تحریر: شہادت حسین فیضی، کوڈرما جھارکھنڈ
اسلام کے مقابلے میں مذہبی طور پر دنیا میں یہ تین طرح کے مذاہب ہیں:(١) یہود (٢)نصاریٰ (٣)مشرکین۔ حالانکہ اب یہودو نصاریٰ بھی مشرک ہو گئے ہیں۔ کہ اب ان کے عقائد بھی مشرکانہ ہیں۔ جبکہ پہلے یہ لوگ بھی توحید و رسالت پر ایمان لانے والوں کو ہی اپنا سمجھتے تھے اور باقی لوگوں کو وہ لوگ بھی وہی سمجھتے تھے جو آج مسلمان سمجھتے ہیں اور توحیدو رسالت پر ان کا عقیدہ بھی وہی تھا جو آج امت محمدیہ کا ہے۔
*ہمیں سمجھنا یہ ہے کہ عقائد و اعمال میں فساد کیسے پیدا ہوا؟ اس کے محرکات کیا تھے؟ اور اسلام نے اس کے سد باب اور اس میں اصلاح کے لیے کس طرح کی کوششیں کی ہیں؟
بنیادی طور پر تین طرح کی خرابیاں عقائد میں پیدا ہوئیں اور تین ہی طرح کی خرابیاں معاملات میں بھی پیدا ہوئیں۔ یہ چھ بنیادی خرابیاں ہیں۔ پھر ان کے ہزاروں ذیلی اقسام ہو سکتے ہیں لیکن میں یہاں صرف ان میں سے چھ بنیادی اور حقیقی خرابیوں پر روشنی ڈالنے کی کوشش کروں گا اور پھر اس پر اسلام کا کیا رد عمل رہا اور اس کے کیا نتائج برآمد ہوے اس کی نشاندہی کروں گا۔ ان شاء اللہ تعالی۔
عقائد میں در آئی تین خرابیاں
(1) بت پرستی (2) توہم پرستی(3) مظاہر قدرت کی پرستش۔
پہلی خرابی:
عقائد میں بت پرستی کی شمولیت جن کے تین اسباب ہیں:
(الف) شخصیت پرستی
اس تعلق سے قرآن مقدس میں حضرت نوح علیہ السلام کے بارے میں ذکر ہے کہ ان کے شجرۂ نسب میں چار لوگ بہت ہی معزز گزرے تھے۔ جن کا نام ود، سواع،یعوق اور نسر ہے۔ پہلے لوگوں نے انہیں یاد رکھنے کے لیے ان کا مجسمہ بنایا،پھر ان مجسموں کی تعظیم کرنے لگے اور کچھ دنوں کے بعد ان کی پرستش شروع کر دی۔ اس طرح دنیا میں بت پرستی کی ابتدا ہوئی جو شرک عظیم ہے اور اللہ تعالی شرک کو معاف نہیں فرماتاہے۔ اس کے سد باب کے لیے اسلام نے مجسّمہ سازی اور یاد گاری تصویر سازی کو حرام قرار دیا تاکہ شرک عظیم سے ہم بچ سکیں۔
(ب) مطلق العنانی
دنیا کے حکمراں اور خودسر لوگوں میں دو بہت بڑی برائی پیدا ہو گئی تھی۔ پہلی یہ کہ وہ خود کو بطور خدا پیش کرنے لگے۔ رعایا ان کو سجدہ کرتی تھی اور اس سے رزق طلب کرتی تھی۔ دوسری یہ کہ شہنشاہیت وحکومت مورثی ہوتی تھی۔ باپ بادشاہ ہے تو اس کے بعد اس کا بیٹا بادشاہ ہوگا۔باپ سربراہ ہے تو اس کی اولاد ہی سر براہ ہوگی۔ اس کے سدباب کے لیے اسلام نے دنیا کے سامنے اس حقیقت کا انکشاف کیا کہ یہ دنیاوی حکمران اور بادشاہ بھی ایک عام انسان کی طرح اللہ کی مخلوق ہے۔ سب کا خالق و مالک ایک ہی ہے اور صرف وہی عبادت کے لائق ہے۔ ہاں قرآن مقدس میں اس کی تشریح موجود ہے کہ نظم و نسق کو قائم و دائم رکھنے کے لیے تمہارے درمیان ایک اولو الامر ہونا چاہیے اور اللہ تعالی اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس کا حکم بھی ماننا چاہیے۔ اولو الامر کون ہوگا؟ تو اس کا جواب خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کا انتخاب ہے۔ اس طرح دنیا کی معلوم تاریخ میں اسلام وہ پہلا مذہب ہے جس نے انتخاب کے ذریعہ حکمران مقرر کرنے کا طریقہ رائج کیا۔آج اس طریقے کو اپنا کر یہود و نصاریٰ اور مشرکین دنیا کو بہتر حکمرانی دے رہے ہیں۔ جبکہ مسلمان دور جاہلیت کی طرف لوٹ کر مورثی حکمرانی کو باقی رکھنے کے لیے جنگ و جدال اور کشت و خون کی بازار گرم کیے ہوئے ہیں جبکہ اسلام کا ان طریقوں سے کوئی ناطہ نہیں۔ یہ ناکارہ مسلمانوں کا ذاتی عمل ہے۔
(ج)معجزات و کرامات پرستی
انبیاء و مرسلین کے معجزاتی قوت کو دیکھ کر یہود و نصاریٰ نے انہیں خدائی کا حصہ یا خدا کا بیٹا بنا لیا اور ان کی پرستش شروع کر دی جبکہ اللہ تعالی نے انبیاء و مرسلین کو نبوت و رسالت کو ثابت کرنے کے لیے معجزات عطا فرمائے تھے۔ تاکہ ان کی امت ان پر ایمان لائیں اور انھیں سچا نبی و رسول مانیں۔ اس لیے کہ نبی اور رسول کو نبی و رسول تسلیم کرکے ہی کوئی شخص مومن ہو سکتا ہے۔ گویا معجزات عظمت نبوت و رسالت کو ثابت کرنے کے لیے دیے گیے۔ اور ایسا ہی اللہ تعالی نے ولیوں کو بھی کرامات عطا فرمائے لیکن اپنے ذاتی مفاد کے لیے اس کو پیش کرنے کی اجازت نہیں دی ہے۔ بلکہ ولایت نمایاں ہونے کا خدشہ ہو تو کرامات کو چھپانا واجب ہے۔ اولیاء کرام کو یہ اس لیے دی گئی ہے کہ اسلام کی حقانیت اور قدرت خداوندی کو سمجھا سکیں نہ کہ اپنی ولایت کو واضح کرنے کے لیے۔ آج تک کسی ولی کامل نے یہ نہیں کہا کہ میں ولی اللہ ہوں اس لیے یہ کرامت دکھا رہا ہوں بلکہ سب نے یہ کہا کہ میرا دین حق ہے اللہ تعالی قادر مطلق ہے اور اس کی حقانیت کی دلیل یہ ہے کہ اس کے حکم سے یہ مافوق الفطرت کام بھی ہو سکتے ہیں۔ تاہم معجزہ اور کرامت دونوں حق ہیں اور قرآن مقدس میں اس کی بہت ساری مثالیں موجود ہیں۔ اب بعض جعلی اور نادان لوگوں نے معجزہ اور کرامت کو دیکھ کر یا سن کر انہیں ہی خدا مان بیٹھے ۔معاذاللہ۔ اور انہیں بھی اللہ تعالی کی طرح علام، خلاق، رحمان اور رزاق کہنے لگے اور مشرک ہو گئے۔ اسلام نے اس طرح کے عقائد باطلہ کی تردید کی اور یہ بتایا کہ اللہ تعالی نے ہی انبیاء و مرسلین کو معجزات عطا فرمائے۔ اور اولیاء کرام کو کرامتیں دی ہیں۔انبیا و اولیاء ظہور معجزات وکرامات کے وسیلے ہیں۔ اوران معجزات و کرامات کا اصل خالق و مالک اللہ تعالی ہی ہے۔ بیشک مذہب اسلام کا یہ انکشاف انسانیت پہ بہت بڑا احسان ہے اس کی مثال یہود و نصاری کے ساتھ بعض دوسری جماعتیں بھی ہیں۔
دوسری خرابی:
توہم پرستی۔
توہم پرستی یعنی ایسی باتوں پر عقیدہ رکھنا جس کی کوئی دلیل اور بنیاد نہیں ہے۔ اس باطل عقیدہ میں فرضی قصے کہانیوں کے ذریعہ یہ باور کرایا جاتا ہے کہ یہ جو نفع یا نقصا
ن ہو رہا ہے اس کی
وجہ کوئی غیر مرئی قوت ہےجسے تم نہ دیکھ سکتے ہو اور نہ ہی سمجھ سکتے ہو۔ اس کی وجہ میں جانتا ہوں۔ یا بعض لوگ کہتے ہیں کہ فلاں شخص جانتے ہیں اور وہی اس سے بچنے کا طریقہ بھی جانتے ہیں۔
اور اس فن کو جاننے والے کو کاہن اور اس فن کو کہانت کہا جا تا ہے۔
کہانت کے بارے میں بھی اسلام کے واضح احکامات موجود ہیں۔ اسلام نے توہمات کو حقائق کی بنیاد پہ رکھ کر پرکھا اور صاف کیا کہ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔
تیسری خرابی
مظاہرِ قدرت کی پرستش۔
مظاہر قدرت کی طاقتوں کو دیکھ کر کم عقلوں نے اسی کو اصل طاقت و قدرت سمجھ کر اس کی پرستش شروع کردی۔ جیسے زمین، آسمان، چاند، سورج، ستارے، دریا، سمندر، پتھر، پہاڑ، جنگل، بارش اور بادل وغیرہ۔ انسانوں نے اپنے سے حقیر ترین مخلوق کو خدا مان کر اس کے سامنے سجدے کرنا شروع کیے ۔ اسلام نے انسانوں کو ان ہزاروں خود ساختہ خداؤں کو چھوڑ کر صرف وحدہٗ لاشریک کےحضور سجدہ ریز ہونے کی تلقین کی۔ صرف دین اسلام نے ہی انسانوں کو اپنی عظمت اور حقیقت سے خود آگاہی کا شعور بخشا، اسے اس کے کھوئے ہوے وقار کی بحالی فرمائی،اور اس حقیقت سے آگاہ کیا کہ ساری کائنات کو اللہ تعالی نے تمہارے فائدے کے لیے پیدا کیا ہے۔اب یہ تمہارے علم و ہنر اور آگہی پہ منحصر ہے کہ تم کس قدر استفادہ کرتے ہو۔ لیکن مسلمانوں کے لیے یہ بھی المیہ ہی ہے کہ دنیا کو ہم نے ہی بتایا اور اس کی رہنمائی کی کہ دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے پرستش کے لیے نہیں ہے بلکہ استعمال اور برتنے کے لیے ہے۔وسائل و اسباب استعمال کے لیے اور انسان احترام کے لیے بنے ہیں۔لیکن آج اس سے مستفید دوسری قومیں ہو رہی ہیں۔ اور ہم جلسہ وجلوس، احتجاج، کانفرنس، سیمینار وغیرہ کے جواز اور عدم جواز میں الجھے ہوئے ہیں۔ ہماری میٹنگیں نشستیں مذاکرہ مباحثہ سیمینار، جواز و عدم جواز کے موضوعات پہ ہی منعقد ہوتے ہیں۔ گویا تقریبا ساڑھے چودہ سو سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی یہ طے نہیں ہوسکا کہ کیا جائز ہے اور کیا ناجائز ہے؟ تعجب ہے۔اور نتیجتا نہ ہمیں احترام انسانیت کا سبق ازبر رہا نہ ہم وسائل و اسباب سے استفادے کے سلیقے سیکھ سکے۔
اخلاقیات و معاملات کی تین بنیادی خامیاں
اخلاقیات و معاملات میں بھی تین طرح کی بنیادی خرابیاں پیدا کرکے انسانیت پر شدید ظلم کیا گیا۔ آئیے ہم اس کو بھی سمجھتے ہیں۔
پہلی خرابی
انسانوں کی غلط درجہ بندی
اپنی برتری کو ہر حال میں باقی رکھنے کے لیے انسانوں کی درجہ بندی کی گئی۔ اس ناروا درجہ بندی کرنے والوں نے خود کو سر اور دماغ کہا اور یہ بھی باور کرایا کہ ہم ہی اصل اور سپرپاور ہیں اور دنیا کا ہر شخص ہماری خدمت کے لیے ہے۔ دوسرے گروپ کو دھڑکہا اور انہیں سمجھایا کہ تمہیں اس لیے پیدا کیا گیا ہے کہ تم ہمارے لیے کاروباردنیا چلاؤ، تم حصول دنیا میں مشغول رہو اور ہمارے لیے اسباب عیش وعشرت فراہم کرو۔ اور تیسرے گروپ کو پیر کہا اور انہیں یہ سمجھایا کہ تم پیر سے بنائے گئے ہو تمہاری حیثیت ہم دونوں کی غلاظتوں کو صاف کرنا ہے۔نتیجتا اس طبقاتی کشمکش کی وجہ سے لاکھوں انسانوں کا قتل عام ہوا، ہزاروں خونریز جنگیں ہوئیں۔ لیکن اسلام نے ان تینوں طبقات کے کشمکش کو ختم کرنے کے لیے صرف تین جملوں کا استعمال کیا:
(1) تمام انسان ایک آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے پیدا کیے گئے ہیں۔
(2) تمام انسان برابر ہیں کسی کو کسی پر کوئی فضیلت نہیں ہے۔
(3) خاندان اور قبیلہ اس لیے بنایا گیا تا کہ تم پہچانے جاؤ۔خاندان اور نسب کی بنیاد پر کسی کو کسی پہ کوئی فضیلت نہیں ہے۔اللہ تعالی کے نزدیک وہ زیادہ فضیلت والا ہے جو اللہ تعالی سے زیادہ ڈرتا ہے۔
دوسری خرابی
نظم و نسق کو قائم کرنے کے لیے ،خوف و دہشت اور ظلم و جبر کو رائج کیا گیا۔ اس کی مثالیں مطلق العنان بادشاہوں کی تاریخ میں کثرت سے ملتی ہیں۔مثلا جسے چاہا بری کر دیا اورجسے چاہا قتل کر دیا۔ لیکن اسلام نے نظم و نسق کو قائم رکھنے کے لیے عدل و انصاف کا طریقہ رائج کیا۔ اس کے لیے باضابطہ ادارے قائم کیے گئے۔ابتداء اسلام سے ہی دارالقضا، دارالحکومت کاقیام اس کی مثالیں ہیں۔ جرائم اور قتل و غارت گری کو روکنے کے لیے تعزیر اورحدود کے دفعات متعین کیے گئے۔ نیز بغیر عدالت کے سزا دینے کو بھی جرم کہا گیا۔
تیسری خرابی
عظمت و بزرگی کو نسبی قرار دیا گیا اور یہ عیار لوگ خود کو تمام قاعدہ و قانون سے اوپر تصور کرتے تھے۔ اور آج بھی کرتے ہیں۔ باقی لوگوں کے ساتھ من مانی فیصلہ کرتے، سزا دیتے یابخشش سے نوازتے، جس کی وجہ سے سماج و معاشرہ میں نفرت و کشیدگی میں اضافہ ہوتا تھا۔ اس کے خلاف اسلام نے دنیا کو ایک مستحکم نظریہ حیات دیا کہ دنیا کے تمام مخلوقات اللہ تعالی کا کنبہ ہے۔ اب جو اس سے محبت کرتا ہے، انصاف کرتا ہے تو اللہ تعالی بھی اس سے محبت کرتا ہے اور انصاف کرتا ہے۔ اور عظمت و بزرگی نسبی نہیں ہے بلکہ کسبی ہے۔ جو جتنا زیادہ ایمان داری کے ساتھ محنت و مشقت کرے گا اللہ تعالی کی رحمتوں اور برکتوں سے دنیا و آخرت میں اسی قدر شاد کام ہو گا۔ اور اگر کوئی گناہ کرے گا یا جرم کرے گا تو اسلامی قانون کی گرفت سے کوئی مستثنی نہیں،پھر وہ شہنشاہ وقت کا اکلوتا بیٹا ہی کیوں نہ ہو۔ بلکہ قوانین کا نفاذ سب پر یکساں طور پر ہوتا ہے۔ انہی خوبیوں اور اچھائیوں کی وجہ سے اسلام کل بھی پھیل رہا تھا، آج بھی پھیل رہا ہے اور کل بھی پھیلے گا۔ضرورت ہے کہ مسلمان بھی ان اچھائیوں سے متصف ہو کر اسلام کے فروغ میں اپنا حصہ ادا کریں ۔