غزل

غزل: کیا یہ شہر نفاق ہے یارو

خیال آرائی: سانغنی مشتاق رفیقیؔ

چار سو افتراق ہے یارو
کیا یہ شہرِ نفاق ہے یارو

لوگ رہتے ہیں بد گماں، پھر بھی
دیکھنے میں وفاق ہے یارو

زندگی کا عذاب سہتے ہیں
موت کا اشتیاق ہے یارو

مجھ سے ملنے وہ ان کا آ جا نا
اک حسیں اتفاق ہے یارو

عمر جتنی ہے کھیل ہے اُتنا
زندگی اک مذاق ہے یارو

ان کے لہجے میں، ان کی باتوں میں
اک حسیں طمطراق ہے یارو

کیوں اسے روندتا ہے ہر کوئی
کیا مرا دل عراق ہے یارو

پڑھ کے دیکھو کبھی رفیقیؔ کو
طنز لکھنے میں طاق ہے یارو

ملنا چاہوگے تم رفیقیؔ سے
وہ بڑا خوش مذاق ہے یارو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے