یہ مقالہ وارث علوم اعلی حضرت خلیفۂ حضور مفتی اعظم ہند امام المنطق و الفلسفہ علامہ خواجہ مظفر حسین رضوی پورنوی قدس سرہ القوی کا ہے۔
جس میں خواجہ صاحب نے ریاضی و ہیئت کی اہمیت و افادیت کو اجاگر کیا ہے فرماتے ہیں:
"تمام علوم پر جس طرح علم ریاضی محیط ہے اسی طرح تمام علوم سے قدیم بھی ہے قیاسی طور پر اگر اس پہلو پر غور کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ واقعۃ علم ریاضی قدیم ترین ماخذ علم ہے” ص ٢٠
پھر اس قدیم ترین علم کے ساتھ علماء مدارس نے کس قدر بے اعتنائی بخشی اس کا شکوہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں
"علوم عقلیہ و نقلیہ ، قدیمہ و جدیدہ سب پر امتناعی حکم لگ چکا تھا۔ مگر خاکستر میں دبی ہوئی چنگاری . کو پھر احساس کی ہوا نے شعلۂ جوالہ بنادیا اور طبقاتی طور پر دو نظر یے ابھر کر سامنے آئے۔ کچھ نے صرف علوم نقلیہ کو بچا کر دین متین کی حفاظت کرنا اپنا فرض منصبی سمجھا یہ گروہ مدارس عربیہ کے علماء و اساتذہ کا تھا۔ جہاں علوم عقلیہ کی طرف برائے نام توجہ کی گئی اور ریاضی و ہیئت کو چند ابتدائی اصول تک محدود رکھ کر نصاب میں شامل کیا گیا۔ تدریب اور مشق کو فرو گذاشت کر دیا گیا جس سے یہ علوم مدارس میں رہتے ہوئے بھی صفر ہو گئے کچھ نے علوم عقلیہ کی طرف توجہ کی اس نے نقل کو ہاتھ بھی نہیں لگایا اور دینی پہلو کو نظر انداز کرتے ہوئے نصاب کی ترتیب ہوئی یہ گروہ کالج اور اسکول کا تھا۔ علم نظری مداریح اٹھتا چلا گیا یہاں تک کہ ۱۸۵۶ء جو امام احمد رضا کی پیدائش کا سال ہے میں مدارس عربیہ ریاضی و ہیئت سے قریب قریب خالی ہو چکے تھے ۔ یہ ایسا انحطاطی دور تھا جس کی مسموم فضاء میں اسلامی ریاضی و ہیئت کا تصور ارتقائی نہ صرف مجنونانہ بلکہ احمقانہ تھا” ص ٢٣
بعدہ ان علوم قدیمہ کو اس قحط زدہ انحطاطی دور میں اعلی حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی قدس سرہ نے کس طرح زندہ کیا اس پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں
"ریاضی و ہیئت میں فاضل بریلوی کی تعلیم اپنے پدر بزرگوار کے فیض تلمذ کا نتیجہ تھی جس کی تفصیل انہوں نے اپنی مایہ ناز تصنیف ” میں دی ہے فرماتے ہیں۔
"فقیر کا درس بحمدہ تعالی تیرہ برس دس مہینے چار دن کی عمر میں ختم ہوا اس کے بعد چند سال تک طلبہ کو پڑھایا فلسفہ جدیدہ سے کوئی تعلق ہی نہ تھا علوم ریاضیہ و ہندسیہ میں فقیر کی تمام تحصیل جمع و تفریق ، ضرب تقسیم کے چار قاعدے کہ بہت بچپن میں اس غرض سے سیکھے تھے کہ فرائض میں کام آئیں گے، اور صرف شکل اول تحریر اقلیدس کی وبس جس دن یہ شکل حضرت اقدس حجة الله فی الارضین معجزة من معجزات سید المرسلین علیہم اجمعین خاتم المحققين سیدنا الوالد قدس سرہ الماجد سے پڑھی اور اس کی تقریر حضور میں کی ۔ ارشاد فرمایا کہ تم اپنے علوم دینیہ کی طرف متوجہ رہو ان علوم کو خود حاصل کر لو گے”
یہ تھی کل کائنات ریاضی و ہیئت میں اساتذہ سے تحصیل کی [تشریح] شیخ بو علی سینا کے بارے میں مشہور ہے کہ اس نے بھی اپنے استاذ سے ریاضی و ہیئت کی بہت کم تعلیم حاصل کی تھی مگر بعد میں اپنے ذاتی مطالعہ سے اس میں چار چاند لگائے مگر فاضل بریلوی کا معاملہ اس سے بھی عجیب تر ہے۔ علوم دینیہ میں انہماک اتنا تھا کہ کسی اور طرف توجہ کی فرصت ہی نہیں ملی ۔
خود فرماتے ہیں :
آج ۴۵ برس سے زائد ہوئے کہ بحمدہ تعالیٰ فلسفہ کی طرف رخ نہ کیا نہ اس کی کسی کتاب کو کھول کر دیکھا۔
لیکن اس عدم التفات واعتناء کے باوجو شفیق استاد کی پیش گوئی پوری ہوئی چنانچہ فرماتے ہیں۔
اللہ عز وجل اپنے مقبول بندوں کے ارشاد میں برکتیں رکھتا ہے حسب ارشاد سامی بعونہ تعالیٰ فقیر نے حساب و جبر و مقابلہ و لوگارثم وعلم مربعات و علم مثلث کروی و علم ہیئت قدیم و ہیئات جدیدہ زیجات و ارثماصیقی وغیرہا میں تصنیفات فائقہ اور تحریرات را ئقہ لکھیں اور صدہا قواعد وضوابط خود ایجاد کئے تحدثا نعمۃ اللہ تعالی بحمد اللہ تعالی اس ارشاد اقدس کی تصدیق تھی کہ ان کو خود حاصل کر لو گے ۔
مذکورہ بالا تحریر کے پیش نظر منکسرانہ تسنیم کے بعد جب ہم ان کی ریاضی اور دیگر علوم کے متعلق ان کی تصنیفات پر نگاہ ڈالتے ہیں تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں کہ ایسے قحط زدہ اور انحطاطی دور میں آپ نے نہ صرف اس علم کو اجاگر فر مایا بلکہ بالفاظ دیگر زندہ بھی کیا ہے حاشیہ رسالۂ لوگارثم ، حاشیہ جامع بہادر خانی ، حاشیہ رسالہ علم مثلث کروی ، تعلیقات علی الزیج الیخانی ، اور حاشیہ تحریر اقلیدس جیسی نابغہ روزگار تصنیفات زبان حال سے واشگاف انداز میں اعتراف حقیقت کرنے پر مجبور کر دیتی ہیں کنج خمولی میں بیٹھ کر وہ بھی دینی امور کی بے پناہ مشغولیت کے باوجود یہ انیق تحریریں جنہیں دیکھ کر ہر صاحب نظر انگشت بدنداں ہو جائے جبکہ کسی فن کی ادنی غیر استدلالی تصنیف کے لئے عمیق مطالعہ وسعت نظر اور فکر پروازی جیسے کتنے اسباب کے فراہمی کی ضرورت پڑتی ہے اور یہاں قلم اٹھا تو چلتا ہی رہا” ص ٢٤_٢٥
امام احمد رضا رضی اللہ عنہ کے والد ماجد رئیس المتکلمین علامہ نقی علی خان کا قول مبارک "ان کو خود حاصل کر لوگے” جہاں ان کی ولایت کی گواہی دیتا ہے وہیں اس بات کی بھی گواہی دیتا ہے کہ بعض علوم میں مہارت حاصل کرنے سے دیگر علوم میں بھی رہنمائی حاصل ہو جاتی ہے اور امام احمد رضا رضی اللہ کو صرف رہنمائی نہیں بلکہ مہارت تامہ کاملہ حاصل ہوئی بلکہ خود صدہا قواعد بھی ایجاد کیے راقم الحروف نے غالبا ثالثہ میں نحوی پہلیاں نامی کتاب میں پڑھا تھا کہ
امام نحو فرا کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ کہا کرتے تھے کہ ایک علم میں مہارت حاصل کر لینے سے دوسرے علوم میں بھی رہنمائی حاصل ہو جاتی ہے اس پر حضرت امام محمد رضی اللہ تعالی عنہ نے ان سے فرمایا کہ تم علم نحو میں کامل مہارت رکھتے ہو ، اپنے علم کی روشنی میں بتاؤ کہ اگر کسی شخص کو نماز میں سہو ہو جائے اور جب وہ سجدۂ سہو ادا کرے تو سجدہ سہو کے دوران پھر سہو ہو جائے تو اس پر دوبارہ سجدہ سہو واجب ہوگا یا نہیں؟ امام فرا نے جواب دیا کہ اس کے لئے وہی سجدہ سہو کافی ہے دوبارہ سجدہ سہو واجب نہیں ہوگا ۔ امام محمد نے دریافت فرمایا کہ تم نے علم نحو کے کس اصول سے اس مسئلہ کا استخراج کیا ؟ فرا نے جواب دیا کہ ” المصغر لا يصغر” تصغیر کی تصغیر نہیں آتی۔ اس قاعدہ پر قیاس کر کے میں نے یہ مسئلہ معلوم کر لیا {نحوی پہلیاں ص ١٦_١٧}
حضور اعلی حضرت کے علم سے اس واقعے کی تصدیق مزید ہوجاتی ہے اور تطمئن القلب حاصل ہوتا ہے کہ حضور اعلی حضرت رضی اللہ عنہ کو جو علوم عقلیہ پر کامل دسترس حاصل تھا یہ علوم دینیہ پر مہارت تامہ کی برکتیں تھیں
اس لیے آج علما کو بھی چاہیے کم از کم کسی ایک علم پر ضرور مہارت تامہ حاصل کریں دریا اگر چہ نہ ملے لیکن دریائے رضا سے ایک قطرہ تو ضرور مل جائے گا جو سیکڑوں دریا پر فوقیت لے جانے کو کافی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری
مقالہ نگار: خواجہ مظفر حسین رضوی پورنوی قدس سرہ
پیشکش: جسیم اکرم مرکزی