تحریر: نعیم الدین فیضی برکاتی
اعزازی ایڈیٹر:ہماری آواز
پرنسپل:دارالعلوم برکات غریب نواز احمد نگر کٹنی(ایم۔پی۔)
فرمان مصطفی کے مطابق اللہ رب العزت ہر صدی کے آخر میں ایک ایسے شخص کو مجدد بنا کر بھیجے گا جو اس امت کے لیے اس کے دین کی تجدید کرے گا۔اعلی حضرت امام احمد رضا(1856-1921)فاضل بریلوی بھی انہیں برگزیدہ بندوں میں سے ایک ہیں جنہوں نےچودہویں صدی میں اپنے تجدیدی کارناموں سے عالم اسلام بالخصوص بر صغیر میں اسلام و سنیت کی بلا خوف وخطر ایسی بے لوث خدمات انجام دیں جن سے باطل قوتوں کا قلع قمع بھی ہوا،اور ساتھ ہی ساتھ گمرہی اور نافرمانی کے مہلک تھپیڑوں میں پھنسی امت مسلمہ کی کشتی کو پار لگار ان کے سینوں کو نور ایمان اور عشق رسول کی بیش قیمتی دولت سے شرابور کردیا۔
ویسے تو اعلی حضرت فاضل بریلوی ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔تقریبا پچپن علوم میں آپ کو تبحر حاصل تھا۔لیکن اگر آپ کی زندگی کے لیل ونہار،خلق وعادت اور سیرت وصورت کی بات کریں تو وہ مکمل شریعت مصطفی کی آئینہ دار تھی۔آپ کسی سے محبت فرماتے تو اس میں رضائے الہی کا جذبہ شامل ہوتااور اگر کسی سے نفرت کرتےتو وہ بھی فرمان خداوندی اور ارشاد نبوی کے عین تقاضے کے مطابق ہوتا۔انداز گفتگو میں اس قدر شیرینی اور جاذبیت تھی کہ اپنے تو اپنے غیر بھی آپ کے گرویدہ بن جاتے۔مگر جب دین کا معاملہ ہوتا تو چاہے جس قدر قریبی ہوتا اسے نظر انداز نہ فرماتے۔حدیث شریف میں ہےکہ اگر کوئی اللہ ورسول کی شان میں گستاخی کرے تو غیرت مند مسلمان کو چاہیے کہ وہ حسب استطاعت،ہاتھ سےجہاد کرے،زبان وقلم سے رد کرے یا کم از کم اسے دل میں براجانے۔اعلی حضرت کی پوری زندگی اس حدیث پاک کی عملی تصویر بنی رہی اور ساتھ ساتھ علماے اسلام اور عوام اہل سنت کو یہ دعوت فکر اور درس عبرت پیش کرتی رہی کہ انسان اپنے ذاتی معاملات میں عفو در گزر سے کام لے،یہ اس کا اپنااخلاق ہے مگر ہرگز ہرگزایمانیات واعتقادات کے باب میں مصلحت پسندی یا سمجھوتا کا راستہ اختیار نہ کرے۔
اعلی حضرت کی حیات مبارکہ کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ مخالفین آپ کے دندان شکن اور مسکت جواب کا تاب نہ لاکر سب وشتم اور غیر اخلاقی حرکتوں پر اتر جاتے تھے۔کئی خطوط اور رجسٹریاں ایسی آتی تھیں جس میں صرف اور صرف گالیاں لکھی ہوتی تھیں۔آپ ان کو دیکھ کر چھپا دیتے۔یہ وہ ناقابل انکار حقیقت ہے جوآج بھی کتابوں میں ضبط وقید ہیں۔لیکن اعلی حضرت نے کبھی ان کو ان کے الفاظ میں جواب نہیں دیا۔دوسری طرف اگر ہم آج عادت اطوار کا جائزہ لیں تو معاملہ بالکل برعکس نظر آتا ہے۔سوشل میڈیا پر بڑے بڑے القاب وآداب سے ملقب اور جبہ ودستار میں ملبوس ہمارے علما اختلاف راے ہونے پر بھدی اور ننگی گالیوں پر اتر آتے ہیں۔اپنی برتری اور فضیلت ثابت کرنے کے چکر میں مد مقابل کو غیر اخلاقی اورنازیبا حرکتوں سے نیچا دکھانے کی سعی مذموم کرتے ہیں۔یقین جانیں!ہمارے اخلاق وکردار ہی ہماری برتری اور کم تری کے لیے بہترین معیار ہوتے ہیں۔ اخلاق ہی سے قومیں بنتی اور بگڑتی ہیں۔آج ہماری بے وقعتی اوربے بضاعتی کے پیچھے ہمارے اخلاق وکردار کا بھی بہت عمل دخل ہے۔آخر میں گالی دینے والوں کے متعلق اعلی حضرت فاضل بریلوی کا ایک پیغام لکھ کرجو اپنی بات سمیٹتا ہوں۔آپ فرماتے ہیں:اگر آپ مخلص کو نفع نہیں پہنچا سکتے تومخالف کو نقصان بھی نہ پہنچائیے۔