ولایت و بزرگی کی پہچان یہ بھی ہے کہ آدمی شریعت مطہرہ کا پابند ہو،آداب شریعت کو ملحوظ اور ان کے خلاف سے محفوظ رہے جو قرآن و حدیث کے موافق ہو اسے کلیجہ سے لگائے اور اس کے خلاف سے دور بھاگے ۔
حضور مفتی اعظم نائب رسول اعظم ہم شبیہ غوث اعظم سیدنا سرکار مصطفیٰ رضا خان علیہ الرحمہ والرضوان تاجدار اہلسنت شہزادہ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کی سیرت وسوانح پڑھنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی پوری زندگی شریعت کی پابندی اور رسول اکرم صلی وسلم کی اتباع وپیروی میں گزری ہے ۔ وہ بھی اس شان سے کسی کو یہ معلوم کرنا ہو یہ مسئلہ شریعت میں جائز ہےکہ ناجائز یا اس سلسلے میں سرکار علیہ السلام کی سنت کیا رہی ہے تو آپ کے سامنے پہنچ کر آپ کے عمل کو دیکھ لیتا اور یہ فیصلہ کر لیتا کہ یہی سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے ۔گویا آپ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی چلتی پھرتی تصویر تھے۔
اس موقع پر حضور شیخ الاسلام والمسلمین حضرت علامہ مفتی سید محمد مدنی میاں دام ظلہ کچھوچھوی نے بڑی پیاری بات ارشادفرمائی ہے۔ الفاظ کی شِیرنی سے چاشنی حاصل کرنے کے لئے انہیں کی زبانی سنئے:۔
”بخاری و مسلم کا سننے والا جس یقین و اذعان کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ ہم نے رسول کریم صلی وسلم کے اقوال سنے اس یقین اذعان کے ساتھ حضور مفتی اعظم ہند کے دیکھنے والے کو یہ حق ہے کہ کہے ہم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی (سنت) کی چلتی پھرتی تصویر دیکھی۔
فرائض وواجبات و موکدات کو رہنے دیجئے جو ہستی مباحات و فطری خواہشات میں بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و اتباع سے سرمو متجاوز نہ ہو وہ رسول کریم صلی وسلم کی سچی تصویر اور افعال رسول کی حفاظت کا پیکر نور نہیں تو اور کیا ہے؟ "(مفتی اعظم کی استقامت وکرامت ص٦٢)
کروڑوں سلام ہو اس ذات والا صفات کے مرقد انور پر جو سراپا سنت رسول واطاعت فرمان نبی ﷺ کی چلتی پھرتی تصویر تھی۔
جن کی ہر ہر ادا سنت مصطفی
ان کی نورانی تربت پہ لاکھوں سلام
اشرف وآسی،حشمت،رضا،مصطفی
پنج گنج ولایت پہ لاکھوں سلام
حضورمفتی اعظم عالم،مخدوم اہلسنت
حضرت علامہ مولانامصطفی رضا خان علیہ الرحمۃ والرضوان کی اتباع شریعت، وکرامت وبزرگی اور احترام آثار و منسوباتِ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شہرت ودھمک دور دور تک تھی۔ حیدرآباد کے مسلمانوں کے تاثرات اور انہیں لوگوں کی زبانی مفتی اعظم کے لا مثال احترام سادات کا نمونہ یہاں ہدیہ ناظرین ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ مسجد حیدرآباد میں مشتاقان دید مفتی اعظم کے ضیاء بار چہرۂ انوراور جلوۂ غوث اعظم کا دلکش نظارہ اپنے سر کی آنکھوں سے کرنا چاہتے ہیں۔ مگر مفتی اعظم اپنے رب کے ذکر وفکرمیں مشغول ہو کر بیٹھے ہوئے ہیں۔
سادات حیدرآبادنے لوگوں کے جذبات کو دیکھ کر گزارش کی”حضور! آپ منبرپرتشریف رکھیں تاکہ فدائیوں کو جلوے جہاں آرا کی زیارت نصیب ہو،۔،،لیکن مفتی اعظم نے یہ کہ کرمنبرپربیٹھنےسےانکارکردیاکہ ” رسول کریم کی آل نیچے ہو اور میں اوپر بیٹھو یہ مجھ سے کبھی نہیں ہوسکتا۔،،
حضور شیخ اعظم مخدوم العلماء شہزادہ حضورسرکارکلاں حضرت علامہ مفتی سید محمد اظہار اشرف اشرفی جیلانی علیہ الرحمہ کچھوچھہ مقدسہ اپنے ایک مقالہ
