دیکھئے جناب سمرا ایک گاؤں ہے جہاں ایسا کچھ بھی نہیں ہے جس کیوجہ وہ از خود مشہور و مقبول ہوسکے، وہی آبادی،روڈ،سڑک کچھ ہریالی جو سارے گاؤں میں موجود ہیں،بلکہ ترقیات میں اس سے بہتر گاؤں بھی موجود ہے لیکن میرے پیارے باشندگان سمرا آپ کا یہ گاؤں آج ریاست کے کونے کونے میں ہی نہیں بلکہ ملک و بیرون ملک معروف و مشہور ہوچکا ہے۔ زرا اس بے پناہ شہرت پر عادلانہ و منصفانہ نظر تو ڈالیے تو محض ایک ہی بات عیاں ہوگی کہ ایک ذات بابرکات نے سالوں پہلے بے سر و سامانی کی حالت میں اس سرزمین پر قدم رنجہ فرمایا ارادہ اس ذات نے ایسا کیا جس کی تکمیل کے ظاہری اسباب نظر نہیں آتے تھے لیکن غایت اخلاص نے اس ذات سے بہت جلد ان کا عظیم ترین ارادہ مکمل کروالیا۔
دیکھئے!سمجھئے!پڑھیے اور اپنے اس محسن مخلص کے احسانات کا احساس کیجیے کہ انھوں نے کیسے اپنی شب و روز محنت و مشقت سے آپ کے گاؤں کو علم و ادب کا مرکز بنادیا۔
تو ایسے ادارے اور ایسی سرزمین بلکہ
بات ایک دارالعلوم کے چند کمرے اور اس وقت کی محصول مختصر زمین کی ہوتی تو ایسے ادارے اور ایسی سرزمین بلکہ اس سے بڑھ کر عمارت اور آراضی بہار کے کونے کونے میں موجود ہے لیکن اس سرزمین پر قائم ان اداروں کو اتنی مقبولیت نہیں، آج بھی ایسے ادارے اپنی شہرت و مقبولیت کی جنگ لڑرہے ہیں، بات اس ذات کی روحانی فیوض و برکات کے روحانی اثرات کی ہیں کہ جہاں جس محلہ،گلی کوچوں میں قدم رکھا ادارہ کا ہی چرچا کیا اکیلے تنے تنہا تدریس،تبلیغ،رشدوہدایت،پیری مریدی اور ادارہ کی تعلیمی و تعمیری ترقیات کے لیے اسفار کیے
یہ سب کسی عام آدمی سے کیسے ممکن ہوسکتا ہے پھر ماننا پڑیگا کہ وہ فرد فرید واقعی عوام میں رہ کر عام نہیں بلکہ بہت خاص تھے۔
آپ کے گاؤں سے ہزاروں کی تعداد میں علما و فضلا نے اکتساب فیض کیا
میرے پیارے باشندگان سمرا زرا دیکھئے اپنی چشم مشفقانہ سے کہ آپ کے گاؤں سے ہزاروں کی تعداد میں علما و فضلا نے اکتساب فیض کیا جو ملک کے کونے کونے میں مسلک و مذہب کی حفاظت و پاسبانی کررہے ہیں اور یہ پوچھے جانے پر کہ آپ کہاں سے تعلیم حاصل کیے سمرا کام ہی نام آتا ہے۔
میں جنوبی ہند کیرلا،گوا،کرناٹکہ آنے کے بعد احساس کیا شاید اکیلا ہوں یہاں کون اس ذات کو جاننا والا اور اس دارالعلوم کا فیض یافتہ لیکن نہیں یہاں بھی مجھے کچھ نیک ملنسار عالم و حافظ ملے جو 1992 اور 1999 کے تعلیم یافتہ اور در طبیب کے فیض یافتہ تھے۔
نابغہ روزگار شخصیات کی تشریف آوری
زرا یہ بھی تو دیکھئے 40 سالوں سے آپ کے گاؤں میں کیسے کیسے نابغہ روزگار شخصیات کی تشریف آوری ہوئی جن کے دیدار کے لیے لوگ ترس جاتے ہیں اور ان کی خدمات سے ایک زمانہ روشن ہے اور یہ ایسی تاریخ ہے جو کبھی مسخ نہیں کی جاسکتی یہ کیسے ممکن ہوا
جواب پھر وہی آئیگا کہ کسی شخص نے اپنی تبلیغی خدمات کے لیے اپنے علاقہ سے دور مرشد گرامی کے حکم سے سرزمین سمرا کو منتخب فرمایا پھر دیکھتے ہی دیکھتے سمرا علمی باغ وبہار کا لہلہاتا چمن سے یاد کیے جانے لگا اور کاملین علوم دینیہ کا ورود مسعود ہوا۔
علماء و مشائخ کی نظر میں باعزت نہیں ہوا
