ری تعلیم ‘‘ ہماری سو چ کا محو ر بن گیا ہے ،اور جس طر ح بغیر سلا می او رجہیز کے مطالبہ کے کو ئی لڑ کا مل جا ئے تو ہمیں اس میں نقص معلوم ہوتا ہے ،اسی طر ح بغیر فیس یا کم فیس والے تعلیمی اداروں کے با رے میں ہما ری رائے ٹھیک نہیں ہوتی۔