تحریر: محمد شہادت حسین فیضی
میں کچھ واقعات پیش کرتا ہوں جسے پڑھنے کے بعد میرے سوال کا جواب دیں۔ یا کم از کم گہرائی کے ساتھ اس پر غور کر کے کسی نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کریں۔
١_ ایپل فون کے مینیجر وویک تیواری کو لکھنؤ میں پولیس کانسٹیبل پرشانت چودھری نے قتل کر دیا, وزیر اعلیٰ نے فوراً وویک تیواری کی اہلیہ کلپنا تیواری سے ملاقات کی۔ اتر پردیش حکومت کی طرف سے فوری طور پر چالیس لاکھ روپے ک معاوضہ خاندان کے حوالے کیا گیا۔ اور ویویک تیواری کی اہلیہ کلپنا تیواری کو لکھنؤ میونسپل کارپوریشن میں او ایس ڈی کے عہدہ پر تقرری کا لیٹر دیا گیا۔
مزید برآں لکھنؤ میں ایک گھر دیا گیا اور وویک تیواری کے بچوں کو ریاستی حکومت نے تاحیات تعلیم فراہم کرنے کا اعلان کی ۔
٢_ گورکھپور میں کانپور کے تاجر منیش گپتا کی پولیس کے ہاتھوں قتل کے بعد وزیر اعلی نے فوری طور پر منیش کی بیوی میناکشی گپتا سے ملاقات کی۔ اور میناکشی تیواری کو کانپور ڈیولپمنٹ اتھارٹی میں او ایس ڈی کے عہدہ کے لیے چالیس لاکھ روپے کی مالی امداد اور ایک سرکاری نوکری دی گئی۔اور سماجوادی پارٹی کی طرف سے سابق وزیر اعلی اکھلیش یادو نے بھی بیس لاکھ روپئے کی مدد کی، اور تمام پارٹیوں کے رہنما جا کر میناکشی سے ملے۔
٣پولس حراست میں صفائی کرمچاری ارون والمیکی کی موت پر حکومت نے دس لاکھ کا معاوضہ دیا اور خاندان کے ایک فرد کو سرکاری نوکری کا یقین دلایا۔اور کانگریس پارٹی کی طرف سے پرینکا گاندھی بھی گئیں اور اس کے خاندان کو گلے لگایا، اکھلیش یادو نے بھی دس لاکھ روپئے دیے اور حکومت سے دو کروڑ روپئے کے معاوضے کا مطالبہ کیا۔ ۴- ایسا ہی لکھیم پور کھیری میں جب کسان روند ڈالے گئے تو وہاں بھی ہر مقتول کو ایک کروڑ 45 لاکھ روپے کرکے معاوضہ دیا گیا۔ ۵ اس کے بعد ایک مسلمان کا واقعہ بھی پڑھ لیں الطاف نام کا ایک 21 سالہ نوجوان جو ماربل لگانے کا کام کرتا تھا8 نومبر کو دن میں اس کو کاس گنج تھانہ کی پولیس گرفتار کر کے تھانہ لےجا کر بند کر دیتی ہے۔ جو بے قصور ہونے کی وجہ سے بالکل نارمل تھا۔ دوسرے دن یعنی 9 نومبر 2021 کی شام کے وقت اس کے گھر والوں کو خبر دی جاتی ہے کہ الطاف اپنے ہی کپڑے کا پھندا بنا کر لاک اپ کے باتھ روم میں لگے نل سے لٹک کر خودکشی کر لی ہے۔ اسے علاج کے لئے ہاسپیٹل لے جایا گیا لیکن وہ بچ نہ سکا۔ جبکہ الطاف کم ازکم پانچ فٹ کا لڑکا تھا اور باتھ روم کا نل صرف دو فٹ کی بلندی پر ہے۔
بہرحال اصل واقعہ یہ ہے کہ الطاف کو پولیس نے لاک اپ میں مار مار کر شہید کر دیا اور خودکشی کی ایک جھوٹی کہانی جو صاف طور پر جھوٹی لگتی بھی ہے بنا کر پیش کر دیا۔ اور پھر ظلم کا سلسلہ یہیں نہیں رکا بلکہ اس کے باپ کو بھی ڈرا دھمکا کر ایک کاغذ پر ٹھپا لگوا لیا کہ الطاف نے ڈپریشن میں آکر خودکشی کرلی ہے اس میں پولیس کی کوئی غلطی نہیں ہے۔
آپ تصور کیجیے کہ آج ہم مسلمان کس قدر بے بس اور مجبور ہیں۔ کہ ہم اپنے بیٹے کے قاتلوں کے بارے میں انصاف بھی نہیں مانگ سکتے۔ ایک باپ کو اپنے جوان بیٹے کی موت پر اس طرح کے بیان دینے کے لیے کس قدر کربناک مجبوریوں سے گزرنا پڑا ہوگا۔ اس پر جب میں غور کرتا ہوں تو آنکھوں سے آنسو ٹپکتے ہیں، اور رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اور میں کانپ سا جاتا ہوں کہ مسلمانوں کے لیے اب ایسے دن آگئے کہ اب ہم انصاف بھی نہیں مانگ سکتے؟ آج ہی تریپورہ سے خبر آئی ہے کہ جو لوگ وہاں کے حالات کو دیکھنے اور سمجھنے گئے تھے یا وہاں کے مقامی لوگ جوکچھ کر سکتے تھے ایسے 102 لوگوں کے خلاف یو اے پی اے (Unlawful Activities (Prevention) Act) اور دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کرکے جیل میں ڈال دیا گیا ہے ان میں ننیانوے (99)مسلمان ہیں اور تین (3)ہندو۔ غور کریں ظلم بھی مسلمانوں پر، گرفتاری بھی مسلمانوں کی۔ ان حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟۔
اس پستی کی وجہ کیا ہے؟ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ مسلم سیاسی قائدین؟ علماء اکرام؟ مسلم سیاسی پارٹیاں؟ یا مسلمانوں کی فلاح اور حفاظت کے نام پر بنائی گئیں مسلم تنظیمیں؟ یا کوئی اور اس کا ذمہ دار ہے؟۔
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستاں والو
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں (علامہ اقبال)
ہمیں اس کی وجہ ڈھونڈ نی ہوگی۔ اور اس کے لئے ذمہ دار لوگوں کی بھی شناخت کرنی ہوگی۔ اور سنبھل کر رہنا ہو گا جبھی ہمارا مستقبل محفوظ ہے۔