ماضی قریب ہی میں میرے ایک عزیز اور انتہائی مخلص رفیق درس نے التماس و التجا کیا کہ عزیزم میں خامہ فرسائی کے حوالے سے کچھ رموز و نکات کا مقتضی ہوں۔ اور میں چاہتا ہوں کہ آپ میری رہنمائی کریں۔ تو میں نے از خود یہ بات سوچی نصیب دوستاں یہ موقع میسر تو آیا اور جوابدہی کرتے ہوئے رقم طراز ہوا۔ ویسے تو میں خود کو بھی ابھی اس فن کا طفلِ مکتب ہی شمار کرتا ہوں۔ مگر ہاں اتنا ضرور کرسکتا ہوں کہ اپنے تجربات کی خاکہ نگاری کروں اپنی معلومات کے حسبِ موافق، سو یاد رہے عزیزم کہ خامہ فرسائی اور قلم کاری کے لئے لازمی ہے۔ اس کے نظم و نسق کو مد نظر رکھا جائے، اور اسکے قوانین و ضوابط پر سختی سے پابندی کی جائے، مزید اس پر کار آمد بھی ہوا جائے۔
انہیں اصولوں و ضوابط میں سے ایک ضابطہ اور قانون یہ بھی ہے کہ کثرتِ مطالعاتِ کتب پر اپنی پوری توجہ مرکوز و مبذول کی جائے۔ اور ساتھ ہی ساتھ ان کتب کے (جو آپ کے زیر مطالعہ ہوں) اسرار و رموز کو ظاہری اور باطنی طور پر سمجھ کر اپنی وسعت و بساط بھر طرزِ جدیدہ اور اندازِ بسیطہ پر لفظوں کو مثل موتیوں کے پرو کر جملوں کے ہاروں کی تشکیل دی جائے۔ اور ایک لائحہ عمل انجام دے کر خاکہ نگاری کی جائے۔ نیز یہ کہ اس میں واقع ہونے والی غلطیوں اور خطاؤں کی تلاش و جستجو بھی از خود کر مخطوط کو "منزہ عن الخطا” کرنے کی سعئ پیہم حتی المقدور از خود کی جائے۔ بعدہ کسی ماہر سے اس کو بنظرِ تنقید پڑھوا کر سرزد ہونے والی کوتاہیاں اور کمیاں دور کی جائیں۔ تو امکان ہے کہ قلم کاری میں حدِّ کمال نہ سہی مگر کچھ نہ کچھ ہنر تو ضرور حاصل ہو ہی جائے ۔
اوپر جو باتیں مذکور ہیں اس کا ہرگز ہرگز یہ مطلب نہیں کہ بندہ ایک کتاب مطالعہ کرکے اپنی قابلیت کا لوہا منوانے کی فراق میں لگ جائے۔ اگر ایسا ہوا تو سوائے ناکامی اور حرماں نصیبی کے کچھ مقدر نہ ہوگا۔ کیونکہ کہ اس وقت تک فن قلم کاری سے روشناس نہیں ہوا جاسکتا تا آنکہ لفظوں کا انبار اور ذخیرہ اکٹھا نہ کرلیا جائے۔ اور یہ امر اسی وقت ممکن ہو سکتا ہے، کہ جب مطالعاتِ کتب میں کثرت اور انہماکی سے کام لیا جائے، بجائے سستی اور کہالت برتنے کے۔
دوسری بات یہ کہ لفظوں کے انبار اور ذخیرہ اندوزی کے ساتھ ساتھ ترکیب وترتیبِ الفاظ کے طریقِ کار کا بھی علم ضروری ہے۔ کہ کون سی ترکیب درست ہے، اور کون فاسد، کس میں قاعدہ رواں ہے، اور کون سا جملہ خارج از قواعدِ ترکب و ترتب ہے۔ اس کے دو حل میں پیش کئے دوں۔
اولا ہمیں چاہئے کہ اردو ادب کے قواعد پہ دسترس اور عبور حاصل کی جائے۔ اور قواعد کے مطابق و موافق جملوں کو مشکّل و مرتّب کیا جائے۔
دوسرا یہ کہ مطالعات کے وقت ہی غور و خوض کیا جائے کہ فلاں جملے کی ترکیب یوں ہے، تو فلاں کی یوں، اور اس ترتیب کو ذہن نشین کرلیا جائے۔ اور گاہے بگاہے جب کبھی مطالعہ کیا جائے ترتیبات و ترکیبات کو گہری اور عمیق نظری کے ساتھ پیشِ دید رکھی جائے۔ ساتھ ہی اسی طرز
و طریق پر اپنے جملوں کو بھی ترتیب دینے کی کوشش کی جائے تو شاید کچھ کام بن جائے۔
تیسری بات یہ ہے کہ مواد بڑی ہی اہم اور ضروری شئ ہے مضمون نگاری کے لئے۔ اگر مواد ہی نہ ہو تو سارے ذخائر الفاظ، اور سائرِ قواعد و قوانین بے اصل و بے معنی ہیں۔ لہذا مواد کا ایک اہم کردار ہے مضمون نگاری میں جس کو حاصل کرنے کے بہت سے ذرائع ہیں۔ مثلا اخبارات، کتابیں، سوشل میڈیا، سماعِ عرف، نیز تخیلات و تصورات بھی مواد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جو ذہن میں متخیل و متصور ہوتے رہتے ہیں۔ جب ان تینوں امور پر عمل پیرا ہوتے ہوئے کوئی خاکہ یا پھر مخطوطہ ترتیب دیا جائے، تو ضرور مضمون نگاری کا فن حاصل ہو جائے۔ وگرنہ تو وباللہ التوفیق و علیہ التوکلان و المستعان ۔
ایک شبہہ اور اس کا ازالہ
بعض لوگ شکوہ و شکایت کرتے ہیں کہ آگے مطالعہ کرتے جاؤ، پیچھے سب ذہن سے منزوہ و مقطوع ہو کر ختم، اور پڑھا لکھا سب برابر ہو جاتا ہے۔ نیز مطالعہ کا کوئی مطلب سمجھ نہیں آتا کہ اس کا کیا فلسفہ ہے؟
منقول ہے کہ مطالعاتِ کتب کا فلسفہ کچھ ایسے ہی ہے، جیسے کسی نے کھجور کھائی اور گٹھلی پھینک دی۔ اس
کا کچھ حصہ خون میں تبدیل ہوا، کچھ گوشت کی شکل اختیار کر گیا، اور کچھ فضلہ بن کر خارِج ہوگیا۔ مطالعۂ کتب کا بھی یوں ہی معاملہ ہے۔ کہ مطالِع (مطالعہ کرنے والے) کو زیر مطالعہ کتب سے کچھ الفاظ نیز الفاظ کے طرز استعمال کا افادہ و استفادہ ہوتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ چند واقعات ذہن میں ایسے پیوست ہو جاتے ہیں جیسے ذہن ہی کا ایک مخصوص حصہ ہوں۔ اور کچھ مقطوع عن الذہن ہو کر ایسے غائب ہو جاتے ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔
لہذا گھبرائے بغیر مطالعۂ کتب پر نظر جمائے رکھی جائے، تو ضرور بالضرور ذخائر الفاظ اور اسکی فراوانی سے ہم کنار ہوا جا سکتا ہے۔ جو کہ فن قلم کاری اور خامہ فرسائی میں بہترین معاون و مددگار ثابت ہوں سکتے ہیں۔
ازقلم: محمد اختر رضا امجدی
متعلم: جامعہ امجدیہ رضویہ گھوسی مئو یوپی