تحریر: محمد اشرف رضا قادری
مدیر اعلیٰ سہ ماہی امین شریعت
راقم کا پورا خاندان حضور امین شریعت رحمۃ اللہ علیہ سے نسبت بیعت و ارادت رکھتا ہے۔ آج ہمارا ایمان و عقیدہ محفوظ ہے تو یہ امین شریعت کی عطا و نوازش کا ثمرہ ہے، تقریباً گیارہ برسوں تک حضور امین شریعت کی بارگاہ میں رہنے کا مجھے شرف حاصل ہوا۔ جو میرے لیے توشۂ آخرت بن گیا۔ ان کی خدمت بابرکت میں کیا گیا کہ ’’تم نے خرید کر مجھے انمول کر دیا‘‘اپنی خدمت اقدس میں رکھ کر اس خادم پر احسان عظیم فرمایا۔آپ کی بارگاہِ اقدس میں خدام کی کمی نہ تھی۔ حضور امین شریعت کی بے پناہ نوازشات رہیں۔ ان کی عطائیں ہم رکاب رہیں۔ ان کے فیضان سے نوازے جاتے رہے۔ زمانۂ طالب علمی سے ہی حضرت کافی کرم فرماتے تھے، مجھے وہ لمحہ بھی یاد ہے جب کہ میری فراغت کو ایک سال باقی تھا کہ حضور امین شریعت نے از خود اس فقیر حقیر سراپا تقصیر کو سند خلافت عطا فرمائی۔وہ عظیم خلافت جس کا میں اہل نہ تھا۔جسے بارگاہِ غوث اعظم سے خاص نسبت تھی۔قادریت کا جام تھا جو مجھے حضور امین شریعت کی بارگاہِ عالی سے عطا ہوا۔
میری فراغت ۲۰۱۰ء میں ہوئی اور حضور امین شریعت نے اس نعمت عظمی سے ۲۰۰۹ء میں سرفراز کیا جب کہ محرم الحرام کی ۱۳؍ تاریخ تھی۔ حضور امین شریعت کے وصال کے بعد حضرت علامہ محمد عسجد رضا خاں قادری دام فیوضہ کے توسط سے حضور تاج الشریعہ نے خلافت مع سند عطا فرمائی۔یوں حضور تاج الشریعہ کا روحانی دامن بھی ملا۔
حضور تاج الشریعہ رحمۃ اللہ علیہ سے میری پہلی ملاقات بریلی شریف میں ہوئی۔حضور تاج الشریعہ، حضور امین شریعت سے ملاقات کی غرض سے سوداگران سے کانکر ٹولہ تشریف لائے۔ میں نے مشاہدہ کیا بلکہ بارہا مشاہدہ کیا کہ جیسے ہی دونوں بزرگوں کی ملاقات ہوتی تو ان کی محبت، عقیدت و احترام کا عالم دیدنی ہوتا۔ اور جب مصافحہ کی ساعت سعید آتی تو دونوں ایک دوسرے کی دست بوسی میں سبقت لے جانے کی سعی جمیل کرتے۔اس پر کیف منظر کو فقیر کی نگاہوں نے بارہا دیکھا۔حضور امین شریعت کے آخری ڈھائی تین سال بریلی شریف میں گزرے، اس دوران حضور امین شریعت کی طبیعت کافی علیل تھی اور علالت و ضعف کے باعث حضرت کی معروضات کی ترجمانی راقم کرتا تھا۔
آخر کے تین سال جو بریلی شریف میں گزرے ،اس وقت حضور تاج الشریعہ بریلی شریف میں ہوتے تو؛ ہفتے میں ایک مرتبہ اور کبھی دو تین مرتبہ، حضورامین شریعت کی عیادت کے لیے کانکر ٹولہ ضرور تشریف لاتے، کبھی کبھی ایسا ہوتا کہ روم میں صرف حضور امین شریعت،حضور تاج الشریعہ اور یہ فقیر ہوتا۔ جو گفتگو ہوتی، دونوں بزرگوں کے فرمودات کی ترجمانی کرتا۔ دونوں بزرگوں کی آپسی محبت و عقیدت مثالی تھی۔ جب بھی حضور تاج الشریعہ چھتیس گڑھ تشریف لاتے تو تبلیغ دین کے ساتھ ساتھ حضور امین شریعت سے ملاقات و عیادت کا قصد بھی فرماتے۔ حضور امین شریعت کے یوم ولادت پر کانکیر چھتیس گڑھ میں ہر سال پروگرام ہوا کرتا تھا، جس میں حضور تاج الشریعہ کو مدعو کیا جاتا اور حضرت بخوشی رضا مندی کا اظہارفرماتے۔ جب بھی کانکیر تشریف لاتے تو حضور امین شریعت سے کافی دیر مسائل و دیگر دینی و شرعی امور پر گفتگو ہوتی۔تقریباً تین سال مسلسل تشریف لائے۔اس کے بعد حضور امین شریعت بریلی شریف تشریف لے گیے اور وہیں مستقل سکونت اختیار فرمائی۔اور وصال فرمایا۔
ایک مشاہدہ:
ہمیشہ میرے دل میں یہ بات کھٹکتی رہتی تھی کہ معلوم نہیں حضور امین شریعت کے وصال کے بعد حضرت کی آخری خدمت غسل تدفین وغیرہ میں میری شرکت ہو پائے گی یا نہیں، لیکن یہ حضور امین شریعت کی کرم نوازی اور محبت اور شہزادئہ امین شریعت حضرت علامہ سلمان رضا خاں صاحب کی خصوصی توجہات کہ ہر کام میں پیش پیش رکھا، غسل کے وقت بھی موجود تھا، اور تدفین کے وقت بھی، قبر میں اترنے کا موقع میسرآیا اور قبر پر آذان بھی فقیر نے دی، بعد وصال جب بھی حضور امین شریعت کی یاد ستاتی تو حضور تاج الشریعہ کی بارگاہ میں حاضری دیتا۔ دیدار کرتا۔ حسرتِ دل کی پیاس دیدار سے بجھاتا۔اب ہر روز ملاقات کے لیے سوداگران حاضر ہوتا، سلام کرتا، حضرت کی دست بوسی کرتا، خادم ِ بارگہِ تاج الشریعہ کہتے کہ خادمِ امین شریعت مولانا اشرف رضا ہیں، حضرت بڑے شفقت بھرے انداز میں ارشاد فرماتے’’اچھا اچھا‘‘ یہ سلسلہ جاری رہا کہ معمول کے مطابق حاضری دیتا، سلام ، مصافحہ و دست بوسی کے بعد اپنی قیام گاہ کی طرف لوٹ جاتا۔ مجھے ان لمحات کی یادیں رہ رہ کر آتی ہیں۔ حضور امین شریعت کے وصال کے بعد ہم حضور تاج الشریعہ کے دیدار سے عملِ صالح کی نعمت پاتے۔ اپنے نامۂ عمل میں مبارک لمحات درج کراتے کہ ہاں! ہم نے حضور امین شریعت کو بھی دیکھا ہے، ہاں! ہم نے حضور تاج الشریعہ کے جمال کا مشاہدہ بھی کیا ہے۔اور ان کی شفقتوں کی گھنی چھاؤں میں سکوں کے لمحات گزارے ہیں۔
گزرے دنوں جب رمضان المبارک کا مہینہ قریب آیا تو بنا اطلاع کیے اپنے وطن چھتیس گڑھ لوٹ آیا۔ عید کے بعد بریلی شریف حاضری کی سعادت ملی؛ اور حضور تاج الشریعہ کی بارگہِ اقدس میں تسکین دل و نگاہ کو حاضر ہوا، سلام عرض کیا، دست بوسی کی سعادت پائی۔ ابھی خادم نے بتایا بھی نہیں کہ کون ہیں از خود حضرت نے ارشاد فرمایا کہ ’’کب آئے‘‘ حضرت کے اس جملے کو سن کر حیرت کی انتہا نہ رہی، متحیر ہوا،سوچنے لگا کہ جانے کی اطلاع تو کسی کو نہ تھی، پھر حضرت کو کیسے خبر ہو گئی، فوراً افق ذہن پر یہ حدیث جلوہ بار ہو گئی اتقوا فراسۃ المؤمن فانہ ینظر بنور اللہ
روشن ضمیر تھے ہمارے حضور تاج الشریعہ ۔ ان کی ادائیں نرالی۔ ان کا تقویٰ نرالا۔ ان کی تحقیق و تدقیق نرالی۔ وہ اسلاف کے ترجمان تھے۔ ا
سی لیے ا
ن کی ذات مرجع عالم اسلام بن گئی۔ اور آج ہر زباں حضور تاج الشریعہ کے ذکرِ جمیل سے سرشار ہے اور دل کی کلیاں ان کی یادوں سے کھلی کھلی ہیں۔