خانوادۂ رضا

حیاتِ امام احمد رضا کے اہم گوشے

تحریر: ساجد علی مصباحی

استاذ: الجامعۃ الاشرفیہ، مبارک پور اعظم گڑھ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

نحمدہ ونصلی ونسلم علی رسولہ الکریم

امام احمد رضا، مختصر تعارف:

۱۰؍شوال المکرم ۱۲۷۲ھ /۱۴؍جون ۱۸۵۶ء، بروزِ شنبہ ،بوقتِ ظہر ،ہندوستان کےمشہور ومعروف شہر ”بریلی“ میںاعلیٰ حضرت امام احمد رضا خانحنفی قادری کی ولادت  ہوئی ،آپ کا پیدائشی نام ”محمد“ اور تاریخی نام”المختار[۱۲۷۲ھ]“ہے۔آپ کے جد امجد مولانا رضا علی خان بریلوی قدس سرہٗ(متوفیٰ :۱۲۸۲ھ/۱۸۶۶ء)نے آپ کو” احمد رضا“کے نام سے پکارا جو خاص وعام کی زبان پر جاری ہوگیا۔

آپ نے ابتدائی تعلیم میزان ومنشعب تک مرزا غلام قادربیگ ،بریلوی(متوفیٰ:۱۳۳۶ھ/۱۹۱۷ء) سے حاصل کی اور اکثر علوم دینیہ ،عقلیہ ونقلیہ کی تحصیل اپنے والد ماجد مولانا نقی علی خان (متوفیٰ:۱۲۹۷ھ/۱۸۸۰ء) سے کیــــــ مولانا عبدالعلی رام پوری(متوفیٰ:۱۳۰۳ھ) سے شرح چغمینی کے بعض اسباق پڑھےــــــــمرشد گرامیسیدشاہ آل رسول احمدی مارہروی (متوفیٰ:۱۲۹۶ھ/۱۸۷۹ء)سے تصوف وطریقت کی تعلیم حاصل کیــــــ سیدشاہ ابوالحسین نوری مارہروی  (متوفیٰ:۱۳۲۴ھ/۱۹۰۶ء)سےتعلیم طریقت کی تکمیل کی اور کسی قدرعلم جفر وتکسیربھی سیکھا اور جب ۱۲۹۵ھ/۱۸۷۸ء میں زیارت حرمین شریفین کے لیے مکہ مکرمہ حاضر ہوئے تومفتی شافعیہ شیخ احمد بن زین بن دحلان مکی(متوفیٰ:۱۲۹۹ھ/۱۸۸۱ء) ،مفتی حنفیہ شیخ عبدالرحمٰن سراج  مکی (متوفیٰ :۱۳۰۱ھ/۱۸۸۳ء)اورامام کعبہ شیخ حسین بن صالح مکی (متوفیٰ :۱۳۰۶ھ/۱۸۸۴ء)سے حدیث وفقہ وتفسیروغیرہ کی سند حاصل فرمائی۔

آپ کی خداداد ذہانت وذکاوت اوراعلیٰ فہم وبصیرت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتاہے کہ بسم اللہ خوانی ہی کے دن الف،ب ،ت ،ث پڑھتے ہوئے لا کے مرکب ہونے پر حیرت انگیز اشکال کااظہارکیاـــــچار سال کی عمر میں قرآن کریم ناظرہ ختم کرلیا ـــــچھ سال کی عمر میں میلادِ مصطفیٰ علیہ التحیۃ والثناءکے موضوع پر مجمع عام میں بصیرت افروز خطاب فرمایاـــــآٹھ سال کے ہوئے توفن نحو کی مشہور کتاب”ہدایۃ النحو “ کی عربی زبان میں شرح لکھیـــــدس سال کی عمر میں اصول فقہ کی اہم کتاب”  مسلم الثبوت “پرحاشیہ لکھاـــــتیرہ سال ،دس ماہ ، چاردن کی عمر میں مروجہ علوم عقلیہ ونقلیہ کی تکمیل کرکے دستارِفضیلت سے سرفراز ہوئے اور اسی دن رضاعت سے متعلق ایک فتویٰ لکھا جو بالکل درست تھا ،اسے دیکھ کر والد ماجد رئیس المتکلمین مولانا نقی علی خانقدس سرہ اس قدر خوش ہوئے کہ اسی دن فتویٰ نویسی کی اجازت مرحمت فرمادی اورمسندِ افتا پر بٹھا دیا۔

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہٗ سے ایک دن پوچھا گیا کہ ”اگر بچے کی ناک میں کسی طرح دو دھ چڑھ کر حلق میں پہنچ گیا ہو تو کیا حکم ہے؟

آپ نے ارشاد فرمایا: منہ یاناک سے عورت کا دودھ جو بچے کے جوف میں پہنچے گا ، حرمتِ رضاعت لائے گا۔ـــــیہ وہی فتویٰ ہے جو چودہ شعبان ۱۲۸۶ھ کو سب سے پہلے اِس فقیر نے لکھا اور اسی۱۴؍شعبان ۱۲۸۶ھ کو منصبِ اِفتا عطا ہوا ،اور اسی تاریخ سے بِحَمْدِ اللہ تعالیٰ نماز فرض ہوئی اور ولادت ۱۰؍ شوال المکرم ۱۲۷۲ھ،روزِ شنبہ ،وقتِ ظہر مطابق ۱۴؍جون ۱۸۵۶ء،۱۱جیٹھ سدی ۱۹۱۳سمبت کو ہوئی تو منصبِ اِفتا ملنے کے وقت فقیر کی عمر ۱۳ برس،دس مہینہ ،چاردن کی تھی جب سے اب تک برابر یہی خدمتِ دین لی جارہی ہےوَالْحَمْدُ للٰہ“۔)[1](

آپ کے عہد طفلی کا یہ واقعہ بھی بڑا خوش گوار تھا  کہ ایک روز آپ بچوں کے ساتھ مکتب میں پڑھ رہے تھے ، ایک آنے والے بچے نے استاذ کو سلام کیا ،انھوں نے وعلیکم السلام کہنے کی بجاے جواب میں کہا :جیتے رہو۔

آپ نے فوراً استاذ صاحب سے عرض کیا:یہ سلام کا جواب تو نہ ہوا ۔وعلیکم السلام کہنا چاہیے تھا ۔مولوی صاحب اس سے بہت خوش ہوئے اور دعائیں دیں۔)[2](

اس قسم کے واقعات سے صاف ظاہر ہےکہ اسلامی شعائر وآداب کی حفاظت وپاسبانی کی جوروایتیں آپ کی دینی ،علمی ،اصلاحی اورتعمیری تاریخ سے وابستہ ہیں ،ان کی ابتدا بچپن ہی سےہوچکی تھی۔

اعلیٰ حضرت امام احمد رضاقدس سرہٗ کا سینہ علوم و معارف کا خزینہ اور دماغ فکر وشعور کا گنجینہ تھا، اپنے بیگانے سب ہی معترف ہیں کہ شخصی جامعیت،اعلیٰ اخلاق و کردار، قدیم و جدید علوم و فنون میں مہارت ، تصانیف کی کثرت ، فقہی بصیرت ، احیاے سنت کی تڑپ، قوانین شریعت کی محافظت، زہد وتقویٰ ، عبادت وریاضت ،اخلاص وللہیت اور روحانیت و عشق رسول میں ان کے معاصرین میں کوئی  ان کاہم پلہ نہ تھا ۔

آپ کی صداقت وراست گفتاری ، نیک نفسی وپاک بازی ، شرافت نفس اوراعلیٰ ظرفی کے افراد خانہ اور اہل تعلق سب ہی معترف ومداح تھے ،بڑوں کا ادب واحترام ، اساتذہ ، علما ومشائخ کا اعزاز واکرام  ، ان کے ساتھ محبت و حسن عقیدت او ر اس طرح کی بہت سی خوبیوں کےآپ مالک تھے۔

اس لیے آپ کی حیات مبارکہ کے تعلق سے کچھ لکھنے سے پہلے سوبار سوچنا پڑتاہےکہ آپ کے کس وصف جمیل کا ذکر کیاجائے اور کسےترک کیاجائے ،آپ کی ذات گرامی کاحال تو یہ ہےکہ ؂

        زفرق تا بہ قدم ہرکجا کہ می نگرم                     کرشمہ دامن دل می کشد کہ جا ایں جا ست

یقیناًآپ کے تمام اوصافِ جمیلہ وکمالاتِ جلیلہ پر مستقل لکھنے کی ضرورت ہے ،اورالحمدللہ بہت سے گوشوں پرکافی کچھ لکھا جاچکاہے اور بعض گوشوں پر ابھی لکھاجارہاہے۔ہماس مضمون میں اختصار کے ساتھ چند گوشوں کا تذکرہ کرتے ہیں اوراربابِ ذوق سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ مزیدمعلومات اورتسکین قلب کےلیے مآخذومراجع کی طرف رجوع کریں ۔

3امام احمدرضا اوراتباع شریعت :

        صرف اربابِ نظر ہی کے وہ رہبر تو نہیں                       مرجع اہل طریقت بھی ہیں اعلیٰ حضرت

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہٗ کی حیات مبارکہ پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہی یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہےکہ آپ نے پوری زندگی شریعت پر سختی سے عمل کیا ، ہرفرض وواجب کی محافظت اور اتباع سنت وشریعت میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ ہونے دیا جس کے نتیجے میں آپ  کا قلب مبارک ایسا پاکیزہ اور مزکّیٰ ومصفیٰ ہوچکاتھا کہ نور معرفت کی تابندگی اوائل زندگی ہی میں نظر آنے لگی تھی۔

بائیس سال کی عمر میں جب آپ تاج الفحول حضرت مولانا عبدالقادر بدایونی (متوفیٰ:۱۳۱۹ھ/۱۹۰۱ء)اور اپنے والد ماجد حضرت مولانا نقی علی خان بریلوی کے ہمراہ ۱۲۹۴ھ/۱۸۷۷ء میں مارہرہ مطہرہ پہنچے توخاتم الاکابر حضرت سید شاہ آل  رسول احمدی قادری برکاتی نے بیعت کے ساتھ ہی  آپ کو اجازت وخلافت سے بھی سرفراز فرمادیا جب کہ دوسرے مریدین ومعتقدین کوکافی ریاضت ومجاہدہ اور تطہیر وتزکیہ کے بعد اگر قسمت یاوری کرتی تو یہ سعادت میسر آتی تھی ۔

خلافِ معمول یہ دل کش منظر دیکھ کر سید شاہ ابو الحسین احمد نوری مارہروی نے عرض کیا : حضور ! آپ نےانھیں بلا ریاضت ومجاہدہ خلافت عطافرمادی ،اس کی کیا وجہ ہے ؟حضرت سید شاہ آل رسول احمدی قادری مارہروی نے ارشاد فرمایا:

” اور لوگ میلاکچیلا ، زنگ آلود دل  لے کر آتے ہیں جس کے تزکیہ کے لیے ریاضت ومجاہدہ کی ضرورت ہوتی ہے،یہ مصفیٰ ومزکیٰ قلب لے کر آئے ہیں ، انھیں ریاضت ومجاہدہ کی کیا ضرورت تھی ؟صرف اتصال نسبت کی ضرورت تھی جو بیعت کے ساتھ ہی حاصل ہوگیا۔

مزید فرمایا: مجھے بڑی فکر تھی کہ بروز محشر اگر احکم الحاکمین نےسوال فرمایاکہ آل  رسول تو میرے لیے کیا لایا ہے؟تو میں کیا پیش کروں گا ؟مگر اللہ کا شکر ہے کہ آج وہ فکر دور ہوگئی ، اس وقت میں احمد رضا کو پیش کردوں گا“۔)[3](

حضرت مولانا حسنین رضا خاں بریلوی، اعلیٰ حضر ت امام احمد رضا قدس سرہ ٗکے بچپن کا ایک واقعہ اس طرح قلم بند کرتے ہیں:

”اعلیٰ حضرت کی روزہ کشائی بڑی دھوم دھام سے ہوئی ،سارے خاندان اور حلقۂ احباب کو مدعو کیا گیا، کھانے دانے پکے ، افطاریاں بنیں،اس میں فیرنی بھی تھی جس کے پیالے ایک کمرے میں جمانے کے لیے رکھے تھے ،رمضان المبارک گرمی میں تھا اور اعلیٰ حضرت خُرد سال تھے ،مگر آپ نے بڑی خوشی سے پہلا روزہ رکھا تھا،ٹھیک دوپہر میں چہرۂ مبارک پر ہوائیاں اڑنے لگیں،آپ کے والد  ماجد نے دیکھا تو اس کمرے میں لے گئے اور اندر سے کواڑ بند کرکے اعلیٰ حضرت کو فیرنی کا ایک ٹھنڈا پیالہ اٹھاکر دیا اور فرمایا کہ کھالو۔آپ نے عرض کیا: میرا تو روزہ ہے۔انھوں نے فرمایا کہ بچوں کے روزے یوں ہی ہواکرتے ہیں،کمرہ بند ہے نہ کوئی آسکتاہے ، نہ دیکھ سکتاہے ،تو اعلیٰ حضرت نےعرض کیا : جس کا روزہ رکھا ہے وہ تو دیکھ رہاہے،اس پر باپ آب دیدہ ہوگئے اور خدا کا شکر اداکیاکہ خداکے عہد کویہ بچہ کبھی فراموش نہ کرے گا ،جس کو بھوک پیاس کی شدت میں ،کمزوری اور کم سنی میں ،ہرفرض کی فرضیت سے پہلے وفاے عہد کی فرضیت کا اتنا لحاظ وپاس ہے“۔)[4](

4امام احمد رضا اورعلوم وفنون:

لـیـس عــلیاللہبـمستنکر أن یـجمع الـعـالمفي واحد
خدا کے لیے کچھ اچنبھا نہ جان کہ کردے جمع اک میں  سارا جہان

            اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ پچپن(۵۵) علوم وفنون کے ماہر تھےجیسا کہ ”الإجازات المتینۃ لعلماء بکۃ والمدینۃ[۱۳۲۴ھ]“ میں خود انھوں نے ذکر کیاہےاورمحتاط سوانح نگاروں نے بھی اسی کو لکھاہے۔

اعلیٰ حضرت امام احمدرضا قدس سرہٗ کے علمی فضل وکمال اور مختلف علوم وفنون میں ان کی مہارتِ تامہ کا اعتراف ان کے مخالفین ومعاندین بھی اپنی مجلسوں میں کرتے رہتے تھے۔ چنان چہ علامہ محمدصابر القادری نسیمؔ بستوی لکھتے ہیں:

”اعلیٰ حضرت قبلہ کا جب وصال ہوا تو بیرونی اضلاع کو فوراً تار دیےگئے ۔۔۔ جب وہ تارمرادآبادمیں استاذ العلماء مولانا نعیم الدین صاحب قبلہ کو پہنچا،فوراً شہر میں اعلان کرنے کے لیےانھوں نے طلبہ کے چند گروہ روانہ کردیے جو پہلے بیک آواز نعرۂ تکبیر سے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے تھے،پھر بلند آواز سے ایک شخص اعلان کرتاتھاکہ” آج نمازِ جمعہ کے وقت اعلیٰ حضرت قبلہ کا وصال ہوگیااور کل ان کی تجہیز وتکفین ہوگی، جو صاحب نمازِجنازہ میں شرکت کرنا چاہیں وہ نو بجے صبح تک بریلی پہنچ جائیں“۔

یہ اعلان جب شاہی مسجد کے قریب پہنچا تو مدرسہ کےصدرمدرس نے ایک طالب علم کو حکم دیاکہ بازار میں دیکھو، کیا اعلان ہورہاہے۔وہ طالب علم گیا اور لوٹا تو اس نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ”خان صاحب بریلوی فوت ہوگئے“۔اس پر صدرمدرس بہت برہم ہوئے اور کہاکہ یہ خوش ہونے کی بات ہے یا رونے کی بات ہے۔مذہبی اختلاف اپنی جگہرہا، مگر ہمیں غیر مسلم اقوام کے مقابلےمیں ان کی ذات کے ساتھ ایک فخر قائم تھا کہ دنیا کے سارے علوم اگر ایک ذات میں جمع ہوسکتے ہیں تو وہ مسلمان ہی ہوسکتاہےاور اس  وقت ہم مسلمانوں میں ایک ایسا شخص موجود بھی ہے کہ دنیابھر کے مروجہ علوم میں مہارتِ تامہ رکھتاہےاوروہ مولانا احمدرضا خاں کی ذات تھی جن کی ذات تک ہمیں یہ فخر حاصل تھا۔افسوس،صد افسوس! آج یہ فخر ان کی ذات کے ساتھ رخصت ہوگیا،اب مسلمانوں میں کوئی شخص ایسا موجود نہیں ہےجس کا نام اس فخر کے ساتھ پپش کیا جاسکتاہو۔یہ تھی وہابیہ کے اکثر اکابر کی راے اعلیٰ حضرت قبلہ کے علوم کے متعلق ” والفضل ماشہدت بہ الأعداء“حقیقی بڑائی وہ ہے جس کی گواہی دشمن دیں“۔)[5](

5امام احمد رضا اورفقہ وافتا:

فقیہ اعظم ہندوستاں احمدرضا تم ہو                          مقام فقہ میں عرش آستاں احمد رضا تم ہو

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس  سرہٗ اپنے دَور کے بے مثال فقیہ اور بلند پایہ مفتی تھے ، علم فقہ میں آپ کی تصانیف کی تعداد ڈیڑھ سو سے زائد ہے، ان میں سب سے زیادہ مشہور ومعروف ” فتاویٰ رضویہ “ہے ۔یہ فقہ حنفی کاایک عظیم انسائیکلوپیڈیا ہے جو رضا اکیڈمی ، ممبئی سے بارہ جلدوں میں شائع ہورہاہے۔صدرالافاضل حضرت مولانا سید نعیم الدین مرادآبادی علیہ الرحمہ(متوفیٰ:۱۳۶۷ھ) آپ کی فقہی بصیرت اور علمی ودینی خدمات کے بارے میں فرماتےہیں:

” علم فقہ میں جو تبحر وکمال حضرت ممدوح(امام احمد رضا ) کو حاصل تھا اس کو عرب وعجم ،مشارق ومغارب کے علمانے گردنیں جھکاکر تسلیم کیا،تفصیل تو ان کے فتاویٰ دیکھنے پر موقوف ہے ، مگر اجمال کے ساتھ دو لفظوں میں سمجھیےکہ موجودہ صدی میں دنیا بھر کا ایک مفتی تھا جس کی طرف تمام عالم کے حوادث ووقائع استفادہ کے لیے رجوع کیے جاتے تھے ،ایک قلم تھا جو دنیا بھر کو فقہ کے فیصلے دے رہاتھا، وہی بدمذہبوں کے جواب میں لکھتاتھا، اہل باطل کی تصانیف کا بالغ رد بھی کرتاتھااورزمانہ بھر کے سوالوں کے جواب بھی دیتاتھا،اعلیٰ حضرت کے مخالفین کو بھی تسلیم ہے کہ فقہ میں ان کا نظیر آنکھوں نے نہیں دیکھا“۔)[6](

مکہ مکرمہ کے عالم جلیل شیخ سیدمحمد اسماعیل بن سید خلیل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہما نےجب  اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ کا ایک فتویٰ دیکھا تو  بے ساختہ پکار اٹھے:واللہ أقول والحق أقول إنہ لوراٰہا أبوحنیفۃ النعمان لأقرت عینہ وجعل مؤلفہا من جملۃ الأصحاب۔)[7](

خدا کی قسم !میں بالکل سچ کہتاہوں کہ اگر یہ فتویٰ  امام  اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت  رضی اللہ تعالیٰ عنہ دیکھتے توبلاشبہہ اس سے  ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوتیں اور وہ فتویٰ لکھنے والے کو اپنے اصحاب(امام محمد ، امام ابو یوسف ، امام زفر وغیرہم رضی اللہ تعالیٰ عنہم ) کے زمرے میں شامل فرمالیتے ۔

آپ کی خدمت میں آنے والے استفتا کی کثرت بہت حیرت انگیز تھی اور ان سب کے جواب لکھنا اور لکھوانا اس سے بھی زیادہ محیر العقول تھا، استفتاکی کثرت کے بارے میں ایک جگہ خودتحریر فرماتے ہیں:

” فقیر کے یہاں علاوہ ردِّ وہابیہ خذلہم اﷲ تعالیٰ ودیگر مشاغل کثیرہ دینیہ کے کارِ فتویٰ اس درجہ وافر ہے کہ دس مفتیوں کے کام سے زائد ہے،شہر ودیگر بلادو امصار، جملہ اقطار ہندوستان وبنگال وپنجاب ومالیبار وبرہما وارکان و چین وغزنی وامریکہ وافریقہ حتی کہ سرکارحرمین محترمین سے استفتاآتے ہیںاورایک ایک  وقت میں پانچ پانچ سو جمع ہوجاتے ہیں“۔)[8](

ماہر رضویات پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد صاحب رقم طراز ہیں:

” امام احمد رضا کے مطالعہ وتحقیق کا معیار بھی بہت بلند تھا ، انھوں نے لکھی لکھائی اور سنی سنائی پر تکیہ نہ فرمایا، بلکہ اصل متون کا خود مطالعہ فرمایااور جب تک خود مطمئن نہ ہوتے حوالہ نہ دیتے ،ان کے پایۂ تحقیق کا اندازہ ” حجب العوار عن  مخدوم بہار“کے مطالعہ سے ہوتاہےجس میں انھوں نے متن کتاب کی تحقیق سے متعلق وہ وہ نکات واصول بیان فرمائے ہیں جو دَور جدید کے محققین کے وہم وخیال میں بھی نہیں اور دنیا کا کوئی محقق متن کے لیے یہ اہتمام نہیں کرتاجو امام احمد رضا فرماتے تھے۔امام احمد رضا نے اپنی تمام نگارشات میں اصول تحقیق کا پورا پورا خیال رکھاہے۔وہ ایک محتاط محقق ، عاقبت اندیش مدبر اور بلند پایہ مفکر تھے“۔)[9](

●اعلیٰ حضرت امام احمد رضا  قدس سرہٗکے علمی فضل وکمال اور مختلف زبان وادب پر قدرت  کاملہ کا عالم یہ ہے کہ اردو ، عربی ، فارسی ،منظوم ، منثور جس زبان اور جس انداز میں استفتاہوا ، اسی زبان اور اسی انداز میں اس کا جواب مرحمت فرمایا،جسے دیکھ کر ارباب علم ودانش بھی حیرت زدہ رہ گئے ۔نواب سلطان احمد خان صاحب بریلوی نے منظوم استفتا کیا تو آپ نے جواب بھی منظوم ہی  عطافرمایا۔وہ استفتا اور جواب دونوں فتاویٰ رضویہ میں اس طرح درج ہیں:

مسئلہ : مسئولہ نواب سلطان احمد خاں صاحب، بریلی   ( سوال منظوم )

عالمانِ شرع  سے ہے اس طرح میراسوال دیں جواب اس کا براےحق مجھے وہ خوش خصال
گرکسی نے ترجمہ  ،سجدہ کی آیت کا پڑھا  تب بھی سجدہ کرنا کیا اُس شخص پر واجب ہوا
او ر ہوں سجدے تلاوت کے ادا کرنے جسے      پھر ادا کرنے سے ان سجدوں کے پہلے وہ مرے
پس سبکدوشی کی اس کے شکل کیا ہوگی جناب! چاہئے ہے آپ کو دینا جواب باصواب

الجواب ( منظوم)

ترجمہ بھی اصلساں ہے وجہ سجدہ بالیقین فرق یہ ہے فہم معنی اِس میں شرط اُس میں نہیں
آیت سجدہ سنی جاناکہہے سجدہ کی جا اب زباں سمجھے نہ سمجھے سجدہ واجب ہوگیا
ترجمہ میں اس زباں کاجاننا بھی چاہئے نظم ومعنی دوہیں ان میں ایک تو باقی رہے
تاکہمِنْ وَجْہٍتو صادق ہو سنا قرآن کو      ورنہ اکموجِ ہواتھی چھو گئی جو کان کو
ہے یہی مذہب بِہٖ يُفْتٰی،عَلَيْہِ الْاِعْتِماد شامی از فیض ونہروَاللہُأعْلَم بِالرَّشَاد
سجدہ کا فدیہ نہیں اشباہ میں تصریح کی صیرفیہمیں اسی انکار کیتصحیحکی
کہتے ہیں واجب نہیں اس پر وصیت وقت موت فدیہ گرہوتا تو کیوں واجب نہ ہوتا جبر فوت
یعنی اس کا شرع میں کوئی بدل ٹھہر انہیں جز ادایا توبہوقتِ عجز کچھچارہ نہیں   
یہ نہیں معنیٰ کہناجائز ہے یابے کارہے آخراک نیکی ہے،نیکی ماحی اوزار ہے
قُلتُہاَخْذَا مِّنَ التَّعْلِیْلِ فِيْاَمْرِالصَّلاۃ وَھْوَ بَحْثٌ ظَاھِرٌ وَالْعِلْمُ حَقاًّلِلْاِلٰہ)[10](

نظم کی تنگ دامانیکے باوجود جواب میں اصول افتاکی پوری رعایت موجودہے ۔3کتب فقہ کی عبارتوں کا مفہوم بھی مذکور ہے ۔4ان کے نام بھی مرسوم ہیں ۔5اختلاف کا اشارہ اورترجیح وتصحیح کی تصریح بھی مرقوم ہے ۔6اورجو حکم اپنی طرف سے ازراہِ تفقّہ بیان کیا اُس کی دلیل بھی مسطور ہے ۔7ان سب کے ساتھ اہل افتا کی روایتی عبارت ” واللہ أعلم “ بھی دونوں سوالوں کےجواب میں ایک خاص جِدّت وجَودت کےساتھمنظوم ہے۔8جواب میں بھی اُسی وزن وبحر کی پابندی ہے جو سوالمیں ہے ۔فاعلاتن ،فاعلاتن ، فاعلاتن ، فاعلات(بحر رمل ، مُثمّن، مقصور) فللّٰہ دَرُّہ ، ما أمْہَرَہٗ في الشعروالفقہ۔تفصیل کےلیے دیکھیے استاذ گرامی حضرت علامہ محمد احمد مصباحی مدظلہکا مضمون ” امام احمد رضا بریلوی کے افتا کی ایک خصوصیت “ مطبوعہ ماہ نامہ پاسبان ، الٰہ آباد ، شمارہ جولائی ۱۹۷۹ء۔

6امام احمد رضا اورتحقیق انیق:

علم کا دریا ہوا ہے موجزن تحریر میں                  جب قلم تونے اٹھایا اے امام احمد رضا

          خلق کو وہ فیض بخشا علم سے بس کیاکہوں                    علم  کا  دریا  بہایا   اے  امام   احمد رضا

●کن چیزوں سےتیمم کرنا  جائز ہے اور کن سے ناجائزہے۔یہ مسئلہ تقریبا فقہ کی تمام کتابوں میں موجود ہے،مگر اعلیٰ حضرت امام احمد  رضا قدس سرہ سے پہلے فقہاے کرام نے اس سلسلے میں جو تحقیقات پیش کی ہیں، ان سب کا حاصل یہ ہے کہ جن چیزوں سے تیمم کرنا جائز ہے ان کی کل تعدادچوہتر (۷۴)ہے اور جن سے تیمم کرنا جائز نہیں ہے، ان کی كل تعداداٹھاون(۵۸)ہے۔

جب اعلیٰ حضرت قدس سرہ نے اس مسئلہ کی تحقیق کی تو ایک سو اکّاسی (۱۸۱) چیزیں وہ بیان فرمائیں جن سے تیمم کرنا جائز ہے،گویا انھوں نےاپنی خداداد فقہی بصیرت کی روشنی میں فقہاے کرام  کی بیان کردہ چوہتر (۷۴)اشیاپر ایک سو سات(۱۰۷) اشیا کا اضافہ فرمایاــــــاسی طرح  ایک سو تیس(۱۳۰) چیزیں وہ بیان فرمائیں جن سے تیمم کرنا جائز نہیں ہے ،گویا پیش رَو فقہاےکرام کی ذکر کردہ اٹھاون(۵۸) اشیا پر مزید بہتر(۷۲) اشیا کا اضافہ فرمایا۔چنا ن چہ آپ  اس مسئلہ پر مفصل تحقیقی بحث فرمانے کے بعد یوں رقم طراز ہیں:

”یہ تین سوگیارہ)۳۱۱(چیزوں کابیان ہے۔ایک سو اکیاسی )۱۸۱(سے تیمم جائز ،جن میں چوہتر(۷۴)منصوص اورایک سو سات (۱۰۷)زیاداتِ فقیر اورایک سو تیس (۱۳۰)سے ناجائز، جن میں اٹھاون(۵۸)منصوص اوربہتر(۷۲)زیاداتِ فقیر۔

(پھر آگےتحدیث نعمت کے طور پر فرماتے ہیں:) ایساجامع بیان اس تحریر کے غیرمیں نہ ملے گا ،بلکہ زیادات درکنار، اتنے منصوصات کااستخراج بھی سہل نہ ہوسکے گا۔وللٰہ الحمد أولا واٰخرا،وبہالتوفیقباطناوظاھرا،وصلیاللٰہتعالیٰوسلمعلیٰحبیبہواٰلہوصحبہمتوافرامتکاثرا،اٰمین۔)[11](

●حضور اقدس ﷺنے اپنی حیات ِمبارکہ میں بذاتِ خود اذان دی ہے یا نہیں ؟اس سلسلے میں علماے کرام کے دو قول ہیں:

(۱)آپ نے ایک مرتبہ بذاتِ خود اذان دی ہے جیسا کہ امام ترمذی کی روایت سے ثابت ہے۔(۲) آپ نےبذات خودکبھی اذان نہیں دی ہے ،اور امام ترمذی کی روایت میں جو حضور اقدس ﷺ کی طرف اذان کی اسنا د ہے ، وہ اسنادمجازی ہے۔

علامہ شامی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ردالمحتار میں فرماتے ہیں:”عام طور پر یہ سوال کیا جاتا ہے کہ کیا نبی اکرم ﷺ نے خود اذان دی ہے یا نہیں؟امام  ترمذی نے روایت کیا ہے کہ حضور اقدس ﷺنے دورانِ سفر خود اذان دی اور صحابہ کو نماز پڑھائی۔امام نووی نے اس پر جزم کرتے ہوئے اسے قوی قرار دیا، لیکن اسی طریق سے مسند احمد میں ہے کہ آپ نے بلال کو حکم دیاتو انھوں نے اذان کہی۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام  ترمذی کی روایت میں اختصار ہے اور ان کے قول”أذَّنَ“کے معنی یہ ہیں کہ آپ نے حضرت  بلال کو اذان کا حکم دیا۔

اس سے معلوم ہوتاہے کہ علامہ شامی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا موقف یہ ہے  کہ اللہ کے رسول ﷺنے کبھی بذاتِ خود اذان نہیں دی ہے اور امام ترمذی کی روایت میں جوحضور اقدس ﷺ کی طرف اذان کی اسنا د ہے، وہ  اسنادمجازی ہے۔

لیکن اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہٗ  کی تحقیق یہ  ہےکہ  حضور اقدس ﷺ نے بنفس نفیس اذان دی ہے ۔اس کی دلیل یہ ہے کہ امام ابن حجر مکّی کی کتاب ”تحفہ “ میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے سفر میں ایک دفعہ اذان دی اور کلماتِ شہادت یوں کہے أشْہَدُأنّيْ رَسُوْلُ اﷲ(میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اللہ کا رسول ہوں)اور ابنِ حجر نے اس کی صحت کی طرف اشارہ کیا ہے اور یہ نص مفسر ہے جس میں تاویل کی کوئی گنجائش نہیں؛اس ليے کہ اگر آپ نے بذاتِ خود اذان نہ دی ہوتی تو روایت میں أشْہَدُأنّيْ رَسُوْلُ اﷲکی بجاے أشْہَدُأنَّ مُحَمَّدَ رَّسُوْلُ اﷲکے الفاظ وارد ہوتے۔اور اس سے امام نووی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے قول کو تقویت بھی ملتی ہے ۔)[12](

●جنب نے بدن کا کچھ حصہ دھویا، کچھ باقی رہاکہ پانی ختم ہوگیا،پھر حدث ہوا کہ موجب وضوہے ،اب جو پانی ملے اسے وضو اور رفع حدث میں صرف کرے یا بقیہ جنابت کے دھونے میں ۔یہ مسئلہ لُـمْعَہ ہے ۔

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہٗ نے اس مسئلہ  کی وہ تحقیق  وتفصیل مع حوالہ جات بیان فرمائی کہ فقہ کی کسی کتاب میں اس کا چوتھائی حصہ بھی نہیں ملے گا۔وَذٰلِکَ فَضْلُ اللہِ یُؤتِیْہِ مَن یَّشَاء۔

فقہ کی ہر کتاب میں لمعہ کی صورتیں مع احکام مندرج ہیں ،سب سے زیادہ صورتیں شرح وقایہ کے اندر بیان ہوئی ہیں،جن کا شمار پندرہ ہے ،لیکن اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہٗ نے علی حدہ علی حدہ گن کر لمعہ کی اٹھانویں صورتیں بیان فرمائیں اور ہر صورت کا مدلل شرعی حکم واضح کیا ، چوں کہ بعض صورتوں کا حکم ایک ہی جیساہے،لہذا اٹھانویں صورتوں کے احکام کی تعداد تیس بیان فرمائی ۔اور اس کے بارے میں ایک رسالہ لکھاجس کا نام ہے ” مجلی الشمعۃ لجامع حدث ولمعۃ[۱۳۳۶ھ]“۔اس رسالہ میں ایک جگہ فرماتے ہیں:

” مسئلہ لُمعہ میں سب صورتیں اٹھانوے ہوئیں،کتب اکابر میں بہت کم کابیان ہے، اگر ظاہر متبادر اقتصار بدوقسم آخر پر رکھیں جب تو بہت کم رہیںگی حتی کہ سب سے زیادہ تفصیل والی کتاب شرح وقایہ میں اٹھانوے میں سے صرف پندرہ، ورنہ احاطہ بہرحال نہیں ہوسکتا کہ اصناف ہی کا احاطہ نہ فرمایا صور درکنار“۔)[13](

پھراس مسئلہ میں فقہا کے جو اختلافات واضطرابات ہیں ، ان سے متعلق عبارتیں نقل کرکے انھیں رفع کیا، پھر فقہا ے متقدمین سےآسان اور جامع ضابطۂ کلیہ بیان کردیا ، علاوہ ازیں جب نجاست حکمیہ اور حقیقیہ کا اجتماع ہوجائے اور پانی صرف ایک کے لیے بقدر کفایت موجود ہو۔نیز جب حدث اکبر اور حدث اصغر دونوں کا اجتماع ہوجائے اورپانی اتنا ہو کہ صرف ایک حدث کے لیے کافی ہوسکے ، ان دونوں صورتوں سے متعلق عباراتِ  علما نقل کرکے ان پر کلام کیا اورواضح فرمایاکہ اس مسئلہ میں ترجیح ، محرر مذہب ، امام محمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے قول کو ہے۔چنان چہ وہ فرماتے ہیں:

”بالجملہحاصل تحقیق یہ ہوا کہ اگر کپڑے  یا بدن پر کوئی نجاست حقیقیہ مانعہ ہے اور وضو نہیں اور پانی اتنا ملا کہ چاہے نجاست دھولے، چاہے وضو کرلے ، دونوں نہیں ہوسکتے تو واجب ہے کہ اُس سے نجاست ہی دھوئے، اگر خلاف کرے گا گنہگار ہوگا ،حدث کےلیے تیمم کرے خواہ نجاست دھونے سے پہلے  یا بعد اور بعد اَولیٰ ہے کہ خلاف علماسے بچنا ہے اور اسی لیے اگر پہلے کرچکا ہے نجاست دھونے کے بعد دوبارہ تیمم کرلینا انسب واحری ہے۔

 اور اگر جنابت کا لمعہ باقی ہے اور حدث بھی ہوا اور وہ لمعہ  غیر مواضع وضو میں ہے  یا کچھ مواضع وضو کے ایک  حصے میں کچھ دوسرے عضو میں اور پانی اتنا ملا کہ دونوں میں جس ایک  کو چاہے دھولے ،دونوں نہیں ہوسکتے تو اُس پانی کو لمعہ دھونے میں صرف کرے اور حدث کےلیے لازم کہ جب پانی خرچ ہولے اس کے بعد تیمم کرے، اگرچہ پہلے بھی کرچکا ہوکہ وہ منتقض ہوگیا ،ظاہر ہے کہ تیمم بعد کو کرنے  یا بعد کو دوبارہ کرلینے میں نہ کچھ خرچ ہے نہ کچھ حرج۔ تو اگر قول امام محمد کی صریح تصحیح نہ بھی ہوتی ،خلاف ائمہ سے خروج کے لیے اسی پر عمل مناسب ومندوب ہوتا، نہ کہ اس طرف صراحۃً لفظ اصح موجود اور یہی دلیل کی رُو سے ظاہرتر اور اسی میں احتیاط اور امر نماز میں احتیاط باعث فلاح وصلاح“۔)[14](

آخر میں آپ نے حقیقت واقعیہ کا یوں اظہار فرمایاہےجو کافیعبرت آموز اورفکر انگیز ہے:

” الحمدللہ کتاب مستطاب”حسن التعمّم لبیان حدّ التیمم“ مسودۂ فقیر سےاٹھارہ(۱۸)جز سے زائد میں باحسن وجوہ تمام ہوئی جس میں صدہا وہ ابحاثِ جلیلہ ہیں کہ قطعاً طاقتِ فقیر سے بدر جہاورا ہیں ،مگر فیض قد یر عاجز فقیر سے وہ کام لے لیتا ہے جسے دیکھ کر انصاف والی نگاہیں کہ حسد سے پاک ہوں ناخواستہ کہہ اٹھیں ،ع:کم ترک الأول للآخر۔کتنے مسائل جلیلہ معرکۃ الآرا بحمدہٖ تعالیٰ کیسی خُوبی وخوش اسلوبی سے طے ہوئے وللٰہ الحمد کتاب میں اصل مضمون کے علاوہ آٹھرسائل ہیں۔ ۔ ۔بہرحال جو کچھ ہے میری قدرت سے ورا اور محض فضل میرے رب کریم پھر میرے نبی رؤف رحیم کا ہےجلّ وعلا وﷺ“۔)[15](

7امام احمد رضا اورتطبیق  بین الاقوال :

               تیری شان عالمانہ نے یہ ثابت کردیا              تجھ کو زیباہے امامت ،سیدی احمد رضا

مختلف اقوال میں جمع و تطبیق بڑا اہم اورمشکل کام ہے ، یہ کام وہی انجام دے سکتاہے جو اس فن کا متبحر عالم،وسعت نظر کا مالک اور جزئیات کا حافظ ہو  ۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہٗ  کی تصانیف جلیلہ اور ان کی فکر انگیز تحقیقات عالیہ میں اس کی مثالیں بکثرت موجودہیں۔فتاویٰ رضویہ سے اس کی ایک مثال نذر قارئین ہے:

●وضو یاغسل میں بلاوجہ پانی خرچ کرنے کے بارے میں فقہاے کرام کے درمیان سخت اختلاف پایاجاتاہے، چنان چہ علامہ ابراہیم حلبی نے غنیہ میں اورعلامہ طحطاوی نے شرح درمختارمیں بلاوجہ پانی صرف کرنے کو حرام ٹھہرایا۔مدقق علائی نےدرمختار میں مکروہ تحریمی قرار دیا۔بحرالرئق میں اسے مکروہ تنزیہی شمار کیا۔محقق علی الاطلاق امام بن ہمام نے فتح القدیر میں خلاف اولیٰ ہونے پر اعتمادکیا۔

الحاصل اس مسئلہ میں فقہاے کرام کے چار اقوال ہیں:حرام ، مکروہ تحریمی ، مکروہ تنزیہی او رخلاف اولیٰ ۔بظاہر ان  اقوال میں شدید اختلاف ہے ، لیکن اعلیٰ حضرت  امام احمد رضاقدس سرہٗ نے اپنی خداداد صلاحیت  اور فقہی بصیرت سے تطبیق کی ایسی صورت بیان فرمائی جس سے اختلاف یکسر ختم ہوجاتاہے ۔اس تطبیق کا ماحصل یہ ہے :

 (۱) وضو یاغسل میں سنت سمجھ کر بلاحاجت پانی خرچ کیا جائے تو حرام ہے ۔(۲) بلا اعتقاد سنیت وبلاحاجت وضو یا غسل میں پانی خر چ کرے کہ وہ پانی ضائع ہوتو مکروہ تحریمی ہے ۔(۳) نہ تو سنت کا اعتقاد ہو، نہ پانی ضائع کرنے کا ارادہ ، لیکن عادۃً بلا وجہ زیادہ پانی خرچ کرتاہوتو مکروہ تنزیہی ہے ۔(۴) نہ اعتقاد سنت ہو ، نہ پانی ضائع کرنے کا ارادہ ، نہ ہی بلا ضرورت خرچ کرنے کی عادت ہو، بلکہ نادراً بلاضرورت پانی خرچ ہوجائے تو خلافِ اولیٰ ہے۔چنان چہ مسئلۂ دائرہ سے متعلق تفصیلی کلام کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

”بالجملہ حاصل حکم یہ نکلا،بے حاجت زیادت اگر باعتقاد ِسنیت ہو، مطلقاً ناجائز وگناہ ہے اگرچہ دریا میں۔ اور اگر پانی ضائع جائے تو جب بھی مطلقاً مکروہ تحریمی اگرچہ اعتقاد ِسنیت نہ ہو۔ اور اگر نہ فسادِ عقیدت، نہ اضاعت تو خلافِ ادب ہے، مگر عادت کرلے تو مکروہ ِتنزیہی ۔یہ ہے بحمداللہ تعالیٰ فقہ جامع وفکر نافع ودرک بالغ ونور بازغ وکمال توفیق وجمال تطبیق وحُسن تحقیق وعطر تدقیق وباللّٰہ التوفیق والحمدللّٰہ رب العٰلمین۔)[16](

اس تضاد کو ختم کرنے کے ساتھ یہ بھی افادہ  فرمایا کہ یہ  اسراف فی الوضوء کی وہ صورتیں ہیں جو ناپسندیدہ ہیں،لیکن ایک صورت ایسی بھی ہے جس میں زیادہ پانی خرچ کرنا جائز ہےیعنی خلاف اولیٰ بھی نہیں ہے۔ پھر اس کی چار اقسام بیان فرمائیں:

(۱) بدن سے گندگی اور میل کا ازالہ اور تنظیف کی خاطر تین بار سے زیادہ دھویاجائے۔(۲) گرمی کی شدت سے بچنے اور بدن کو ٹھنڈک پہنچانے کے لیے تین بار سے زیادہ دھویاجائے۔(۳) اس نیت سے تین مرتبہ سے زیادہ دھویا جائے کہ وضو نور علی نور ہے۔(۴) دو یا تین بار میں شک پڑجائے تو ازالۂ ریب کی خاطر مقدار اقل پر بنا کرکے ایک بار اور دھوئے۔چنان چہ فتاویٰ رضویہ میں ہے:

”یہاں سے ظاہر ہوا کہ وضو وغسل میں تین بار سے زیادہ پانی ڈالنا جب کہ کسی غرض صحیح سے ہو ،ہرگز اسراف نہیں کہ جائز غرض میں خرچ کرنا ،نہ خود معصیت ہے، نہ بے کار اضاعت۔ اس کی بہت مثالیں اُن پانیوں میں ملیں گی جن کو ہم نے آب وضو سے مستثنی بتایا ،نیز تبریدؔ وتنظیفؔ کی دو مثالیں ابھی گزریں اور ان کے سوا علماےکرام نے دو صورتیں اور ارشاد فرمائی ہیں جن میں غرض صحیح ہونے کے سبب اسراف نہ ہوا:(۱) یہ کہ وضو علی الوضوء  کی نیت کرے کہ نور علیٰ نور ہے۔(۲) اگر وضو کرتے میں کسی عضو کی تثلیث میں شک واقع ہو تو کم پر بنا کرکے تثلیث کامل کرلے مثلاً شک ہوا کہ منہ یا ہاتھ یا پاوں شاید دو ہی بار دھویا تو ایک بار اور دھولے، اگرچہ واقع میں یہ چوتھی بار ہو اور ایک بار کا خیال ہوا تو دوبار، اور یہ شک پڑا کہ دھویا ہی نہیں تو تین بار دھوئے اگرچہ واقع کے لحاظ سے چھ بار ہوجائے، یہ اسراف نہیں کہ اطمینانِ قلب حاصل کرنا غرض صحیح ہے۔)[17](

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہٗ نےیہ تطبیق وتوضیح یوں ہی نہیں کردیہے ، بلکہ اس کو دلائل  وبراہین اور فقہا کی عبارتوں سے روشن بھی فرمایاہے۔یہ ہے آپکا وہ علمی ، فقہی اور تحقیقی کمال کہ جسے دیکھ کر بڑے بڑے علما وفضلا بھی انگشت بدنداں ہیں اور یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ :

                        ایں سعادت بزور  بازو نیست                  تا نہ بخشد خداے بخشندہ)[18](

8امام احمد رضا اورحوالوں کی کثرت :

کسی مسئلہ کے اثبات میں کثیر حوالے وہی شخص پیش کرسکتاہے جس کا مطالعہ وسیع ، حافظہ قوی اورجزئیات مستحضر ہوں ۔اس سلسلے میں بھی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہٗ اپنی مثال آپ ہیں۔آپ کی نظر اتنی وسیع وعمیق تھی کہ بسا اوقات اپنے موقف کی تائید وتقویت میں دس بیس نہیں ،بلکہ پچاسوں کتابوں کے حوالے رقم کرتے چلے جاتے تھے۔اس کے چند شواہد درج ذیل ہیں:

●سجدۂ تحیت حرام ہے۔ــــــاس کےثبوت میں آپ نے آیت وتفاسیر کے علاوہ چالیس احادیث اور ایک سوپچاس نصوص فقہ نقل کیے ہیں۔

یہ ایک مستقل رسالہ ہے جس کا نام ” الزبدۃ الزکیۃ لتحریم سجود التحیۃـــ ۱۳۳۷ھ “ہے۔)[19](

● داڑھی منڈانا ممنوع وناجائز ہے۔ــــــاس کے ثبوت میں آپ نے ایک مستقل رسالہ بنام”لَـمعۃُ الضُّحیٰ فيإعفاء اللُّحیٰـــ ۱۳۱۵ھ“ تحریر فرمایا،جس میں اٹھارہ آیتوں ، بہتر حدیثوں اور ساٹھ ارشادات فقہا نقل فرمائےجو آپ کی وسعت نظر اور استحضار پر بین دلیل ہے۔اس رسالے کے آخر میں خود فرماتے ہیں:الحمدللہ یہ مختصر رسالہ جس میں علاوہ زوائد کے اصل مقصد میں اٹھارہ آیتوں بہتر حدیثوں ساٹھ ارشادات علماجملہ ڈیڑھ سو نصوص نے باطل کاازہاق، حق کا احقاق کیا“۔)[20](

●کتا نجس العین ہے یا نہیں ؟ــــــ اس تعلق سے ایک طویل استفتا اعلیٰ حضرت قدس سرہ کی خدمت میں آیا ،جو اس امر کا مقتضی تھا کہ اس کا جواب بھی تفصیل کے ساتھ دلائل وبراہین سے مزین ہو؛اس لیے آپ نے پہلے احادیث وشروح احادیث سے اصل مسئلہ کی وضاحت فرمائی اور اس کے بعد پچاس سے زائد کتب فقہ کے حوالے سے اپنا جواب مدلل ومبرہن فرمایا،اورفتویٰ کا آغازاس طرح کیا:

”قول زید اصح وارجح واحق بالقبول واوفق بالمنقول والمعقول ہے۔اور اس کے اکثر دلائل وجوابات صحیح ونجیح وقابل قبول، فی الواقع ہمارے امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مذہب میں یہ جانور سائر سباع کے مانند ہے کہ لعاب نجس اور عین طاہر، یہی مذہب ہے صحیح واصح ومعتمد ومؤید بدلائل قرآن وحدیث ومختار وماخوذ للفتویٰ عند جمہور مشایخ القدیم والحدیث ہے“۔)[21](

تفصیل کے لیے اعلیٰ حضرت قدس سرہٗ کا رسالہ”سلب الثلب عن القائلین بطہارۃ الکلب [۱۳۱۳ھ]“ کا مطالعہ کریں۔

9امام احمد رضا  اورعلوم  قرآن :

اعلیٰ حضرت  امام احمد رضا قدس سرہ علوم قرآن کے ماہر تھے ، قرآن فہمی کے لیے جن علوم وفنون  کی ضرورت ہوتی ہے،ان سب پر انھیں کامل عبور حاصل تھا، شان نزول اور ناسخ ومنسوخ سے پوری طرح باخبرتھے۔ان کی تفسیر ی مہارت کا ایک شاہکاراورقرآن فہمی کابیّن ثبوت ان کا ترجمۂ قرآن ’’کنزالایمان ‘‘ بھی ہے جس کے بارے میں محدثِ اعظم ہند حضرت مولانا سید محمد اشرفی، کچھوچھوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ(متوفیٰ:۱۳۸۱ھ/۱۹۶۱ء) فرماتے ہیں :

” علم ِقرآن کا اندازہ صر ف اعلیٰ حضرت کے اس اردو ترجمہ سے کیجیے جو اکثر گھروں میں موجود ہے اور جس کی مثال ِسابق نہ عربی میں ہے، نہ فارسی میں ہے ، نہ اردو زبان میں ہے ، اور جس کا ایک ایک لفظ اپنے مقام پر ایسا ہے کہ دوسرا لفظ اُس جگہ لایا نہیں جا سکتا جو بظاہر محض ترجمہ ہے ،مگر در حقیقت وہ قرآن کی صحیح تفسیر اور اردو زبان میں (روح )قرآنہے،استرجمہ کی شرح حضرت صدرالافاضل استاذ العلماء مولاناشاہ نعیم الدین علیہ الرحمہ نے حاشیہ پر لکھی ہے۔وہ فرماتے ہیں کہ دَوران شرح ایسا کئی بارہوا کہ اعلیٰ حضرت کے استعمال کردہ لفظ کے مقام استنباط کی تلاش میں دن پر دن گزرےاوررات پررات کٹتی رہی اوربالآخرماخذ ملا توترجمہ کا لفظ اٹل ہی نکلا۔اعلیٰ حضرت خود شیخ سعدی کے فارسی ترجمے کو سراہا کرتے تھے ،لیکن اگر حضرت سعدی اردو زبان کے اس ترجمہ کو پاتے تو فرماہی دیتے کہ ” ترجمۂ قرآن شے دیگر است وعلم القرآن شے دیگر“۔)[22](

قرآن کریم کا یہ ترجمہ علمی ، ادبی ، اعتقادی ہرحیثیت سے معیاری اور قرآن کی حقیقی جھلک کا آئینہ دار ہے،اس سے قرآنی حقائق ومعارف کے وہ اسرارورموز منکشف ہوتے ہیں جو عام طورسے دیگر تراجم سے واضح نہیں ہوتے،یہ ترجمہ سلیس وشگفتہ ہونے کے ساتھ انبیاے کرام علیہم السلام کے ادب واحترام اور ان کی عزت وعصمت کی پاس داری میں اپنی مثال آپ ہے۔

پھر یہ ترجمہ کس طرح معرض ِ وجو د میں آیا، اس کے بارے میں مولانا بد ر الدین احمدقادری رضوی یوں تحریر فرماتے ہیں:

”یہ معلوم کرکے ناظرین کو سخت حیرت ہوگی کہ اتنی کثیر خوبیوں والا ترجمہ بغیر کسی کتاب کی مدد کے اور بغیر کسی تیاری کے عالم ظہور میں آیا۔واقعہ یوں ہے کہ صدر الشریعہ حضرت مولانا امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ نے قرآن مجید کے صحیح ترجمہ کی ضرورت پیش کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت سے ترجمہ کر دینے کی گزارش کی ۔ آپ نے وعدہ تو فرمالیا، لیکن دوسرے مشاغل ِ د ینیہ کثیرہ کے ہجوم کے باعث تاخیر ہوتی رہی ،جب حضرت صدر الشریعہکی جانب سے اصرار بڑھا تو اعلیٰ حضرت نے فرمایا: چوں کہ ترجمہ کے لیے میرے پاس مستقل وقت نہیں ہے ؛اس لیے آپ رات میں سوتے وقت یا دن میں قیلولہ کے وقت آجایا کریں ۔چنان چہ حضرتِ صدر الشریعہ ایک دن کاغذ قلم اور دوات لے کر اعلیٰ حضرت کی خدمت میں حاضر ہوگئے اور یہ دینی کام بھی شروع ہو گیا۔

ترجمہ کا طریقہ یہ تھا کہ اعلیٰ حضرت زبانی طور پر آیاتِ کریمہ  کا ترجمہ بولتےجاتے اور صدر الشریعہ  اس کو لکھتے رہتے ،لیکن یہ ترجمہ اس طرح پر نہیں تھا کہ آپ پہلے کتب ِتفسیر و لغت کو ملاحظہ فرماتے ،بعدہٗ آیت کے معنی کو سوچتے ،پھر ترجمہ بیان کرتے، بلکہ آپ قرآن مجید کا فی البدیہبرجستہ ترجمہ زبانی طور پر اس طرح بولتے جاتے جیسے کوئی پختہ یادداشت کا حافظ اپنی قوتِ حافظہ پر بغیر زور ڈالے قرآن شریف فرفر، فرفر پڑھتا جاتا ہے، پھر جب حضرتِصدر الشریعہاور دیگر علماے حاضر ین اعلیٰ حضرت کے ترجمے کا کتب ِتفاسیر سے تقابل کرتے تو یہ دیکھ کر حیران رہ جاتے کہ آ پ کا یہ برجستہ فی البدیہترجمہ تفاسیر ِمعتبرہ کے بالکل مطابق ہے۔

الغرض اِسی قلیل وقت میں ترجمہ کا کام ہوتا رہا،پھر وہ مبارک ساعت بھی آگئی کہ حضرتِ صدر الشریعہنے اعلیٰ حضرت سے قرآن مجید کا مکمل ترجمہ کر الیا اور آپ کی کوششِ بلیغ کی بدولت دنیاے سنیت کو’’ کنز الایمان ‘‘کی دولت ِعظمیٰ نصیب ہوئی ۔فجزاہ اللہ تعالیٰ عن أہل السنۃ جزاءکثیرا وأجرا جزیلا“۔)[23](

آپ کے قلم سے نکلے ہوئے بعض تفسیری حواشی بھی ہیں ، مثلا : 1الزلال الانقیٰ من بحرسبقۃ الاتقیٰ[۱۳۰۰ھ]۔2حاشیہ تفسیر بیضاوی شریف۔3حاشیۃ عنایۃ القاضی۔4حاشیۃ معالم التنزیل۔5حاشیۃ الاتقان فی علوم القرآن۔  6حاشیۃ الدرالمنثور۔7حاشیہ تفسیر  خازن ۔یہ تمام حواشی عربی زبان میں ہیں۔)[24](

مولانا محمدحنیف خان رضوی بریلوی نے اعلیٰ حضرت کی کتب میں سے انتخاب کر کے چھ سو آیات پر مشتمل تفسیر ی مباحث جمع کر کے شائع کر دیے ہیں جو  بڑی سائز کی تین جلدوں(جامع الاحادیث جلد۷­ 8-9) پر محیط ہیں،جن کو پڑھ کر منصف مزاج حضرات اس بات کا ضرور اعتراف کریں گے کہ جو شخصیت ان آیات کی اس طرح محققانہ انداز میں تفسیر کرسکتی ہے ،وہ بلاشبہ پور ے قرآن کی تفسیر پر قادرتھی اور تمام مضامینِ قرآن اُس کے پیش نظر تھے ۔

:امام احمد رضا اورعلوم حدیث:

            اے مفسر، اے محدث، اے فقیہ بےمثال                 ہمسر اوج  ثریا  ہے  ترا  علمی  مقام

اعلیٰ حضرت امام احمد رضاقدس سرہٗ ایک بلند پایہ محدث بھی تھے،ان کے سینے میں احادیث کریمہ کا بحر بیکراں موجزن تھا ،علوم حدیث پر ان کا مطالعہ بہت وسیع تھا چنان چہ جب ان سے پوچھا گیا کہ حدیث کی کتابوں میں کون کون سی کتابیں پڑھی یا پڑھائی ہیں توانھوں نے جواب دیاکہپچاس سے زائد کتبِ حدیث میرے درس و تدریس و مطالعہ میں رہیں :

”مسند امام اعظم، مؤطا امام محمد، کتا ب الآثارامام محمد،کتاب الخراج امام ابویوسف، کتاب الحجج امام محمد، شرح معانی الاثار امام طحاوی، مؤطاامام مالک، مسند ِامام شافعی، مسندِ امام محمد وسننِ دارمی، بخاری و مسلم، ابوداؤد وترمذی ونسائی و ابنِ ماجہ وخصائص نسائی، منتقی ابن الجا رود و ذوعلل متناہیہ و مشکوٰۃ و جامع کبیر و جامع صغیر ومنتقی ابن تیمیہ وبلوغ المرام، عمل الیوم واللیلہ ابن السنی وکتاب الترغیب وخصائص ِکبریٰ وکتاب الفرج بعد الشدَّۃ وکتاب الاسماء و الصفات و غیرہ پچاس سے زائد کتبِ حدیث میرے درس و تدریس و مطالعہ میں رہیں‘‘۔)[25](

جب کوئی بالغ نظر ،صاحب فکر وبصیرت، اعلیٰ حضرت امام احمد رضاقدس سرہٗکی تصنیفات وفتاویٰ کا مطالعہ کرتاہے تووہ برملا اس حقیقت کا اعتراف کرتا ہے کہ امام احمد رضاقدس سرہٗ علوم حدیث میں یگانۂ روزگار ہیں،حدیث کی صحت وسقم کا مسئلہ ہو یا طرقِ حدیثاور اسماء الرجال کی گفتگو ہو ، ہر ایک میں آپ ممتاز نظر آتے ہیں۔

محدث اعظم ہند حضرت مولانا سید محمد اشرفی، کچھوچھوی علیہ الرحمہ آپ کے علم الحدیث کے تعلق سے یوں رقم طراز ہیں:

”علم الحدیث کا اندازہ اس سے کیجیے کہ جتنی حدیثیں فقہ حنفی کی ماخذ ہیں ہر وقت پیش نظر اور جن حدیثوں سے فقہ حنفی پر بظاہر زَد پڑتی ہے ان کی روایت ودرایت کی خامیاں ہر وقت ازبر ،علم حدیث میں سب سے نازک شعبہ علم اسماء الرجال کا ہے ، اعلیٰ حضرت (امام احمد رضا) کے سامنے کوئی سند پڑھی جاتی اور راویوں کے بارے میں دریافت کیاجاتاتو ہر راوی کے لیے جرح وتعدیل کے جوالفاظ فرمادیتے تھے ،اٹھا کردیکھاجاتاتو تقریب وتہذیب وتذہیب میں وہی لفظ مل جاتاتھا۔یحییٰ نام کے سیکڑوں راویان حدیث ہیں، لیکن جس یحییٰ کے طبقہ اوراستاذ وشاگرد کانام بتادیاتو اس فن کےاعلیٰ حضرت خود موجد تھے کہ طبقہ واسماسے بتادیتے تھے کہ راوی ثقہ ہے یا مجروح۔اس کو کہتے ہیں علم راسخ او ر علم حدیث سے شغف کامل اور علمی مطالعہ کی وسعت اورخداداد علمی کرامت “۔)[26](

یقینا فنِ حدیث میں اُ ن کی جو خدمات جلیلہ ہیں، ان سے اُن کی علمِ حدیث میں بصیرت و وسعت کا اندازہ ہوتا ہے ،حدیث کی معرفت اور اس کی صحت وعدم ِصحت، ضعف وسقم وغیرہ جملہ علومِ حدیث میں جو مہارتِ تامہ اُن کو حاصل تھی وہ بہت دور تک نظر نہیں آتی ہے اور یہ چیزیں ان کی کتب و رسائل میں مختلف انداز پر ہیں،کہیں تفصیل کے ساتھ مستقلاً ذکر ہے اورکہیں اختصار کے ساتھ ضمناً اور کہیں کہیں حدیث و معرفت ِحدیث اور مبادیِ حدیث پر ایسی نفیس اور شاندار بحثیں ہیں کہ اگر ان ابحاث کو  امام بخاری وامام مسلم بھی دیکھتے تو اُن کی آنکھیں ٹھنڈی ہوتیں۔

حضرت مولانا محمد حنیف خان رضوی  بریلوی نے اعلیٰ حضرت  امام احمد رضا قدس سرہ کی تقریبا تین سو تصانیف سےساڑھےچار ہزار (۴۵۰۰) احادیث یکجا کرکے” جامع الاحادیث“کے نام سے شائع کیاہے۔فجزاہ اللہ تعالیٰ خیرالجزاء۔

;امام احمد رضااور علم  رِیاضی :

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ دیگر علوم وفنون کی طرح  علمِ رِیاضی میں بھی یگانۂ رُوزگار تھے،اس کا ایک نمونہ حیات اعلیٰ حضرت سے ہدیۂ قارئین کرتے ہیں:

”  علی گڑھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر ضیاء الدین جو کہ رِیاضی میں غیر ملکی ڈگریاں اور تَمغہ جات حاصل کیے ہوئے تھے ،وہ امام احمد رضا قدس سرہ کی خدمت میں ریاضی کا ایک مسئلہ پوچھنے آئے۔ ارشاد ہوا: فرمائیے! انھوں نے کہا : وہ ایسا مسئلہ نہیں جسے اتنی جلدی عرض کردوں۔ اعلیٰ حضرت قدس سرہ نے فرمایا:آخر کچھ تو فرمائیے۔غرض وائس چانسلر صاحب نے سوال پیش کردیا۔ اعلیٰ حضرت نے سنتے ہی فرمایا : اس کا جواب یہ ہے۔یہ سن کر ان کو حیرت ہوئی اور گویا آنکھ سے پردہ اٹھ گیا،بے اختیار بول پڑے :میں سنا کرتاتھا کہ علم لدنی بھی کوئی شے ہے ،آج آنکھ سے دیکھ لیا۔ میں تو اس مسئلہ کے حل  کےلیے جرمن جانا چاہتا تھاکہ ہمارے دینیات کے پروفیسر جناب سید سلیمان اشرف صاحب نے میری راہنمائی فرمائی اور میں یہاں حاضر ہوگیا۔مجھے جواب سن کر تو ایسا معلوم ہورہاہے کہ آپ اسی مسئلہ کو کتاب میں دیکھ رہے تھے۔

 ڈاکٹر صاحب بصد فرحت و مسرت واپس تشریف لے گئے اور اعلیٰ حضرت  کی شخضیت سے اس قدرمتاثر ہوئے کہ داڑھی رکھ لی اور صوم و صلوٰۃ کے بھی پورے پابند ہوگئے“۔)[27](

<امام احمد رضا اور علم توقیت:

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ کوعلمِ توقیتمیں اس قدر کمال حاصل تھا کہ دن کو سورج اور رات کو ستارے دیکھ کر گھڑی ملالیا کرتے تھے، وقت بِالکل صحیح ہوتا اور کبھی ایک منٹ کا بھی فرق نہیں پڑتاتھا۔حیات اعلیٰ حضرت میں ہے:

” ایک مرتبہ اعلیٰ حضرت بدایون تشریف لے گئے، حضرت تاج الفحول محب الرسول مولانا شاہ عبدالقادر قادری برکاتی  کے یہاں مہمان تھے، ’’مدرسہ قادریہ‘‘کی مسجد میں خود حضرت تاج الفحول امامت فرماتے ۔جب فجر کی تکبیر شروع ہوئی تو حضرت مولانا عبدالقادر صاحب نے اعلیٰ حضرت کو امامت کے لیے آگے بڑھا دیا ۔اعلیٰ حضرت نے نماز ِفجر کی امامت کی اور قراء ت اتنی طویل فرمائی کہ مولانا عبد القادرصاحب  کو بعد سلام کے شک ہوا کہ آفتاب طلوع تو نہیں ہو گیا،مسجد سے نکل نکل کر لوگ آفتاب کی جانب دیکھنے لگے، یہ حال دیکھ کر اعلیٰ حضرت نے فرمایا کہ ’’ آفتاب نکلنے میں ابھی تین منٹ اڑتالیس سیکنڈ باقی ہیں۔ یہ سن کر لوگ خاموش ہوگئے“۔)[28](اس فن میں آپ کی متعدد تصانیف ہیں ،مثلا:1سرالاوقات2درء القبح عن درک وقت الصبح3زیج الاوقاتللصوم والصلوات4تاج توقیت،وغیرہ۔

=امام احمد رضا اور علمِ تکسیر:   

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ کو جن علوم میں مہارت تھی،  ان ہی میں ایک علمِ تکسیر بھی ہے۔علم تکسیر کا مطلب یہ ہے کہ اعداد کو تقسیم کر کے تعویذ کے خانوں میں اس طرح لکھنا کہ ہر طرف کا مجموعہ برابر ہو۔ملک العلماء مولانا محمد ظفرالدین بہاری علیہ الرحمہ علم تکسیر کے تعلق سے فرماتے ہیں:

” علمِ تکسیر بھی اس زمانہ میں انھیں علوم میں سے ہے جس کے جاننے والے ہر صوبے میں ایک یا دو شخص ہوں گے، عوام کو اس سے کیا دلچسپی،علما کو اس سے کیا غرض، مشائخِ کرام جن کے یہاں کی اور جن کے کام کی چیز ہے ،سو میں سے اسی(۸۰) ایسے ملیں گے جو اپنے مشائخ کے مجموعۂ اعمال یا مجربات  یانافع الخلائق سے نقوش اُلٹے سیدھے ،باقاعدہ یا بے قاعدہ لکھ دینا کافی سمجھتے ہیں ۔ اٹھارہ انیسفی صد  نقشِ مثلث یا مربع قاعدۂ مشہورہ سے بھرلینا جانتے ہیں اور پوری چال سے نقوش بھرنا تو شاید چار پانچ سو میں سے دو ایک ہی کا حصہ ہو گا۔)[29](

ملک العلماءمولانامحمد ظفرالدین بہاری علیہ الرحمہ مزید تحریر فرماتے ہیں:

عرصے کی بات ہےکہ ایک شاہ صاحب کا میرے سامنے تعارف کرایاگیاکہ ”ان کا سب سے بڑا کمال  یہ ہے کہ یہ فن تکسیر جانتے ہیں ۔میں سمجھ گیا ،میں نےان سے  کہا : اس سے بڑھ کر اورکیا کمال ہو گا کہ آپ وہ فن جانتے ہیں جس کے جاننے والے روے زمین سے معدوم و مفقو د نہیں تو قلیل الوجود ضرور ہیں ۔اس پرشاہ صاحب نے فرمایا: مجھے معلوم ہواہے کہ جناب کو بھی فنِتکسیر کا علم ہے۔ میں نے کہا: یہ مخلصوں کا محض حسنِ ظن ہے،کسی فن کے چند قواعد کا جان لینا فن کی واقفیت نہیں کہلاتی ہے۔ہاں! اس فن سے یک گونہ دلچسپی ضرور ہے ۔

اس کے بعد میں نے اُن شاہ صاحب سے پوچھا کہ جناب ’’مربع‘‘کتنے طریقے سے بھرتے ہیں؟بہت فخریہ فرمایا :سولہ طریقے سے۔ میں نے کہا :بس! اس پر فرمایا :اور آپ !میں نے کہا : گیارہ سو باون (1152)طریقے سے ۔ بولے: سچ! میں نے کہا : جھوٹ کہنا ہوتا تو کیا لاکھ دو لاکھ کا عدد مجھے معلوم نہ تھا،گیارہ سو باون کی کیا خصوصیت تھی ۔ کہا: میرے سامنے بھر سکتے ہیں؟میں نےکہا کہ ضرور، بلکہ میں نے بھر کر رکھے ہوئے ہیں۔پوچھا :آپ نے کن سے سیکھا ؟میں نے اعلیٰ حضرت کا نام لیا ،یہ بھی اعلیٰ حضرت کے معتقد تھے ۔ نام سن کر اُن کو یقین ہو گیا ،مگر پوچھنے لگے کہ اعلیٰ حضرت کتنے طریقوں سے بھرتے ہیں ؟ میں نے کہا تئیس سو تین (2303)طریقے سے۔ کہا :آپ نے کیوں نہیں سیکھا ؟ میں نے کہا: وہ تو علم کے دریا نہیں، سمندر ہیں، جس فن کا ذکر آیا ،ایسی گفتگو فرماتے کہ معلوم ہوتا کہ عمر بھر اِسی علم کو دیکھا اوراسی کی کتب بینی فرمائی ہے، اُن کے علوم کو میں کہاں تک حاصل کر سکتا ہوں“۔)[30](

اس فن میں اعلیٰ حضرت نے ایک کتاب بھی تصنیف فرمائی ہے جس کانام ہے : أطائب الاکسیر فی علم التکسیر[۱۲۹۶ھ]۔

>امام احمد رضا اور تاریخ گوئی:

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہٗ کو جملہ علوم وفنون کی طرح فن تاریخ گوئی میں بھی کمال حاصل تھا ،اس پر آپ کی اکثر تصنیفات کے نام شاہد ہیں۔حضرت مولانا حسنین رضا خاں صاحب فرماتے ہیں:

”یہ فن بھی دنیا سے اٹھ چلاتھا،اعلیٰ حضرت قبلہ نے اس کی طرف توجہ کی توکم وبیش پانچ چھ سو کتب ورسائل کے نام تاریخی لکھ ڈالےاورسیکڑوں اشتہاروں کے عنوان بھی تاریخی لکھ دیے،خوبی یہ کہ کتاب ، رسالے اور اشتہار کے مضمون کا اظہار بھی اس نام یا عنوان سے ہوتاہے،بعض اوقات ایسا بھی ہوا ہے کہ کسی صاحب نےاپنے نوزائیدہ بچے کے نام رکھنے کی درخواست کی تو فوراً آپ نے ان کے خاندانی ناموں سے ملتاجلتانام بتایاجو بعد میں جانچا تو تاریخی نکلا“۔)[31](

ملک العلماءحضرت مولانا  محمدظفر الدین بہاری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :

”اعلیٰ حضرت کو تاریخ گوئی میں وہ کمال اور ملکہ حاصل تھا کہ انسان جتنی دیر میں کوئی مفہوم لفظوں میں ادا کرتا ہے اعلیٰ حضرت اتنی ہی دیر میں بے تکلف تاریخی مادّے اور جملے فرما دیا کرتے تھے، جس کا بہت بڑا ثبوت حضور کی کتابوں میں اکثر و بیشتر کا تاریخی نام اور وہ بھی ایسا چسپاں کہ بالکل مضمونِ کتاب کی توضیح وتفصیل کرنے والا۔

۱۲۸۶ھ میں کہ حضور(اعلیٰ حضرت) کی عمرشریف کا چودہواں سال تھا ،ایک صاحب حاضر خدمت ہوئے اور عرض کیا: ایک صاحب نے امام باڑہ بنایاہے، چاہتے ہیں کہ کوئی تاریخی نام ہوتو دروازہ پر کتبہ کردیں۔حضورنےفی البدیہہ فرمایا : ان سے کہیے ”بدرِرفض (۱۲۸۶ھ) “ نام رکھیں۔ اس جواب کو سن کر بولے کہ امام باڑہ گزشتہ ہی سال تیار ہوچکاہے، مقصد یہ تھا کہ حضور دوسرا لفظ فرمائیں گے، جس میں لفظِ رفض نہ ہو۔ حضور نے فوراً ہی فرمایا تو ”دارِ رفض (۱۲۸۵ھ)“ رکھیں۔ یہ سن کر چپ ہوئے، پھر عرض کیا کہ اس کی ابتدا ۱۲۸۴ھ ہی میں کی تھی؛ اس لیے اسی سنہ کا نام ہونامناسب۔ ارشادفرمایا:تو ”دَرِ رفض (۱۲۸۴ھ)“ رکھیں۔)[32](

آپ کی چند تصانیف کے تاریخی نام درج ذیل ہیں:

●انفس الفکر فی قربان البقر[۱۲۹۸ھ]۔●اقامۃ القیامۃ علی طاعن القیام لنبی تہامۃ[۱۲۹۹ھ]
●النہی الاکید عن الصلاۃ وراء عدی التقلید [۱۳۰۵ھ]●صفائح اللجین فی کون التصافح بکفی الیدین[۱۳۰۶ھ]
●النیر الشہابی علی تدلیس الوہابی[۱۳۰۹ھ]●اعجب الامداد فی مکفرات حقوق العباد[۱۳۱۰ھ]
●بذل الجوائز علی الدعاء بعد صلاۃ الجنائز[۱۳۱۱ھ]●برکات الامداد لاہل الاستمداد[۱۳۱۱ھ]
●الہدایۃ المبارکۃ فی خلق الملائکۃ[۱۳۱۱ھ]●منیۃاللبیب ان التشریع بید الحبیب[۱۳۱۱ھ]
●الکوکبۃ الشہابیۃ فی کفریات ابی الوہابیۃ[۱۳۱۲ھ]●سل السیوف الہندیۃ علی کفریات بابا النجدیۃ[۱۳۱۲ھ]
●سبل الاصفیاء فی حکم الذبح للاولیاء[۱۳۱۲ھ]●لـمعۃ الضحیٰ فی اعفاء اللحیٰ[۱۳۱۵ھ]
●شرح المطالب فی مبحث ابی طالب[۱۳۱۶ھ]●السوء والعقاب علی المسیح الکذاب[۱۳۲۰ھ]
 ●اہلاک الوہابیین علی توہین قبورالمسلمین[۱۳۲۲ھ]●قہر الدیان علی مرتد بقادیان[۱۳۲۳ھ]
●الجود الحلو فی ارکان الوضوء[۱۳۲۴ھ]●ایذان الاجر فی اذان القبر[۱۳۲۴ھ]
●المبین ختم النبیین[۱۳۲۶ھ]●خالص الاعتقاد[۱۳۲۸ھ]
نہج السلامۃ فی حکم تقبیل الابہامین فی الاقامۃ[۱۳۳۳ھ]●باب العقائد والکلام [۱۳۳۵ھ]
●جمل النور فی نہی النساء عن زیارۃ القبور[۱۳۳۹ھ]●دوام العیش فی الائمۃ من قریش [۱۳۳۹ھ]
●الجراز الدّ یّانی علی المرتد القادیانی[۱۳۴۰ھ]۔ 

اس طرح آپ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ کی تصانیف کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ آپ کی اکثر تصانیف  کا نام تاریخی ہے اوروہ بھی ایسا مناسب وموزوں کہ نام سے ہی اس کے مضمون کا بھی پتہ چل جاتاہے۔وذٰلک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء۔

?امام احمد رضا اور علم طب :

اعلیٰ حضرت امام احمدرضا قدس سرہ وہ بالغ نظر مفتی ہیں جو احکام شرعیہ معلوم کرنے کے لیے تمام امکانی مآخذ کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔ایک ماہر طبیب جب فتاویٰ رضویہ کا مطالعہ کرتاہےتو بیش بہا طبی معلومات دیکھ کر اسے حیرت ہوتی ہے اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتاہے کہ وہ کسی مفتی کی تصنیف پڑھ رہاہے یا ماہر طبیب کی ،چنان چہ حکیم محمد سعید دہلوی لکھتے ہیں:

” فاضل بریلوی کے فتاویٰ کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ احکام کی گہرائیوں تک پہنچنے کے لیے سائنس اور طب کے تمام وسائل سے کام لیتے ہیں اور اس حقیقت سے اچھی طرح باخبر ہیں کہ کس لفظ کی معنویت کی تحقیق کے لیے کن علمی مصادر کی طرف رجوع کرنا چاہیے ؛ اس لیے ان کے فتاویٰ میں بہت سے علوم کے نکات ملتے ہیں،مگر طب اور اس علم کے دیگر شعبے مثلا کیمیا اور علم الاحجار کو تقدم حاصل ہےاور جس وسعت کے ساتھ اس علم کے حوالے ان کے یہاں ملتے ہیں اس سے ان کی دقت نظر اور طبی بصیرت کا اندازہ ہوتاہے، وہ اپنی تحریروں میں صرف ایک مفتی نہیں ، بلکہ محقق طبیب بھی معلوم ہوتے ہیں،ان کے تحقیقی اسلوب ومعیار سے دین وطب کے باہمی تعلق کی بھی بخوبی وضاحت ہوجاتی ہے“۔)[33](

@امام احمد رضا اورعبادت و تقویٰ:

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہٗ جس طرح علم ومعرفت میں ممتاز تھے اسی طرح عبادت وریاضت ، زہد وتقویٰ ،اخلاص وللہیت اور اتباع شریعت وسنت میں بھی اپنی مثال آپ تھے،آپ کی عبادت وریاضت اور  شان تقویٰ سے متعلق استاذگرامی حضرت علامہ محمداحمد مصباحی دام ظلہ،ناظم تعلیمات جامعہ اشرفیہ ، مبارک پور،اعظم گڑھ  فرماتے ہیں:

” یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ مجدد اعظم اور مصلح اکبر کردار وعمل میں اس سے کہیں زیادہ پختہ ہے جتنا گفتار وقلم میں ہے ،وہ اگر گفتار کا غازی ہے تو کردار کافاتح ، قلم کا دھنی ہے توعلم کا تاجدار۔ملاحظہ فرمائیے چند شواہد:

●جس فقیہ کے پاس فتوے اتنی کثرت سے آتے ہوں کہ اُس کے اوقات جوابِ مسائل میں مصروف ہوں،اُس سے جماعت جو واجب ہے اور سنن ِ موکدہ جو قریب بواجب ہیں ،معاف ہوجاتی ہیں۔(دیکھیے کتب فقہ)

مگر امام احمد رضا کی شان تقویٰ قابل دید ہے ،سوالات اتنی کثرت سے آتے تھے کہ ایک موقع پر (کسی نے کچھ اس طرح لکھ دیاتھا کہ جواب کی جو کچھ فیس ہوگی اداکی جائے گی)اصل مسئلہ کے جواب کے بعد رقم طراز ہیں:

”یہاں بحمد اﷲتعالیٰ فتویٰ پر کوئی فیس نہیں لی جاتی ،بفضلہ تعالیٰ تمام ہندستان ودیگر ممالک مثل چین و افریقہ و امریکہ وخود عرب شریف وعراق سے استفتے آتے ہیں اور ایک ایک  وقت میں چار چار سوفتوے جمع ہوجاتے ہیں ،بحمد اﷲ تعالیٰ حضرت جد امجد قدس سرہٗ العزیز کے وقت سے اس ۱۳۳۷ھ تک اس دروازے سے فتوے جاری ہوئے اکانوے برس، اور خود اس فقیر غفرلہ ٗکے قلم سے فتوے نکلتے ہوئے اکاونبرس ہونے آئے، یعنی اس صفر کی ۱۴؍ تاریخ کو پچاس برس چھ مہینے گزرے، اس نو کم سو برس میں کتنے ہزار فتوے لکھے گئے ، بارہ مجلد تو صرف اس فقیر کے فتاویٰ کے ہیں، بحمد اﷲیہا ں کبھی ایک پیسہ نہ لیا گیا ،نہ لیا جائے گا ۔بعونہٖ تعالیٰ ولہ الحمد۔

معلوم نہیں کون لوگ ایسے پست فطرت و دنی ہمت ہیں جنھوں نے یہ صیغہ کسب کا اختیار کر رکھا ہے جس کے باعث دور دور کے ناواقف مسلمان کئی بار پوچھ چکے ہیں کہ فیس کیا ہوگی؟ ماأسئلکم علیہ من أجر إن أجری إلا علی رب العلمین ۔میں تم سے اس پر کوئی اجر نہیں مانگتا ،میرا اجر تو سارے جہاں کے پرور دگار پر ہے اگر وہ چاہے “۔)[34](

لیکن اس کثرت ِ فتویٰ کے باوجود ہمیشہ آپ نے جماعت کی پابندی فرمائی اور سنن ِ موکدہ بھی نہ چھوڑیں۔فتویٰ وہ ہے، تقویٰ یہ۔

●جو شخص بیماری میں اتنا لاغر ہو کہ مسجد نہیں پہنچ سکتا ،یا جا سکتا ہے ،لیکن مرض بڑھ جائے گا ،اُس کے لیے جماعت چھوڑنا جائز ہے، مگر امام احمد رضا  کی آخری بیماری جس میں وصال فرمایا، حال یہ تھا کہ مسجد تک از خود نہیں جا سکتے تھے، پھر بھی فوتِ جماعت گوارا نہ فرمائی ۔

” جمل النورفی نہی النساء عن زیارۃ القبور“ میں مولانا حکیم عبدالرحیم صاحب ،مدرس اول مدرسہ قادریہ ، محلہ جمال پور ، شہر احمد آباد (گجرات ) کے مکرر سوال کے جواب میں مفصل فتویٰ دیتے ہوئے شروع میں فرماتے ہیں:

’’آپ کی رجسٹری 15؍ربیع الآخر شریف کو آئی ،میں 12؍ربیع الاول شریف کی مجلس پڑھ کر ایسا علیل ہوا کہ کبھی نہ ہواتھا، میں نے وصیت نامہ بھی لکھوادیا تھا ، آج تک یہ حالت ہے کہ دروازہ سے متصل مسجد ہے ،چارآدمی کرسی پربٹھا کر مسجد لے جاتے اور لاتے ہیں“ ۔

اس عبارت سے جہاں یہ ظاہر ہوا کہ حضرت  سخت بیمار تھے ، وہیں یہ بھی پتہ چلا کہ ایسی سخت علالت میں بھی جماعت چھوڑ کر گھر میں تنہا نماز پڑھ لینا گوارا نہ تھا، جب کہ اتنی شدید علالت بلاشبہہ ترک جماعت کے لیے عذر ہے۔

ایک دفعہ حضور حافظ ملت مولانا شاہ عبدالعزیز صاحب مرادآبادی علیہ الرحمہ بانی الجامعۃ الاشرفیہ ، مبارک پور نے اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کی اسی بیماری کا حال بیان کیا کہ ” ایک بار مسجد لے جانے والا کوئی نہ تھا ، جماعت کا وقت ہوگیا، طبیعت پریشان ، ناچار خود ہی کسی طرح گھسٹتے ہوئے حاضر مسجد ہوئے اور باجماعت نماز اداکی “۔

آج صحت وطاقت اور تمام تر سہولت کے باوجود ترک نماز اور ترک جماعت کے ماحول میں یہ واقعہ ایک عظیم درس عبرت ہے۔)[35](

●شیخ ِفانی جو روزہ سے عاجزہو، اُس کے لیے جائز ہے کہ روزہ نہ رکھے اورفدیہ ادا کردے، یا جو سخت بیمار ہے کہ طاقتِ روزہ نہیں، اس کے لیے قضا جائز ہے ۔زندگی کے آخری سال میں اعلیٰ حضرت کا یہی حال تھا کہ بریلی میں روزہ نہیں رکھ سکتے تھے ،لیکن انھوں نے اپنے لیے یہ فتویٰ صادر فرمایا کہ مجھ پر روزہ فرض ہے ؛کیوں کہ نینی تال (ایک پہاڑی علاقہ) میں ٹھنڈ ک کے باعث روزہ رکھا جا سکتاہے اور میں وہاں جا کر قیام کرنے پر قادر ہوں؛ لہٰذا مجھ پر روزہ فرض ہے ۔

●باقاعدہ ٹوپی، کرتا ،پاجامہیا تہبند پہن کر نماز بلاشبہہ جائز ہے،تنزیہی کراہت بھی نہیں، ہاں عمامہ بھی ہو تو یقینا مستحب ہے ۔امام احمد رضا باوجودیکہ بہت حارمزاج تھے، مگر کیسی ہی گرمی کیوں نہ ہو، ہمیشہ دستار اور انگرکھے کے ساتھ نماز پڑھا کرتے تھے۔ خصوصاً فرض تو کبھی صرف ٹوپی اور کُرتے کے ساتھ ادا نہ کیا۔)[36](

●عوام  تو  عوام ہیں ،بعض خواص کا یہ حال ہے کہ خود اگر کسی غیر شرعی امر میں مبتلاہیں تو اس کے لیے طرح طرح کی تاویلیں کریں گے،اوراگر دوسراکوئی مسلمان بھائی جائز وغیرمکروہ امر کاپابندہے، مستحب واولیٰ کی رعایت نہیں کرپاتااور یہ بعض خواص اس معاملہ میں مستحب کی بھی رعایت فرماتے ہیں تو اس بھائی کو طرح طرح برا کہیں گےاور اس کے ترک اولیٰ سے شدید وعظیم امر ،غیبت مسلم میں گرفتارہوں گےاور خود اپنے احوال پر تنقید کی توفیق نہ ہوگی۔

اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی قدس سرہٗ کی  شان یہ ہے کہ روسرکی چینی کے بارے میں استفتاآیا، اس کے جواب میں رسالہ تصنیف کیا”الأحلی من السکرفی سکّرروسر[۱۳۰۳ھ]“ جس سے اس کے استعمال کا جواز نکلتاہے۔کوئی ناواقف سوچ سکتاتھا کہ شاید خود استعمال فرماتے ہیں ؛اس لیے اتنی کوشش فرمائی ہے ، مگر حاشا وکلا! وہ مقبول بندۂ خدا کبھی اپنی خواہش کے لیے فتوے نہ دیتا ، وہ وہی حکم سناتا جو شریعت مطہرہ کا تقاضا ہو۔خود فرماتے ہیں:

”فقیر غفراللہتعالیٰ لہٗ نے آج تک اس شکّر کی صورت دیکھی، نہ کبھی اپنے یہاں منگائی، نہ آگے منگائے جانے کا قصد، مگر بایں ہمہ ہرگز ممانعت نہیں مانتا ،نہ جو مسلمان استعمال کریں انھیں آثم (گنہ گار)خواہ بیباک جانتا ہے، نہ تَوَرُّع و احتیاط کا نام بدنام کرکے عوام مومنین پر طعن کرے، نہ اپنے نفس ذلیل مہین رذیل کے لیے اُن پر ترفّع وتعلّی روا رکھے،وباللٰہ التوفیق والعیاذمنالمداھنۃوالتضیيقوھوسبحانہوتعالیٰأعلموعلمہجلمجدہأتموأحکم۔)[37](

Aامام احمد رضا اور اطاعت ِوالدین:

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قدس سرہٗ کو اللہ تعالیٰ نے جامع کمالات ظاہری وباطنی ، صوری ومعنوی بنایاتھا،اوصاف وکمالات میں جسے بھی دیکھیے، ان  کی ذات میں بروجہ کمال اس کا ظہور تھا ۔اطاعت والدین کا عملی اقدام بھی بے مثال تھا ۔اس کی بعض مثالیں درج ذیل ہیں :

●حضرت سیدشاہ اسماعیل حسن میاں قدس سرہ کا بیان ہے کہ والدین کی اتباع کا یہ حال تھا کہ جب مولانا (امام احمد رضا)کے والد ماجد جناب مولانا نقی علی خان صاحب کا انتقال ہوا، اپنے حصۂ جائداد کے خود مالک تھے  ، مگر سب اختیار والدہ ماجدہ کے سپرد تھا ، وہ پوری مالکہ ومتصرفہ تھیں ، جس طرح چاہتیں صرف کرتیں، جب مولانا (امام احمد رضا )کو کتابوں کی خریداری کے لیے کسی غیر معمولی رقم کی ضرورت پڑتی تو والدہ ماجدہ صاحبہ کی خدمت میں درخواست کرتے اور اپنی ضرورت ظاہر کرتے ، جب وہ اجازت دیتیں اور درخواست منظور کرتیں تو کتابیں منگواتے “۔)[38](

●والد ہ ماجدہ کی اطاعت وفرماں برداری  کا یہ  عجیب منظر بھی ملاحظہ کیجئے:ایک مرتبہ اعلیٰ حضرت قبلہ(اپنے صاحبزادے)حضرت حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا خان کو(جب کہ وہ چھوٹے بچے تھے) گھر کے ایک دالان میں پڑھانے بیٹھے ،وہ پچھلا سبق سن کر آگے سبق دیتے تھے، پچھلا سبق جو سنا تو وہ یاد نہ تھا، اس پر ان کو سزادی ۔ اعلیٰ حضرت کی والدہ محترمہ جو دوسرے دالان کے کسی گوشے میں تشریف فرماتھیں ،انھیں کسی طرح اس کی خبر ہو گئی وہحضر ت حجۃ الاسلام (اپنے پوتے) کو بہت چاہتی تھیں ، غصہ میں بھری ہوئی آئیں اور اعلیٰ حضرت قبلہ کی پشت پر ایک دوہتڑمارا اور فرمایا :تم میرے حامد کو مارتے ہو۔ اعلیٰ حضرت فوراً جھک کر کھڑے ہو گئے اوراپنی والدہ محترمہ سے عرض کیا :اماں! اور ماریئے جب تک کہ آپ کا غصہ فر و نہ ہو ۔یہ سننے کے بعد انھوں نے ایک دوہتڑاورمارا،اعلیٰ حضرت سر جھکائے کھڑے رہے یہاں تک کہ وہ خو د واپس تشریف لے گئیں ۔

 اس وقت تو جو غصہ میں ہونا تھا ہو گیا ،مگربعدمیں اس واقعہ کا ذکر جب بھی کرتیں تو آبدیدہ ہو کر فرماتیں کہ دو ہتڑ مارنے سے پہلے میرے ہاتھ کیوں نہ ٹوٹ گئے کہ ایسے مطیع و فرماں بردار بیٹے کو جس نے خود کو پٹنے کے لیے پیش کر دیا،کیسے مارا۔ افسوس ۔)[39](

●والدہ ماجدہ کی اطاعت وفرماں برداری کا یہ واقعہ بھی دیدۂ عبرت سے مطالعہ کے قابل ہے کہ جب ۱۲۲۳ھ میں اعلیٰ حضرت کے برادراصغر مولانا محمد رضا خان،ان کے بیٹے حجۃ الاسلام مولاناشاہ حامد رضا خان اور  ان کی اہلیہ محترمہ حج و زیارت کے لیے روانہ ہوئیں،تواعلیٰ حضرت بذات خودجھانسی تک اُن کو پہنچانے تشریف لے گئے۔آپ چوں کہ پہلے ہی حج فرض اداکرچکے تھے ؛ اس لیے ان کے ساتھ سفر حج کا کوئی ارادہ نہیں تھا ،مگر جب انھیں ر خصت کرنے گئے تو اسی درمیان آپ کو اپنی نعتیہ غزل یاد آگئی۔ جس کا مطلع یہ ہے؂  

گزرے جس راہ سے وہ سیِّدِ والا ہو کر رہ گئی ساری زمیں عنبرِ سار ا ہو کر

اس کا ایک شعر یہ بھی ہے؂

واے محرومیقسمت کہ میں پھر اب کیبرس رہ گیا ہم رہِزُوّارِمدینہہوکر

            اس کا یاد آنا تھا کہ آپ کا دل بے چین ہو گیا اور وہی ہوا جسے آپ نے دوسری غزل میں  یوں فرمایا ہے ؂

پھر اٹھا ولولۂ یادِ مغیلانِ عرب پھر کھنچا دامنِ دل سوئے بیابانِ عرب

اُسی وقت حج وزیارت، بلکہ خاص زیارتِ سرور ِ دو عالم ﷺ کا قصدِ مصمم فرمایا ، لیکن والدہ ماجدہ کی اجازت کے بغیر سفر مناسب نہ جانا،کیوں کہ نفلی حج کے لیے والدین کی اجازت ضروری ہے ؛اس لیے انھیں رخصت کرنے کے بعد بریلی واپس تشریف لائے اور والدہ ماجدہ سے اجازت کے لیے حاضر خدمت ہوئے۔)[40](

آپ  نےوالدہ ماجدہ سے اجازت کیسے لی، اس  کا ذکر خود اعلیٰ حضرت ہی کی زبانی سنئے ۔فرماتے ہیں:

(بریلی شریف واپس پہنچنے کے بعد میں)”عشاکی نماز سے اول وقت ہی فارغ ہولیا ۔شِکْرَم(یعنی چار پہیوں والی مخصوص گاڑی)بھی آگئی ۔ صرف والدہ ماجدہ سے اجازت لینا باقی رہ گئی جو نہایت اہم مسئلہ تھا اور گویا اس کا یقین تھا کہ وہ اِجازت نہ دیں گی، کس طرح عرض کروں،اور بغیر اجازتِ والد ہ حج ِ نفل کو جانا حرام ۔ آخر کار اندر مکان میں گیا، دیکھا کہ حضرت ِوالدہ ماجدہ چادر اوڑھے آرام فرماتی ہیں ۔ میں نے آنکھیں بند کر کے قدموں پر سر رکھ دیا ،وہ گھبرا کر اُٹھ بیٹھیں اور فرمایا : کیا ہے؟۔ میں نے عرض کیا :حضور !مجھے حج کی اجازت دے دیجئے۔پہلا لفظ جو فرمایا ،یہ تھا کہ :خدا حافظ!‘‘۔)[41](

Bامام احمد رضا اور اَرباب حکومت :

اعلیٰ حضرت   امام رضا  سراپا عشقِ رسول ﷺ کا نمونہ تھے،انھوں نے حضور تاج دارِ رسالت ﷺ کی اِطاعت و غلامی کو دل وجان سے قبول کیاتھا؛اس لیے کبھی اپنی  زبان وقلم سے کسی دنیوی تاج دار یا مال دار کی خوشامد نہیں کی،بلکہ ہمیشہ اَرباب حکومت اور دنیوی جاہ ومنصب کو سرمایۂ افتخار سمجھنے والوں سےبے نیاز وکنارہ کش رہے،اس کا اظہار آپ نے اپنے ایک شعر میں اس طرح کیاہے؂     

انھیں جانا،انھیں مانا، نہ رکھا غیر سے کاملِلہِ الْحَمْد میں دنیا سے مسلمان گیا

اس سلسلے میں حضرت علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ یوں تحریر فرماتے ہیں:

” وہ ہمیشہ اہل دُوَل اور ارباب ِحکومت سے گریزاں رہے ، کسی کے ایوان تک جانا تو بڑی بات ہے ، انھوں نے تو اپنی مجلس میں بھی باریاب ہونے کی اس طبقے کو کبھی اجازت نہیں دی ۔(اس کی دومثالیں درج ذیل ہیں:)

●والی رام پور جو بڑوں بڑوں کے ممدوح رہ چکے ہیں ،انھوں نے ہزار منت وسماجت کی ،کہ حضور والا میری دعوت کو پذیرائی کا شرف نہیں بخش سکتے تو مجھ ہی کو باریاب ہونے کی اجازت مرحمت فرمائیے،لیکن اعلیٰ حضرت نے اس کا بھی موقع انھیں نہیں دیا۔

●ایک بار نان پارہ ،ضلع بہرائچ کے ایک صاحب جو اعلیٰ حضرت کے مخلص ترین دوستوں میں تھے ، بریلی تشریف لائے اور اعلیٰ حضرت کی خدمت میں معروضہ پیش کیا کہ راجہ صاحب نان پارہ کی منقبت میں ایک قصیدہ لکھ دیجیے تاکہ میں اپنی طرف سے ان کی خدمت میں پیش کروں اور انعام واکرام کی صورت میں کچھ میرے گزر بسر کا سامان ہوجائے ۔اعلیٰ حضرت نے ان کی درخواست کے جواب میں بجاے منقبت کے فی البدیہ ایک نعت شریف کا املا کرایا ۔یہ وہی مشہورِ زمانہ نعت شریف ہے جس کا مطلع یہ ہے؂

وہ کمالِ حسنِ حضورہے کہ گمانِ نقص، جہاں نہیںیہی پھول خار سے دور ہے ،یہی شمع ہے کہ دھواں نہیں

اس نعت شریف کے مقطع میں اعلیٰ حضرت نے جس خوب صورتی کے ساتھ ان کی درخواست پر طنز فرمایاہے ،یہ ان ہی کا حصہ ہے ۔ارشاد فرماتے ہیں؂

کروں مدح اہلِ دُوَل رضاؔپڑے اس بلا میں مِری بلامیں گدا ہوں اپنے کریم کا مِرا دین ”پارۂناں“  نہیں

ذرا یہ صنعت شعری ملاحظہ فرمائیے کہ ”نان پارہ “ کو الٹ کر ” پارۂ ناں“ کے لفظ سے کتنا ایمان افروز اور خوب صورت مفہوم پیداکردیا۔)[42](

اس مقطع کا مفہوم یہ کہ میں اہلِ ثروت کی مَدح سرائی کیوں کروں، میں تو اپنے کریم مصطفیٰ جان رحمتﷺ کے دَر کا فقیر ہوں۔ میرا دین ”پارۂ نان “یعنی روٹی کا ٹکڑا   نہیں ہےکہ اس کے لیے مال داروں کی خوشامد کرتاپھروں اور ان کی شان میںقصیدے لکھوں۔

آپ نےجو بھی دینی وعلمی خدمات انجام دیں ،ان سب کا مقصد اصلی خداے وحدہٗ لاشریک اور مصطفیٰ جان رحمت ﷺ کی رضا وخوشنودی تھی ؛ اس لیے آپ نے کبھی اہل دنیا کے دربار میں حاضری نہیں دی اور نہ ہی ا ن کی تعریف وتوصیف کرکے اپنی زبان وقلم کا وقار مجروح ہونے دیا ،  نہ  کبھی ان کی دادو دہش  قبول کی اور نہ ہی ان کے طعن وتشنیع کی پروا ،بلکہ ہمیشہ دنیا اور دنیا والوں سے بے نیاز رہ  کراحیاے دین وسنت  اور نشر علوم وفنون میں لگے رہے،اس حقیقت کو بیان کرنے کے لیے آپ کے یہ دواشعار ہی کافی ہیں  ؂

نہ مرا نوش ز تحسین ، نہ مرا نیش ز طعن نہ مرا گوش بمدحے ، نہ مرا ہوش ذمے
منم   و   کنج     خمولی    کہ    نگنجد    در  وے جز   من   و  چند    کتابے   و  دواتے    قلمے

Cامام احمدر ضا اورتواضع وانکسار:

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ کی پوری زندگی تواضع وانکسار،اخلاص وللہیت  اور سادگی سے عبارت ہے،آپ ہمیشہ علما ، فقہا اور بڑی عمر کے لوگوں کا ادب واحترام ملحوظ رکھتے اور چھوٹی عمر والوں سے بھی نہایت خندہ پیشانی سے ملتے، انھیں ” آپ “اور ”جناب “جیسے کلمات سے مخاطب فرماتے اور حسب حیثیت ہرایک کی توقیر وتعظیم کرتے۔نہ کبھی بہت قیمتی لباس استعمال کرتے ، نہ خاص مشائخانہ انداز اختیار فرماتے،بلکہ آپ کی سادگی کا حال یہ تھا کہ  بسااوقات آپ کی شہرت ومقبولیت  سن کرکوئی شخص  آپ سے ملنے کے لیے آتا تو آپ کو دیکھ کر خیال بھی نہیں کرسکتاتھا کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان ،جن کی شہرت شرق سے غرب اور شمال سے جنوب تک ہے، وہ یہی ہیں۔چنا ن چہ اسی قسم کا ایک واقعہ حیات اعلیٰ حضرت میں اس طرح مرقوم ہے:

” ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہو ا کہ ایک صاحب کا ٹھیاواڑ سے حضور(اعلیٰ حضرت) کی شہرت سن کر بریلی تشریف لائے ۔ ظہر کا وقت تھا ،اعلیٰ حضرت مسجد میں وضو فرما رہے تھے۔ سادہ وضع تھی ،خالتہ دار پاجامہ ،ململ کا چھوٹا کرتا ،معمولی ٹوپی ، مسجد کی فصیل پر بیٹھے ہوئے مٹی کے لوٹو ں سے وضو فرمارہے تھے کہ وہ صاحب مسجد میں تشریف لائے اور السلام علیکم کہا، اعلیٰ حضرت نے جواب دیا ۔ انھوں نے اعلیٰ حضرت ہی سے دریافت کیا کہ احمد رضا خان صاحب  کی زیارت کو آیا ہوں، وہ کہاں ہیں؟ اعلیٰ حضرت نے فرمایاکہ احمد رضا میں ہی ہوں ۔انھوں نے کہا : میں آپ کو نہیں ،میں اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خاں صاحب سے ملنے آیا ہوں‘‘۔)[43](

●حضرت سید شاہ اسماعیل حسن میاں ، مارہروی فرماتے ہیں  کہ حضرت جد امجد سیدنا شاہ برکت اللہ صاحب قدس سرہ العزیز کےعرسمیں بارہا حضرت مولانا (امام احمد رضا)بھی تشریف لائے اور میرے اصرار سے بیان بھی فرمایا، مگر اس طرح کہ حاضرین مجلس سے فرماتے” میں ابھی اپنے نفس کو وعظ نہیں کہہ پایا،دوسروں کو وعظ کے کیا لائق ؟آپ حضرات مجھ سے مسائل شرعیہ دریافت فرمائیں ، ان کے بارے میں جو حکم شرعی میرے علم میں ہوگا ، چوں کہ بعد سوال اسے ظاہر کردینا حکم شریعت ہے ، میں ظاہر کردوں گا “۔

اتنا سن کر حاضرین میں سے کوئی صاحب حسب حال سوال کردیتے ،حضور پرنور(اعلیٰ حضرت امام احمد رضا ) اپنی تقریر دل پذیر سے  ایک مؤثر بیان اس مسئلہ پر فرمادیتے۔

