خانوادۂ رضا

کون اعلیٰ حضرت اور کیا ہیں اعلیٰ حضرت

از ۔ جمال احمد صدیقی اشرفی القادری بانی دارالعلوم مخدوم سمنانی شل پھاٹا ممبرا

اعلیٰ حضرت امام اہلسنت مجددین وملت امام احمد رضا خان قادری بریلوی علیہ الرحمۃ کی ولادت باسعادت دس شوال 1272 ہجری ۔ بمطابق 14 جون 1856ء ظہر کے وقت محلہ جسولی شہر بریلی شریف ۔ یوپی میں ہوئی پیدائشی نام محمد ۔ اور تاریخی نام المختار ہے ۔
جدامجد مولانا رضا علی خان رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کا اسم شریف احمد رضا رکھا ۔
اعلیٰ حضرت امام اہلسنت مجددین وملت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ کی مقبولیت کا اندازہ آپ خود لگائیں ۔
ایک دو کیا سینکڑوں میں بھی نہیں تیرا جواب ۔
محفل انجم میں جیسے جلوہ گر ہو ماہتاب ۔
گر نہ ہوتا آپ کا جودوکرم جلوہ فشاں ۔
تو یہاں ماحول کا کچھ اور ہی ہوتا سماں ۔
اس سرزمیں کو ہراک ذرہ تیرا مشکور ہے ۔
تیرے باعث ذرہ ذرہ اس جگہ پرنور ہے ۔
اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان قادری بریلوی علیہ الرحمۃ مشائخ اہلسنت کی نظر میں ۔
(1) تاجدارِ کچھوچھہ مقدسہ شیخ المشائخ ہم شبیہ غوث اعظم مخدوم الاولیاء حضرت علامہ سید الشاہ علی حسین اعلیٰ حضرت اشرفی میاں رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں ۔ میرا مسلک شریعت وطریقت میں وہی ہے جو حضور پرنور اعلیٰ حضرت مولانا الشاہ احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کا ہے ۔ لہٰذا میرے مسلک پر مضبوطی سے قائم رہنے کے لئے اعلیٰ حضرت مولانا الشاہ احمد رضا خان بریلوی کی تصنیفات ضرور مطالعہ میں رکھو ۔ ( بحوالہ مجدد اسلام صفحہ 134 )
سچ ہے کہ بڑے کو بڑے ہی جانتے ہیں ۔
ایک بار تاج الفحول حضرت علامہ الشاہ عبدالقادر بدایونی رحمۃ اللہ علیہ نے اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی رحمۃ اللہ علیہ کو اپنے والدِ محترم حضرت شاہ فضل رسول بدایونی قدس سرہ کے عرس پاک میں مدعو کیا ۔ اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی رحمۃ اللہ علیہ کےبعد اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ تقریر کےلئے کھڑے ہوئے تو فرمایا کہ ابھی آپ نے علم ومعرفت سے لبریز ایسی تقریر سماعت فرمائی جس سے قلب منور ہوتے ہیں اور سلوک وتصوف کے وہ حقائق ودقائق سنے جن کا بیان اولیاء اللہ کے شایانِ شان ہے ۔ ( شیخ اعظم نمبر صفحہ 108 بحوالہ روداد عرس قادری 1327ھ )
ویسے حیات اعلیٰ حضرت میں حضرت شاہ اسماعیل حسن مارہروی کا بیان موجود ہے کہ امامِ اہلسنت فاضل بریلوی نے اپنے زمانے کے مقررین وواعظین کے بارے میں اپنا طرز عمل بیان کرتے ہوئے فرمایا ۔ حضرت ( حضور اشرفی میاں ) ان میں سے ہیں جن کا بیان میں بخوشی سنتا ہوں ۔ ورنہ آج کل کے واعظین کا وعظ سننا چھوڑ دیا ہے ۔ ( شیخ اعظم نمبر ص 108 بحوالہ حیات اعلیٰ حضرت ص 234 )
ان دونوں حضرات ( اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی اور اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی ) کی محبتوں کا اندازہ اس سے بھی لگائیں ۔
حضرت شیخ المشائخ سید علی حسین اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی رحمۃ اللہ علیہ ۔ امام اہلِ سنت فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے عہدِ مبارک میں جب ریل سے بریلی شریف ریلوے اسٹیشن سے گزرتے تو احتراماً کھڑے ہوجاتے اور جب ٹرین بریلی شریف کی حدود سے گزرتی تو بیٹھ جاتے کسی نے عرض کیا حضور آپ بریلی شریف کے حدود سے گزرتے تو آپ کھڑے کیوں ہوجاتے ہیں ؟
اعلیٰ حضرت حضور اشرفی میاں کچھوچھوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا جب بریلی شہر میں ایک عالمِ آل رسول کی تعظیم کے لئے کھڑا ہے تو آل رسول کیوں نہ عالمِ کی تعظیم کے لئے کھڑا ہو ۔
( سنی آواز جون ۔ جولائی صفحہ 6 ۔ سن 2027 )
حضور محدثِ اعظم ہند علیہ الرحمۃ مجلہ ۔ اشرفی ۔ میں بعنوان حیاتِ اشرفی میں رقمطراز ہیں ۔ اعلیٰ حضرت اشرفی میاں رحمۃ اللہ علیہ کا قیام بریلی شریف میں تھا ۔ وہیں سے دہلی کو روانگی تھی کیونکہ محبوبِ الہٰی حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے عرس مقدس میں حاضری مقصود تھی ۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی نے ایک درخواست دربارِ سلطان المشائخ کےلئے لکھ کر دی ۔ اس میں اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کو اس طرح مخاطب کیا ۔
اشرفی اے رخت آئینہ حسنِ خوباں ۔
اے نظر کردہ وپروردہ سہ محبوباں ۔
مجدد اسلام دیکھ رہے تھے کہ محبوبِ سبحانی غوث اعظم ۔ محبوبِ الہٰی نظام الدین اولیاء ۔ محبوبِ یزدانی سید مخدوم اشرف سمنانی رضی اللہ عنھم کے کرم کی نگاہیں حضور اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کو محیط ہیں اور سب کی آغوشِ رحمت آپ کے لئے کھلی ہیں ۔ آپ کا نورانی چہرہ ایک آئینہ ہے کہ بزرگوں کی تجلیاں اس میں نظر آتی ہیں ۔ ( بحوالہ شیخ اعظم نمبر صفحہ 108 )
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری فاضل بریلوی اور اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی رضی اللہ تعالی عنھما کے درمیان بہت خوشگوار تعلقات تھے ۔
ایک مرتبہ دونوں بزرگوں کی ملاقات ہوئی اعلیٰ حضرت حضور اشرفی میاں نے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی سے فرمایا ۔ مولانا ! آپ کو مصطفیٰ رضا خان کی ولادت مبارک ہو ۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی نے بھی آنکھیں بند کئے پھر کھول کر ارشاد فرمایا ۔ میاں !
آپ کو مصطفیٰ اشرف کی ولادت مبارک ہو ۔ کچھ دنوں کے بعد بریلی کے تاجدار کے یہاں چھوٹے صاحبزادے مصطفیٰ رضا خان کی پیدائش ہوئی اور کچھوچھہ کے تاجدار کے یہاں چھوٹے صاحبزادے مصطفیٰ اشرف پیدا ہوئے ۔ ( بحوالہ شیخ اعظم نمبر صفحہ 107 )
اعلیٰ حضرت حضور اشرفی میاں کی نگاہ میں امام اہلسنت اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کا مقام ملاحظہ فرمائیں ۔