گاؤں جس میں ایک زمانہ تک آمد و رفت اور روابط کے وسائل ندارد رہی ہو پھر وہ گاؤں یکبارگی سہولیات اور علما و مشائخ کی نظر میں باعزت نہیں ہوا بلکہ اس میں ایک لائق و فائق شیخ کامل کی تن من کی قربانی پیش ہوئی پھر دیکھیے کوئی یہ کہلانا والا بھی بڑا باعزت ہوا کہ میں سمرا دارالعلوم کا پرنسپل یا مدرس ہوں۔
یہ وہ مقام جہاں سے اس ذات کے فیوض و برکات نے دور دراز مقام میں مقیم کئی افراد کو مقامی ہونے کے باوجود جو غیر معروف رہے اس طرح آشنا کروادیا کہ آج وہ دین و ملت کے رہبر کی حیثیت سے متعارف ہے۔
یہ سب صرف ایک گاؤں کے نام سے کیسے ممکن ہوسکتا ہے جواب پھر وہی آئیگا کہ گاؤں نہیں بلکہ گاؤں کو علمی قلعہ کا تشخص دینے والے کوئی مرشد کامل ہی ہیں۔
حضرت قاری صاحب
یہیں تعلیم حاصل کی روحانی آغوش میں تربیت ہوئی بہتر عالم و حافظ ہونے کے ساتھ اپنے والد بزرگوار کے ہم مثل تھے اپنی کم عمری جو کر دیکھایا اس کے کرنے کے لیے عمر طبعی درکار ہوتی ہے۔
آج اسی سمرا میں مدفون اپنی آخری آرام گاہ میں موجود ہیں۔
یہ بھی ایک گاؤں کے لیے ممکن نہیں تھا لیکن اس ذات نے آپ کے دلوں میں ایسی محبت زندہ فرمائی جو اس فعل کے کرنے پر آپ کا دل مائل ہوا۔
سمرا ہو یا قرب جوار کی بستیاں یہ سب اسی بطل جلیل فرد فرید شخصیت کی خدمات سے منور و مجلا ہے اور ان شاءاللہ یہ تابناکی تا قیامت قائم رہے گی۔
وہ کون
یعنی ملت کا طبیب
طبیب ملت
علمائے کرام کی نظر کا محبوب
محبوب المشائخ
ہم عصر پیران طریقت میں اخلاق حسنہ اور اپنے ذاتی نام کا مظھر اخلاق احمد
در مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کا فیض یافتہ نوری
در تیغ کا یوسفی انتخاب یوسفی تیغی
اپنے جائے ولادت سے نہیں سمرا سے مشہور
ہزاروں علما و فضلا کے استاد استاد العلما و المشائخ
آپ کی اسی سرزمین پر گزشتہ روز 30 اکتوبر بدھ کو شہزادہ طبیب ملت حضرت قاری صاحب علیہ الرحمہ کا عرس چہلم منعقد ہوا اس تاریخی پروگرام میں
مجمع کی کثرت،آئے ہوئے مہمان کی مہمان نوازی پروگرام کی رونقیں، ہزاروں علمی طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد کی حاضری سب قابل دید رہی۔
اب تو حالات یہ ہے
دارالعلوم کی قدیم عمارت میں جگہ پڑنے کیوجہ ایک شاندار تین منزلہ قابل دید عمارت کا نقشہ پاس ہوا اور عرس چہلم میں حضرت سید گلزار ملت اطال اللہ عمرہ کے دست مبارک سے اس کی بنیاد ڈال دی گئی ہے بہت جلد ادارہ کی مرکزیت میں چار چاند لگ جائے گے، مدرسۃ البنات باغ آمنہ کی تعلیمی جہت بھی کافی بلند ہے، مکمل جماعت فضیلت تک کی تعلیم طالبات اسلامیہ کو اعلی سہولیات کے ساتھ دی جارہی ہے، اس موقع پر ادارہ کے دونوں شعبے جات بنین و بنات کے سربراہ اعلی شیخ طریقت حضرت مولانا احمد رضا امجدی صاحب سجادہ خانقاہ قادریہ آبادانیہ فریدیہ تیغیہ یوسفیہ اخلاقیہ اور سکریٹری حضرت مولانا غلام احمد رضا مصباحی مزید ان فعال ٹیم کی محنتیں قابل امتنان ہے، موجودہ دارالعلوم سمرا کی ہمہ جہت ترقی میں مخلص احباب اور باشندگان سمرا کا خصوصی عمل دخل ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ سمرا،شیوہر،برگاؤں،گرھمی اور چوپار کے علاوہ علاقہ کے تمام جیالے نوجوان و بوڑھے کے دوڑتے ہوئے خون میں مزید تازگی عطا فرمائے۔
ازقلم: محمد ارشد رضا امجدی