”مفتی اعظم اور محبت رسول،،
میں رقمطرازہیں” جب میں حیدرآبادپہنچاتواس عاشق رسول (یعنی حضورمفتی اعظم ہند)کے بے شمارچاہنے والوں سے ملاقات ہوئی۔آپ کی مدح و ثنا میں سب ہی رطب اللسان نظر آئے۔کوئی تقوی وطہارت کو موضوعِ سخن بنائے ہوئے تھا۔ کوئی اتباع سنت سے متاثر نظر آرہا تھا اور کسی کو آپ کے سادات کے بےپناہ احترام نے گرویدہ بنا رکھا تھا۔ایک ثقہ روایت کے مطابق مکہ مسجد کاعظیم الشان اجلاس جس میں کم وبیش ساٹھ ہزارمسلمانوں کا اجتماع اور پھر سب کے دل میں حضور مفتی اعظم ہند کی زیارت کی تمنا اور اس پر سادات حیدر آباد کا مفتی اعظم ہند سے گزارش کرناکہ منبر پریا کم ازکم کرسی پر رونق افروز ہوں تاکہ دیدار کا اشتیاق رکھنے والوں کی تمنا پوری ہوجائے۔یہ وہ مناظر ہیں جنہیں فراموش نہیں کیا جاسکتا۔مگر ان مناظرسےزیادہ فراموش کرنے والا وہ جواب ہےجوآل رسول کا احترام کرنے والے نے دیا،حضور مفتی اعظم ہند نے فرمایا:”رسول کریم ﷺ کی آل نیچے ہو اور میں اوپر بیٹھوں یہ مجھ سے کبھی نہیں ہوسکتا،،امرپرادب کوترجیح دے کر حضور مفتی اعظم ہند نے صدیق اکبر اور مولائے کائنات کے پاکیزہ جذبات کی یاد دلا دی۔حیدرآبادی حیران وششدررہ گئے اور خود ان کے دلوں میں اس عشق کےانواروبرکات ہونے لگا اور پھر پورا مجمع نام عشق مصطفیٰ میں سرشار نظر آنے لگا۔۔۔بالآخر۔۔۔۔اپنے آقازادوں کے اصرار پرصرف اتنا ہی کھڑے ہوگئے،جس جس نے اس مینارۂ نور کو دیکھا اس کا اپنے دین و مذہب کی سچائی کا یقین اور تابناک ہو گیا کہ یہ چہرہ جھوٹوں کا چہرہ نہیں ہو سکتا۔،،(مفتی اعظم ہند نمبر ص١٢٦)
یہ ہےحضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ کا نسبت رسول سےپاس ولحاظ جو مقصد شریعت کے عین مطابق ہے۔
شرع شریف کا یہ حکم بھی ہے کہ نبی کریم ﷺ سےہر منسوب شئی کی تعظیم ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے خانوادے کے افراد یعنی سیدوں کی تعظیم وتکریم واجب ہے۔ فقہ کی کتب معتبرہ میں ہے۔ "تَع٘ظِیمُ السیِّدِواجبٌ ولوکاَنَ فاسقاً،، (سیدوں کی تعظیم وضروری ہے اگرچہ فاسق ہی کیوں نہ ہو۔) اور یہ ناقابل انکار حقیقت ہے کہ جو راہ سلامتی اور استقامت چاہتا ہے اسے قرآن مجید کے ساتھ ساتھ نسبت رسول کابھی پاس رکھنا ہوگا۔ فرمان رسالت ہے” یَاَیُّھاَ النَّاسُ اِنِّی٘ تَرَکْتُ فی کُمُ الثَّقَلَینِ مَااِن٘ اَخَذ٘تُم لَن٘ تضِلُّواکتابَ اللّٰہِ وعِت٘رَتِی اَہ٘لَ بَی٘تِی٘،، اے لوگو! میں تمہارے درمیان دوبھاری اور اہم چیزیں چھوڑےجارہاہوں، جب تک تم لوگ ان دونوں کو تھامےرہوگےہرگزہرگزگمراہ نہ ہو گے۔ ان میں سے پہلی چیز کتاب اللہ اور دوسری میری اولاد اہل بیت اطہارہیں۔
(مشکوۃ ص٥٦٩) حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمہ اور آپ کے والد گرامی امام عشق ومحبت سیدنا اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ زندگی کےآخری لمحہ تک اس پر کاربند رہے اور کسی بھی سید کی تعظیم میں کسرنہ اٹھارکھی۔
اپنے محبوب تاجدار کائنات ﷺکی رضا وخوشنودی کے لئے ہر اس کی توقیر بجالائی جس کواس جان جاناں سے نسبت وتعلق تھا جس کی سینکڑوں مثالیں اوراق تاریخ پر ثبت ہیں۔
علماء، مشائخ ہوں یا سادات کرام تعظیم سب کی ضروری ہے
ورنہ علماء یا سادات کے گستاخ کا انجام یہ ہے کہ
دونوں کے ایمان خطرے میں ہیں۔
پڑھیں!
