تحریر: مشتاق نوری
فاضل بریلوی کے ۱۰۳؍ویں عرس کا موسم ہے۔یہ موسم اہل اسلام کے ہر گروہ کو مبارک ہو۔خصوصا اہلسنت کو۔ان کے عرس کا معیار بناۓ رکھنا اسے فلاح و صلاح کا ضامن بنانا اور بطور ملی پلیٹ فارم متعارف کرانا وفاداران رضویت کی اولین ذمہ داری ہے۔اسی لیے آج چند معروضات و نئے تجربات آپ سے بانٹنے کی جسارت کر رہا ہوں امید کہ خامے کی خیر ہو۔
آج صبح ثالثہ کے بچوں کو اصول الشاشی پڑھانے کے دوران ایک بونے قد کا لڑکا گھر سے سامان کے ساتھ پہنچ گیا۔علیک سلیک کے بعد پانچ منٹ کی گفتگو سے ہی پتا چلا کہ اس کا پہلا اور آخری مقصد صرف اناؤنسر بننا ہے۔دیکھنے میں معروف ناظمِ اجلاس ہلچل سیوانی کی یاد دلاتا ہے۔اتفاق دیکھیے کہ نیپال کا ایک اور لڑکا ابتدائی جماعت میں پڑھتا ہے اس کا بھی نام باپ نے "ہلچل سیوانی” رکھا ہے۔یہاں تک کہ اس کی نیپالی آئی ڈی میں ہو بہو یہی نام درج ہے۔آپ سوچیے کہ اس کا باپ بونے قد کے ایک جوکرنما اناؤنسر سے کس قدر متأثر ہوا ہوگا کہ اس نے اپنے بیٹے کو پورا نام اسی کا دے دیا۔یہ اچانک نہیں ہوا۔ہم نے اس ماحول کے لیے برسوں پاپڑ بیلے ہیں۔اس کے لیے مذہبی حلقہ ہی زمہ دار ہے۔ہم نے جلسہ جلوس کا ماحول ایسا بنا دیا ہے کہ عام عوام انہی بازارو خطبا شعرا کو اپنا عالم و کامل آئیڈیل سمجھتی ہے۔
میں نے اس بچے کو سمجھا بجھا کر کہا کہ تمہیں اگر ہلچل سیوانی اتنا ہی پسند ہے تو کم سے سیوانی کی جگہ نیپالی کر لو۔خیر سے اس نے بات رکھ لی۔یہ تلخ تو ہے مگر سچ ہے کہ اسٹیج ہولڈر جوکروں سے ہماری مجلسیں آباد ہیں۔اب تو مارکٹ میں نئے نئے نمونے آگیے ہیں۔اس مارکٹ میں ایک مہا جوکر اناؤنسر انٹری مار چکا ہے۔غالبا بنارس کا ہے زاہد رضا نام کا۔بنا اچھلے کودے اس کی نظامت ہوہی نہیں پاتی۔مجھ سے تو نہ اس کی نظامت سنی جاتی ہے نہ دیکھی جاتی ہے۔جب ہمارا واسطہ ایسے لوگوں سے پڑتا ہے تو ہم ہنس کر نکل جاتے ہیں جب کہ دین و مسلک کے لیے یہ بہت بڑی ٹریجڈی ہے۔
کیا ہمارے مفکرین و ماہرین رضویات یہ بھول گئے کہ حلقۂ دیوبند کی طرف سے یہ جملے کئی بار اچھالے گیے کہ جب بریلویوں کے جلسوں میں سامعین گھٹنے لگے تو انہوں نے بھیڑ جمع کرنے کے لیے بونے قد کے جوکروں کو اتار دیا۔اس الزام کو سرے سے نکارا بھی نہیں جا سکتا تھا کہ آج نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ لوگ اب یہ کہتے ہیں کہ کوئی لطیفے باز خطیب بلائیں۔ایسا اناؤنسر مدعو کریں جو مجلس کو قہقہہ زار کر دے۔سوشل میڈیا کے اس دور میں اہلسنت کے ممبروں سے جس طرح کی ہلڑ بازی ہوتی ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔مجھے آج لڑکوں نے بتایا کہ کسی مقرر کا بے ہنگم انداز دیکھنا ہو تو یوٹیوب پر "بریلوی کامیڈی لکھ کر سرچ کریں۔سارے کامیڈی ویڈیوز اجائیں گے۔دل پہ ہاتھ رکھ کر سوچیں کہ ان خطبا کی جہالت ناک من مانی نے ہمیں کہاں پہنچا دیا ہے۔اور تماشا تو یہ کہ یہ لطیفے باز سمجھتے ہیں کہ وہ مسلک اعلی حضرت کے پروموٹر ہیں۔
فاضل بریلوی کی سینکڑوں کتب و رسائل اس بات کا واضح اشاریہ ہیں کہ ایک ڈیرھ صدی قبل کے اس مجدد کا تعلق وعظ و خطابت کی بنسبت کتاب و قلم سے زیادہ گہرا رہا۔آپ نے زندگی کے اہم ترین لمحات کو نذر دین کر کے خامۂ سیال کو عشق سرمدی کا پہرے دار بناۓ رکھنے میں عاقبت کی خیر سمجھی۔یہی سبب ہے کہ فقہ و افتا سے لے کر شعر گوئی تک آپ نے ایک جہانِ خوش رنگ قائم کر دیا ہے۔ایک ایسی دنیا جہاں ناقلین و مفتیان کو تحقیق و تمحیص کا سارا التزام بدرجۂ اتم ملتا ہے تو وہیں ناقدین ادب و شناسان سخن آپ کے فنی کمال،ادبی جمال دیکھ کر دانتوں تلے انگلیاں دبا لیتے ہیں۔ایک ایسا شخص جو بیک وقت مفتی و فقیہ بھی ہو۔الجبرا،لوگارثم، جفر،تکسیر و توقیت کے لاینحل مسائل بھی حل کرے وہی شخص شاعری کرنے بیٹھے تو ادبی جولانی و فنی رنگ آفرینی سے نعتیہ ادب کا ایک نیا باب کھل جاۓ۔
جب میں نے ۲۰۰۱ میں پہلی بار مدرسے کا رخ کیا تو مجھ جیسے درجنوں بچے ایسے تھے جنہوں نے یہ جانا کہ مدارس میں کسی کے نام کا پروگرام مس ہو جاۓ تو ہو جاۓ، پر اعلی حضرت کا عرس بہر حال منایا جانا ہے۔اور یہ برا بھی نہیں ہے۔آج جب ہم مدارس کی خاک چھان کر جامعات کے در و بام نہارتے ہوۓ تقریبا بیس سال کا ایک طویل عرصہ گزار آۓ تو اب لگتا ہے کہ فاضل بریلوی کے مشن "عشق رسالت مأب” کا ایک ادنی پیادہ ہونے کے ناطے نیزۂ سخن سے وہ باتیں لکھ دی جائیں جو شاید کسی کاروان شوق کو منزل تک پہنچنے میں ممد و معاون ثابت ہوں۔
مانا جاتا ہے کہ خوش گلوئی بھی ایک نعمت ہے اور اللہ نے مجھے بھی اس نعمت سے نواز رکھا تھا۔سو دوران طالب علمی میں ہم اکثر سنتے تھے، اونچے درجے والے کہتے بھی تھے کہ اگر تم کو بڑا شاعر(ماڈرن نوٹ کمانے والے نعت خواں) بننا ہے تو بریلی شریف کے اسٹیج پر پڑھنا ہوگا۔(اور بھی ایک دو اسٹیج کا نام لیتے تھے)اور یہ بات آج بھی اتنے ہی وثوق و یقین کے ساتھ کہی جاتی ہے۔سب کو خبر ہے کہ وہاں سے شہرت ملتی ہے تب مجھے بھی بڑا اچھا گمان ہوتا تھا۔مگر آج جب شعور نے آنکھیں کھولی ہیں تو لگتا ہے کہ یہ خیال تو سراسر غلط ہے۔
غلط اس لیے کہ صدی کے ایک مجدد کا عرس ہو اور وہاں سے فکر و تدبیر کی کوئی بات ہونے کے بجاۓ نعت خوانوں، منقبت تراشوں کی صرف ہلڑ بازیاں ہوں۔وہ فاضل بریلوی کے نام سے معنون اسٹیج ہے وہاں سے خطیب کا ایک ایک جملہ نپا تلا ہونا چاہیے۔وہ منبر، اعلی حضرت کی ذات سے منسوب ہے وہاں قوم کی عظمت رفتہ کے اسباب اور مستقبل سازی پر غور و خوض ہونا چاہیے۔مگر ان مفاد پرستوں نے فاضل بریلوی کو بھی نہیں بخشا۔اب وہاں ایک خطیب بھی جاتا ہے تو پانچ سات منٹ کی جذباتی الٹی سیدھی تقریر رٹ کر جاتا ہے تاکہ خطابی گھنگرج سے سامعین مسحور و مبہوت ہوجائیں۔وہاں سے پروگرام کا سفر شروع ہو۔مارکٹ میں ہماری مانگ بڑھے۔ریٹ اچھا ملے۔بس اتنی سوچ رہتی ہے۔
اعلی حضرت کے منبر کا معیار اتنا گرایا جاۓ گا کم سے کم میں نے تو نہیں سوچا تھا۔اعلی حضرت کو تو یہ لوگ خوب مانتے ہیں ان کے نعرے سننے کے بعد لگے گا کہ زمین پر یہی دو چار وارفتۂ اعلی حضرت بچے ہیں باقی سب تو بلبلے ہیں مگر معاملہ برعکس ہے۔یہ لوگ ان کو تو مانتے ہیں مگر ان کی نہیں مانتے۔انہیں کمانے کا ذریعہ بنا کر چلتے ہیں اور بس۔
اعلی حضرت سے سوال ہوا کہ
زید نے اپنے پانچ روپے فیس مولود شریف کی پڑھوائی کے مقرر کر رکھے ہیں، بغیر پانچ روپیہ فیس کے کسی کے یہاں جاتا نہیں۔آپ نے جواباً ارشاد فرمایا: زید نے جو اپنی مجلس خوانی خصوصاً راگ سے پڑھنے کی اُجرت مقرر کر رکھی ہے ناجائز و حرام ہے، اسکا لینا اسے ہرگز جائز نہیں، اسکا کھانا صراحۃً حرام کھانا ہے۔ اس پر واجب ہے کہ جن جن سے فیس لی ہے یاد کر کے سب کو واپس دے، وہ نہ لے رہے ہوں تو ان کے وارثوں کو پھیرے، پتا نہ چلے تو اتنا مال فقیروں پر تصدق کرے اور آئندہ اس حرام خوری سے توبہ کرے تو گناہ سے پاک ہو(فتاویٰ رضویہ ج۱۹، ص۴۸۶)
کیا مجھے کوئی بتاۓ گا کہ آج ہم نے آپ کے اس فتوے کو صرف کتاب تک ہی کیوں محسور و محدود کر رکھا ہے؟کیا اس پر عمل کرنا متروکات شرع میں داخل ہوچکا ہے؟فاضل بریلوی کا یہ ارشاد اتنا سہل ہے کہ ایک "تعمیر ادب خواں” شاعر اور "سچی حکایات” سے کسب و اخذ کرنے والا خطیب بھی سمجھ جاۓ گا کہ شرع کا کیا حکم ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ ہم اسے سمجھنا کب چاہتے ہیں۔ورنہ پھر کیا آج اسی اسٹیج سے جلسہ جلوسی طبقے کو آفت سے بچانے کے لیے فقیہان بریلی کو فیس کے عدم جواز کا فتوی کالعدم نہیں کر دینا چاہیے؟ فیس والے علما و خطبا کو بچانے کے لیے فتوے کی حیثیت کو منسوخ کرنا ہی ایک راستہ رہ گیا ہے۔آج کل ایک اور نئی بدعت چل پڑی ہے کہ چہلم اور شادی کی مختصر سی مجلسوں کے لیے بھی لوگ ۲۰ سے ۲۵ ہزار کے شاعر مدعو کر کے فخر محسوس کرتے ہیں۔جب انہیں کہ دیا جاۓ کہ میری فلاں کتاب کی طباعت و اشاعت میں دو چار ہزار دے کر ثواب جاریہ کریں تو بغلیں جھانکنے لگتے ہیں۔یہی سبب ہے کہ آج ہر بچہ نعت خواں و ناظم تو بننا چاہتا ہے مدرس و مصنف نہیں۔اسی لیے یہاں چند معروضات پیش کرتے ہیں شاید کہ اتر جائے ترے دل میں میری بات۔
(1)سب سے پہلے جامعہ الرضا میں مختلف ماہرین علوم و فنون کا ایک فعال بورڈ کا قیام عمل میں لایا جائے جو یہ کلیئر کرے کہ کون کس قابلیت کا ہے۔پھر اسی حساب سے اعزازات دیئے جائیں۔
(2)منبر اعلی حضرت خالص فکر و تدبیر کانفرنس کے لیے استعمال ہو اور باشعور و عصری حسیات کا درک رکھنے والے علما ہی خطاب کے مجاز ہوں۔
(3)عرس کے موقعے سے ذمہ دار علما و دانشوران کی قومی و بین الاقوامی حالات پر تبادلۂ خیالات کے لیے ایک خاص نششت منعقد ہو۔
(4)بے نکیل خطبا و نعت خوانوں پر نکیل ڈالنے کے لیے اعلان نامہ جاری ہو۔
(5)تصنیف و تالیف میں نمایاں خدمات انجام دینے والے کو اکرامات سے نوازا جاۓ۔
(6)سال بھر جن کی فقہی خدمات زیادہ رہی انہیں ایوارڈ اور توصیفی سند دی جاۓ۔
(7)عربی ،فارسی، اردو، ہندی و انگلش ادبیات میں نمایاں رہنے والوں کو اکرامات و اعزازات سے نوازا جانا چاہیے۔
(8)صحافت کے شعبے میں بہتر کارکردگی پیش کرنے والے کم از کم دو تین کو خاطر خواہ سراہا جانا چاہیے۔
(9)ملک کے مختلف حصوں میں کام کر رہے ۵۰ باصلاحیت علما کو کچھ نہ کچھ وظیفہ دے کر ان کی صلاحیت کو مہمیز کرنا چاہیے۔
(10)فاضل بریلوی کے دس نکاتی پروگرام کو نافذ العمل بنانے کے لیے موثر پیش رفت کی جانی چاہیے۔
(11)کم سے کم دس ذہین و فطین طلبہ کے لیے جامعہ کیمپس میں UPSC کی تیاری کا انتظام ہونا چاہیے۔
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زر خیز ہے ساقی
مشتاق نوری
۳؍اکتوبر ۲۰۲۱ء