بارگاہِ پاسبانِ ملت میں خراجِ عقیدت کے طور پر چند سطور
ازقلم:- قاضی مشتاق احمد رضوی نظامی
نازشِ علم و فن ، خطیب البراہین ، سلطان المناظرِین ، خطیبِ مشرق ، پاسبانِ ملت ، حضرت علامہ مشتاق احمد نظامی علیہ الرحمہ کی ذات اربابِ علم و ادب میں محتاجِ تعارف نہیں
آپ کی ذات اور خدمات پر اگرچہ فقیر کما حقہ لکھنا چاہے تو اس کے لئے ایک طویل وقت درکار ہے
اور لکھ تو سکتا ہوں مگر راقم کا بار بار کا تجربہ ہے جب بھی میں نے حضور پاسبانِ ملت علیہ الرحمہ کی خدمات و حیات پر لکھنے کی کوشش کی ہے اور لکھتے لکھتے حضرت کے اُن آخری علالت کے ایام اچانک میرے نگاہوں کے سامنے آجاتے ہیں تو وہ اُداسی سے بھرا چہرہ نم ناک آنکھیں یاد کر کے بے ساختہ میری آنکھوں سے آنسوں نکل جاتے ہیں اور ہاتھ کانپنے لگتے ہیں اور رہ رہکر حضرت کا وہ غمگین چہرہ سامنے آجاتا ہے
قارئین کو بتانا چاہتا ہوں غمگین چہرے کا مطلب یہ نہیں کہ اُنہیں دنیاء وما فیہا کو خیر آباد کرکے چلے جانے کا غم تھااور نہ اہل و عیال کو چھوڑ جانے کا غم تھا بلکہ حضرت کو بس اس بات کا غم تھا کہ دارالعلوم غریب نواز کی چار منزلہ وہ عمارت جسکو مکمل ہونے میں کچھ کام ابھی بھی باقی تھا اور حضرت کو کوئی اولاد بھی نہیں تھی
مولانا انوار احمد نظامی علیہ الرحمہ کو حضرت نے اپنی زندگی میں ہی ناظمِ اعلی کا عہدہ سونپا تھا باوجود اس کے حضرت کے دل میں اندر ہی اندر ایک طرح کا درد بھرا ہوا تھا ایک فکر تھی مجھے اُس وقت ایسا لگ رہا تھا کہ ہو نہ ہو کسی نہ کسی بات کو لیکر نظامی علیہ الرحمہ کو فکر تھی شاید اس بات کی بھی فکر تھی ہوگی کہ میرے اس دنیاء سے جانے کے بعد دارالعلوم کو کون اور کیسے سنبھالیگا ؟
جس کی بنسبت حضرت کے چہرہ انور کو جب بھی میں اپنے تصور میں لاتا ہوں تو مجھے حضرت کے چہرے پر ایک طرح کی اداسی سی چھائی نظر آتی ہے
اور حضرت کی ذات اور خدمات کو لیکر لکھنے میں مجھے اس بات کا بھی ڈر لگا رہتا ہے کہ کہیں میری تحریر کی وجہ سے میرے مرشدِ گرامی عالی وقار و عالی مرتبت کی شان میں کسی طرح کی بے ادبی و گستاخی نہ ہوجائے
چونکہ میرے علم و فہم میں اتنی وسعت نہیں کہ میں بارگاہِ پاسبانِ ملت میں صحیح طریقے سے کما حقہ خراجِ عقیدت بطور مقالہ یا مضمون پیش کر سکوں
مجھے اپنی کم علمی کا احساس ہمیشہ دل میں لگا رہتا ہے میں ہمیشہ اپنی کم علمی کو لیکر فکر مند بھی رہتا ہوں
مگرجب میں اپنی سولہ یا سترہ ١٦\ ١٧ سال کی عمر کی طرف نظر ڈوڑاتا ہوں تو مجھے علامہ نظامی علیہ الرحمہ کی وہ عظیم المرتبت ذات یاد آجاتی ہے کہ ایک سولہ سترہ سالہ لڑکے سے (جسے سہی سے اردو لکھنے بھی نہیں آتا) مقالاتِ نظامی جیسی تصنیف مرتب کرنے کے لئے املہ کراتے نظر آتے ہیں اور اس املہ میں ہزارہا غلطیاں آجائیں مگر کبھی کوئی ایسی بات نہیں کہتے کہ املہ کرنے والا یعنی لکھنے والا غصے میں آکر یا اپنے کم علمی و کم فہمی کو لیکر احساسِ کمتری کا شکار ہوجائے اور ہمیشہ کے لئے لکھنا چھوڑدے