امام اہلسنت مجدد دین وملت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمہ والرضوان کیا لکھےہیں؟
فرماتے ہیں:سادات کرام کی تعظیم فرض ہے اور ان کی توہین حرام، بلکہ علماء کرام نے ارشاد فرمایا جو کسی عالِم کومولوِیا(مول وِیا) یاکسی میر(یعنی سید) کومیروابروجہت (یعنی حقارت سے) کہےکافرہے۔ (فتاویٰ رضویہ شریف ج٢٢ص٤٢٠)
حضرت سیدنا عبداللہ بن مبارک ایک بار کہیں تشریف لے جا رہے تھےکہ اثنائے راہ ایک سید صاحب مل گئے اور کہنے لگے: آپ کے بھی کیا خوب ٹھاٹھ باٹھ ہیں اورایک میں بھی ہوں کہ سید ہونے کے باوجود مجھے کوئی نہیں پوچھتا! آپ علیہ الرحمہ نے فرمایا: میں نےآپ کے جدامجد مکی مدنی مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کو اپنایا تو خوب عزت پائی مگر آپ نے اپنے نانا جان کی سنتوں کو نہ اپنایا تو بے عملی کے سبب پیچھے رہ گئے!
سیدنا عبداللہ بن مبارک رات جب سوئے تو خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی، چہرہ انور پر ناراضگی کے آثار تھے، کچھ اس طرح فرمایا: تم نے میری آل کو بے عملی کا طعنہ کیوں دیا! آپ رحمتہ اللہ علیہ بے قرار ہو کر بیدار ہوگئے ۔
صبح معافی مانگنے کے لیے اس سید صاحب کی تلاش میں روانہ ہوئے، موصوف بھی انہیں کو ڈھونڈ رہے تھے ۔ دونوں کی ملاقات ہوئی۔ سیدنا عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ نے اپنا خواب سنایا۔
سید صاحب نے سن کر کہا مجھے بھی رات میرے ناناجان صلی اللہ وسلم نے خواب میں تشریف لاکر کچھ اس طرح ارشاد فرمایا: تمہارے اعمال اچھے ہوتے تو عبداللہ بن مبارک تمہاری کیوں بے ادبی کرتے!حضرت سیدنا عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ نے بصد ندامت سیدصاحب سے معافی مانگی اور سید صاحب نے بھی گناہوں سے توبہ کر کے نیکیاں کرنے کی اچھی اچھی نیتیں کی(ماخوذ تذکرہ الاولیاء’ جزءاول ص١٧٠)
سادات سے حسن سلوک کی فضیلت
اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضاخان علیہ الرحمہ فتاویٰ رضویہ شریف ج١٠،ص١٠٥پرسادات کرام کے فضائل بیان کرتے ہوئےفرماتے ہیں: ابن عساکر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
جو میرے اہل بیت میں سے کسی کے ساتھ اچھا سلوک کرے گا،میں روز قیامت اس کا صلہ اسے عطا فرماؤں گا( جامع صغیرص٥٣٣، حدیث ٨٨٢١)
خطیب بغدادی حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے راوی، رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں: جو شخص اولاد عبدالمطلب میں سے کسی کے ساتھ دنیا میں نیکی کرے اس کا صلہ دینا مجھ پر لازم ہے جب وہ روز قیامت مجھ سے ملے گا۔(تاریخ بغداد جو، ص١٠٢)
جبھی تو اہلسنت پر فخرفرماتےہوئے سرکار اعلیٰ حضرت امام احمد خان علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
اہلسنت کاہےبیڑاپاراصحاب حضور
نجم ہیں اور ناؤہےعترت رسول اللہ کی
الله تبارک وتعالیٰ اپنے حبیب مکرم ﷺ کے صدقے حضور مفتی اعظم عالم حضرت علامہ مولانا مصطفیٰ رضا خان علیہ الرحمہ والرضوان کے صدقے میں ہمیں علماء،مشائخ اور سادات کرام کا باادب بنائےرکھے۔
دوجہاں میں خادم آل رسول اللہ کر
حضرت آل رسول مقتدیٰ کے واسطے
اورایمان کی سلامتی کے ساتھ دارین کی سرخروئی نصیب فرمائے۔ آمین بجاہ اشرف الانبیاء والمرسلین ﷺ
ازقلم: ابوضیاء غلام رسول سعدی، ارشدی کٹیہاری
بانی: صوفی ملت شیخ شیر محمد اکیڈمی ، بوہر، پوسٹ تیلتا،کٹیہار، بہار۔
مقیم: بلگام کرناٹک انڈیا8618303831
بموقع عرس حضور مفتی اعظم ہند، ١٤/محرم الحرام 1445ھ بمطابق ١/اگست ٢٠٢٣ء بروز پیر