تحریر: محمد ابوعدیل، حیدرآباد
مدارس سے فارغ ہونے والے حفاظ و علماء کا رخ عموماً مسجد یا مدرسہ کی طرف ہوتا ہے. دنیا جانتی ہے کہ اکثر مساجد کے صدور جاہل اور دین سے نابلد ہوتے ہیں اور اپنے مال و زر کے بل بوتے پر صدر یا متولی بن جاتے ہیں. اور ائمہ کرام کو ہر طریقہ سے پریشان کرتے ہیں. ادھر اساتذہ کے ساتھ مدارس کے نظماء کا رویہ بھی کچھ ایسے ہی بلکہ اس سے بھی گیا گزرا ہے. ہماری ریاست خاص کر ہمارے شہر میں ایسے بھی مدارس ہیں جہاں اساتذہ کو چھ سات مہینوں میں ایک بار تنخواہ ملتی ہے وہ بھی پوری نہیں ملتی اور وہ بیچارے ماہ رمضان میں مدرسہ کا چندہ کرکے اپنی تنخواہ نکالتے ہیں. اور بہت سارے مدارس ایسے ہیں جہاں تنخواہ تو وقت پر دی جاتی ہیں لیکن صبح سے شام تک محنت و مشقت سے پڑھانے کے باوجود اساتذہ کو وہ تنخواہ نہیں ملتی جو ان کے گزر بسر کیلئے کافی ہو. دیکھا جائے تو اماموں کے بالمقابل اساتذہ زیادہ پریشان ہیں. کیونکہ مساجد میں جی حضوری کبھی کبھار کرنی پڑتی ہے جبکہ مدارس میں پورا سال غلامی میں گزر جاتا ہے. اس سے بڑھ کر یہاں اساتذہ کو ماتحت کرنے کے لئے تمام ہتھکنڈے اپنائے جاتے ہیں. صبح آنے میں تاخیر ہوجائے تو پابندی وقت کے نام پر نصیحتیں… شام میں کسی وجہ سے جلد چھٹی مانگ لی تو تعلیمی نظام میں خلل کے نام پر مثالیں… لیکن نظماء حضرات کے لئے نہ مدرسہ آنے کا کوئی وقت مقرر ہے اور نہ لیٹ کی کوئی تحدید. جبکہ اساتذہ کو ہرحال میں اس کی پابندی لازمی ہے. ان کے لئے اس سلسلہ میں کوئی استثنائی صورتیں تک نہیں ہوتیں. کبھی ہنگامی حالات میں اگر استاذ کی چھٹی ہوجاتی ہے تو تنخواہ میں سے اتنی رقم سوخت کرلی جاتی ہے. اور کہا جاتا ہے کہ یہ اصول فلاں حدیث سے ثابت ہے. اور فلاں بزرگ نے مرتب کیا ہے تاکہ امت کی رقم کا صحیح استعمال ہوسکے. تو پھر نظماء حضرات پر یہ اصول کیوں مرتب نہیں ہوتا؟ تنخواہ کے سلسلہ میں ان کی غیر حاضری اور دیر حاضری کیوں شمار نہیں ہوتی؟ یہ حضرات اپنا وقت مدرسہ میں یا اس کے دیگر کاموں صرف کرنے کے بجائے ذاتی اسفار میں گزار دیتے ہیں اور پھر ان کی تنخواہوں میں کسی طرح کی کٹوتی بھی نہیں ہوتی. اسفار و بیان کے پیسے انہیں الگ ملتے ہیں اور مدرسہ کی تنخواہ کا تو کیا پوچھنا وہ تو ان ہی کے ہاتھوں میں ہوتی ہے.
جب سے لاک ڈاؤن کی صورت حال پیدا ہوئی ہے بیچارے مدارس کے اساتذہ کا اور برا حال ہے. انہیں نہ مسجد سے تنخواہ مل رہی ہے اور نہ مدرسہ سے. مساجد کے متولیان تو اکثر دنیا دار ہیں ان سے کیا گلے شکوے کئے جائیں. گلے شکوے تو ہمیں مدارس کے نظماء حضرات سے ہیں کیونکہ یہ ہماری برادری کے لوگ ہیں. جب سے لاک ڈاؤن ہوا ہے اساتذہ کی زبوں حالی سب سے بڑھ کر ہے لیکن کسی ناظم کو اپنے اساتذہ کی فکر لاحق نہیں ہوئی. اور کسی نے ان کو پوری تنخواہ دینے کے سلسلے میں بات نہیں کی. بعضوں نے تو مضمون تک لکھ دیا کہ تعلیم نہ ہونے کی صورت میں اساتذہ تنخواہ کے مستحق نہیں ہیں. لیکن لکھنے والوں نے یہ نہیں سوچا کہ لاک ڈاؤن ہوسکتا ہے، تعلیم رک سکتی ہے لیکن کسی کے اخراجات نہیں رک سکتے. کوئی آدمی بھوکا ہوتا ہے تو اسے فقہی مسائل کی نہیں روٹی کی ضرورت ہوتی ہے. اسکول والوں نے بھی اپنے ٹیچرس کو تنخواہ نہیں دی اور مدرسہ والوں نے بھی نہیں دی اور اگر کسی نے دی بھی تو آدھی یا اس سے بھی کم. سوچنے والی بات یہ ہے کہ اساتذہ کی آدھی سے زیادہ تنخواہ صرف مکان کے کرایہ میں صرف ہوجاتی ہے تو پھر آدھی تنخواہ کہاں سے ضروریات کو پورا کرسکتی ہے. جب نظماء حضرات سے اس کے متعلق سوال کیا گیا تو ان کا جواب تھا کہ ادارے چندے پر چلتے ہیں اور ان دونوں چندہ کرنے والے اور چندہ دینے والے احباب کی قلت ہے. بات درست ہے لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ پھر مدارس میں تعمیرات اور دیگر سرگرمیاں کیسے چل رہی ہیں؟ ناظم صاحب کی سواری کیلئے پٹرول کہاں سے آرہا ہے؟ کیا ناظم صاحبان کے دسترخوان پر لوازمات میں کوئی کمی ہوئی واقع ہوئی ہے؟ ہم تو دیکھ رہے ہیں کہ تعمیراتی کاموں کے ساتھ دیگر سرگرمیاں بھی زوروں پر چل رہی ہیں اور مالکان مدرسہ کے اسفار بھی معمول کے مطابق یا کچھ کم زیادہ مگر چل رہے ہیں. تو پھر اساتذہ کی تنخواہوں میں کمی کیوں؟ کیا وہ سماج میں اچھی زندگی گزرانے کے حقدار نہیں ہیں؟ وہ انسان ہیں یا کسی دوسری دنیا کی مخلوق؟ کہاجاتا ہے کہ ہر شعبہ کی رقم الگ ہوتی ہے، تو کیا صرف تنخواہوں کے شعبہ میں ہی کمی واقع ہوئی ہے اور کیا چندہ دینے والے اسی شعبہ میں دینے سے گریز کررہے ہیں؟ جب حالت مجبوری میں اسلام نے حرام کو حلال قرار دیا ہے تو پھر ہنگامی صورتحال میں تعمیرات یا دیگر شعبوں کی رقم تنخواہوں میں کیوں استعمال نہیں کی جاسکتی؟ جب زکات لینے میں تاویلات ہوسکتی ہیں تو تنخواہ دینے میں بھی ضرور تاویل ہونی چاہئے. کیا اسلام نے ایسے سنگین حالات میں تعمیراتی کام کی اجازت دی ہے؟ اللہ رحم کرے ہمارے اساتذہ پر کہ انہون نے اپنے ناظم کو پالنہار کا درجہ تک دیدیا ہے. ایک معنی میں یہ لوگ اللہ کے سامنے گلے شکوے تو کرلیتے ہیں لیکن ناظم کے سامنے اپنی زبان کھولنے سے خوف کھاتے ہیں.
جب یہی نظماء مسند پر بیٹھ کر اساتذہ کے سامنے تقریر کرتے ہیں یا اسٹیج پر آکر عوام الناس خطاب کرتے ہیں تو پرہیزگاری کی بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں. رسول اللہ کا اسوہ صحابہ کرام اور دیگر بزرگان دین کے واقعات اور مثالیں پیش کرتے ہیں. ہونا بھی چاہئے ہم اس کے انکاری نہیں ہیں. ہم یہی چاہتے ہیں کہ سب لوگ اس راہ پر چلیں اور ان باتوں پر عمل کریں. لیکن جب صرف سن نے والوں کو ان باتوں کا پابند بنایا جائے اور بولنے والے اس سے آزاد نظر آئیں تو سن نے والوں کیلئے یہ
با
تیں حجت نہیں ہوتیں.
چند دن پہلے ایک ورقیہ میری نظروں سے گزرا. اس میں لکھا تھا: عوام جو دیتی ہے اسے غنیمت جانو اگر کوئی ایک روپیہ بھی نہ دے تب بھی کوئی بات نہیں مگر ہم نے جو پڑھا ہے اسے دوسروں تک پہنچانا ہمارا فرض ہے. صحیح بات ہے ہمیں اپنا فرض ادا کرنا چاہئے. لیکن یہ بات کون پوچھے کہ عوام اساتذہ کو کچھ نہیں دیتی جو کچھ دیتی ہے نظماء حضرات کو ہی دیتی ہے. اور کتنا دیتی ہے یہ ان کے سوا کوئی نہیں جانتا. اگر چند ارکان جانتے ہیں تو وہ بھی ناظم کے تابع ہوتے ہیں. اور جہاں تک آگے پہنچانے کی بات ہے تو اس کیلئے مدرسہ کی چھت اور ناظم صاحب کا سایہ ضروری نہیں ہے. اللہ نے بہت سارے راستے بنائے ہیں جن پر چل کر ہم اپنے فرض کی ادائیگی اچھی طرح کرسکتے ہیں. اسی ورقیہ میں آگے ایک پیغمبر کے واقعہ سے یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ اساتذہ کو تعلیم کے ساتھ ساتھ چھوٹا موٹا کاروبار کرنا چاہئے. اچھا مشورہ ہے. لیکن صبح سے شام تک تدریس میں مشغول رہنے کے بعد کیا ایک استاد کاروبار کرنے کے حق میں ہوگا؟ اور اگر شام کے اوقات میں وہ کاروبار کرے تو گھر کی دوسری ضروریات اور اگلے دن کا مطالعہ کب کرے گا؟ ہمارے نظماء ایسے ویسے بہت سارے مشورے تو دیتے ہیں لیکن اساتذہ کو خاطرخواہ تنخواہ دینے کی بات کوئی نہیں کرتا. اگر نظماء اپنے اساتذہ سے سچی محبت کرتے ہیں تو ان کو ایسے ویسے مشورے دینے کے بجائے ان کی تنخواہوں میں اتنا اضافہ کریں کہ وہ ٹیوشنس اور دیگر معاشی ذرائع سے بے فکر ہوکر اپنے درس و تدریس میں ہمہ تن مصروف ہوجائیں. یہ کوئی بعید از حقیقت بات بھی نہیں ہے. الحمدللہ مدارس کو اتنا چندہ بہ آسانی آجاتا ہے. اور اگر کچھ مشکلیں پیش آرہی ہوں تو مدرسہ کی مرمریں تعمیرات اور دفتر شیش محل کے نقش و نگار میں کمی لائی جاسکتی ہے. ویسے بھی نقش و نگار شریعت میں پسندیدہ عمل نہیں ہے. اور مدرسہ پڑھنے اور پڑھانے کا نام ہے شاندار اور عالیشان عمارت کا نام نہیں ہے۔
کاروبار سے ہم کسی مولوی کو روکنا نہیں چاہتے. ہم تو یہی کہتے ہیں کہ ہر مولوی کو تجارت کرنا چاہئے. لیکن تدریس کے ساتھ تجارت اور تجارت کے ساتھ تدریس کی مثال ایسی ہے جیسے دھوبی کا گدھا گھر کا ہوتا ہے اور نہ گھاٹ کا. مدرسہ جاؤ تو تجارت کی فکر اور اگر تجارت میں ہوتو مدرسہ کے اوقات اور مطالعہ کی فکر. اور گر اساتذہ کو کاروبار کروانا ہی چاہتے ہیں تو ایسا کوئی نظام بنانا ضروری ہوگا جس میں بعض اساتذہ کو آدھے دن سے بلایا جائے اور بعض اساتذہ کو آدھے دن سے مکمل چھٹی دیدی جائے. لیکن کیا یہ بات نظماء کو ہضم ہوگی؟ مدارس کا مزاج تو یہ ہے کہ جب استاد مدرسہ میں داخل ہوجائے تو دنیا کے تمام راستے اس پر بند ہوجاتے ہیں اور وہ نماز عصر سے پہلے نکلنے کی جرات نہیں کرسکتا. اور اگر کوئی استاد آدھے دن سے رخصت مانگتا ہے تو اسے پوری ہی چھٹی دینے کی دھمکی دی جاتی ہے. تو کیا ایسی صورتحال میں کوئی استاد تجارت کرسکتا ہے؟
یہ چند باتیں تھیں جو کہی گئیں اور بہت ساری باتیں ہیں جو کہی نہ جاسکیں. ہوسکتا ہے پورے نظماء کا یہ رویہ نہ ہو، نیک لوگ بہر حال ہر جگہ ہوتے ہیں. اس کے باوجود اگر کسی ناظم کو اس تحریر سے اختلاف ہے تو مجھے بھی ان سے اتفاق نہیں ہے۔