●ایک بار میرے اصرار سے مولانا نے مزار صاحب البرکات قدس سرہ پر اپنے والد ماجد قبلہ کا مولفہ مولود شریف سرور القلوب فی ذکر المحبوب بھی پڑھا۔

جامع حالات غفرلہٗ  کہتاہے : تواضع وانکسارکی یہ حد ہے ؛اس لیے کہ کتاب دیکھ کر مجلس میں ایک معمولی مولوی بھی پڑھنا پسند نہیں کرتا ، بلکہ اس کو لوگ شان علم کے خلاف سمجھتے ہیں،میں نے بہتیروں کو دیکھاہے کہ مبلغ علم ان کا اردو میں میلاد کی چند کتابیں ہیں  ،مگر ان کو دیکھ کر نہیں پڑھا کرتے ، بلکہ ایک مسلسل مضمون یاد کرلیا اوراسی کو زبانی جابجا پڑھا کرتے ہیں۔)[44](

●علامہ محمدصابرالقادری نسیمؔ بستوی  لکھتے  ہیں کہ ایک دنایک کمسن صاحبزادے نہایت بے تکلفی سے حاضرِ خدمت ہوئے اور عرض کی کہ میری والدہ  نےآپ کی دعوت کی ہے اورصبح بلایاہے ۔اعلیٰ حضرت نے اُن سے دریافت فرمایا :مجھے دعوت میں کیا کھلاؤ گے؟ صاحبزادے نے فوراً اپنے کُرتے کا دامن پھیلا دیا، جس میں ماش کی دال اور دو مرچیں پڑی ہوئی تھیں، کہنے لگے: دیکھئے ناں!یہ دال لایا ہوں ۔

حضورنے اُن کے سر پر دستِ شفقت پھیرااورفرمایا :اچھا! میں اوریہ( حاجی کفایت اللہ صاحب)کل دس بجے دن میں  آئیں گے، اورحاجی صاحب سے فرمایا :مکان کا پتہ دریافت کر لیجئے ۔

دوسرے دن وقت ِ معین پر حاجی صاحب کوساتھ لےکر روانہ ہوئے،جس وقت مکان پر پہنچے تو صاحبزادے کودروازے پر منتظرپایا،حضور کودیکھتے ہی بھاگتے ہوئے اوریہ کہتے ہوئے مکان کے اندر چلے گئے کہ”ارے مولوی صاحب آگئے“۔حضور انتظار فرمانے لگے ،کچھ دیر بعد ایک بوسید ہ چٹائی آئی جس پر آپ بیٹھ گئے ،پھر ڈلیا میں موٹی موٹی باجر ہ کی روٹیاں اور مٹی کی رکابی میں وہی ماش کی دال جس میں مرچوں کے ٹکڑے پڑے ہوئے تھے،لا کر رکھ دی اور کہنے لگے: کھائیے!حضور نے فرمایا :بہت اچھا ،کھاتا ہوں! ہاتھ دھونے کے لیے پانی لے آئیے ۔وہ پانی لے کر حاضر ہوئے ، حاجی صاحب نے حضور کے ہاتھ دھلوائے اور خود بھی ہاتھ دھو کر شریکِ طعام ہو گئے ،مگر حاجی صاحب دل ہی دل میں حیران ہورہے تھے  کہ حضور کھانے میں اس قدر محتاط ہیں کہ غذا میں سوجی کا بسکٹ استعمال فرماتےہیں ۔ یہ روٹی اوروہ بھی باجرہ کی اور اس پر ماش کی دال کس طرح تناول فرمائیں گے۔مگر اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اخلاق کریمانہ کے نثار کہ آپ نے محض میزبان کی دل داری و خوشی کے لیے خوب سیر ہو کر کھایا ۔وہاں سے واپسی پر حاجی صاحب سے ارشاد فرمایا: اگر ایسی خلوص کی دعوت ہو تو میں روز قبول کر وں۔)[45](

Dامام احمد رضا  اورایمان ویقین :

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہٗ کو اللہ جل شانہٗ کی رحمت اور حضور اقدس ﷺکے ارشادات پرجو  ایمان کامل اوریقین محکم تھا،وہ بھی حیرت انگیز اورقابل صدرشک ولائق تقلید ہے۔اس کی چند مثالیں درج ذیل ہیں:

●اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے کہ جو کسی مرض وبلا میں مبتلا شخص کو دیکھ کر یہ دعا پڑھ لے گا،  وہ اُس مرض وبلا سے محفوظ ومامون رہےگا۔دعا یہ ہے:اَلْحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ عَافَانِیْ مِمَّا ابْتَلَاکَ بِہٖ وَفَضَّلَنِیْ عَلیٰ کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقَ تَفْضِیْلًا ۔

ترجمہ : تمام تعریفیں اس اللہ کے لیےہیں جس نے مجھے اس سے بچایا جس میں تو مبتلا ہے اور مجھے اپنی مخلوق میں بہت سے لوگوں پر فضیلت عطا فرمائی ۔

اعلیٰ حضرت قدس سرہٗ نے طاعون زدہ کو دیکھ کر بارہا یہ دعا پڑھی تھی اور حدیث پر انھیں کامل اطمینان تھا ۔ایک بار کسی غریب کے یہاں دعوت میں گاے کا گوشت کھانا پڑا ،مسوڑھوں میں ورم ہوگیا اور اتنا بڑھا کہ حلق اور منہ بالکل بند ہوگیا۔اعلیٰ حضرت قدس سرہٗ  فرماتے ہیں: مشکل سے تھوڑا دودھ حلق سے اتارتا ، اور اسی پر اکتفا کرتا ، بات بالکل نہ کرسکتا تھا، یہاں تک کہ سنتیں بھی کسی کی اقتدا کر کے ادا کرتا ، جو کچھ کسی سے کہنا ہوتا لکھ دیتا ، بخار بہت شدید تھا اور کان کے پیچھے گلٹیں۔ اُن دنوں بریلی میں مرضِ طاعون بشدت تھا۔

میرے منجھلے بھائی مولانا حسن رضا خان مرحوم ایک طبیب کو لائے۔ اُنھوں نےبغور دیکھ کر سات آٹھ مرتبہ کہا : یہ وہی ہے! وہی ہے !وہی ہے! یعنی طاعون ۔میں بالکل کلام نہ کرسکتا تھا ؛اس لیےانھیں جواب نہ دے سکا ،حالاں کہ میں خوب جانتا تھا کہ یہ غلط کہہ رہے ہیں، نہ مجھے طا عون ہے ، نہ ان شاء اللہ العزیز کبھی ہوگا ؛ اس لیےکہ میں نے طاعون زدہ کو دیکھ کر با رہا وہ دُعا پڑھ لی ہے۔

    مجھے ارشادِ حدیث پر اطمینان تھا ،آخر شب میں کرب بڑھا ، میرے دل نے درگاہِ الہٰی میں عرض کی : ”اَللّٰھُمَّ صَدِّقِ الْحَبِیْبَ وَکَذِّبِ الطَّبِیْبَ”اے اللہ ! اپنے حبیب کا قول سچا کردکھا اور طبیب کا قول جھوٹا۔کسی نے میرے داہنے کان پرمنہ رکھ کر کہا کہ مسواک اور سیاہ مرچیں ۔ ان دونوں کے استعمال سے مرض جاتارہا،میں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور طبیب صاحب کو کہلا بھیجا کہ آپ کا وہ طا عون بِفَضْلِہٖ تَعالیٰ دفع ہوگیا ۔)[46](

●جمادیٰ الاولیٰ ۱۳۰۰ھ میں بعض اہم تصانیف کے سبب ایک مہینہ کا مل باریک خط کی کتابیں شبانہ روز عَلَی الْاِتِّصال دیکھنا ہو ا،گرمی کا موسم تھا ، دن کو اندر کے دالان میں کتاب دیکھتا اورلکھتا ،عمر کا اٹھائیسواں سال تھا ، آنکھوں نے اندھیر ے کا خیال نہ کیا ، ایک روز شدّتِ گرمی کے باعث دوپہر کو لکھتے لکھتے نہایا ،سر پر پانی پڑتے ہی معلوم ہوا کہ کوئی چیز دماغ سے دہنی آنکھ میں اتر آئی ۔ ایک مشہور ڈاکٹر نے اندھیرے کمرے میں صرف آنکھ پر روشنی ڈال کر آلات سے بہت دیر تک بغور دیکھا اور کہا : کثرتِ کتاب بینی سے کچھ یَبُوْسَت آگئی ہے ۔پندرہ دن کتاب نہ دیکھو ۔ مجھ سے پندرہ گھڑی بھی کتاب نہ چھوٹ سکی ۔

مولوی حکیم سید اشفاق حسین صاحب مرحوم سہسوانی ڈپٹی کلکٹر طبابت بھی کرتے تھے اور فقیر کے مہربان تھے ، فرمایا : مقدمۂنزولِ آب ہے ، بیس بر س بعد پانی اُتر آئے گا۔میں نے اِلتفات نہ کیااور نزولِ آب والے کو دیکھ کر وہی دُعا پڑھ لی اور اپنے محبوب ﷺکے  اِرشاد پاک پر مطمئن ہوگیا ۔  

۱۳۱۶ھ میں ایک اور حاذِق طبیب کے سامنے ذکر ہوا ، بغور دیکھ کر کہا: چار برس بعد پانی اُتر آئےگا ۔ ان کا حساب ڈپٹی صاحب کے حساب سے بالکل موافق آیا۔ انھوں نے بیس برس کہے تھے ، انھوں نے سولہ برس بعد چار کہے۔

مجھے محبوب ﷺ کے ارشاد پر وہ اعتماد نہ تھا کہ طبیبوں کے کہنے سے مَعَاذَ اللہ متزلزل ہوتا ۔ اَلْحَمدُ لِلٰہ کہ بیس درکنار، تیس بر س سے زائد گزر چکے ہیں اور وہ حلقہ ذرہ بھر نہیں بڑھا ، نہ بعونہٖ تعالیٰ بڑھے ، نہ میں نے کتاب بینی میں کبھی کمی کی ، نہ ان شاء اللہ تعالیٰ کمی کروں ۔ یہ میں نے اس لیےبیان کیا کہ یہ رسول اللہ ﷺکےدائم وباقی معجزات ہیں جو آج تک آنکھوں دیکھے جارہے ہیں اور قیامت تک اہلِ ایمان مشاہدہ کریں گے“۔)[47](

●حدیث شریف میں بعض دعاؤں کے بارے میں ہے کہ اگر کشتی پر سوار ہوتے وقت پڑھ لی جائیں تو غرق سے حفاظت رہے گی،ان میں سے ایک مشہور دعا یہ ہے:بِسْمِ اللہِ الْمَلِکِ الرَّحْمٰنِ مَجْرٖھَا وَمُرْسَاھَا اِنَّ رَبِّیْ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔

ترجمہ: اللہ مالک ومہربان کے نام پر اس کا چلنا اور اس کا ٹھہرنا ہے،بیشک میرا رب ضرور بخشنے والا مہربان ہے۔

اور دوسری دعایہ ہے: بِسْمِ اللہِ مَجْرٖھَا وَمُرْسَاھَا اِنَّ رَبِّیْ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْم۔وَمَا قَدَرُوا اللہَ حَقَّ قَدْرِہٖ وَالْأَرْضُ جَمِیْعاً قَبْضَتُہ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَالسَّمٰوٰتُ مَطْوِیّٰتٌ بِیَمِیْنِہٖ سُبْحٰنَہ وَتَعَالیٰ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ۔

ترجمہ: اللہ کے نام پر اس کا چلنا اور اس کا ٹھہرناہے، بیشک میرا رب ضرور بخشنے والا مہربان ہے ،اور انھوں نے اللہ کی قدر نہ کی جیسا کہ اس کا حق تھا اور وہ قیامت کے دن سب زمینوں کو سمیٹ دے گا اور اس کی قدرت سے سب آسمان لپیٹ دئیے جائیں گے اوروہ ان کے شرک سے پاک اوربرتر ہے۔

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس  سرہ ٗپہلے سفر حج میں اپنے  والدین کریمین کے ساتھ تھے ،اس وقت ان کی عمر قریب ۲۳؍ سال تھی ، سفر حج سے واپسی کے وقت سمندر میں شدید طوفان آیا ۔اس کی کیفیت بیان کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت قدس سرہٗ  فرماتے ہیں:

”واپسی میں تین دن طوفان شدید رہاتھا ، اس کی تفصیل میں بہت طول ہے ،لوگو ں نے کفن پہن لیےتھے،حضرت والدہ ماجدہ کا اضطرابدیکھ کر ان کی تسکین کے لیے بے ساختہ میری زبان سے نکلا کہ:”  آپ اطمینان رکھیں، خدا کی قَسم ! یہ جہاز نہ ڈوبے گا“۔

یہ قَسم میں نے حدیث ہی کے اطمینان پر کھائی تھی جس میں کشتی پر سوارہوتے وقت غرقسے حفاظت کی دعا ارشاد ہوئی ہے۔میں نے وہ دعا پڑھ لی تھی؛لہذا حدیث کے وعدۂصادقہپر مطمئن تھا ،پھر بھی قَسم کے نکل جانے سے خود مجھے اندیشہ ہوا اور معاًحدیث یاد آئی :مَنْ یَّتأَلَّ عَلَی اللہِ یُکَذِّبْہٗ۔جواللہ تعالیٰ پر قسم کھائے ،اللہ اُس کی قسم کو رد فرما دیتا ہے ۔

حضرت عزّت کی طرف رجوع کی اور سر کاررسالتسے مدد مانگی،اَلْحَمْدُ لِلٰہ وہ مخالف ہَوا کہ تین دن سےبشدت چل رہی تھی، دو گھڑی میں بالکل موقوف ہوگئی اور جہاز نے نَجات پائی ۔)[48](

Eامام احمد رضا اور عشق رسول :       

جان ہے عشق مصطفیٰ روز فزوں کرے خدا                      جس کو ہو دَرد کا مزہ ، ناز ِدوا اٹھائے کیوں

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس  سرہٗ  کی زندگی کا حاصل خدا ورسول کو  راضی کرنا تھا ؛ اس لیے وہ ہمیشہ یادِ الٰہی اور عشق رسول میں سرشار رہاکرتے تھے،آپ کا قلب بہت روشن اور پاکیزہ تھا ،ایک مرتبہ اپنے قلب کی کیفیت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

” بحمدللہ اگر میرے قلب کے دو ٹکڑے کیے جائیں تو  خدا کی قسم ! ایک پر لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ اور دوسرے پرمُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہِ نقش ہوگا “۔ )[49](

حضور مفتی اعظم ہند مولانا مصطفیٰ رضا خان علیہ الرحمہ نے اس کی ترجمانی یوں کی ہے؂
خدا ایک پر ہو تو اِک پر محمد                  اگر قَلب اپنا دو پارہ کروں میں

اعلیٰ حضرت کی زندگی کا ہر لمحہ مصطفیٰ جان رحمت ﷺ کی یادوں سے معطر رہتاتھا،اور وہ آتش عشق کو آتش جہنم سے نجات کا ذریعہ سمجھتے تھے ،چنان چہ فرماتے ہیں؂

اے عشق ترے صدقے جلنے سے چھٹے سستے                    جوآگ بجھادےگی وہ آگ لگائی ہے

یہ عشق رسول ﷺ ہی کا کرشمہ ہے کہ آپ ایک بہترین نعت گو شاعرہیں ،چنان چہ آپ اکثر فرمایاکرتے تھے کہ” جب سرکار اقدس ﷺ کی یاد تڑپاتی ہے تو میں نعتیہ اشعار سے بےقرار دل کو تسکین دیتاہوں ، ورنہ شعروسخن میرا مذاق طبع نہیں“۔)[50](

رئیس التحریر علامہ ارشدالقادری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:

”ٹھیک ہی کہا ہے کہنے والوں نے کہ علم کی جلالت شان اور عشق کی دریوزہ گری دونوں کو ایک سنگم پر دیکھنا ہوتو فتاویٰ رضویہ اور حدائق بخشش دونوں کو ایک ساتھ پڑھیے۔۔۔دارالافتا سے نغموں کی آواز کا رشتہ سمجھنا ہو تو صاحب شریعت کے قدموں کے نیچے دل بچھاکر دیکھیے اور جبہ ودستار کا تقدس محبت کی والہانہ وارفتگی میں کس طرح بھیگتاہے اس کا اندازہ لگاناہو تو مصطفیٰ جان رحمت کے جلووں میں نہا کر دیکھیے،علم شریعت کے بغیر عشق جنون محض ہےاور علم کی انجمن میں عشق رسول کی شمع فروزاں نہ ہو تو اسی علم کا نام حجاب اکبر ہے۔

اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کے یہاں علم اور عشق کا توازن حیرت انگیز بھی ہے اور قابل دید بھی ،محبت کی بے خودی میں ان کا تفقہ ان کی فکر پر چھایارہتاہے“۔)[51](

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ ٗجب رحمت عالم ﷺ کی شان میںپیشہ ور گستاخوں کی گستاخانہ عبارتیں دیکھتے توان کی  آنکھیں اشک بار ہوجاتیں،وہ پیارے مصطفیٰ ﷺ  کی حمایت میں گستاخوں کا سختی سے رَد کرتے تاکہ وہ جھنجھلا کر انھیں بُرا کہنا اور لکھنا شروع کردیں اور محبوب خدا علیہ التحیۃ والثناء کی گستاخی سے باز رہیں۔ آپ اکثر اس پر فخر کیاکرتے کہ  خداے وحدہٗ  لاشریک نے اس دَور میں مجھے ناموسِ رسالت مآب ﷺ کے لیے ڈھال بنادیا ہے،وہ اس طرح کہ میں  بدگویوں کا سختی سے رَدکرتا ہوں تو  وہ مجھے برا بھلا کہنے میں مصروف ہوجاتے ہیں اوراس وقت تک کے لیے وہ حضور اقدس ﷺ  کی شان میں گستاخی کرنے سے باز رہتے ہیں۔حدائق بخشش میں ہے ؂

کروں تیرے نام پہ جاں فِدا ،نہ بس ایک جاں دوجہاں فدادوجہاں سے بھی نہیں جی بھرا ،کروں کیا ،کروڑوں جہاں نہیں

ان کا عشق بڑا سچاتھا ،وہ عالم تصور میں ہمیشہ اپنے آقا ہی کی بارگاہ میں حاضررہتے تھے، کوئی دنیا کا تاج دار خواہ کیسی ہی شان وشوکت والا ہو، ان کی نگاہوں میں جچتا ہی نہیں تھا ،وہ کسی اور کی بارگاہ میں دریوزہ گری کے لیے قطعا رضا مند نہیں تھے،ان کی غیرت عشق کا یہ انداز ملاحظہ ہو؂

تیرے ٹکڑوں سے پلے غیر کی ٹھوکر پہ نہ ڈال جھڑکیاں کھائیں کہاں چھوڑ کےصدقہ تیرا
تیرے قدموں میں جو ہیں غیر کا منہ کا کیا دیکھیں کون نظروں میں جچے دیکھ کے تلوا تیرا
کس کا منہ تکیے ، کہاں جائیے کس سے کہیے تیرے ہی قدموں پہ مٹ جائے یہ پالا تیرا

Fامام احمد رضا اوراحترام سادات :

تیری نسل پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا                تو  ہے  عین  نور  تیرا  سب  گھرانا  نور کا

سادات کرام آل رسول ہیں ؛ اس لیےاعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ ان سے بے پناہ عقیدت ومحبت رکھتے تھے ، ہمیشہ ان کا ادب واحترام ملحوظ رکھتے اور مصطفیٰ جان رحمت ﷺ سے نسبت کی بنیاد پر ہر حال میں انھیں خوش رکھنا چاہتے تھے۔اس سلسلے کی چندحیرت انگیز اور سبق آموز مثالیں ملاحظہ فرمائیں:

●ملک العلماء مولانا  محمدظفرالدین بہاری علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:

”سید ایوب علی صاحب کابیان ہے : ایک کم عمر صاحب زادے خانہ داری کے کاموں میں امداد کے لیے کاشانۂ اقدس میں ملازم ہوئے ،بعد میں معلوم ہوا کہ سید زادے ہیں؛لہذا گھر والوں کو تاکید فرمادی کہ صاحب زادے صاحب سے خبردار کوئی کام نہ لیاجائے کہ مخدوم زادہ ہیں،کھانا وغیرہ اور جس شے کی ضرورت ہو حاضر کی جائے ،جس تنخواہ کا وعدہ ہے ،وہ بطور نذرانہ پیش ہوتارہے،چنان چہ حسب الارشاد تعمیل ہوتی رہی،کچھ عرصہ بعد وہ صاحب زادے خود ہی تشریف لے گئے “۔)[52](

●مولانا حسنین رضا خان ،بریلوی احترام سادات  اور ان کی اطاعت وفرماں برداری کے تعلق  ایک بڑا رقت انگیز  واقعہ یوں رقم فرماتے  ہیں:

”اعلیٰ حضرت قبلہ نے ایک بار کھانا چھوڑا اور صرف ناشتہ پر قناعت کی ،اس میں بھی کوئی اضافہ منظور نہ فرمایا،سارے خاندان اور ان کے احباب کی کوشش رائگاں گئی ،سیدمقبول صاحب کی خدمت میں نومحلہ حاضرہوئےاور ان سے عرض کیا کہ آج دومہینے ہونے کو آئے کہ اعلیٰ حضرت نے کھانا چھوڑدیاہے،ہم سب کوشش کرکے تھک گئےہیں ،آپ ہی انھیں مجبور کرسکتے ہیں۔اس پر انھوں نے فرمایا کہ ہماری زندگی میں انھیں یہ ہمت ہوگئی ہے کہ وہ کھانا چھوڑبیٹھے ہیں۔ابھی کھانا تیار کراتاہوں اور لے کر آتاہوں،حسب وعدہ سید مقبول صاحب ایک نعمت خانہ میں کھانا لے کر خود تشریف لائے،اعلیٰ حضرت قبلہ زنانےمکان میں تھے ،سیدصاحب کی اطلاع پاتے ہی باہرآگئے ،سید صاحب سے قدم بوس ہوئے،اب بات چیت شروع ہوئی۔

سید صاحب نے فرمایا:میں نے سنا ہے کہ آپ نے کھانا چھوڑدیاہے۔اعلیٰ حضرت نےعرض کیاکہ میں تو روز کھاتاہوں۔سید صاحب نے فرمایا:مجھے معلوم ہے جیساآپ کھاتے ہیں۔اعلیٰ حضرت نے عرض کیا کہ حضور میرے معمولات میں اب تک کوئی فرق نہیں پڑا ہے ،میں اپنا سب کام بدستور کررہاہوں،مجھے اس سے زیادہ کی ضرورت نہیں معلوم ہوتی ،تو سید صاحب قبلہ برہم ہوگئےاور کھڑے ہوکر فرمانے لگے :اچھا تو میں کھانا لیے جاتاہوں،کل میدان قیامت میں سرکارِ دوجہاں کا دامن پکڑ کر عرض کروں گا کہ ایک سیدانی نے بڑے شوق سے کھاناپکایااور ایک سید لے کر آیا ، مگر آپ کے احمد رضاخان نے کسی طرح نہ کھایا۔اس پر اعلیٰ حضرت کانپ گئےاور عرض کیا کہ میں تعمیل حکم کےلیے حاضرہوں،ابھی کھائے لیتاہوں۔سید صاحب قبلہ نے فرمایا کہ اب تو یہ کھانا جب ہی کھاسکتے ہو،جب یہ وعدہ کرو کہ اب عمر بھر کھانا نہ چھوڑوگے۔چنان چہ اعلیٰ حضرت قبلہ نے عمر بھر کھانا نہ چھوڑنے کا وعدہ کیاتو سید صاحب قبلہ نے اپنے سامنے انھیں کھلایااورخوش خوش تشریف لے گئے۔

اعلیٰ حضر ت کے لیے سادات کرام کا جائز حکم آخری ہوتاتھا،سادات کرام کے حکم کے بعد اعلیٰ حضرت  کےلیےسواے تعمیل حکم کے کوئی چارۂ کار ہی نہ ہوتاتھا۔اللہ ورسول کے حکم کے بعد اعلیٰ حضرت کے یہاں سادات کرام ہی کا حکم نافذ ہوسکتاتھا۔یہ ناقابل انکار حقیقت ہے کہ سرکار دوعالم ﷺ کی آخری وصیت (إني تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ وعترتي۔ترجمہ : میں تم میں دو بھاری امانتیں چھوڑتاہوں،اللہ کی کتاب اور اپنی اولاد)پر پورا پورا عمل کرکے اس دَور میں اعلیٰ حضرت قبلہ ہی نے دکھایا“۔)[53](

●ملک العلماء مولانا محمدظفرالدین بہاری  علیہ الرحمہ نے ایک واقعہ اس طرح رقم فرمایاہے :

” ایک سید صاحب بہت غریب ، مفلوک الحال  تھے ،زندگی عسرت سے بسر ہوتی تھی ، اس لیے سوال کیاکرتےتھے،مگر سوال کی شان عجیب تھی ،جہاں پہنچتے ،فرماتے :دلواؤ سید کو ۔ایک دن اتفاق وقت تھا کہ پھاٹک میں کوئی نہ تھا ، سید صاحب تشریف لائے اور سیدھے زنانہ دروازے پر پہنچ کر صدالگائی : دلواؤ سید کو ۔اعلیٰ حضرت کے پاس اسی دن ذاتی اخراجات علمی یعنی کتاب وکاغذ وغیرہ دادو دہش کے لیے دوسو روپے آئے تھے،جس میں نوٹ بھی تھے ، اٹھنی ، چونی ، پیسے بھی تھے کہ جس چیز کی ضرورت ہو صرف فرمائیں۔اعلیٰ حضرت نے آفس بکس کے اس حصہ کو جس میں یہ سب روپے تھے ، سید صاحب کی آواز سنتے ہی ان کے سامنے لاکر حاضر کردیااوران کے روبرو لیے ہوئےکھڑے رہے۔جناب سید صاحب دیر تک ان سب کو دیکھتے رہے،اس کے بعد ایک چونی لے لی۔اعلیٰ حضرت نے فرمایا: حضور ! یہ سب حاضر ہیں۔سید صاحب نے فرمایا: مجھے اتنا ہی کافی ہے۔

الغرض جناب سید صاحب ایک چونی لے کر سیڑھی سے اتر آئے ، اعلیٰ حضرت بھی ساتھ ساتھ تشریف لائے ، پھاٹک پر ان کو رخصت کرکے خادم سے فرمایا:دیکھو!سید صاحب کو آئندہ آواز دینے، صدا لگانے کی ضرورت نہ پڑے،جس وقت سید صاحب پر نظر پڑے فوراً ایک چونی حاضر کرکے سید صاحب کو رخصت کیاکرو۔سبحان اللہ وبحمدہ ۔تعظیم سادات ہو تو ایسی ہو۔

کیوں اپنی گلی میں وہ روا دارِ صدا ہو                  جو نذرلیے راہِ گدا دیکھ رہاہو)[54](

●ملفوظات اعلیٰ حضرت میں ہے:

” عرض:سید کے لڑکے کو اس کا اُستادتادیبا(یعنی ادب سکھانےکے لیے) مار سکتا ہے یا نہیں؟

ارشاد: قاضی جو حدودِ الٰہیہ(یعنی اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ سزائیں) قائم کرنے پر مجبور ہے، اس کے سامنے اگر کسی سید پر حد ثابت ہوئی تو باوجود ے کہ اس پر حد لگانا فرض ہے اور وہ حد لگائے گا،لیکن اس کو حکم ہے کہ سزا دینے کی نیت نہ کرے، بلکہ دل میں یہ نیت رکھے کہ شہزادے کے پیر میں کیچڑ لگ گئی ہے، اُسے صاف کررہا ہوں، تو قاضی جس پر سزا دینا فرض ہے اس کو تو یہ حکم ہےعتابہ معلم چہ رسدپھر معلم کو کیسے حق پہنچتاہے“۔)[55](

Gامام احمد رضا اوررَدِّ بدعات ومنکرات:

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس  سرہٗ نے پوری زندگی دین کی تبلیغ ، سنت کا احیا اور بدعات ومنکرات کا رد کیا،مگر اس کے باوجود ان کےمخالفین ومعاندین نے ان کے سر یہ الزام رکھ دیا کہ انھوں نے بدعات کو فروغ دیاہے۔میرے خیال میں اس کی وجہ یہ ہے کہ جب اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہٗ نےشان الوہیت اور بارگاہِ رسالت میںان کی دَریدہ دہنی پرلگام دینےکی کوشش کی اوران کی گستاخیوں پرشدید گرفت فرمائی تو وہ حواس باختہ ہوگئے اور ”الٹا چور کوتوال کوڈانٹے“کے فارمولے پرعمل کرتے ہوئے یہ کہنا شروع کردیا کہ امام احمد رضااور ان کے عقیدت مند مسلمانوں کو کافر کہتے ہیں اور بدعات ومنکرات کو فروغ دیتے ہیں۔

اس موضوع کے حوالے سے پروفیسر ڈاکٹر محمدمسعود احمدصاحب،ایم اے،پی ایچ ڈی نے ایک مختصررسالہ بنام”ردّ ِبدعت اور امام احمد رضا “ (ناشراسلامیکتب خانہ،اقبال روڈ ، سیال کوٹ) لکھا ہے۔ــــــــسیدمحمد فاروق القادری،ایم اے (شاہ آباد ، گڑھی اختیار خاں)بہاول پور)نے بھی ایک کتاب لکھی ہے:”فاضل بریلوی اور امور بدعت“اشاعت رضا پبلی کیشنز،مین بازار داتاصاحب،لاہور،۱۹۸۱ء۔ــــــــاور حضرت مولانا یسین اخترمصباحی صاحب نے بھی ایک بہت تفصیلی کتاب تصنیف فرمائی ہے جس کانام ” امام احمد رضا اور ردّ ِبدعات ومنکرات“ہے۔یہ کتابیں بہت جامع اورمفید ہیں؛اس لیےہم یہاں صرف چند مثالوں کے ذکرپر اکتفا کرتےہیں:

مزارات پر عورتوں کا جانا:

عرض : حضور اجمیر شریف میں خواجہ صاحبکے مزار پر عورتوں کا جانا جائز ہے یا نہیں؟

ارشاد : غنیہ میں ہے :یہ نہ پوچھو کہ عورتوں کا مزارات پر جانا جائز ہے یا نہیں ،بلکہ یہ پوچھوکہ اس عورت پر کس قدر لعنت ہوتی ہے اللہ کی طر ف سے اور کس قدر صاحبِ قبر کی جانب سے ۔جس وقت وہ گھر سے ارادہ کرتی ہے لعنت شروع ہوجاتی ہے اور جب تک واپس آتی ہے ملائکہ لعنت کرتے رہتے ہیں،سواے روضہ انور(علی صاحبھاالصلوٰۃوالسلام)کے کسی مزار پرجانے کی اجازت نہیں، وہاں کی حاضری البتہ سُنّتِ جلیلہ عظیمہ قریب بواجبات ہے اور قرآنِ عظیم نے اسے مغفرتِ ذنوب کا تِریاق بتایا :وَلَوْ اَنَّہُمْ اِذۡ ظَّلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمْ جَآءُوۡکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللہَ وَاسْتَغْفَرَ لَہُمُ الرَّسُوۡلُ لَوَجَدُوا اللہَ تَوَّابًا رَّحِیۡمًا ﴿۶۴﴾اور اگر وہ جب اپنی جانوں پر ظلم کریں تمہارے حضور حاضر ہوں پھر اللہ سے معافی چاہیں اور رسول ان کے لیے معافی مانگے تو ضرور اللہ کو تو بہ قبول کرنے والا مہربان پائیں گے۔

خود حدیث میں ارشاد ہوا : مَنْ زَارَ قَبْرِیْ وَجَبَتْ لَہٗ شَفَاعَتِیْ جومیرے مزار کریم کی زیارت کو حاضر ہوا ،اس کے لیے میری شفاعت واجب ہوگئی۔دوسری حدیث میں ہے : مَنْ حَجَّ وَلَمْ یَزُرْنِیْ فَقَدْ جَفَانِیْ جس نے حج کیا اور میری زیارت کو نہ آیا بے شک اس نے مجھ پر جفا کی۔)[56](

مزارات کے آگے سجدہ کرنا :

بعض مسلمان حدود شرعیہ سے تجاوز کرکے مزارات کے آگے اپنا ماتھا ٹیکتے ہیں،اعلیٰ حضرت  امام احمدرضا قدس سرہٗ نے اس کا شدید رَد فرمایا اور اس بارے میں پوری کتاب تصنیف فرمائی جس کا نام ہے ”الزبدۃ الزکیۃ لتحریم سجود التحیۃ“۔اس میں آیا ت قرآنیہ احادیث نبویہ اور تصریحات فقہا سے سجدۂ تحیت کی حرمت ثابت کی ۔ اس کے شروع میں ہی لکھتے ہیں:

” مسلمان اے مسلمان! اے شریعت مصطفوی کے تابع فرمان !جان اور یقین جان کہ سجدہ حضرت عزت  عزّجلالہ کے سوا کسی کے لیے نہیں۔ اس کے غیر کو سجدہ عبادت یقینا اجماعا شرک مہین و کفر مبین اور سجدہ تحیت حرام وگناہ کبیرہ بالیقین“۔)[57](

قبر پر چادر چڑھانا:

قبر پر چادر چڑھانے کے بارے میں سوال کیاگیاتو آپ نے ارشاد فرمایا:

”جب چادر موجود ہو اور وہ ہنوز پرانی یا خراب نہ ہوئی کہ بدلنے کی حاجت ہو تو بے کار چادر چڑھا نا فضول ہے ،بلکہ جو دام اس میں صرف کریں ولی اللہ کی روح مبارک کو ایصال ثواب کے لیے محتاج کو دیں۔ہاں!جہاںمعمول ہوکہ چڑھائی ہوئی چادرجب حاجت سے زائد ہو،خدام،مساکین حاجت مند لے لیتے ہوں اوراس نیت سے ڈالے تو مضائقہ نہیں،کہ یہ بھی تصدق ہوگیا“۔)[58](

شطرنج و چوسر وغیرہ کھیلنا :

گنجفہ ،شطرنج ، چوسر وغیرہ کھیلنے کے بارے میں حکم شرع دریافت کیا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا:

”یہ سب کھیل ممنوع اورناجائزہیں اوران میں چوسراورگنجفہ بدترہیں ،گنجفہ میں تصاویر ہیں اورانھیں عظمت کے ساتھ رکھتے اوروقعت وعزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، یہ امر اس کے سخت گناہ کاموجب ہے۔اورچوسرکی نسبت حضور اقدس ﷺ نے فرمایا: جس نے چوسر کھیلی اس نے گویااپناہاتھ سورکے گوشت خون میں رنگا۔دوسری حدیث صحیح میں فرمایا: جس نے چوسرکھیلی اس نے خدااوررسول کی نافرمانی کی۔چوسر بالاجماع حرام وموجبِ فسق وردِّشہادت ہے ۔یہی حال گنجفہ کاسمجھناچاہئے“۔)[59](

چوری کا مال خریدنا:

چوری کا مال خریدنے کے بارے میں مسئلہ شرعیہ دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا:

”چوری کا مال دانستہ خریدناحرام ہے، بلکہ اگر معلوم نہ ہو مظنون ہو جب بھی حرام ہے مثلا کوئی جاہل شخص کہ اس کے مورثین بھی جاہل تھے کوئی علمی کتاب بیچنے کو لائے اور اپنی ملک بتائے، اس کے خریدنے کی اجازت نہیں  اور اگر نہ معلوم ہے نہ کوئی واضح قرینہ تو خریداری جائز ہے، پھر اگر ثابت ہوجائے کہ یہ چوری کا مال ہے تو اس کااستعمال حرام ہے ،بلکہ مالک کو دیا جائے اور وہ نہ ہو تو اس کے وارثوں  کو ، اور ان کا بھی پتہ نہ چل سکے تو فقراء کو، واللہ تعالیٰ اعلم“۔)[60](

Hامام احمد رضا اور شعر وسخن:

ملک سخن کی شاہی تم کو رضا مسلم         جس سمت آگئے ہو سکے بٹھادیے ہیں

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ  عام ارباب ِ شعر وسخن کی طرح صبح و شام  شعر گوئی اوراشعار کی تیاری میں مصروف نہیں رہتے تھےاور نہ ہی شاعری آپ کا پیشہ تھا،بلکہ آپ کا حال یہ تھا کہ  جب  بھی پیارے مصطفیٰ ﷺ کی یادیں تڑپانے لگتیں اور دردِ عشق میں ماہی بے آب کی طرح  بے تاب ہوتے تو ازخود زبان پر نعتیہ اشعار جاری ہوجاتے ۔آپ خود ارشاد فرماتے ہیں؂

               ثناے سرکارہے  وظیفہ، قبول سرکار ہےتمنا      نہ شاعری کی ہوس نہ پروا روی تھی کیا کیسے قافیے تھے

آپ نے  خداے وحدہٗ لاشریک کے بے مثل وبے مثال محبوب  کی مدح سرائی میں زبان کھولی تھی؛ اس لیے اللہ جل شانہ ٗنے آپ کے کلام کو امام الکلام بنادیا،آپ کے شعروسخن کا  اس سے بڑا  امتیازواعزاز اور کیاہوگا کہ آج  چہار دانگ عالم میں آپ کے لکھے  ہوئے درود وسلام سے منبر ومحراب گونج رہے ہیں اور خوش عقیدہ سنی مسلمانوں کی ہرمجلس میں آپ کا کلام بصد شوق پڑھا اور سناجارہاہے۔

رئیس التحریر علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:

”ان کے کلام کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ ایک ایک شعر شریعت طاہرہ کے سانچے میں ڈھل جانے کے باوجود شعریت کا رنگ وآہنگ اور تغزل کا بانکپن کسی گوشے سے مجروح نہیں ہوتا،اس طرح اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی نے حدائق بخشش کے ذریعہ صرف قارئین ہی کو مومن نہیں بنایا،بلکہ اردو ادب کو بھی مومن بنادیاہے“۔)[61](

حضرت مولانا بدرالدین احمد قادری رضوی فرماتے ہیں:” آپ کا نعتیہ دیوان ”حدائق بخشش“  حمد ونعت ، دعاوالتجا، سلام ومنقبت ، عشق ومحبت ، حقیقت ومعرفت ، معجزات وکرامات ، شرح آیات و احادیث وغیرہ مضامین کا ایک ایسا بحر ذخار ہے جس کی وسعت اور گہرائی کا اندازہ کرنا اہل بصیرت حضرات ہی کام ہے“۔)[62](

حضرت مولانا عبدالحکیم شرف قادری علیہ الرحمہ عربی زبان کے مشہور شاعر متنبی کے بعض اشعارسے اعلیٰ حضرت قدس سرہٗ کے بعض اشعار کا موازنہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:متنبی ادبِ عربی کا مسلّم اور نامور شاعر ہے،وہ کہتاہے؂

أزُوْرُ ہُمْ وَسَوَادُ اللَّیْلِ یَشْفَعُ لِيْ               وَأنْثَنِيْ وَبَیَاضُ الصُّبْحِ یُغْرِيْ بِيْ

ترجمہ : میں اس حال میں محبوبوں کی زیارت کرتاہوں کہ رات کی سیاہی میری سفارش کرتی ہےاور اس حال میں لوٹتاہوں کہ صبح کی سفیدی میرے خلاف برانگیختہ کرتی ہے۔

کہتے ہیں کہ یہ شعر متنبی کے اشعار کا امیر ہے ؛کیوں کہ اس کے پہلے مصرعے میں پانچ چیزوں کا ذکر ہےاور دوسرے مصرعے میں ان کے مقابل پانچ چیزوں کا اسی ترتیب سے ذکر ہے:

پہلا مصرع: ۱۔ زیارت۔۲۔سیاہی ۔۳۔رات ۔۴۔سفارش کرنا۔۵۔لی (میرے حق میں )

دوسرا مصرع:۱۔واپسی ۔۲۔سفیدی۔۳۔صبح۔۴۔برانگیختہ کرنا۔۵۔بی (میرے خلاف )

رضاؔ بریلوی کا شعر ملاحظہ ہو، معنوی بلندی اور پاکیزگی کے ساتھ ساتھ شاعرانہ نقطۂ نظر سے کتنا زوردار ہے ۔پہلے مصرعے میں بجاے پانچ کے چھ چیزوں کا ذکر ہےاور ان کے مقابل دوسرے مصرعے میں بھی چھ چیزیں ہی مذکورہیں اور لطف یہ ہےکہ غزل نہیں ، بلکہ نعت ہے جہاں قدم قدم پر احتیاط لازم ہے ؂

حسن یوسف پہ کٹیں مصر میں انگشت زناں                     سر کٹاتے ہیں ترے نام پہ مردان عرب

پہلامصرع: ا۔حسن ۔۲۔انگشت۔۳۔کٹیں ( غیر اختیاری عمل تھا ) ۔۴۔عورتیں ۔۵۔مصر ۔۶۔کٹیں سے ایک بار کا پتہ چلتاہے۔

دوسرامصرع:ا۔نام  ۔۲۔سر ۔۳ ۔کٹاتے (اختیاری عمل ہے) ۔۴۔مردان۔۵۔ عرب۔۶۔کٹاتے ہیں سے استمرار معلوم ہوتاہے۔)[63](

اعلیٰ حضرت امام احمدرضا قدس سرہٗ جس طرح دیگر علوم وفنون میں ممتاز نظر آتے ہیں ،اسی طرح فن شاعری میں بھی اپنی مثال آپ ہیں۔

Iامام احمد رضا کاوصال وانتظار:

آج پھولے نہ سمائیں گے کفن میں آسی                ہے شب گور بھی اس گل سے ملاقات کی رات

۲۵؍صفر۱۳۴۰ھ /۲۸؍ اکتوبر۱۹۲۱ء،بروز جمعہ دوبجکر اڑتیس منٹ پر عین اذان جمعہ میں ادھر مؤذن نے حی علی الفلاح کہااور ادھر اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ نے داعی اجل کو لبیک کہا ۔حضرت مولانا حسنین رضاخان ،بریلوی جو وصال کے وقت اعلیٰ حضرت کی بارگاہ میں حاضر تھے، وہ تحریر فرماتے ہیں:

”(اعلیٰ حضرت)نے وصیت نامہ تحریرکرایا،پھر اس پر خود عمل کرایا،وصال شریف کے سارے کام گھڑی دیکھ کر ٹھیک وقت پر ارشاد ہوتے رہے،جب دوبجنے میں چار منٹ باقی تھے ، وقت پوچھا ،عرض کیا گیا(کہ ایک بج کر چھپن منٹ ہورہے ہیں) فرمایا: گھڑی کھلی سامنے رکھ دو،یکا یک ارشاد فرمایا: تصاویر ہٹا دو،(حاضرین کے دل میں خیال گزرا) یہاں تصاویر کا کیاکام ،یہ خطرہ گزرنا تھا کہ خود ہی ارشاد فرمایا:یہی کارڈ ، لفافہ ، روپیہ ، پیسہ ،پھر ذرا وقفہ سے برادر محترم حضرت مولانا مولوی محمد حامد رضا خان صاحب سے ارشاد فرمایا:وضو کراؤ،قرآن عظیم لاؤ،ابھی وہ تشریف نہ لائے تھے کہ برادرم مولانا مصطفیٰ رضا خان سلمہ سے پھر ارشادفرمایا: اب بیٹھے کیا کررہے ہو؟ یٰسین شریف اور سورۂ رعد شریف تلاوت کرو، اب عمر شریف سے چند منٹ رہ گئے  ہیں، حسب الحکم  دونوں سورتیں تلاوت کی گئیں، ایسے حضور قلب اورتیقظ سے سنین کہ جس آیت میں اشتباہ ہوا ، یا  سننے میں صاف نہ آئیں، یا سبقت زبان سے زیروزبر میں اس وقت فرق ہوا ،خود تلاوت فرماکر بتلادی۔

اس کے بعد سید محمود علی صاحب ایک مسلمان ڈاکٹر عاشق  حسین صاحب کو اپنے ہمراہ لائے ، ان کے ساتھ اور لوگ بھی حاضر ہوئے ، اس وقت جو جو حضرات اندر گئے سب کے سلام کا جواب دیا اور سید صاحب سے دونوں ہاتھ بڑھا کر مصافحہ فرمایا،ڈاکٹر صاحب نے اعلیٰ حضرت قبلہ سے حال دریافت فرمانا چاہا ،مگر وہ(اعلیٰ حضرت) حکیم مطلق کی طرف متوجہ تھے ، ان سے اپنے مرض یا علاج کے متعلق کچھ نہ ارشاد فرمایا،سفر کی دعائیں جن کا چلتے وقت پڑھنا مسنون ہے ، تمام وکمال ، بلکہ معمول سے زائد پڑھیں،پھر کلمۂ طیبہ)لاإلہ إلااللہ محمد رسول اللہ)پورا پڑھا،جب اس کی طاقت نہ رہی اور سینہ پر دم آیا ،ادھر ہونٹوں کی حرکت وذکر پاس انفاس کا ختم ہوناتھا کہ چہرۂ مبارک پر ایک لمعہ نور کا چمکا جس میں جنبش تھی ، جس طرح لمعان خورشید آئینہ میں جنبش کرتاہے،اس کےغائب ہوتے ہی وہ جان نور ،جسم اطہر سے پروازکرگئی ،انا للہ وانا الیہ راجعون۔)[64](

حضرت مولانا بدرالدین احمدقادری  رضوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:

”ادھر ۲۵؍ صفر ۱۳۴۰ھ، جمعہ کو دن کے دوبجکر اڑتیس منٹ پر بریلی شریف میں اعلیٰ حضرت قبلہ دنیاے دنی سے روانہ ہورہے ہیں ، ادھرایک شامی بزرگ ٹھیک ۲۵؍صفر  ۱۳۴۰ھ کو خواب میں کیا دیکھ رہے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ تشریف فرماہیں، حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم حاضر دربار ہیں، لیکن مجلس پر سکوت طاری ہے،ایسا معلوم ہورہا ہے  کہ کسی آنے والے کا انتظار ہے ،وہ شامی بزرگ  بارگاہِ رسالت  میں عرض کرتے ہیں :فداک ابی وامیمیرے ماں باپ حضور پر قربان ! کس کا انتظار ہے ؟

سیِّدِ عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا: احمد رضا کاانتظار ہے۔انھوں نے عرض کی :احمد رضا کون ہیں ؟ حضور نے فرمایا:ہندوستان میں بریلی کے باشندے ہیں۔بیداری کے بعد انھوں نے پتہ لگایا تو معلوم ہوا کہ اعلیٰ حضرت احمد رضاہندوستان کے بڑے ہی جلیل القدر عالم ہیں اور اب تک بقید حیات ہیں،پھر تو وہ شوق ملاقات میں ہندوستان کی طرف چل پڑے ، جب بریلی پہنچے تو انھیں بتایاگیاکہ آپ جس عاشق رسول کی ملاقات کو تشریف لائے ہیں وہ ۲۵؍ صفر ۱۳۴۰ھ کو اس دنیا سے روانہ ہوچکاہے“۔)[65](

جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں                 اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے ،اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے

ساجدعلی مصباحی ،جامعہ اشرفیہ ، مبارک پور ،اعظم گڑھ

۲۰؍صفر ۱۴۴۰ھ/۳۰؍اکتوبر ۲۰۱۸ء۔سہ شنبہ


[1]))  ملفوظات اعلیٰ حضرت ،ج: ۱، ص: ۶۳، مکتبۃ المدینۃ۔

([2])حیات اعلیٰ حضرت ،مصنفہ ملک العلماء محمدظفرالدین بہاری ،ج:۱،ص:۱۰۷،ملخصا ،مرکزاہل سنت برکات رضا ،پور بندر ، گجرات۔

([3])امام احمد رضا ارباب علم ودانش کی نظر میں ،ص:۳۵،دارالقلم، ذاکر نگر ، نئی دہلی،بحوالۂ ترجمان اہل سنت ،پیلی بھیت۔

[4]))سیرت اعلیٰ حضرت،مصنفہ مولانا حسنین رضا خان بریلوی،ص:۸۷،مکتبہ قاسمیہ برکاتیہ ،حیدرآباد۔

[5]))احوال وآثار اعلیٰ حضرت مجدداسلام بریلوی ، مولفہ علامہ محمدصابر القادری نسیمؔ بستوی ، ص:۱۰۲، ۱۰۳،رضااکیڈمی رجسٹرڈ،لاہور،پاکستان۔

[6]))ماہ نامہ المیزان، بمبئی کا امام احمد رضا نمبر ، ص: ۱۸۸، اشاعت :۲۶؍ مارچ ۱۹۷۶ء۔

[7]))الاجازات المتینۃ لعلماء بکۃ والمدینۃ،ص:۱۰۶، شائع کردہ: ادارہ اشاعت تصنیفات رضا ،محلہ سوداگران ، رضانگر ، بریلی شریف۔

[8]))فتاویٰ رضویہ ، ج:۴، ص:۱۴۸، ۱۴۹، رضا اکیڈمی ، ممبئی۔

[9]))امام احمد رضا کی فقہی بصیرت جدالممتار کے آئینے میں ،تقدیم از پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد ، ص:۱۷، ۱۸، المجمع الاسلامی ،  مبارک پور ،اعظم گڑھ۔

[10]))فتاویٰ رضویہ ،باب سجود التلاوۃ، ج:۳، ص:۶۵۴، ۶۵۵،رضا اکیڈمی ، ممبئی

[11]))فتاویٰ رضویہ ، کتاب الطہارۃ،  باب التیمم، ج:۱،ص:۷۰۱،رضا اکیڈمی ، ممبئی ۔

[12]))فتاویٰ رضویہ ، کتاب الصلاۃ،باب الاذان والاقامۃ، ج:۲،ص:۳۸۷، ۳۸۸،ملخصا ،رضا اکیڈمی ، ممبئی۔

[13]))فتاویٰ رضویہ ،کتاب الطہارۃ ،باب التیمم،ج:۱،ص:۸۳۸،رضااکیڈمی، ممبئی۔

[14]))فتاویٰ رضویہ ، کتاب الطہارۃ ، باب التیمم ،ج:۱،ص:۸۴۹،رضا اکیڈمی ،ممبئی۔

[15]))فتاویٰ رضویہ ، کتاب الطہارۃ ، باب التیمم ،ج:۱،ص:۸۴۹،رضا اکیڈمی ،ممبئی۔

[16]))فتاویٰ رضویہ ، کتاب الطہارۃ،باب الغسل، ج:۱،ص:۲۰۷،رضا اکیڈمی ،ممبئی۔

[17]))فتاویٰ رضویہ  ،کتاب الطہاۃ، با ب الغسل ، ج:۱،ص:۱۸۴، ۱۸۵،  رضا اکیڈمی ، ممبئی۔

[18]))تفصیل کےلیے دیکھیے فتاویٰ رضویہ  ،کتاب الطہاۃ، با ب الغسل ، ج:۱،ص:۱۶۶ تاص:۲۷۰، رضا اکیڈمی ، ممبئی۔

[19]))تفصیل کے لیے  دیکھیےفتاویٰ رضویہ ، ج:۹، نصف آخر، ص: ۲۱۳ تا ۲۴۷، رضا اکیڈمی ، ممبئی۔

[20]))تفصیل کے لیے دیکھیے فتاویٰ رضویہ ،ج:۹،نصف اول ،ص:۱۲۲ تا ۱۳۷،رضا اکیڈمی ، ممبئی۔

[21]))فتاویٰ رضویہ ، کتاب الطہارۃ، باب الانجاس ، ج:۲، ص:۶۴،رضا اکیڈمی،ممبئی۔

[22]))احوال وآثار اعلیٰ حضرت مجدد اسلام  بریلوی،مولفہ علامہ محمد صابر القادری نسیمؔ بستوی ،ص:۱۵۵،رضا اکیڈمی رجسٹرڈ ، لاہور،پاکستان۔

[23]))سوانح اعلیٰ حضرت  امام احمد رضا ، مولفہ مولانا بدرالدین احمد قادری رضوی،ص:۳۶۵، ۳۶۶،قادری کتاب گھر ، بریلی شریف ۔

[24]))سوانح اعلیٰ حضرت  امام احمد رضا ،مولفہ مولانا بدرالدین احمد قادری رضوی، ص:۳۸۷،قادری کتاب گھر ، بریلی شریف ۔

[25]))اظہار الحق الجلی،ص:۱۹، ۲۰، رضا اکیڈمی،ممبئی۔

[26]))احوال وآثار اعلیٰ حضرت مجدد اسلام  بریلوی،مولفہ علامہ محمد صابر القادری نسیمؔ بستوی ،ص:۱۵۶،رضا اکیڈمی رجسٹرڈ ،لاہور،پاکستان۔

[27]))حیات اعلیٰ حضرت ،مصنفہ ملک العلماء مولانا محمد ظفرالدین بہاری ،ج:۱ ،ص:۲۷۲، ۲۷۳، ملخصا ،مرکز اہل سنت ، برکات رضا ، پور بندر ، گجرات۔

[28]))حیات اعلیٰ حضرت ،مصنفہ ملک العلماء مولانا محمدظفرالدین بہاری ،ج:۱ ،ص:۲۷۹، ۲۸۰،مرکز اہل سنت ، برکات رضا ، پور بندر ، گجرات۔

[29]))حیات اعلیٰ حضرت ،مصنفہ ملک العلماء مولانا محمد ظفرالدین بہاری،ج:۱ ،ص:۲۸۱،مرکز اہل سنت ، برکات رضا ، پور بندر ، گجرات۔

[30]))حیات اعلیٰ حضرت ،مصنفہ ملک العلماءمولانا محمد ظفر الدین بہاری،ج:۱ ، ص:۲۸۱، تا ص: ۲۸۳،ملخصاً،مرکز اہل سنت ، برکات رضا ، پور بندر ، گجرات۔

[31]))سیرت اعلیٰ حضرت ،مصنفہ مولانا حسنین رضا خاں ،ص:۷۱،مکتبہ قاسمیہ برکاتیہ ، حیدرآباد۔

[32]))حیات اعلیٰ حضرت ،مصنفہ ملک العلماء مولانا محمد ظفرالدین بہاری، ج:۱،ص:۳۰۹، ۳۱۰،مرکز اہل سنت برکات رضا،پوربندر ، گجرات۔

[33]))فتاویٰ رضویہ،کلمات آغاز، ج:۱، ص:ل، رضا اکیڈمی ، ممبئی۔

[34]))فتاویٰ رضویہ ، باب الامامۃ ،ج:۳، ص:۲۳۰،رضا اکیڈمی ،ممبئی۔

[35]))مزارات پر عورتوں کی حاضری (جمل النور ) ص:۱۲، ۱۳، مجلس اشاعت  ، طلبۂ فیض العلوم ،محمد آباد گوہنہ ،اعظم گڑھ۔

[36]))کرامات اعلیٰ حضرت ، ص:۳۱،بروایت مولانا محمد حسین صاحب نظامی میرٹھی۔

[37]))  فتاویٰ رضویہ،ج:۲،ص:۱۲۵،باب الانجاس،رضا اکیڈمی،ممبئی۔امام احمد رضا اور ردبدعات ومنکرات، تقریب از مولانا محمد احمد اعظمی مصباحی،ص:۶۰ تا ۶۳، اسلامک پبلشر ، دہلی۔

[38]))حیات اعلیٰ حضرت،مصنفہ ملک العلماء مولانا محمد ظفرالدین بہاری ،ج:۱، ص: ۱۴۶، ۱۴۷، مرکز اہل سنت برکات رضا ، پور بندر ، گجرات۔

[39]))  سیرت اعلیٰ حضرت ،مصنفہ مولانا حسنین رضا خان ،بریلوی، ص: ۹۱، ۹۲، ، مکتبہ قاسمیہ برکاتیہ ، حیدرآباد۔

[40]))حیات ِ اعلیٰ حضرت ،مصنفہ ملک العلماء مولانا محمد ظفر الدین بہاری،ج:۱،ص:۱۳۵، ۱۳۶،ملخصا ،مرکز اہل سنت ،برکات رضا ، پور بندر ، گجرات۔

[41]))ملفوظات اعلیٰ حضرت ، حصہ دوم ،ص:۱۸۳،مکتبۃ المدینہ ۔

[42]))سوانح اعلیٰ حضرت  امام احمدرضا، مولفہ مولانا بدرالدین احمد قادری رضوی،پیش لفظ از علامہ ارشدالقادری ، ص:۱۳، قادری کتاب گھر ، بریلی شریف ۔

[43]))حیات اعلیٰ حضرت ، مصنفہ ملک العلماء مولانا محمد ظفرالدین بہاری ، ج:۱،ص:۱۳۸،مرکز اہل سنت برکات رضا ، پور بندر ، گجرات۔

[44]))حیات اعلیٰ حضرت،مصنفہ ملک العلماء مولانامحمد ظفرالدین بہاری ،ج:۱، ص: ۱۴۹، ۱۵۰، ملخصاً،مرکز اہل سنت برکات رضا ، پور بندر ، گجرات۔

[45]))احوال  وآثار اعلیٰ حضرت مجدداسلام بریلوی،مولفہ علامہ محمد صابر القادری نسیمؔ بستوی ،ص:۸۰، ۸۱، ملخصاً،رضااکیڈمی رجسٹرڈ،لاہور ، پاکستان۔

[46]))ملفوظات اعلیٰ حضرت،حصہ اول  ،ص:۶۸ تا ص:۷۲، ملخصا،مکتبۃ المدینہ۔

[47]))ملفوظات اعلیٰ حضرت،حصہ اول  ،ص:۷۰ ،۷۱، ملخصا،مکتبۃ المدینہ۔

[48]))ملفوظات اعلیٰ حضرت،حصہ دوم، ص:۱۸۱، ۱۸۲، ملخصاً ،مکتبۃ المدینہ۔

[49]))ملفوظات اعلیٰ حضرت ، حصہ سوم ،ص:۴۱۱، مکتبۃ المدینہ۔

[50]))سوانح اعلیٰ حضرت  امام احمد رضا،مولفہ مولانا بدرالدین احمد قادری رضوی ، ص:۳۵۰،قادری کتاب گھر ، بریلی شریف ۔

[51]))امام احمد رضا اور رد بدعات ومنکرات ،تقدیم کتاب  اور مصنف کا تعارف،ازرئیس التحریر علامہ ارشد القادری مصباحی ، ص:۲۶،اسلامک پبلشر ، دہلی۔

[52]))حیات اعلیٰ حضرت ،مصنفہ ملک العلماء مولانا محمد ظفرالدین بہاری،ج:۱،ص:۲۲۳، مرکز اہل سنت ، برکات رضا ،پور پندر ،گجرات۔

[53]))سیرت اعلیٰ حضرت،مصنفہ مولانا حسنین رضا خان،بریلوی ،ص:۹۰ ،۹۱،مکتبہ قاسمیہ برکاتیہ ،حیدرآباد۔

[54]))حیات اعلیٰ حضرت ، مصنفہ ملک العلماء مولانا محمد ظفرالدین بہاری،ج:۱،ص:۲۳۳، ۲۳۴، مرکز اہل سنت برکات رضا ، پور بندر ، گجرات۔

[55]))ملفوظات اعلیٰ حضرت ،حصہ سوم ، ص: ۳۹۶،مکتبۃ المدینہ ۔

[56]))ملفوظات اعلیٰ حضرت ،حصہ دوم ، ص:۳۱۵، ۳۱۶ ، مکتبۃ المدینہ ۔

[57]))فتاویٰ رضویہ،کتاب الحظر والاباحۃ ، ج:۹،نصف آخر ، ص:۲۱۳،رضا اکیڈمی ،ممبئی۔

[58]))احکام شریعت ،حصہ اول ،ص:۵۲،اعلیٰ حضرت نیٹ ورک۔

[59]))فتاویٰ رضویہ،کتاب الحظر والاباحۃ ، ج:۹،نصف اول،ص:۴۴، رضا اکیڈمی ، ممبئی۔

[60]))فتاویٰ رضویہ ، کتاب البیوع ، ج:۷،ص:۳۸،رضا اکیڈمی، ممبئی۔

[61]))امام احمد رضا اور رد بدعات ومنکرات ،تقدیم کتاب اور مصنف کاتعارف ،از رئیس التحریر علامہ ارشد القادری مصباحی ،ص:۲۶، ۲۷، اسلامک پبلشر ، دہلی۔

[62]))سوانح اعلیٰ حضرت امام احمد رضا،مولفہ مولانا بدرالدین احمدقادری رضوی، ص:۳۴۹، ۳۵۰،قادری کتاب گھر ، بریلی شریف ۔

[63]))فتاویٰ رضویہ ،کلمات آغاز ،ج:۱،ص:ن،رضا اکیڈمی ،ممبئی۔

[64]))وصایاشریف ،مرتبہ شاہ حسنین رضا خان قادری نوری ، ص:۲۶، ۲۷، اعلیٰ حضرت ڈاٹ نٹ۔

[65]))سوانح اعلیٰ حضرت امام احمد رضا ،مولفہ مولانا بدرالدین احمد قادری رضوی ، ص:۳۸۳، قادری کتاب گھر ، بریلی شریف ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے