تحریر:محمد توحید رضا علیمی
امام مسجدِ رسول اللہ ﷺ مہتمم دارالعلوم حضرت نظام الدین رحمۃ اللہ علیہ نوری فاؤ نڈیشن بنگلور کرناٹک انڈیا
رابطہ 9886402786
دورِحاضر میں شدد پسند فرقہ جو قومِ مسلم کو نشانہ بناکر وقتاََ فوقتاَبے قصورمسلم نوجوانوں پر ظلم و تشددکا پہاڑ ڈھارہے ہیں ہجومی تشددکے بڑھتے واقعات کو لیکر علماء ودانشورانِ قوم و ملت اضطراب کے شکار ہیں کہ کیسے نسل کشی و جنسی تشدد وانسانی حقو ق کی سنگین خلاف ورزیوں اورظلم و ستم وبربریت کو روکا جائے اس کے لئے لائحہ عمل تیار کیا جاتاہے کہ دوسرے مذاہب کو اپنے قریب کر کہ پیغامِ اسلام گھر گھر پہنچایاجائے اور اس بات کا احساس دلایا جائے کہ ہم ہندوستانی ہیں ہم قانونِ اسلام اور ہندوستانی آئین کے مطابق ہر قوم ومذہب کا احترام کرتے ہیںتعلیمِ اسلام ہمیںبے قصوروں پرہرگز ظلم وستم وتشدد کا درس نہیں دیتا اسلام امن وسلامتی کا گہوارہ ہے جو بھی صاحبِ ایمان ہیں اُنکی راہ ِ ہدایت کے لئے اللہ و رسول ﷺ کے فرامین روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں جس پر چل کروہ دنیا و آخرت کی کامیابی و کامرانی حاصل کرتے ہیں ہم امن و محبت وبھائی چارہ ویکجھتی کا پیغام عام کرکہ اسلام کے خلاف اٹھنے والی آواز یںنفرتیں غلط فہمیوںکو محبت سے دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر امن و محبت وبھا ئی چارہ و یکجھتی کے دشمن معاشرہ میں عداوت و دشمنی و دھرم کا زہر اگل کرشددپسندگروہ کواور بھی زہریلا بناتے ہیں اسی کا آج یہ نتیجہ ہے کہ کہیں ہجومی تشدد کہیں جنسی تشددکہیںنسل کشی اورکہیں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں رونما ہورہی ہیں اسے وقت میں قومِ مسلم پریشانی کا شکار ہے کہ ہم ہجومی تشددمیں اپنے ایمان کی حفاظت کیسے کریں حالت ِ مجبوری زبان سے کلمائے کفر نکل جائے تو از روئے شرح کیا حکم ہے وہ مسلمان رہے گا یا نہیںاور اگر ہجومی تشدد میں انتقال ہوجائے تو خاتمہ بلخیر نصیب ہوا یا نہیں ایسے متعدد سوالات پریشانی کا سبب بنے ہوئے ہیں قرآن واحادیث میں حالت اکراہ وجبر میں کلمہء کفر ادا کرنے یا نہ کرنے کا واضح حکم موجود ہے
صحابہ پرظلم و ستم وصحابہ کا ایمان پر استقامت
ایمان کا لغوی معنی کسی بات کو سچ مانناہے ،اصطلاحِ شریعت میں تمام ضروریاتِ دین کو دل سے سچ ماننے اور زبان سے ان کی سچائی کے اقرار کرنے کو ایمان کہتے ہیں ضروریاتِ دین کا مطلب یہ کہ وہ دینی باتیں جن کا دین سے ہونا قطعی و یقینی ہو ،کسی قسم کا شبہ نہ ہو اور ان کا دینی ہونا ہرخاص و عام کو معلوم ہو جیسے خدا کا ایک ہونا ،انبیاء و رسل کا حق ہونا ،قیامت قائم ہونا جزا وسزاکا ہونا ، بعض صورتوں میں زبان سے اقرار کرنا معاف ہے جیسے حالتِ اکراہ میں زبان سے کلمہ کفر بولنے کی ضرورت پڑے لیکن ایسے وقت بھی دل سے تصدیق کرنا اور دل کا ایمان پرجمارہنا لازم و ضروری ہے چنانچہ صحابی رسول حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو انکے والدین کے ساتھ مشرکینِ مکہ نے گرفتار کرکے بہت مارا پیٹاتاکہ وہ اسلام سے پھر جائیں لیکن یہ حضرات نہ پھرے تو کفارنے عماربن یاسررضی اللہ تعالیٰ عنہ کے والدین کو بڑی بے رحمی سے قتل کرڈالا اور حضرت عمار بن یاسر ضعیف تھے بھاگ نہیں سکتے تھے اس لئے انہیں اس بات پر مجبور کیاگیا کہ کلمہ کفر بولیں ،وہ برابر انکا رکرتے رہے پھر انہیں اس قدر اذیت دی گئی کہ وہ بد حواس ہوگئے اور ظالموں نے جوچاہا کہلوالیا تو بادلِ نخواستہ کلمہء کفر کا تلفظ کردیایعنی نہ چاہ کر بھی آپ نے کلمہ کفر بول دیا ،رسول اللہ ﷺ کو یہ خبر دی گئی کہ عمار بن یاسر کا فر ہوگئے ،حضور نے فرمایا ہرگز نہیں عمار تو سر سے پائوں تک ایمان سے پُرہیں اور اس کے گوشت اور خون میں ذوقِ ایمانی سرایت کرگیا ہے پھرحضرتِ عمار بن یاسررضی اللہ تعالیٰ عنہ روتے ہوئے حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ بہت ہی برُا ہوا اور بہت ہی بُرے کلمے میری زبان پر جاری ہوئے ہیں ،حضور ﷺنے دریافت فرمایا اس وقت تیرے دل کا حال کیا تھا ؟ انھوں نے کہا یا رسول اللہ ﷺ میرا دل ایمان پر خوب جماہواتھا ، حضورﷺ نے شفقت و رحمت فرمائی اور انکے آنسوئوں کو صاف کیا اور فرمایا کوئی حرج نہیں ایسے موقع پر جان بچانے کے لئے ضرورۃََ کلمہ کفر بولنے کی اجازت ہے اگر ایسا اتفاق ہوتو یہی کرنا چاہئے اسی موقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیتِ مبارکہ نازل فرمائی ۔ سورۃ النحل آیت نمبر ۱۰۶ترجمہ ۔مگراس کے جو مجبور کیا جائے اور اس کا دل ایمان پر جما ہواہو۔ مسئلہ ، آیت سے معلوم ہوا کہ حالتِ اکراہ( کفر پر مجبور کئے جانے کی حالت)میں اگر دل ایمان پر جماہوا ہو تو کلمہ کفر کا اجرا(زبان پر جاری کرنا) جائزہے جبکہ آدمی کو اپنی جان یا کسی عضوکے تلف (ضائع) ہونے کا خوف ہو ۔مسئلہ ،اگر اس حالت میں صبر کرے اور قتل کرڈالا جائے تووہ ماجور( ثواب پائے گا)اور شہید ہوگا جیسا کہ حضرتِ خبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صبر کیا اور وہ سولی پر چڑھا کر شہید کرڈالے گئے ،سیدِ عالم ﷺ نے انہیں سیدالشہداء فرمایا (تفسیرِ خزائن العرفان)مسئلہ ،جس شخص کو مجبور کیا جائے اگر اس کا دل ایمان پر جماہوا نہ ہو وہ کلمہ کفر زبان پر لانے سے کا فر ہوجائے گا مسئلہ ۔اگر کوئی شخص بغیر مجبوری کے تمسخر یا جہل سے کلمہء کفر زبان پر جاری کرے کافر ہوجائے گا(تفسیرے احمدی) سورۃ النحل آیت نمبر ۱۰۶ہی کا ترجمہ ہے ۔اور وہ آدمی جو اکراہ وجبر کی حالت میں دل کھول کر کافر ہوجائے اس پر اللہ کا غضب ہے اور اس کو بڑا عذاب ہے۔حضرت خباب رضی اللہ عنہ کے ایمان کی پختگی دیکھیں ،حضرت خباب رضی اللہ رعنہ فرماتے ہیں میں زمانہ جاہلیت میں لوہار تھا اور عاص بن وائل پر میر ا کچھ قرض باقی تھا جب میں اپنا قرض وصول کرنے گیا تو اس نے کہا تم جب تک محمد ﷺ کی رسالت کا انکار نہیں کروگے اس وقت تک میں تمہارا قرضہ واپس نہیں لوٹائوں گا ،حضرت خباب فرماتے ہیں کہ میں نے اس سے کہا میں انکار نہیں کروں گا یہاں تک کہ خدا تجھے موت دے دے اور پھر تجھ کو اٹھائے ۔
قابلِ قدر ہے وہ مردِ مسلماں ،جس نے ۔سخت حالات میں ایمان کی حفاظت کی ہے
اکراہ ۔کسی کو اس کی مرضی کے خلاف کسی کام پر مجبور کرنے کو اکراہ وجبر کہتے ہیں
اکراہ شرعی ۔یہ ہے کہ کوئی آدمی کسی کو یہ دھمکی دے کہ اگر تم ٖفلاں کام نہیں کروگے یا فلاں بات نہیں کہوگے تو میں تمہیں جان سے مارڈالوں گایا بہت ماروں گا یا ہاتھ پیر توڑ ڈالوں گا یا ناک کان وغیرہ جسم کا کوئی عضو
کاٹ ڈالوں گا اور سامنے والا یہ سمجھ رہاہے یہ جوکچھ بول رہا ہے کرگزرے گا تو اکراہ شرعی ہے
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس میں تین چیزیں ہوں وہ ایمان کی چاشنی پائے گا ایک وہ جس کو اللہ ا وراس کے رسول ساری دنیا سے زیادہ پیارے ہوں دوسرے وہ جو کسی سے محبت کرے تو صرف اللہ ہی کے لئے اس سے محبت کرے تیسرے وہ جو مسلمان ہونے کے بعد کفر میں لوٹنے کو ایسا نا پسند کرے جیسے آگ میں ڈالے جانے کو نا پسند کرتا ہے (بخاری شریف کتاب الایمان جلد ۷) ایمان کی لذت اسی وقت ملے گی جب بندئے مومن میں یہ تین چیزیں موجود ہوں ۔ہم نے پڑھاکہ دورِ نبوی میں بھی صاحبِ ایمان سخت آزمائشوں کے شکار ہوئے ہیں حضرت بلال حبشی کو گرم ریت پر لٹایا گیا اور صحابہ ء کرام کو شہید کیا گیا اورآج بھی صاحب ایمان ہجومی تشددکے شکار ہورہے ہیں ایسے وقت میں بھی ایمان کی حفاظت اشد ضروری ہے اللہ تعالیٰ ہر مشکل حالات سے ہماری حفاظت فرمائے اور اگر ایسا وقت آجائے توہمیں اسلا م پر ایمان پرثابت قدمی عطاکرے اس کے لئے ضروری ہے ہم کہ اللہ پاک سے روزانہ دست بدعا رہیں۔
کوہ میں دریا خود ہی راستہ ہوجائے گا
تیرے قدموں کی دھمک سے زلزلہ ہوجائے گا
مثلِ ابراہیم گر ایمان مستحکم ہوا
آتشِ نمرود پھر سے گل کدہ ہوجائے گا