خانوادۂ رضا

کنز الایمان فی ترجمۃ القرآن کے خصائص و امتیازات

تحریر: محمد رجب علی مصباحی، گڑھوا، جھارکھنڈ
رکن:مجلس علماے جھارکھنڈ

اس جہانِ رنگ و بو میں چاند لاکھوں بار کرۂ ارض کا طواف کرتا ہے اور سورج نظام قدرت کے مطابق روزانہ اپنی کرنیں بکھیرتا ہے تب کہیں تاریخ کے صفحات میں کوئی ایسی شخصیت رو نما ہوتی ہے جس کے قدوم میمنت سے عالم اسلام میں ایک انقلاب اور نئی روح پیدا ہوتی ہے اور جس کے اخلاق و کراد،قول و گفتار اور دینی خدمات سے متاثرین افراد اس کے قدموں پر عقیدتوں کے نذرانے پیش کرنے اور اس کے تئیں مرمٹنے کو ہمہ وقت کمر بستہ رہتے ہیں ۔
بلاشبہ تاریخ اسلام نے ایسی عبقری شخصیات کو پیش کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن یہ بھی برہنہ حقیقت ہے کہ اس کے آغوش میں ایسے ہیرے جواہرات اور لعل و گہر بہت کم ہوتے ہیں ۔

بیسویں صدی عیسوی کی پوری تاریخ کا جائزہ اور اس میں مورود شخصیات کا محاسبہ کریں تو آپ کو صرف ایک ہی مرد مجاہد اور شہباز قلندر نظر آئے گا جس نے فقہی فضیلت اور علمی کمال کے ساتھ ساتھ دینی، ملی، سماجی اور معاشرتی خدمات میں نمایاں کردار ادا کیا اور وہ عظیم شخصیت سیدی و سندی امام اہلسنت مجدد دین و ملت، کنز الکرامت الشاہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی المعروف بہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ الرضوان کی ذات بابرکات ہے۔

اللہ تعالیٰ نے آپ کو گوناگوں اوصاف و کمالات سے مزین و مرصع اور علم و فضل، زہد و تقویٰ جیسی لازوال نعمت سے سرفراز فرمایاتھا۔
آپ کے اندر ہمت و جواں مردی، بے باکی و جرأت مندی اور راہ خدا میں مر مٹنے کا جذبہ بدرجہ اتم موجود تھا۔اعداےدین
اور مخالفین اسلام کے باطل عقائد و نظریات کی جس قدر آپ نے تردید فرمائی یہ آپ ہی کا حصہ ہے۔یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ آج ہمارے دلوں میں ایمان کا جو شمع فروزاں ہے یہ آپ ہی کی کد وکاوش اور محنت شاقہ کا ثمرہ ہے۔

ابر رحمت ان کے مرقد پر گہر باری کرے
حشر تک شان کریمی ناز برداری کرے

یوں تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو بے مثل و مثال عقل ودانائی،فہم و فراست،ذہانت و فطانت عطا فرمایا تھابایں وجہ آپ نے اس قلیل مدت حیات میں بے شمار علوم و فنون میں مہارت تامہ حاصل کر کے دین متین کے شجر طوبی کی خوب آبیاری فرمائی اور پژمردہ دلوں کو علوم و معارف سے خوب سیراب فرمایا۔یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ آپ کے طفیل لا محدود افراد کو رب تعالیٰ کی حقیقی معرفت اور رسول گرامی وقار صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی سچی عقیدت و محبت نصیب ہوئی۔

چوں کہ رب تعالیٰ نے آپ کو حقائق و معارف کا گنجینہ اورعلوم و فنون کا بحر ناپید کنار بنایا تھا اس لیے دیگر ذمہ داریوں کے بار گراں کے باوجود بھی آپ کے نوک قلم سےمتعدد علوم و فنون میں بے شمار کتابیں معرض وجود میں آئیں
جو جامعیت و معنویت میں اپنی مثال آپ ہیں۔
لیکن آپ کی کتب تراجم میں جس کو غیر معمولی شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی وہ آپ کاعلمی شاہکار کنزالایمان فی ترجمۃ القرآن ہے۔
طرز ترجمہ نگاری اس قدر عمدہ اور شائستہ کہ تمام اردو تراجم قرآن سامنے رکھ لیں اور اعلی حضرت کے ترجمہ کے ساتھ تقابلی مطالعہ کریں توآپ کودو نوں کے مابین واضح فرق و امتیاز نظر آئے گا۔
آپ کا ترجمہ لغوی و معنوی،ادبی اور علمی کمالات کا جامع ترین مرقع ہے جو آپ کی عربیت اور قرآن فہمی کا غماز ہے۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان نے قرآن پاک کا ایسا ترجمہ کیاکہ جس سے ایک طرف انبیاء عظام کی عظمت و رفعت اور جاہ و حشمت منکشف ہوتی ہے تو دوسری طرف معرفت الہی اور محبت رسول کا حقیقی سراغ ملتا ہے۔ذیل میں کنز الایمان کے بعض خصائص و امتیازات قلم بند کیے جا رہے ہیں بعدہ چند آیات کریمہ کا تقابلی جائزہ پیش کیا جائے گا ۔

(١) یہ ترجمہ لفظی ہے اور با محاورہ بھی گویا یہ لفظ و محاورہ کا حسین امتزاج ہے جو دیگر تراجم سے ممتاز و فائق کرتا ہے۔
(٢) اس میں الفاظ کے متعدد معانی میں سے انہیں معنی کا انتخاب کیا گیا ہے جو آیات کے سیاق و سباق کے اعتبار سے موضوع ترین ہیں ۔

(٣)اس ترجمہ سے قرآنی حقائق و معارف کے وہ اسرار و رموز منکشفت ہوتے ہیں کہ دیگر تراجم میں ان باتوں کی بو بھی نہیں ملتی۔
(٤) یہ ترجمہ سلیس،شگفتہ اور روانی کا حسین سنگم ہے ۔واضح رہے کہ اصل متن کی روح کی بقا کے ساتھ روانی کوئی آسان کام نہیں بلکہ یہ بہت مشکل امر ہے لیکن یہ اعلیٰ حضرت کا تبحر علمی ہے کہ آپ نے روانی اور روح متن کو یکجا فرماکر دونوں میں قلبی لگاؤ پیدا فرما دیا۔

(٥) ترجمہ کنز الایمان کی نمایاں خصوصیت یہ بھی ہے کہ ترجمہ میں اس پہلو اور گوشے پر خوب زور دیاگیا ہے کہ کہیں ترجمہ سے شان الوہیت و رسالت کی تنقیص، عصمت انبیاء کی توہین یا ادب پیغمبراں کی تذلیل نہ ہورہی ہو اور یہ ایسا وصف ہے جو دیگر تمام تراجم قرآن سے ممتاز و منفرد کرتا ہے کیونکہ کہ بہت سے مترجمین کے قدم اس مقام پر آکر پھسل گئے اور نتیجتاً وہ ضلالت و گمرہی کے قعر عمیق میں غوطہ زن ہوگئے۔

(٦)آیات کے تراجم میں ربط و ضبط اور ارتباط و انسلاک اس کا خاص وصف ہے۔
(٧)کنز الایمان میں روز مرہ کے الفاظ کا استعمال اس کےمحاسن میں چار چاند لگا دیتا ہے۔
(٨)سوقیانہ اور بازاری الفاظ یعنی رکیک اور مبتذل الفاظ کے استعمال سے اجتناب کیا گیا ہے تاکہ معیار ترجمہ تنزلی کا شکار نہ ہو۔
(٩)سہل ممتنع اس کی عظمت کی بلندی اور اعلیٰ حضرت کی قرآن فہمی کے لیے کافی ہے کیوں کہ کنز الایمان کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ ہر قاری اور ناظرین کو پڑھنے اور دیکھنے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں بھی ایسا کر سکتا ہوں لیکن کرنا چاہیں تو نہ کر سکیں،اور تاریخ شاہد ہے کہ اب تک ایسا ترجمہ کوئی نہ کر سکا۔یہ قرآن کا اعجاز اور کرامت اعلی حضرت ہے۔
(١٠) یہ ترجمہ قرآن سادہ، سلیس اور با محاورہ ہونے کے ساتھ ساتھ متقدمین و متاخرین مفسرین کی تفسیرات و توضیحات کے عین مطابق ہے۔
اس تعلق سے مشہور اسلامی اسکالر حضرت علامہ عبد الحکیم شرف قادری رقم طراز ہیں:
"انہوں نے قرآن کریم کا بہت گہری نظر سے مطالعہ کیا تھا قرآن فہمی کے لیے جن علوم کی ضرورت ہوتی ہے ان پر انہیں گہرا عبور حاصل تھا ۔شان نزول، ناسخ و منسوخ، تفسیر بالحدیث، تفسیر صحابہ و استنباط احکام کا اصول سے پوری طرح با خبر تھے۔یہی سبب ہے کہ اگر قرآن پاک کے مختلف تراجم کو سامنے رکھ کر مطالعہ کیا جائے تو ہر انصاف پسند کو یہ تسلیم کرنا پڑےگا کہ امام احمد رضا کا ترجمہ ” کنز الایمان” سب سے بہتر ترجمہ ہے جس میں شان الوہیت کا احترام بھی ملحوظ اور عظمت نبوت و رسالت کا تقدس بھی پیش نظر ہے”
یہی وجہ ہے کہ دنیا کے غیر جانب دار، وسیع النظر اہل علم و ارباب فکر نے نہ کنز الایمان کو دیگر تراجم قرآن پر نہ صرف فوقیت دی بلکہ اسے عشق و ادب کے اعتبار سے بھی نہایت محتاط ترجمہ قرآن کی سند عطا فرمائی۔
بطور دلائل و شواہدچند نمونے ہدیہ قارئین ہیں اگر اہل علم و بصیرت چشمان عدل و انصاف سے مطالعہ کریں گے تو یقیناً کنز الایمان کے ترجمے کی اہمیت وواقعیت،انفرادیت و خصوصیت ان کے ذہن و فکر کوصحیح سمت پر گامزن کریں گی۔

(١)وَمَكَروا وَمَكَرَ اللَّهُ ۖ وَاللَّهُ خَيرُ الماكِرينَ۔
(سورہ آل عمران:١٥٤)
مولانا محمود الحسن دیوبندی نے لکھا:
"اور مکر کیا ان کافروں نے اور مکر کیا اللہ نے اور اللہ کا مکر سب سے بڑھ کر”

مولانا وحید الزماں نےترجمہ کیا:
"اور وہ اپنا داؤں کر رہے تھے اور اللہ اپنا داؤں کر رہا تھا اور اللہ سب داؤں کرنے والوں میں بہت داؤں کرنے والا ہے”۔
آپ غوروفکر کے سمندر میں غوطہ زن ہوکر سوچیں کہ ایک سلیم الطبع اور زندہ ضمیر مومن اللہ کی شان اقدس میں داؤں چلنے اور مکر جیسے الفاظ کا استعمال نہیں کر سکتا جن سے شان الوہیت کی تنقیص ہوتی ہے، نعوذ باللہ من ذلک۔
اب ذرا اسی تناظر میں اعلیٰ حضرت کا ایمان تیور ملاحظہ فرمائیے ۔
"ان کافروں نے مکر کیا اور اللہ نے ان کی ہلاکت کی خفیہ تدبیر فرمائی اور اللہ بہتر تدبیر فرمانے والا ہے۔(کنز الایمان)

(٢)اَللّٰهُ یَسْتَهْزِئُ بِهِمْ
(البقرۃ:١٥)
(مولانا محمود الحسن دیوبندی نے لکھا:
” اللہ ان سے ہنسی کرتا ہے”

مولانا وحید الزماں نے لکھا:
"اللہ ان سے دل لگی کرتا ہے”

فتح محمد خاں جالندھری نے لکھا:
"ان منافقوں سے اللہ ہنسی کرتا ہے”۔
مگر اعلیٰ حضرت کی ترجمہ نگاری کا یہ حسین منظر ملاحظہ فرمائیں ۔
اللہ ان سے استہزا فرماتا ہےجیسا اس کی شان کے لائق ہے۔(کنز الایمان)

(٣)مَا كُنتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ۔(الشوریٰ:٥٢)
(مولانا محمود الحسن دیوبندی نے کہا:
اے نبی! تو نہ جانتا تھا کہ کیا ہے کتاب اور کیا ہے ایمان ۔

اشرف علی تھانوی نے لکھا:
"آپ کو نہ یہ خبر تھی کہ کتا کیا چیز ہے اور نہ یہ کہ ایمان کیا چیز ہے”۔
(فتح محمد خاں جالندھری نے لکھا:
"تم نہ کتاب کو جانتے تھے نہ ایمان کو”
ان تمام تراجم سے نبی کے علم اکمل کی تنقیص ہو رہی ہے جو اہل علم سے مخفی نہیں لیکن جب سرکار اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ نے اس آیت کے ترجمے پر قلم فرسائی کی تو اپنے محتاط قلم کو اس سنگلاخ وادی سے جس پاکیزگی اور عمدگی کے ساتھ عبور کیا کہ قلم بلا لغزش و تزلزل کے منزل ایمان کی پا بوس کرتا نظر آتا ہے ۔آپ ترجمہ یوں کرتے ہیں: "اس سے پہلے تم نہ کتاب جانتے تھے اور نہ احکام شرع کی تفصیل”(کنز الایمان)

(٤)قَالُواْ تَٱللَّهِ إِنَّكَ لَفِى ضَلَٰلِكَ ٱلْقَدِيمِ(يوسف – 95)

مولانا محمود الحسن دیوبندی نےکھا:
"لوگ بولے قسم اللہ کی تو تو اسی قدیم غلطی میں ہے”۔

مولوی اشرف علی تھانوی نے لکھا:
"وہ(پاس والے) کہنے لگے کہ بخدا آپ تو اپنے اسی پرانے غلط خیال میں مبتلا ہیں۔

ان ترجمے سے انبیائے عظام کے لیے غلطیوں کا ثبوت ہو رہا ہے معاذاللہ رب العالمین جب کہ یہ مسئلہ مسلم الثبوت ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام کی ذات مبارکہ جملہ عیوب و نقائص سے پاک اور منزہ ہیں۔
اب اعلی حضرت کا ایمانی قلم کا تیور ملاحظہ فرمائیے،آپ ترجمہ کرتے ہیں:
"بیٹے بولے خدا کی قسم! آپ اپنی اسی پرانی خود رفتگی میں ہیں”
اس ترجمہ میں جہاں ایک طرف ادبی محاسن کی جلوہ نمائی ہے تو دوسری طرف محبت و شیفتگی کے جذبات کا اظہار ہے۔

واضح رہے کہ ان جیسی سیکڑوں آیات کریمہ ہیں جن کا غیر عقائد و نظریات کے حاملین نے غلط سلط ترجمہ کر کے ضلالت و گمرہی کے دلدل میں پھنس کر جہنم میں اپنی جاگیر قائم کی تو دوسری جانب اعلیٰ حضرت نے ان کا صحیح اور موزوں ترجمہ کرکے اہل ایمان کے دلوں میں عشق رسول کا شمع فروزاں کیا اور بے شمار گم گشتگان راہ کو صراط مستقیم پر قائم فرمایا۔
رب تعالیٰ ہمیں فیضان اعلیٰ سے مالامال فرمائے اور ان کے علم و فضل کا سچا وارث بنائے۔آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین علیہ الصلاۃ و التسليم

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے