از: زین العابدین ندوی
سنت کبیر نگر یو۔پی۔
عربی زبان میں بطن کے معانی شکم اور پیٹ کے ہوتے ہیں جبکہ اندرون کو باطن کہا جاتا ہے،اثرات کے مرتب ہونے میں ان دونوں کا آپسی تعلق انتہائی اہمیت کا حامل ہے، جس طریقہ سے غذاوں کا اثر مادی جسم پر مرتب ہونا ایک بدیہی حقیقت ہے بعینہ روح پر بھی اس کا اثر ایک مسلم ناقابل انکار سچائی ہے، گرچہ نوعیت تاثیر مختلف ہے.
بطن پروری کے لئے خواہ کسی بھی طریقہ سے کمایا ہوا مال ہو مادی جسم کو مضبوط سے مضبوط تر کرتا ہے اور شکل وصورت کو تر وتازہ رکھنے میں معاون ثابت ہوتا ہے، دنیا جس کی اسیر و غلام ہے اور قرآنی نقطہ نظر سے اکثریت جس کی دلدادہ و فریفتہ ہے، لیکن روح کی تسکین کے لئے اور اسے طاقتور و مضبوط بنانے کے لئے ہر قسم کی غذا کافی نہیں اس کی اولین اور بنیادی شرط یہ ہے کہ اسے حلال طریقہ سے حاصل کیا گیا ہو اور اس کے حصول میں کسی کے ساتھ زیادتی اور دھوکا دہی سے کام نہ لیا گیا ہو اور وہ مال قرآنی نقطہ نظر سے مال طیب ہو، حرام کی آلائش و گندگی سے پاک ہو، ورنہ اس سے باطن سنورنے کے بجائے آلائشوں کی آماجگاہ بن جائے گا اور صاحب بطن سے خیر کی توفیق سلب کر لی جائے گی، پھر تقریریں بھی ہوں گی اور تحریروں کا امنڈتا سیلاب بھی ہو گا مگر ان سے اصلاح کے امکانات معدوم ہو چکے ہوں گے، چلنے کو تو پنکھا چلے گا مگر ہوا کا کوئی وجود نہ ہوگا، بظاہر سارا نظام جاری وساری دکھائی دے گا مگر بباطن سارے معاملات درہم برہم ہو چکے ہوں گے۔
اس لئے سب سے پہلی ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے بطن میں جانے والی غذاوں کا جائزہ لیں، کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمارا ظاہر تو خوب رو ہے اور اندرون خانہ دل تاریکیاں جنم لے رہی ہیں، موجودہ زمانہ کے بڑے امراض میں ایک مہلک مرض یہ بھی ہے جس میں بیشتر لوگ ملوث ہیں۔۔۔۔ وما توفیقی الا باللہ۔۔۔