امت مسلمہ کے حالات سیاست و حالات حاضرہ

فلسطین کے مسائل اور امت مسلمہ کی ذمہ داریاں

یہ مسئلہ بالکل عیاں و بیاں ہے کہ ارضِ فلسطین کی موجودہ صورتحال کس قدر پیچیدہ اور سنگین ہو چکی ہے،بالکل ایک صاف و شفاف پانی کے مانند ہے، جس کی پاکیزگی اورشفافیت کو دیکھ کر کسی کے ذہن میں کوئی شک و شبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی اسی طرح یہ مسئلہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہےبلکہ ہر صاحبِ شعور بخوبی اس حقیقت سےواقف ہے کہ یہاں کی حالات کتنی الجھی ہوئی اور پریشان کن ہیں۔کہ یہ وہی مقدس سرزمین ہے جہاں انبیاء علیہم السلام کا اجتماع ہوا، جہاں امام الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے تمام انبیاء کی امامت فرمائی۔ وہی مبارک جگہ ہے جہاں آدم صفی اللہ، نوح نجی الله، ابراہیم خلیل الله، اسماعیل ذبیح الله، موسیٰ کلیم اللہ، عیسیٰ روح اللہ اور حضرت محمد رسول اللہ ﷺ جمع ہوئے تھے۔

یہ وہ مقدس جگہ ہے جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے، جس کا ذکر احادیث میں آیا ہے، جسے خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فتح کیا تھے، اور ان کے بعداسلامی دنیاکےعظیم مجاہد صلاح الدین ایوبی نے آزاد کرایا تھے۔ لیکن آج اسی سرزمین پر کچھ سفاکوں نے، شیطان کے پجاریوں نے، ابلیس کے درندوں نے، نمرود کے حامیوں اور دجال کے پیروکاروں نے قبضہ جما رکھا ہے…………

اے قبلۂ اول، پاک حرم
ہے آج ترا ہر سو ماتم
دل خون ہے، آنکھیں ہیں پرُنم
شیرازہ ہے درہم برہم
پھر ملت کی تنظیم کرے
پھر کوئی صلاح الدین اٹھے

اگر ہم اس پُرفتن دور کا محاسبہ کرے تو یہ حقیقت آشکار ہوجائیگی کہ آج کل کے لوگ دنیاوی مصروفیات میں اس قدر گم ہو چکے ہیں کہ نہ کسی کے درد کا احساس رہا اور نہ کسی کے حق کا احترام باقی رہا۔ ہر شخص اپنی ذات کے مفادات میں کھویا ہوا ہے، جبکہ فلسطین کے معصوم بچوں کی آنکھوں سے بہنے والے آنسو اور ان کے سسکتے ہوئے جذبات دنیا کو چیخ چیخ کر یہ بتا رہے ہیں کہ ان پر کس قدر ظلم و ستم ڈھایا گیا ہے۔ ان کے اجڑے ہوئے گھر اور تباہ شدہ بستیوں کی ویران اینٹیں اس بے رحمی کی گواہی دے رہی ہیں جو انسانیت کے ماتھے پر بدنما داغ ہے۔

فلسطین کے ننھے معصوم بچے، جن کی عمریں دو، تین، یا چار سال ہیں، اپنی بے بسی کے عالم میں اپنی یتیمی کا حال بیان کر رہے ہیں۔ یہ وہ پھول ہیں جو ابھی کھلنے بھی نہ پائے تھے کہ ظلم کی آندھیوں نے ان کی خوشبو چھین لی۔ وہ چہرے جو اپنے والدین کی محبت کا لمس محسوس کرنے سے بھی محروم رہے، آج بھوک، خوف اور بے بسی کے عالم میں سوال کر رہے ہیں کہ ان کا قصور کیا تھا؟ نہ ان کے پاس کھانے پینے کا کوئی ذریعہ باقی بچا، نہ ہی سر چھپانے کا کوئی ٹھکانہ۔ وہاں کے مسلمانوں پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں، دن دہاڑے بمباری ہو رہی ہے، مسجدوں میں عبادت گزاروں پر گولیاں برسائی جا رہی ہیں، اور باپردہ مسلم خواتین کو بے رحمی سے شہید کیا جا رہا ہے۔مگر امت مسلمہ کہاں ہے؟ وہ امت جسے دنیا کی قیادت اور مظلوموں کی داد رسی کے لیے منتخب کیا گیا تھا، آج غفلت کی نیند میں مدہوش ہے۔ دنیا بھر میں تماشائی بنے لوگ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ اگر مظلوموں کے حق میں آواز اٹھانے والوں کا جائزہ لیا جائے تو شاید ٪5فیصد سے بھی کم لوگ ان کے لیےآواز اٹھاتے ہو‎ۓ نظر آرہے ہیں۔

کبھی اے نوجواں مسلم! تدّبر بھی کیا تونے؟
وہ کیا گردوں تھا، تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا؟
تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوشِ محبت میں
کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاج سردار

فلسطین کے مسئلے کی تاریخ:

بیلفور اعلامیہ سے لے کر اسرائیل کے قیام تک
پہلی عالمی جنگ کے بعد، سلطنت عثمانیہ کی شکست کے بعد فلسطین پر برطانیہ کا کنٹرول قائم ہوا۔ 1917 میں برطانوی وزیرِ خارجہ آرتھر بیلفور نے بیلفور نے اپنے نوٹس کو جاری کیا، جس میں برطانیہ نے فلسطین میں یہودیوں کے لیے ایک "قومی گھر” قائم کرنے کا وعدہ کیا۔ اس بیان نے فلسطینی عربوں میں شدید تشویش اور مخالفت کو جنم دیا کیونکہ وہ اپنے علاقے میں یہودیوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کو ناپسند کرتے تھے۔ 1920 سے 1940 کی دہائیوں میں فلسطین میں یہودیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا، خاص طور پر نازی ظلم و ستم سے بچ کر آنے والے یورپی یہودیوں کی وجہ سے یہ تعداد بڑھتا گیا۔۔۔۔۔

یہ مسئلہ کے بعد1947 میں اقوام متحدہ نے فلسطین کو دو ریاستوں میں تقسیم کرنے کی تجویز دی، جسے یہودیوں نے قبول کیا، مگر عربوں نے مسترد کر دیا۔ 14 مئی 1948 کو اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا گیا، جس کے فوراً بعد پانچ عرب ممالک نے اسرائیل پر حملہ کر دیا۔ اس جنگ کے نتیجے میں لاکھوں فلسطینی پناہ گزین بن گئے، جنہیں النکبہ (تباہی) کہا جاتا ہے۔ 1967 میں اسرائیل نے غزہ، مشرقی بیت المقدس اور مغربی کنارے پر قبضہ کر لیا، اور آج بھی فلسطینیوں کے بنیادی مسائل جیسے پناہ گزینوں کا مستقبل، یہودی بستیاں اور بیت المقدس کی حیثیت حل طلب ہیں۔

علامہ اقبال یوں لکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔

ہے خاک فلسطيں پہ يہودي کا اگر حق
ہسپانيہ پر حق نہيں کيوں اہل عرب کا
مقصد ہے ملوکيت انگليس کا کچھ اور
قصہ نہيں نارنج کا يا شہد و رطب کا

امت مسلمہ کی ذمہ داری: مظلوموں کی حمایت
أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَخْبَرَهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:” الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ لَا يَظْلِمُهُ وَلَا يُسْلِمُهُ، وَمَنْ كَانَ فِي حَاجَةِ أَخِيهِ كَانَ اللَّهُ فِي حَاجَتِهِ، وَمَنْ فَرَّجَ عَنْ مُسْلِمٍ كُرْبَةً فَرَّجَ اللَّهُ عَنْهُ كُرْبَةً مِنْ كُرُبَاتِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ”.

عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، پس اس پر ظلم نہ کرے اور نہ ظلم ہونے دے۔ جو شخص اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرے، اللہ تعالیٰ اس کی ضرورت پوری کرے گا۔ جو شخص کسی مسلمان کی ایک مصیبت کو دور کرے، اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کی مصیبتوں میں سے ایک بڑی مصیبت کو دور فرمائے گا۔ اور جو شخص کسی مسلمان کے عیب کو چھپائے اللہ تعالیٰ قیامت میں اس کے عیب چھپائے گا۔

اسلام ایک آفاقی دین ہے جو ہمیں امن، محبت اور ہمدردی کا پیغام دیتا ہے۔ ہمارے پیارے نبی ﷺ نے ہمیں سکھایا کہ مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں؛ جب ایک عضو کو تکلیف پہنچتی ہے تو پورا جسم بے چین ہو جاتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: المسلم اخو المسلم یعنی مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے، اور اس بھائی چارے کی بنیاد پر ہمیں اپنے مظلوم اور مصیبت زدہ بھائیوں کا سہارا بننا ہے۔

آج جب ہم فلسطین اور دیگر مظلوم خطوں کے معصوم بچوں کی یتیمی، خون کے آنسو اور آہ و فغاں کو دیکھتے ہیں، تو ہمیں اپنے دین کی حقیقی روح پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارا دین ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ہم نہ صرف اپنی ضروریات کو پورا کریں بلکہ دوسروں کے غموں میں شریک ہوں اور ان کی مدد کریں۔ اگر ہم اس ذمہ داری کو سمجھیں اور اپنے مظلوم بھائیوں کے دکھ میں شریک ہوں تو نہ صرف ہم اپنی امت کو عزت و وقار دے سکتے ہیں، بلکہ انسانیت کے تقاضوں کو پورا کر کے ایک روشن مثال قائم کر سکتے ہیں۔ یہ ہماری اخلاقی اور دینی فریضہ ہے کہ ہم اپنی توانائی اور وسائل کا استعمال مظلوموں کی حمایت میں کریں، تاکہ اسلام کی حقیقی روح دنیا کے سامنے آ سکے۔

لہٰذا، تمام مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے فلسطینی بھائیوں کی مدد کریں، اپنی ارض مقدس کی حفاظت کریں، اپنے قبلہ اول کی بقا کے لئے جدوجہد کریں، اور اس مسجد کی حفاظت کریں جسے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فتح کیا اور جسے عظیم مجاہد صلاح الدین ایوبی نے آزاد کرایا۔ لیکن اگر ہم مسلمانوں کا جا‏ئیزہ لے تو پتا چلے گا کہ اس موجودہ دور میں ٪5 مسلمان ایک مضبوط اور یکجہتی کی آواز کے ذریعے ان کی مدد کیلئے مضبوطی کے ساتھ کھڑے ہوے ہیں۔لیکن مسئلہ فلسطین کے سلسلے میں امت مسلمہ کے ہر فرد کو بیدار کرنا، انہیں ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلانا اور انہیں اپنے کردار سے آگاہ کرنا مسلم علماء اور قائدین کی اہم ترین ذمہ داری ہے۔

فلسطین کے موجودہ حالات اورغزہ کی تباہی : ایک مختصر جائزہ
فلسطین، وہ مقدس زمین ہے جس پر انبیاء علیہم السلام کی بعثت ہوئی اور جہاں سے حضرت محمد ﷺ نے معراج کا سفر کیا، آج ایک بار پھر ظلم و بربریت کی لپیٹ میں ہے۔ 24نومبر تک کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق، غزہ میں کم از کم 44,179 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں 17,492 بچے شامل ہیں۔ زخمیوں کی تعداد 104,473 سے تجاوز کر چکی ہے، جبکہ 11,000 سے زائد افراد گمشدہ ہیں۔ مقبوضہ ویسٹ بینک میں بھی 794 افراد، جن میں 167 بچے شامل ہیں، اپنی جانیں گنوا چکے ہیں اور 6,250 سے زائد افراد زخمی ہیں۔ اس کے علاوہ، اسرائیل میں بھی 1,139 ہلاکتیں اور کم از کم 8,730 زخمی رپورٹ ہوئے ہیں۔

غزہ میں اسرائیلی حملوں نے وسیع تباہی مچائی ہے۔ اقوام متحدہ، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور فلسطینی حکومت کے مطابق، 24 نومبر تک غزہ کے نصف سے زیادہ گھر یا تو جزوی طور پر یا مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔ 80 فیصد کاروباری ادارے اور 87 فیصد تعلیمی ادارے متاثر ہو چکے ہیں۔ صحت کے شعبے میں 36 میں سے 17 ہسپتال جزوی طور پر کام کر رہے ہیں۔ 68 فیصد سڑکوں کا نظام اور زرعی اراضی بھی تباہ ہو چکی ہے، جس سے غزہ کے عوام کی زندگیوں پر شدید اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

اسرائیل اور فلسطین جنگ : جرنلسٹس شہیدوں کی تعداد
20 نومبر تک، اسرائیل و غزہ کے درمیان جنگ کے آغاز کے بعد سے 150 سے زائد جرنلسٹس اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، جن میں اکثریت تعداد فلسطینیوں کی ہے۔ کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس اور انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس کے مطابق، کم از کم 120 فلسطینی، تین لبنانی اور دو اسرائیلی صحافی ہلاک ہوئے ہیں۔یہ دل دھلادینے والی حقیقت ہے کہ جرنلسٹس کی آزادی کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔ یہ جنگ زدہ علاقوں میں جرنلسٹس کی حفاظت کی اہمیت کو نمایاں کرتی ہے اور عالمی برادری کو ان کی اخلاقی ذمہ داری کا احساس دلاتی ہے۔

یہ خطہ اسلامی تاریخ میں ہمیشہ اہم رہا ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں یہ زمین عیسائیوں نے مسلمانوں کے حوالے کی تھی، لیکن وقت کے ساتھ یہودیوں کے استعماری چنگل میں چلی گئی۔ 1097ء میں یہودیوں نے اس پر قبضہ کیا، تاہم 1352ء میں عظیم مسلم مجاہد، سلطان صلاح الدین ایوبی نے اسے آزاد کرایا۔ آج پھر، مسلمانوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی مقدس زمین اور اپنے قبلہ اول کی حفاظت کے لئے بیداری پیدا کریں۔

اور جون 2024رپورٹ کے مطابق فلسطینی ریاست کو اقوام متحدہ کے 193 رکن ممالک میں سے 146 ممالک نے ایک خودمختار ریاست کے طور پر تسلیم کر لیا ہے، جو کہ اقوام متحدہ کے تمام رکن ممالک کا 75 فیصد سے زیادہ بنتا ہے۔

خلاصہ
فلسطین کا مسئلہ صرف فلسطینیوں کا نہیں، بلکہ پوری امت مسلمہ کا ہے۔ ہمیں اپنے مظلوم بھائیوں کی حمایت میں متحد ہو کر ان کے حقوق کا دفاع کرنا ہوگا۔ ایک مضبوط اور یکجہتی کی آواز کے ذریعے ہی ہم فلسطینیوں کو انصاف اور آزادی دلوا سکتے ہیں۔امت مسلمہ کی بنیادی ذمہ داری یہ ہے کہ جہاں کہیں بھی ظلم و ستم کا سامنا ہو، خواہ وہ اپنے معاشرتی دائرے میں ہو یا دنیا کے کسی کونے میں، اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرے اور مظلوموں کے حقوق کا دفاع کرے۔ یاد رکھیں، ظلم کے خلاف جہاد صرف جنگ میں نہیں بلکہ اپنے قول و عمل سے بھی کیا جا سکتا ہے۔ اللہ العزت نبی اکرم ﷺ کے صدقے میں ان کی حفاظت فرمائے، اور ان سب کو صبر جمیل عطا فرمائے۔اللہ ہمیں ان کے حق میں دعا کرنے کی توفیق اور رفیق عطا فرمائے، آمین۔

انبیا کا مبارک وہ مسکن ہوں میں
صرف مسکن نہیں انکا مدفن ہوں میں
خون سے پھر بھی دیکھو میں رنگین ہوں
میں فلسطین ہوں میں فلسطین ہوں

از قلم ؛ محمد سرفراز
ڈگر اسکالر : دارالہدیٰ اسلامک یونیورسٹی
razasarfaraz672@gmail.com
dearsarfu@gmail.com
9341117300

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے