خانوادۂ رضا گوشہ خواتین

اعلیٰ حضرت کی زندگی دین اسلام کی تبلیغ میں گزری ہے

شائستہ ماریہ خان، پورنپور پیلی بھیت

اس دنیا میں جن بزرگان دین نے اپنے علم و عمل سے ہدایت کے چراغ کو پورے عالم میں روشن کیا ان میں سے کچھ ایسی عظیم ہستیاں ہیں جنہیں دنیا کبھی انکے علمی امور سے یاد کرتی ہے تو کبھی تبلیغی خدمات کی حیثیت سے۔ان حضرات نے اپنے علم و عمل اور تقوی و پرہیزگاری سے اسلام کی تعلیمات کو عام کیا.
انہیں میں سے ایک اعلی شخصیت جن کو دنیا جامع علوم و فنون، عالم جمیل و جلیل ،عالم با عمل، امام الائمہ، شاہ ملک سخن امام اہلسنت عظیم العلم ،موئید ملت طاہرہ مجدد ملت سیدی سرکار امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی رضی اللہ عنہ کے نام سے جانتی ہے
نام و نسب: آپکا تاریخی نام "المختار” ہے اور آپکا اسم گرامی "محمد” ہے اور آپ کے جد امجد آپ کو احمد رضا کہہ کر پکارا کرتے اور آپ اسی نام سے مشہور ہوۓ. آپکا سلسلہ نسب افغانستان کے مشہور و معروف قبیلہ بڑہیچ سے ہے
اعلیحضرت فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے وہ کارہاۓ نمایاں انجام دیۓ کہ جس کی مثال نہیں ملتی یہی وجہ ہے کہ آپکو چودھویں صدی کا مجدد قرار دیا گیا۔اگر ہم اعلی حضرت علیہ الرحمہ کی بے مثال علمی خدمات کو ان کی 65 سالہ زندگی پر تقسیم کریں تو ہر 5 گھنٹے میں اعلیٰ حضرت اس امت کو ایک کتاب دیتے ہوئے نظر آۓ ہیں ۔ بلا شبہ یہ وہ خدمات ہیں جو کوئ ادارہ اور انسٹیٹیوٹ ہی کر سکتا ہے جیسے میرے امام نے اکیلے بنا وقت کو لیۓ ہوۓ کر دکھایا
احمد رضا خان کا تعلق پٹھانوں کے قبیلہ بڑیچ سے ہے احمد رضا خان کے جد اعلیٰ سعید اللہ خاں قندھار کے پٹھان تھے سلطنت مغلیہ کے عہد میں محمد شاہ کے ہمراہ ہندوستان آۓ اور بڑے عہدوں پر فائز رہے. لاہور کا شیش محل انہیں کے زیر اقتدار تھا . احمد رضا خان کو مغل بادشاہ نے شش ہزاری کے مصنف سے سرفراز کیا اور شجاعت جنگ کا خطاب دیا۔احمد رضا خان نے زندگی بھر دینی تعلیم کی تدریس کی۔۔

اعلی حضرت کی کرامت……
حضرت علامہ مولانا مفتی امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی رحمۃ اللہ علیہ خود اپنی مشہور کتاب (الدولۃ المکیۃ) کے حاشئے (انبیاء الحی) میں لکھتے ہیں ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ فجر کی نماز کے لیے آخری وقت میں اٹھ پایا۔احتلام ہوا تھا . پہلے نجاست کو پاک کیا،آرام سے استنجاء کیا ۔مسواک اور خلال کیا تب تک غسل خانے میں پانی رکھ دیا گیا۔غسل خانے میں داخل ہونے سے پہلے جیب سے گھڑی نکال کر دیکھی تو سورج طلوع ہونے میں دس منٹ کا ٹائم تھا گھڑی زمین پر رکھ دی اور دعا پڑھ کے غسل خانے میں داخل ہوگئے۔سردی کا زمانہ تھا،اک اک کرکے کپڑے اتارے ،نہاتے وقت یہ بات ذہن سے بالکل نکل گئ کہ وقت بہت کم ہے،اعضائے وضو کو اچھے طریقے سے تین تین بار دھوئے پورے اطمینان سے نہایا ۔پھر سر کے بالوں کو تولیہ اسے اچھی طرح پونچھ کر خشک کیا غسل خانے سے جیسے ہی باہر نکلا، سامنے زمین پر گھڑی رکھی تھی اسے دیکھ کر اچانک وقت کی قلت کا خیال آیا دل میں سوچنے لگا کہ شاید نماز قضا ہوگئی ہے لیکن گھڑی دیکھ کر حیران رہ گیا اس میں طلوع آفتاب کو اب بھی دس منٹ باقی تھے، وقت ایک سیکنڈ بھی زیادہ نہ ہوا تھا افق کی طرف نظر پڑی تو زبان حال سے کہہ رہا تھا کہ وقت ابھی باقی ہے،صرف فرض نہیں بلکہ سنتوں کی بھی گنجائش باقی ہے
نماز سے فراغت کے بعد اپنی جیبی گھڑی کو دوسری عمدہ گھڑیوں سے ملایا تو وقت سب میں یکساں تھا بالفرض اگر میری جیبی گھڑی بند ہو گئی تھی تو وقت میں ضرور فرق ہوتا اس بات پر اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس نے فقیر (امام احمد رضا خان) کے لیے ایک سیکنڈ سے کم کے زمانے کو اتنا لمبا کر دیا کہ اس لمحہ بھر میں اتنے کام ہوگۓ جو دس منٹ میں بھی ممکن نہ تھے
انہیں سرکار دو عالم کا زندہ معجزہ کہیۓ
وہ رب کی آیتوں سے اک عظیم الشان آیت ہے!!