علامہ نظامی علیہ الرحمہ کے تصانیف
حضور پاسبانِ ملت علیہ الرحمہ جہاں "خون کے آنسوں ” جیسی دو جلدوں میں گراں قدر کتاب تصنیف فرمائی اور اس کے علاوہ ردِٙ وہابی دیابنہ پر منحصر تصانیف ” جماعتِ اسلامی کا شیش محل ” دیوبند کا نیا دین ” کربلا کا مسافر ” قہرِ آسمانی ” دیوبند کی خانہ تلاشی ” جانیں عقائدِ اہلسنت ” یادیں مٹائی نہ جائیں ” ناقابلِ تردید حقیقت ” امام احمد رضا بریلوی ” نسیمِ رحمت ” ہند کے راجہ سوانح خواجہ ” اسی کے ساتھ ساتھ حضرت یہ چاہتے تھے کہ اپنی زندگی ہی میں ” مقالاتِ نظامی ” کے نام سے ایک اور کتاب شائع ہوجائے مگر آپ کا یہ دیرینہ خواب اپنی زندگی میں تو پورا نہ ہو سکا
مگر حضرت کے وصال کے بعد مولانا وقار احمد نظامی صاحب نے اسی مقالات کو لیکر (جس کا املہ مجھ فقیر اور مولانا عطاءالمصطفے سرور نظامی صاحب سے کروایا کرتے تھے) اپنے مکتب سے ” خطباتِ نظامی ” کے نام سے شائع کرکے علامہ نظامی علیہ الرحمہ کے اس دیرینہ خواب کو پورا فرمایا
ہم نے اپنے پیر و مرشد علامہ نظامی علیہ الرحمہ کی ذات کو بہت ہی قریب سے دیکھا ہے جب بھی اپنے چھوٹوں سے ہونے والی تحریری غلطی ہو یا تقریری
غلطی کرنے والے اپنے شاگرد ہوں یا سالوں سال امامت و خطابت کے فرائض انجام دینے والے ائمہ،
یا سالوں سال سے جلسے جلسوں میں خطاب کرنے والے خطیب ہوں یا مدرسے میں تقریری و تحریری مشق کرنے والے طلبہ
ہر ایک کے غلطیوں کی اصلاح کرنے کا جو جذبہ علامہ نظامی علیہ الرحمہ میں تھا آج اس طرح سے اصلاح کرنے کا جذبہ رکھنے والی ذات دور دور تک ہمیں نظر نہیں آتی
یہی وجہ ہے کہ آج ہم جیسے کم فہم و کم علموں کے مضامین میں بھولے بسرے سے بھی ایک دو لفظ چھوٹ جائیں تو اسکی اصلاح کرنے کے بجائے غلطیوں کو اچھالنے اور کمیاں تلاش کرکے ذلیل و رسوا کرنے والےہی زیادہ نظر آتے ہیں
ابھی دس پندرہ دنوں پہلے ماہ نامہ ارشدیہ کے ایڈیٹر صاحب نے حضور پاسبانِ ملت علیہ الرحمہ کی ذات اور ان کے دینی خدمات پر لکھنے کے لئے ایک منتخب مضمون دیا ہے
خطیبِ مشرق پاسبانِ ملت علامہ مشتاق احمد نظامی بحیثیتِ مُناظر
مذکورہ مضمون کو لیکر ابھی حال ہی میں چند صفحات حضرت نظامی علیہ الرحمہ کی مناظرانہ صلاحیتوں پر مشتمل مضمون مقالے کی شکل میں ترتیب دیکر نیز علامہ نظامی علیہ الرحمہ کی زندگی کے وہ حقائق جو فقیر نے چار سال ساتھ رہکر دیکھیں ہیں ان تمام دینی خدمات کو پیش کرنے کی حتی الامکان کوشش کی ہے
قارئین سے فقیر کی گذارش ہے ماہ نامہ ارشدیہ میں علامہ نظامی علیہ الرحمہ کی ذات پر لکھے گئے مقالے کو ضرور پڑھیں اسی لئے میں اس وقت یہاں خوفِ طوالت کی بنا پر مزید کچھ نہ لکھ کر بارگاہِ پاسبانِ ملت علیہ الرحمہ میں انہیں چند الفاظ کو بطور نذرانہ پیش کرتے ہوئے دعاء کرتا ہوں مولی تعالی ہم سب کو بارگاہ پاسبانِ ملت کا فیض بذریعے علم و حکمت کے عطا ہو
اخیر میں دنیاء کے اُ س عظیم شخصیت کا جو آخری سفر رہا اس کا بھی اس وقت مختصرطور پر تذکرہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں
٩ ربیع الآخر ١۴١١ھ دوشنبہ کا دن مطابق ء١٩٩٠کو وہ دنیاء کا واحد عظیم خطیب جسے خطیبِ مشرق کا خطاب دیا گیا تھا آج ہی کی وہ اسلامی تاریخ تھی جسمیں وہ عظیم خطیب اس دارِ فانی سے کوچ کر کے دارِ بقا کی اور اپنے مالکِ حقیقی سے جا ملا ہے
اُس دن کو زندگی بھر میں بھول نہیں سکتا بابری مسجد کو لیکر ملک بھر میں فسادات شروع ہو چکے تھے سارے شہرِ الہ باد میں کرفیو لاگو کردیا گیا تھا
بس مختصر سے چند ہی لوگوں کو جنازے میں شرکت اجازت دی گئی تھی
گھر سے جنازہ پولیس اور ملٹری کی نگرانی میں دارالعلوم غریب نواز لایا گیا اسی مختصر سے وقت میں چند ہی علماء اور شہر کے مخصوص لوگ جو صرف خاندان کے افراد ہونے کی وجہ سے جنازے میں شرکت کی اجازت دی گئی تھی
اِن تازہ ترین فسادت کے دنوں میں بھی علماء و فقہاء کی ایک اچھی خاصی تعداد دارالعلوم غریب نواز میں جمع ہو چکی تھی دارالعلوم کے صحن ہی میں نمازِ جنازہ ادا کی گئی ، سرِ فہرست حضرت مولانا انوار احمد نظامی ، حضرت مفتی شفیق احمد شریفی مصباحی ، مولانا آفاق احمد نظامی ، مولانا وقار احمد نظامی ، جناب مُنّا ابنِ مولانا انوار احمد نظامی ، مولانا مجاہد حسین مصباحی ، مولانا ابو سفیان صاحب قبلہ کے علاوہ دارالعلوم کے دیگر اساتذہ و طلبہ و عمائدین نے ملکر حضرت کو حضرت ہی کے حجرے میں (جس حجرے میں حضرت ہمیشہ محوِ استراحت فرماتے ، لوگوں سے ملاقات کیا کرتے ، کبھی کبار وہیں بیٹھ کر پڑھایا کرتے ، مدرسین سے گفت و شنید فرماتے ،) سپردِ خاک کیا
آج شہرِ الہ باد میں ملک و بیرونی ملک سے آئے ہر ایک خاص و عام کے لئے اور خصوصاً تشنگانِ علم و حکمت کے لئے حضرت نظامی الرحمہ کا وہ مزارِ پُرانور بارگاہِ رب العلی میں وسیلہ بنے ہوئے ہے
دعاء ہے مولی تعالی حضور خطیبِ مشرق پاسبانِ ملت علامہ نظامی علیہ الرحمہ کے اِس عرسِ پاک کے طفیل ہم سب کو علم و حکمت کے فیضان کے ساتھ ساتھ ایمان و ایقان کی عملی زندگی نصیب فرمائے اور باطل فرقہ پرستوں کے شر و فساد سے محفوظ فرمائے
آمین بجاہ سیدالمرسلین و علی آلہ و صحبہ اجمعین
بروز دوشنبہ ٩ ربیع الثانی ١۴۴٣ھ مطابق ١۵ نومبر ٢٠٢١ء
9916767092