تحریر: طارق انور مصباحی، کیرالہ
قریبا پندرہ سولہ سال سے یہ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ رد بدمذہبیت کو علمائے کرام کی اکثریت نے ترک کر دیا ہے۔حالاں کہ رد بدمذہبیت واجبات دینیہ میں سے ہے۔
رد و ابطال کو ترک کرنا مذہب کی تباہی ہے۔اس کا نتیجہ آنکھوں کے سامنے ہے کہ روز بروز سنیوں کی تعداد گھٹتی جا رہی ہے۔اس کی بھرپائی کے لئے لوگوں نے یہ غلط نظریہ ایجاد کر لیا ہے کہ دیوبندی,وہابی اور مودودی عوام سنی ہیں۔عوام کو کچھ معلوم نہیں۔
دوسری جانب بدمذہبوں نے خود کو سنی کہنا شروع کر دیا ہے اور سنی حضرات کو بریلوی اور ایک گمراہ جماعت باور کرانے میں بہت حد تک کامیاب ہو گئے۔
وہ افعال شنیعہ جو ہمارے یہاں بھی ناجائز ہیں,بدمذہبوں نے ان افعال قبیحہ کو ہماری طرف منسوب کر کے عوام الناس کو یہ یقین دہانی کرا دی ہے کہ بریلوی ایک بدعتی اور قبر پرست جماعت ہے۔
بدمذہبوں کے چند مشہور الزامات درج ذیل ہیں:
1-بریلوی لوگ قبروں کا سجدہ کرتے ہیں۔
2-بریلوی عورتیں عرسوں میں شرکت کرتی ہیں جہاں عورتوں اور مردوں کا خلط ملط ہوتا ہے۔
3-بریلوی لوگ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا رتبہ اللہ تعالی سے بھی زیادہ بڑھا دیتے ہیں۔
اس قسم کے متعدد غلط الزامات عائد کر کے عام مسلمانوں کو مذہب اہل سنت وجماعت سے بر گشتہ کر دیتے ہیں۔
عہد ماضی میں بھی مختلف قسم کے الزامات ہمارے سر تھوپے گئے۔ہمارے علمائے کرام ایسے غلط الزامات کی تردید کرتے رہے,بد مذہبوں کے کفریات کلامیہ اور کفریات فقہیہ قوم کو بتاتے رہے اور قوم کی اصلاح کرتے رہے,لیکن قریبا پندرہ بیس سال سے لوگوں نے اپنی زبانوں پر تالا لگا لیا ہے۔ایسے لوگوں کو حدیث شریف میں گونگا شیطان کہا گیا ہے۔
دل نشیں اسلوب کے ساتھ بدمذہبوں کے کفریات کلامیہ وکفریات فقہیہ کو اجاگر کیا جائے,ورنہ روافض کے علاوہ دیگر تمام فرق باطلہ اپنے کو سنی باور کرانے میں کامیاب ہو جائیں گے اور سنیوں کو گمراہ اور بدمذہب جماعت ثابت کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے,بلکہ ایک حد تک وہ کامیاب ہو چکے ہیں۔
زبان پر تالا بندی کے اسباب مندرجہ ذیل ہیں:
1-بہت سی مساجد میں مسجد کمیٹی کی جانب سے ائمہ کرام پر پابندی عائد رہتی ہے کہ وہ کسی بدمذہب کا رد نہیں کریں گے۔روزی روٹی کا سوال ہے۔ائمہ مساجد اس سبب سے خاموش رہتے ہیں۔
2-بہت سے مقررین کو یہ خوف ہوتا ہے کہ اگر ہم نے رد وابطال کو مشغلہ بنایا تو کوئی ہمیں اپنے جلسوں میں دعوت نہیں دے گا اور ہماری روزی روٹی بند ہو جائے گی۔
3-بہت سے اہل مدارس اپنے اسٹیجوں پر رد وابطال کی اجازت نہیں دیتے کہ ان کے چندہ پر اثر آئے گا۔
ہر جماعت میں بہت سے دانشور قسم کے موجود ہوتے ہیں۔اہل سنت وجماعت میں بھی دانشوروں کی تعداد کم نہیں۔اس کا حل نکالیں۔ہماری تعلیمی,تعمیری,رفاہی و سماجی خدمات وسیع ہوتی جا رہی ہیں اور اہل مذہب کی تعداد گھٹتی جا رہی ہے۔
حضرت علامہ ارشد القادری اور حضرت علامہ مشتاق احمد نظامی علیہما الرحمہ جہاں کہیں تقریر کرتے۔ان حضرات کی تقریروں کے سبب انقلابی کیفیت رونما ہو جاتی۔بدمذہب اپنی بدمذہبیت سے تائب ہو جاتے۔
حضور محدث اعظم ہند قدس سرہ القوی کے شہزادگان اور حشمتی برادران کی اکثر تقاریر رد وابطال پر مشتمل ہوتیں۔
رد و ابطال اس قدر دلنشیں انداز میں ہو کہ مجمع سے کوئی بھاگنے بھی نہ پائے اور تقریر سن لینے والا بہکنے بھی نہ پائے۔
کیا عہد حاضر کے خطبا و مقررین اپنے اندر کچھ تبدیلی لانا چاہیں گے یا ساحل عافیت میں گوشہ نشیں رہیں گے؟؟؟
ان شاء اللہ تعالی میں حتی المقدور کوشش کروں گا۔
در حقیقت میں جس قدر مذہب کے موافق تحریر لاؤں گا یا تقریر سناؤں گا۔امید قوی ہے کہ میرا خدا مجھے نوازتا جائے گا۔
من کان للہ کان اللہ لہ