دینی و عصری تعلیم کی اہمیت
تحریر: محمد توحید رضا علیمی
امام: مسجدِ رسول اللہ ﷺ، بنگلور
مہتمم دارالعلوم حضرت نظام الدین رحمۃ اللہ علیہ
نوری فائونڈیشن بنگلور کرناٹک انڈیا
عالمی مہلک وباء کورونا وائرس کی وجہ سے ملک بھر میںڈیڑ ھ سال سے اسکول وکالج بند ہیں اسکول وکالج ہی سے عصری اعلیٰ تعلیم حاصل کرکہ ڈاکٹر انجینئروغیرہاسندلیکر سرکاری یا غیرِ سرکاری دنیاوی اعلیٰ عہدوں پرفائزہوتے ہیں اسکول کی اہمیت کا اندازہ والدین کو اس وقت ہوا جب کورونا کی وجہ سے اسکول و کالج میں آن لائن تعلیم کا آغاز کیاگیاتو بچوں کو ایک نئی راہ پر چلنا پڑا متعدد طلباء وطالبات کو آن لائن تعلیم سمجھ سے بالاتر تھی اور متعدد طلباء وطالبات کوتھوڑا بہت سمجھ میں آنے لگا آن لائن تعلیم میںپڑھائی کے درمیان موبائیل میوٹ پر کیمرہ بند ہونے کی صورت میں بچوں کوچہل قدمی کرتے عصری تعلیم حاصل کرتے بھی دیکھا جارہاہے انہیں حرکات کی وجہ سے والدین پریشان بھی ہوتے ہیں کسی کے والدین بچوں کے اسباق سمجھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور کسی کے والدین عصری تعلیم سے ناآشنہ ہونے کی وجہ سے سکوت اختیار کرتے ہیں اور کہتے ہیں ہم تو نہیں پڑے بیٹا تم تو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی بھر پور کوشش کرنا اور آن لائن امتحانات کا سلسلہ بھی جاری ہے ایک طرف دیہات وگائوں کے طلباء وطالبات
انٹر نیٹ سلو چلنے یا انٹرنیٹ نہ ہونے کی وجہ سے آن لائن تعلیم سے محروم ہیں تو دوسری طرف تعلیمی سال کو ضائع نہ کرنے کی صورت میں آن لائن تعلیم کو ترجی دی گئی ہے بچوں کے تعلیمی سال کو ضائع کرنے سے تو بہتر آن لائن تعلیمی نظام ہے جب ملک سے کورونا جڑسے ختم ہوجائے تو انشاء اللہ پھر سے اسکولوں میں بچوں کے آمدورفت کی وہی بہاریں لوٹ آئیں گی
عصری تعلیم کی اہمیت وافادیت
تعلیم انسان کے لئے بنیادی ضرورتوں میں سے ایک ہے ملک و قوم کی ترقی وخوشحالی کا دارومدار تعلیم ہی پر منحصر ہے اور تعلیم ہی کے ذریعہ بنی نو ع انسان شعور وفہم کی بلندی میں پرواز کرتاہے تعلیم خواہ دینی ہو یا عصری دونوں ہی کردار سازی میں اہم رول اداکرتے ہیں البتہ دینی وعصری تعلیم کا حصول ایک ساتھ ہوتو یہ کسی نعمت عظمیٰ سے کم نہیںتعلیم ترقی کے لئے ایک طاقتور ذریعہ ہے تعلیم سے دنیا میں بھی تبدیلی لائی جاسکتی ہے تاریخ گواہ ہے دنیا میں ترقی و عروج صرف ان ممالک اور اقوام کے حصہ میں آئیں جنکے افراد عصری اور مذہبی تعلیم وفنون سے آراستہ اور پیراستہ ہوئے ہیں علم کی ا ہمیت وافادیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اسلام میں سب سے پہلے وحی نازل ہوئی وہ تھی، اقرا ،من جانب اللہ فرشتہ نے آکر حضور سیدِعالم نبی کریم ﷺ سے عرض کیا ،اقرا،پڑھئے تین مرتبہ ایسا ہی ہوا پھر اس کے ساتھ ساتھ آپ نے ،مالم یعلم،تک پڑھا تفسیرِ خزائن العرفان میں ہے اس سے کتابت کی فضیلت ثابت ہوئی اوردرحقیقت کتابت میں بڑے منافع ہیں،کتابت ہی سے علوم ضبط میں آتے ہیں ،گزرے ہوئے لوگوں کی خبریں اوران کے احوال اوران کے کلام محفوظ رہتے ہیں،کتابت نہ ہوتی تو دین ودنیا کے کام قائم نہ رہ سکتے۔ اس آیت سے رہتی دنیا تک اس پیغام کو عام کیا گیا کہ انسانی فطرت تعلیم وتعلم کے سب سے زیادہ قریب ہے اسے حاصل کئے بغیر ایمانی کمال اور انسانی شعور ارتقا کے مراحل کو طے نہیں کرسکتا تعلیم سے انسان دنیا میں جینے کافن سیکھتا ہے اور تعلیم ہی کے ذریعے انسان اگلی نسلوں تک جو ان کا اثاثہ ہوتا ہے اس کو منتقل کرنے میں کامیاب ہوپاتاہے اسلام نے تعلیم و تعلم پر جتنا زور دیا ہے شاید ہی دنیا کے کسی مذاہب میں تعلیم کے حصول پر اتنی شدت برتی گئی ہو جب دنیا میں بسنے والی دیگر اقوام کو اس بات کا احساس ہوا کہ حصولِ علم کے بغیر دنیا کی سربراہی اور قیادت ناممکن ہے تو تب انہوں نے ایک جامع تعلیمی نظام کو شکل دینے کو ٹھان لی پھر جلد ہی چند سالوں میں پوری دنیا کو یہ باور کرایا کہ ہمارے درمیان اعلیٰ تعلیم سے لیس ایسے افراد اور قابل شخصیت موجود ہیں جو دنیا کی سربراہی اور قیادت کی صلاحیت رکھتے ہیں موجودہ وقت میں مغربی ممالک کی ترقی کا رازتعلیم کو اہمیت دینا اور تعلیم حاصل کرنے کی ہرممکن کوشش کرنا ہے مغربی ممالک کی کامیابی و کامرانی اور مشرق کی بربادی کی ایک اہم وجہ تعلیم کا نہ ہوناہے آج ہم جن قوموں کی ترقی کی داستان روز اخبارات میں پڑھتے ہیں انہوں نے تعلیم کی اہمیت اور افادیت کو سمجھااور تعلیم کوٹیکنالوجی کو اپنا ہتھیار بنایاہے۔ اسلام کی تاریخ گواہ ہے جب مسلمانوں نے تعلیم و تربیت کو اپنے لئے عروج کا ذریعہ سمجھا تو وہ دین و دنیا میں سربلندی اور سرفرازی سے نوازے گئے تعلیم ہوا اور پانی کی طرح انسانی ضرورت ہے
تعلیم ہوا اور پانی کی طرح انسانی ضرورت ہے اس لئے نئی نسلوں میں تعلیم کے حصول کے لئے جذبہ اورنئی امنگ پیدا کرنا معاشرہ کی ذمہ داری ہے ،تعلیمی نظام کو بہتر سے بہتر بنانے کے لئے ہمارے دانشوروں اورہمارے اہل صحافت ہمارے اہل سیاست و ہمارے علماء کو اور اربابِ اقتدار کوپوری ذمہ داری کے ساتھ آگے آنا ہوگا تاکہ قدیم خستہ اور بدحال تعلیمی نظام کو تبدیل کرکہ نئے امنگوں کے ساتھ جدید تعلیمی نظام کو متعارف کرائیں ہم ہندوستانی مسلمان ہیں ہماری زبان اردو ہے لیکن اردوسے دوری کی وجہ سے ہماری اردو اسکول کہیں بند کی جارہی ہیں تو کہیں ان اردو اسکولوںکو انگلش میڈیم کرنے کی کوشش کیجارہی ہے، اہل ثروت کے بچے تواکثروبیشتر اعلیٰ تعلیم سے آراستہ ہوتے ہی ہیں مگر غریب فیملی اور میڈل کلاس بچوں کے لئے بھی علمی راہ کو ہموار کریں غریب فیملی اور میڈل کلاس بچوں کو اچھے پرائیویٹ اسکولوں میں اعلیٰ تعلیم دلوانے میں اہلِ ثروت کوشش کریں اور اس بات کو بھی یاد رکھیں
کہ اسلامی تعلیم دئے بغیر عصری تعلیم نامکمل ہے آج ہمارے درمیان ہزاروں کی تعداد میں اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد موجود ہیں لیکن ان کی صحیح اسلامی فکر اور بہتر کردارسازی نہ ہونے کی وجہ سے خود غرضی ،مفاد پرستی ،رشوت خوری ،اور خود نمائی اور اخلاقی بگاڑ میں وہ ایسے لت پت ہیں جس سے معاشرہ ان سے گھن کرتا
ہے اس لئے اسلامی تعلیم دئے بنا دورِ حاضر میں بچوں میں اخلاقی اور روحانی ماحول پیداکرنا ناممکن ہے اسی لئے امتِ مسلمہ کو دینی و عصری تعلیم حاصل کرنے کی کوشش کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