جب امام اہلسنت اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کا وصال ہوا تو اعلیٰ حضرت اشرفی میاں کچھوچھوی رحمۃ اللہ علیہ اپنے دولت کدے پر رونق افروز تھے ۔ وضو فرماتے ہوئے رونے لگے کسی کی سمجھ میں نہیں آیا ۔ استفسار پر فرمایا م یں فرشتوں کے کندھے پر قطب الا رشاد اعلیٰ حضرت امام اہلسنت کا جنازہ دیکھ کر رو پڑا ہوں ۔ اگلے ہی ہفتے تعزیت کےلئے بریلی شریف روانہ ہوگئے ۔
حضرت صدرالافاضل سید نعیم الدین مرادآبادی علیہ الرحمۃ نے 1341ھ میں مرادآباد کی سرزمین پر آل انڈیا سنی کانفرنس منعقد کرائی تو اس کے خطبہ صدارت میں اعلیٰ حضرت حضور اشرفی میاں نے ارشاد فرمایا ۔ ان کے ( یعنی امام اہلسنت ) کے فراق نے میرا بازو کمزور کردیا ۔ ( بحوالہ شیخ اعظم نمبر ص 108 )
ان دونوں اعلیٰ حضرتوں کی باہمی الفت ومحبت کو اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ امام اہلسنت فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے فرزند اکبر حجة الاسلام حضرت علامہ حامد رضا خان کو اعلیٰ حضرت اشرفی میاں سے سلسلہ منوریہ میں خلافت دلوائی اور اعلیٰ حضرت اشرفی میاں نے اپنے فرزند اکبر سلطان الواعظین عالمِ ربانی مولانا سید احمد اشرف کو مجدد اسلام اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی سے سلسلہ قادریہ سے خلافت دلوائی کیا ایسی یگانگت کی مثال کہیں آسانی سے مل سکتی ہے ۔( بحوالہ شیخ اعظم نمبر ص 108 ؐ 109 )
(2) اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ اپنے زمانہ طالب علمی میں ایک دن اصول فقہ کی مشہور کتاب مسلم الثبوت کا مطالعہ کررہے تھے کہ آپ کے والد ماجد رئیس المتکلمین حضرت علامہ مفتی نقی علی خان علیہ الرحمۃ کا تحریر کیا ہوا اعتراض وجواب نظر سے گزرا آپ نے کتاب مذکور کے حاشیہ پر اپنا ایک مضمون تحریر فرمایا ۔
جس میں متن کی ایسی تحقیق فرمائی کہ سرے سے اعتراض وارد ہی نہ تھا پھر جب پڑھنے کے لئے حضرت والد ماجد کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضرت مولانا نقی علی خان کی نگاہ اعلیٰ حضرت کے حاشیہ پر پڑی دیکھ کر ان کو اتنی مسرت ہوئی کہ اٹھ کر سینے سے لگایا اور فرمایا ۔ احمد رضا تم مجھ سے پڑھتے نہیں بلکہ مجھ کو پڑھاتے ہو ۔ ( بحوالہ سوانحِ اعلیٰ حضرت ص ۔ 106- 107 )

(4) حضور محدث اعظم ہند رحمۃ اللہ تعالی علیہ علمِ حدیث میں اختصاص کےبعد آپ نے اپنے ماموں سلطان الواعظین حضرت علامہ سید احمد اشرف اشرفی الجیلانی کچھوچھوی علیہ الرحمۃ کی خواہش پر اعلیٰ حضرت امام اہلسنت فاضل بریلوی رضی اللہ عنہ کی بارگاہ میں فقہ وافتا میں مشق کےلئے جب بریلی شریف تشریف لے گئے ۔
اس کا قصہ الملفوظ کے مرتب حضور مفتی اعظم ہند رحمۃ اللہ علیہ نے یوں بیان فرمایا ہے کہ ایک روز حضرت مولانا شاہ سید احمد اشرف صاحب کچھوچھوی ( بریلی ) تشریف لائے ہوئے تھے ۔ رخصت کے وقت انھوں نے عرض کیا کہ مولوی سید محمد صاحب اشرفی ( محدث اعظم ہند ) اپنے بھانجے کو میں چاہتا ہوں کہ حضور کی خدمت میں حاضر کروں ۔ حضور جو مناسب فرمائیں ان سے کام لیں ۔ ارشاد ہوا ۔ ضرور تشریف لائیں ۔ یہاں فتوے لکھیں اور مدرسے میں درس دیں ۔ سید محمد اشرفی صاحب تو میرے شہزادے ہیں ۔ میرے پاس جو کچھ ہے وہ انہیں کے جد امجد ( حضور غوث پاک رضی اللہ تعالی عنہ ) کا صدقہ وعطیہ ہے ۔ ( الملفوظ حصہ اول ص 74-75 )
اعلیٰ حضرت کے ارشادات سے محدث اعظم ہند کےلئے حد درجہ محبت وشفقت ظاہر ہوتی ہے کہ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ نے فرمایا ۔ ضرور تشریف لائیں ۔ یہاں فتویٰ لکھیں اور ہمدردی کا بھی پتہ چلتا ہے کہ فرمایا ۔ مدرسے میں درس دیں ۔
جب کہ اصل مقصود فقہ وافتا میں استفادہ کرنا اور اختصاص کرنا تھا ۔ جیسا کہ دوسال کے اندر حضور محدث اعظم ہند نے خاص طور سے بریلی میں یہی کام کیا ۔ اور اپنائیت واحترام کے انتہائی جذبے کی جھلک ان جملوں میں دیکھئے فرماتے ہیں اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ ۔
سید محمد اشرفی صاحب تو میرے شہزادے ہیں ۔ اور ایسا کیوں نہ ہو کہ محدث اعظم ہند اولاد غوث اعظم تھے ۔ اور اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی اپنے سارے فضل وکمال کو غوث اعظم کا صدقہ سمجھتے تھے اور باوجود اس کے کہ محدث اعظم ہند ابھی نو فارغ تھے ۔ بلکہ سلسلہ تعلیم ابھی منقطع نہ ہوا تھا کہ بریلی بھی طلب علم کے لئے آئے تھے مگر اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ کو ان کی صلاحیت پر پورا اعتماد تھا ۔ اس لئے فرمایا ۔
مدرسے میں درس دیں ۔ اعلیٰ حضرت کے دور میں اعلیٰ حضرت کے مدرسے ۔ منظرِ اسلام میں درس دینا ہر ایرے غیرے کا کام نہیں تھا ۔
ملک العلماء علامہ ظفرالدین بہاری علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ پندرہ بطن کا مناسخہ آیا ۔ چونکہ اعلیٰ حضرت کی رائے میں مولانا سید محمد اشرفی صاحب ( محدث اعظم ہند ) نے فن حساب کی تکميل باضابطہ کی تھی اور آنہ پانی کا حساب بالکل آسانی سے کرتے تھے ۔ لہٰذا یہ مناسخہ انہیں ( محدث اعظم ہند ) کے سپرد کیا گیا ۔ مولانا سید محمد اشرفی صاحب ( محدث اعظم ہند ) کا بیان ہے کہ ان کا سارا دن اسی مناسخے کے حل کرنے میں لگ گیا ۔ شام کو اعلیٰ حضرت کی عادت کریمہ کے مطابق جب بعد نماز عصر پھاٹک میں نشست ہوئی اور فتاوی پیش کئے جانے لگے تو میں نے بھی اپنا قلم بند کیا ہوا جواب اس امید کےساتھ پیش کیا کہ آج اعلیٰ حضرت کی داد لوں گا ۔ پہلے استفتاء سنایا ۔
فلاں مرا ۔ اور اتنے وارث چھوڑے اور پھر فلاں مرا ۔ اور اتنے وارث چھوڑے غرض پندرہ موت واقع ہونے کے بعد زندوں پر ان کے حق شرعی کے مطابق ترکہ تقسیم کرنا تھا ۔ مرنے والے تو پندرہ تھے ۔ مگر زندہ وارث کی تعداد پچاس سے اوپر تھی ۔ میرا استفتاء ختم ہوا کہ ۔
اعلیٰ حضرت نے فرمایا ۔ آپ نے فلاں کو اتنا فلاں کو اتنا حصہ دیا ( محدث اعظم ہند ) فرماتے ہیں ۔ اس وقت میرا حال دنیا کی کوئی لغت ظاہر نہیں کرسکتی ۔ علوم اور معارف کی یہ غیر معمول حاضر جوابیاں جس کی کوئی مثال سننے میں نہیں آئی ۔ ( بحوالہ حیات اعلیٰ حضرت ج 1 ص 256- 255 )

سچ فرمایا ۔
اگلوں نے تو لکھا ہے بہت علم دین پر ۔
جو کچھ ہے اس صدی میں وہ تنہا رضا کا ہے ۔
وادی رضا کی کوہ ہمالہ رضا کا ہے ۔
جس سمت دیکھئے وہ علاقہ رضا کا ہے ۔

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے