(جراُت اظہار)
تحریر: نعیم الدین فیضی برکاتی
اعزازی ایڈیٹر:ہماری آواز (رانی پور،پورندرپور مہراج گنج)
آزادی کے وقت ہندوستان کا مسلمان ایک سیکولر ملک کاخواب اپنے دل میں سجاکرخوشیاں منارہا تھا۔جشن آزادی کانعرہ لگا کردنیا والوں کویہ بتا رہا تھا کہ ہم آزاد ہو چکے ہیں۔لیکن ان بے چاروں کویہ معلوم نہیں تھا کہ آزادی کی صبح ہی ان کو فرقہ پرست تنظیموں اور پارٹیوں کے ذریعہ غلامی اور تعصب کی زہریلی زنجیروں میں جکڑ دیا جائے گا۔ان کے وہم وگمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ انگریزوں سے ملنے والی آزادی کے ذریعہ ان سے اذان اورنماز پڑھنے تک کی آزادی چھین لینے کے لیے بے جا اور بے بنیاد کوششیں کی جائیں گی اور بڑے پیمانے پر نفرت کا بازار گرم کیا جائے گا۔بڑے بڑے مسلم لیڈران اورمجاہدین آزادی اس دور اندیشی سے محروم رہے اوراسلام کے نام پر بننے والے ملک پر ایک سیکولر ملک کو تر جیح دی اور اپنے محبوب وطن بھارت سے بے پناہ محبت کی۔
یہ سب بیان کرنے کی ضرورت اس لیے پڑرہی ہے کیوں کہ پچھلے مہینوں سے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ایک بار پھر سے اذان اور نماز کے مسئلے کو اچھال کر بے روزگاری اورمہنگائی جیسے ایشوز کوچھپانے کا نفرتی کھیل کھیلا جارہا ہے۔مذہبی جلوسوں کی آڑ میں شرپسندی اور دنگائیوں کی حوصلہ افزائی کا خوب صورت منظر پیش کیا جارہا ہے۔انصاف اور قانون کا گھلا گھونٹ کر ڈکٹرشپ اور ناناشاہی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔الغرض وطن عزیز کے حالات دیکھنے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ پھر سے اسی دوقومی نظریہ کی بو آرہی ہے،جس کے ذریعہ آزادی کے وقت ملک کو دو حصوں میں بانٹا گیا تھا۔اوراب اسی ناپاک حربے کے ذریعے مسلمانوں کے لیے سیکولر ملک میں زمینیں اتنی تنگ کرنے کی کوشش کی جارہی ہیں کہ مذہبی معاملات میں بھی بے جا مداخلت کی بات کہی جارہی ہے۔
بتاتے چلیں کہ ہندوستان میں اذان اور نماز پر پابندی اور اعتراض کی یہ ریت کوئی نئی نہیں ہے۔اس سے پہلے بھی سستی شہرت کے حصول کی خاطر اس طرح کی باتیں ایک ہندوستانی گلوکار سونونگم ،نغمہ جاوید اختراور بنارس کے ایک پروفیسر کے علاوہ بہتوں کے ذریعہ کہی جاچکی ہیں اور جمعہ کی نمازتک پر بھی پابندی کی بے جا کوششیں کی جاچکی ہیں۔مگر کیا کیجیے یہ ہمارے جمہوری ملک کی خوب صورتی ہی ہے کہ ملک کی سیاست کا پہیا صرف اورصرف مسلمانوں کے گرد گردش کرتا ہے۔ہماری مانیں تویہ بیان ہمارے سیکولر ملک کے لیے ایک سیکولر تحفہ ہے۔ایسی حرکت تو انگریزوں نے اپنے دور اقتدار میں بھی نہیں کی،جب ہمارے گردنوں میں غلامی کا پٹہ پڑا تھا۔ایسی پابندی چین جیسے ملک میں بھی نہیں ہے۔میرا سوال یہ ہے کہ جہاں دیوالی کے پٹاخے،ہولی کی رنگت،گنپتی کے جلوس،درگا اور لکشمی کی آرتی اور پنڈال اور مختلف مذہبی یاتراؤں پر ڈھڑلے کے ساتھ لاؤڈسپیکر کا استعمال ہوتا ہے تو دو منٹ کے اذان سے ہی تکلیف کیوں؟ کیا یہی ہے مذہبی آزادی اورسیکولرزم کا مطلب؟
اللہ تعالیٰ نے اس روئے زمین پرجیسے بے شمار انسان پیدا فرمائے ہیں،ویسے ہی ان کے رنگ ونسل اور ذات پات کو لے کر اختلاف رکھا ہے۔ان کی طبیعتیں بھی باہم متضاد اور مختلف ہیں۔کوئی ان میں طبعی طور پر شریف،سنجیدہ اور منصف مزاج والا ہے،جو ہمیشہ حق سننا چاہتا ہے اور حق ہی بولنا چاہتا ہے۔ حالات چاہے جیسے بھی ہوں۔لیکن کچھ لوگ ان میں ایسے ہیں کہ شرات وشر پسندی ان کا شیوہ،نفرت وعداوت پھیلانا ان کی عادت،شہرت وعہدہ کے حصول کے لیے مذہبی معاملات کو اچھال کر پورے ملک میں انارکی پھیلانا ان کا محبوب مشغلہ ہوتا ہے۔پچھلے کئی سالوں سے ہندوستان میں یہی ہو رہا ہے کہ ایک دوسرے کے مذہبی معاملات کو لے کرمتنازع بیان دے دیا جاتا ہے اور پھر ایک خاص قوم کو ذہنی اور جسمانی طور پر پریشان کیا جا تا ہے۔ہمارے ہندوستان میں بالخصوص مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں اتنی مداخلت کی جاتی ہے۔جیسے ہندوستانی آئین سے مذہب کی آزادی کو اب منظم طریقے سے ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ اذان کو لے کر کئی مرتبہ متنازع بیان آچکا ہے۔اور شاید اس طرح کی بیان بازی ہوتی بھی رہے مگر ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے،گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اکثر باشندگان وطن کو کوئی دقت نہیں ہے۔یہ اپنی اپنی عادت کے اوپر ہوتا ہے کسی کو اچھی باتیں بھی اچھی نہیں لگتیں۔ قارئین کرام کو اگر یاد ہو،تریپورہ میں بھی اذان پر متنازع بیان دیا جا چکا ہے جب دیوالی کے موقع پر سپریم کورٹ نے پٹاخوں پر پابندی لگائی تھی تو وہاں کے موجودہ گورنر نے کہاتھاکہ اگر پٹاخوں پر پابندی لگتی ہے تو اذان پر بھی پابندی لگنی چاہئے۔حالانکہ اس وقت کسی مسلمان نے پٹاخے پر پابندی نہیں لگوائی تھی بلکہ سپریم کورٹ نے خود لگایا تھا۔اور بہت سارے لوگ اس فیصلے کی تعریف بھی کر رہے تھے۔لیکن نام نہاد لیڈروں کو جب کچھ نہیں ملتا تو اپنی سیاسی روٹیا ں سینکنے کے لیے مذہب کا سہارا لیتے ہیں،اور گورنر ہوتے ہوئے بھی اول فول بکنے سے گریز نہیں کرتے۔
عزیز دوستوں!آپ خوب جانتے ہیں کہ ایک جیتے جاگتے ملک میں صبح وشام نقارے بجتے ہیں،لوگ قہقہ لگاتے ہیں،موسیقی کے ریکارڈ بجتے ہیں،شادی بیاہ اور دیگت گھریلو تقریبات میں گانے باجے کا رواج عام ہے۔اوریہ روزانہ کا معمول ہے۔جب کہ اذان ایک دن اور ایک رات میں صرف پانچ مرتبہ ہی ہوتی ہے اور صرف دو منٹ کے لیے ہوتی ہے، تو لیڈروں کو جو خود بغیر لاؤڈسپیکر کے کچھ بولتے ہی نہیں، انہیں ساری دنیا کی آواز کو چھوڑ کرصرف اذان ہی کی آواز پر اعتراض کیوں ہوتاہے۔دنیا میں بے شمار مذاہب اور انگنت ادیان پائے جاتے ہیں مگر کوئی بھی مذہب ایسا نہیں ہے جو اس حقیقت سے انکار کرتا ہوکہ تمام کائنات کا خالق ومالک ایک ہے،اس پر سب متحد ہیں کہ سب کامالک وہی ہے اور ایک دن سب کو اس کے حضور پہنچنا ہے۔اذان میں یہی ساری چیزیں ہیں کہ اللہ سب سے بڑا ہے۔اس کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں۔پیغمبر امن و اماں محمد ﷺ اس کے بندے اوراس کے رسول ہیں۔نماز کا وقت ہو گیا ہے۔نماز کی طرف آؤ،کامیابی کی طرف آؤ۔ قرآن اور حدیث پاک میں اذان کی بڑی اہمیت بیان کی گئی ہے۔قرآن پاک میں ہے کہ اللہ کے ذکر سے دلوں کو سکون ملتاہے۔اس کے علاوہ بہت سی آیات ہیں جو اس کی اہمیت کو بیان کرتی ہیں۔حدیث پاک میں بھی اذان کے بہت فوائد بیان کیے گئے ہیں۔پیغمبر اسلام ﷺفرماتے ہیں کہ اللہ اکبر سے دل کو جلا اورروح کو بلندی ملتی ہے اور خالق کے ساتھ رابطہ مضبوط ہوتا ہے۔اللہ اکبر کہنا دنیا اور دنیا کی تمام چیزوں سے زیادہ اللہ کے نزدیک پسندیدہ ہے۔ذکر اللہ،رحمت کا اکسیر،سکون دل کا تریاق اور
مغف
رت کا ذریعہ ہے۔اور دوسری حدیث شریف میں ہے کہ جب کسی بستی میں اذان دی جاتی ہے تو اس دن اللہ اس بستی والوں پر عذاب نازل نہیں فرماتا۔ایک روایت میں ہے کہ جب آدم علیہ السلام ہندوستان کی سر زمین پر اترے تو انہیں گھبراہٹ محسوس ہوئی تو حضرت جبریل نے اتر کر اذان دی،جس سے ان کی گھبراہٹ دور ہو گئی۔ معلوم ہوا کہ اذان تکلیف کی چیز نہیں ہے بلکہ اس سے سکون اور چین ملتا ہے اور جہاں تک اس کی آواز جاتی ہے اللہ وہاں تک عذاب نازل نہیں فرماتا۔
یاد رہے! جمہوری نظام میں رواداری کی بڑی اہمیت ہے۔یہ ضروری نہیں کہ جو میرے عقائد ہوں یا جو میرا طرز حیات ہو،اسے دوسرا بھی اپنائے،مگر یہ ضروری ہے کہ جوشخص ان عقائد ونظریات کا قائل نہ ہو،وہ بھی انہیں برداشت کرے۔مندر کا بھجن،گرجے کا گھنٹہ اور مسجد کی اذان اپنے اپنے انداز میں ایک دعوت ہے۔جسے پسند ہو وہ جائے اور جسے پسند نہ ہو، وہ ادھر نہ جائے،مگر بھلائی کی طرف دعوت دینے کا حق ہر ایک کو ہے۔ پاٹھشالوں اور اسکولوں کے دروازے سب کے لیے کھلے ہوتے ہیں اور وہاں ہر گھنٹے پر جب ضرورت ہوتی ہے، الیکٹرانک گھنٹہ بجتا ہے۔ مگر وہاں کسی کو اعتراض نہیں ہوتا۔کیوں کہ وہاں شہرت اورسیاست کی روٹی نہیں سینکی جاسکتی ہے۔حالانکہ وہاں دن بھر میں نہ جانے کتنی بار بجتا ہے۔
دوستو!یہ ہندوستان ہے۔یہاں بہت سارے مذاہب کے لوگ بستے ہیں۔ہمارے ملک ہندوستان کی خوبیوں میں سے بڑی خوبی ایک دوسرے کو برداشت کرناہے۔یقینامیں بھی گھنٹے کی آواز سنتا ہوں،بھجن اور بھاگوت ہمارے گھر کے پاس ہوتے ہیں اور ایک دن نہیں بلکہ پورے نونو دن ہوتے ہیں اور گیارہ بارہ بجے رات تک لاؤڈسپیکر بجتےرہتے ہیں۔مگرمیں یا کوئی بھی یہ نہیں کہتا کہ یہ گھنٹہ،بھجن اور بھاگوت بند کر دیے جائیں اور اس سے مجھے تکلیف ہوتی ہے۔ ایک چیز ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے کہ ہر مذہب’جیو اور جینے دو‘کے اصول سکھاتاہے۔اسلام بھی یہی کہتاہے کہ دین میں کوئی جبر نہیں۔سیکولرزم ہم ہندوستانیوں کا ایک اہم جزوہے جس کی وجہ سے ہم مذہبی رواداری اور قوت برداشت کو فروغ دیتے ہیں اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔جن لوگوں کو بھی اذان یا دوسری مذہبی چیزوں سے تکلیف ہوتی ہے ان کے اس بے کار کی بیان بازی سے اذان دینے والے،اذان سننے والے اور اذان کی آواز پسند کرنے والے بالکل بھی پریشان نہیں ہوتے،یہ تو اپنے ا پنے سوچ کی بات ہے۔ویسے بھی ہم اذان کسی کو تکلیف پہنچانے کے لیے ہر گز نہیں دیتے اور نہ ہی اسلام اس کی اجازت دیتا ہے،بلکہ اذان اس لیے دی جاتی ہے کہ لوگوں کو یاد آجائے کہ اپنے خالق ومالک کو یاد کرنے کا وقت آگیا۔لیکن اگر کسی کو ساری آواز یں اچھی لگتی ہیں صرف اذان ہی کی آواز اچھی نہیں لگتی تو میں کیا کر سکتا ہوں۔ہاں! دعا ضرور کر سکتا ہوں کہ اللہ جو لوگ بغیر مائک اور لاؤڈسپیکر کے کبھی نہیں بولتے،ان کو ہدایت دے۔آمین