امام احمد رضا اک ایسی اعلی شخصیت ہے جس نے ان کی نسبت پالی وہ اپنے زمانے کا چمکتا ہوا تارہ بن گیا کوئ امام احمد رضا کے دامن سے وابستہ ہوگیا تو صدر الشریعہ بن گیا تو کوئ مفتی اعظم بن گیا جس نے جتنا دامن پھیلایا بس نے اتنا فیض پایا کوئ محدث اعظم بن کر فیض حاصل کرتے ہوئے نظر آیا وہیں کوئ مفتی اعظم بن کر دامن بھرتا ہوا نظر آیا تو کوئی صدر الشریعہ بن کر فیض حاصل کرتے ہوئے نظر آیا۔۔
چراغ علم دیں کیوں کر نہ ہو تجھ سے بھلا روشن
ہے تجھ پر گلشن زہرا عنایت اعلی حضرت کی!!

۔یقین جانیں آپ بریلی میں داخل ہوتے ہی دل میں اک کیفیت پیدا ہو جاتی ہے جسکو ہم خوشی اور مسرت کا نام دیتے ہیں بریلی کی ہر گلی ہر کونے میں امام کا فیض پہنچتا ہے بریلی کے کسی گوشے کسی کونے میں چلے جاؤ قلبی سکون ضرور چاصل ہوگا
کتنا چمکا ہوا ہے بریلی کا چاند
گنبد اعلی حضرت پہ لاکھوں سلام

امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے ہر لمحہ دور اپنے جملہ امور عشق رسول میں کیۓ اگر آپ نے کسی سے دشمنی کی تو نبی کی محبت میں کی ۔میرے رضا نے اگر روزہ رکھا تو عشق رسول میں، اگر نماز ‌ادا کی تو عشق رسول میں، اگر قلم اٹھایا تو عشق رسول میں،اگر فتویٰ لکھا تو عشق رسول میں، کنزالایمان تیار کیا تو عشق رسولمیں،خانۂ کعبہ کا حج یہاں تک کہ کعبہ کی زیارت بھی عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں کیا
"غور سے سن تو رضا کعبہ سے آتی ہے صدا
میری آنکھوں سے میرے پیارے کا روضہ دیکھو!!

جب جب میرے رضا نے اپنا قلم اٹھایا تب ،تب نجدیوں کے گردنوں کو جھکایا
جب میرے رضا نے اپنا ہتھیار اٹھایا تو کنزل الایمان ‌تیار کیا ،جب انہوں نے اپنے قلم کو چلایا تب فتاویٰ رضویہ کا وجود ہوا جب انہوںنے عشق رسول میں اپنا قلم اٹھایا تو الدولۃ المکیۃ لکھا ہے
"قلم میں ایسی دھار ہے، علی کی ذوالفقار ہے.
میرے رسول پاک کے ہیں بے شمار معجزے!
غضب میں موسوی عصا،میرا رضا،میرا رضا
انہیں میں ایک معجزہ،میرا رضا،میرا رضا!!!!!

شاعر کہتا ہے…..
جب قلم تونے اٹھایا اے امام احمد رضا
فیض کا دریا بہایا اے امام احمد رضا!!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے