از قلم: خبیب القادری مدناپوری بریلی شریف
جس معاشرے میں ہم اور آپ زندگی گزار رہے ہیں ؛ یہ معاشرہ ایسا نہیں تھا بلکہ اس معاشرے کی شکل بگاڑ دی گئی آج اول تو کوئی عالم دین تجارت کے لئے تیار نہیں ہوتا ہے اگر کوئی تجارت کے لئے تیار ہو جاتا ہے تو اس کو عوام الناس طعنہ دیتے ہیں اس کو گھور گھور کے دیکھتے ہیں چوراہوں گلیاروں اور کوچوں میں اس کی مذاق اڑا تے ہیں جیسے کہ وہ کوئی غلط کام کر رہا ہے ایسا صرف نادان لوگ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ نے تجارت کے احکام قرآن مجید میں بیان فرمائے ہیں اور تجارت کرنا سنت سے ثابت ہے پیارے آقا حضرت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت فرمائی ؛حضرت ابوبکر ، حضرت عمر ، حضرت عثمان ، حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنھم اور اکثر مہاجرین کا ذریعہ معاش تجارت ہی تھا حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ چونکہ حضورﷺ کی خدمت میں مشغول رہتے تھے اس لئے انہیں اس کا موقع کم ملتا گاہے بگاہے انہوں نے بھی تجارت فرمائی ؛ سرحیل فقہاء امام الائمہ؛ سراج الامہ ؛ حضرت نعمان بن ثابت ابوحنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ بڑے تاجروں میں تھے ؛ سرکار غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت بڑے تاجر تھے راس المحدیثیں امام بخاری رضی اللہ تعالی عنہ بھی تجارت کیا کرتے تھے؛ اسی طرح اکثر سلف صالحین کا ذریعہ معاش تجارت تھا ان کا یہ مشغلہ اس لئے بھی تھا کہ وہ اپنے آپ کو حکومت کے اور اہل ثروت کے احسان سے بچا کر رکھنا چاہتے تھے تجارت اتنی بہترین اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے اس کو علما اگر اپنا ہیں تو مذاق نہیں بنانا چاہیے اور علمائے کرام کو بھی تجارت کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے
مگر اکثر پڑھے لکھے حضرات فارغ ہونے کے بعد صرف امامت اور مدرسوں تک محدود رہتے ہیں اس کے علاوہ وہ تجارت کے قریب نہیں جاتے؛ سب کچھ ان کے لئے امامت اور تدریس ہی ہے
یہ بات حقیقت ہے کہ امامت اور درس و تدریس سے بڑھ کر کوئی دنیا میں کام نہیں
تدریس وہ انمول تحفہ ہے جو دنیا میں بھی کام آتا ہے اور قبر و حشر میں بھی کام آتا ہے
جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے
حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے عمل کے ثواب کا سلسلہ اس سے منقطع ہو جاتا ہے مگر تین چیزوں کے ثواب کا سلسلہ باقی رہتا ہے۔ (1) صدقہ جاریہ (2) علم جس سے نفع حاصل کیا جائے (3) صالح اولاد جو مرنے کے بعد اس کے لئے دعا کرے” (صحیح مسلم)
ایک حدیث پاک میں ہے: استاد جب شاگرد کو بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھاتا ہے تو اس وقت استاذ کو اور طالب علم اور اس کے والدین کو اللہ تعالی بخش دیتا ہے ( الحدیث)
علم کی بہت بڑی فضیلت ہے ؛ علم والا ہی اچھے طریقے سے تجارت کر سکتا ہے
تجارت تمام پیشوں میں سب سے زیادہ عظمت و فضیلت ؛ برکت و رحمت اور درجہ و مرتبہ والا پیشہ ہے اور یہ معاشرے کے ہر خاص و عام کی ضرورت ہے حضرت انبیائے کرام بھی تجارت کیا کرتے تھے
مثلاً حضرت آدم علیہ السلام زراعت کیا کرتے تھے ؛ حضرت ادریس علیہ السلام سلائی کا کام کیا کرتے تھے؛ حضرت داؤد علیہ السلام زرہیں بنایا کرتے تھے؛ بہت سے انبیاء کرام نے بکریاں چرائیں ” مذہب اسلام میں کسب معاش کی بہت زیادہ فضیلت آئی ہے آج مسلمان تجارت میں بہت پیچھے ہیں بالخصوص علماء اہلسنت وجماعت ‘
علمائے کرام کی بارگاہ میں مؤدبانہ عرض ہے کہ وہ تجارت کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیں کیونکہ تجارت میں برکت زیادہ ہے دولت میں بھی اضافہ ہو تا ہے اور تجارت بھی جیسا اس کا حق ہے ویسے ادا ہو سکے گی
یاد گاری کے طور پرایک روایت اور نقل کرتا ہوں
چنانچہ حضرت قتادہ سے منقول ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے تمام انبیائے کرام بازاروں میں آمد و رفت رکھتے تھے (درمنثور جلد 2 صفحہ243)
پتہ چلا تجارت شریعت مطاہرہ میں مطلوب و محمود ؛ مستحسن و مستحب اور رزق حلال کا سب سے زیادہ کار آمد اور نفع بخش ذریعہ ہے بلکہ سنت ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ طیب ہے اور طیب کو ہی پسند فرماتا ہے
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کہ تجارت کو اپناؤ کیوں کہ اس میں رزق کا نواں حصہ ہے” (احیاء العلوم)
دنیا میں تجارت ہی ایسی چیز ہے جو انسان کی زندگی سدھار دیتی ہے اور آخرت سنوار دیتی ہے
آج غیر قومیں تجارت میں بہت آگے نکل چکی ہیں بڑی بڑی کمپنیاں؛ بڑی بڑی فیکٹریاں ؛ بڑے بڑے کارخانے؛ بڑے بڑے ہوٹلز؛ بڑے بڑے بلڈرز؛ وغیرہ غیرقوموں میں پائے جاتے ہیں
آج ان کے یہاں عصری تعلیم یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ اپنے بچوں کو وہ اپنے دھرم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم دیتے ہیں اور ان کو تجارت وغیرہ کے ہنر سکھاتے ہیں
حالانکہ ہمیں بھی چاہیئے کہ اپنے مدارس میں مساجدوں میں اپنی اولاد کو اور عوام الناس کو عصری تعلیم بالخصوص تجارت کے بارے میں ان کے دلوں میں دلچسپی پیدا کریں ؛ تجارت کے آنکڑے سکھائیں؛ طور طریقے بتائیں وغیرہ وغیرہ
تجارت بہت اہم چیز ہے ؛
بہت فضائل کی حامل ہے ؛ سچے تاجر کے بارے میں حضور نبی رحمت ﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ
” التاجر الصدوق الأمین مع النبین والصدیقین والشہداء “ (سنن الترمذي، حدیث نمبر :1252)
"جوتاجر تجارت کے اندر سچائی اور امانت کو اختیار کرے تو وہ قیامت کے دن انبیاء ، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا”
سچائی کے ساتھ ایمانداری کے ساتھ تجارت کرنے کی بہت بڑی فضیلت ہے
اور جو لوگ تجارت میں گڑ بڑ کرتے ہیں؛ دھوکہ دہی کرتے ہیں ان کے لیے بہت سخت وعیدیں ہیں چنانچہ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو مسلمانوں کو دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں” (الترغیب والترہیب ؛ بخاری و مسلم)
ایک حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :”جب بھی کوئی قوم ناپ تول میں کمی کرنے کے مرض میں مبتلا ہوتی ہے تو ان پر قحط سالی کا عذاب آتا ہے” (ابن ماجہ)
۔ چنانچہ ایک روایت میں ہے "التجار یحشرون یوم القیامة فجارًا إلّا من اتقی وَبَرَّ وصدق ” (المعجم الکبیر للطبراني، حدیث نمبر :4540 )
"تجار (تجارت کرنے والے) قیامت کے دن فاسق و فاجر بناکر اٹھائے جائیں گے”
ایک حدیث پاک میں ہے کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ تین شخصوں سے بات کرے گا ، نہ اس کی طرف منہ اٹھا کر دیکھے گا اور نہ اس کو پاک صاف کرکے جنت میں داخل کرے گا (اس میں سے ایک )جو جھوٹی قسمیں کھا کھا کر اپنے کا روبار کو فروغ دینے کی کوشش کرتا ہے” (صحیح مسلم ، حدیث نمبر : 306 جھوٹ غیبت اور غرور صفحہ 7)
اور حضور سید عالم ﷺ نے ایک موقع پر یہ بھی فرمایا :
"اپنا مال بیچنے کے لیے کثرت سے جھوٹی قسمیں کھانے سے بچو! یہ چیز وقتی طور پر تو فروغ کی معلوم ہوتی ہے ؛ لیکن آخر کار کا روبار سے برکت ختم ہو جاتی ہے "(صحیح مسلم ، حدیث نمبر : 4210 جھوٹ غیبت اور غرور صفحہ 8)
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ تجارت کی جو فضیلت ہے وہ اس وقت حاصل ہوگی جب مکمل ایمانداری اور دیانتداری سے کی جائے- تجارت میں بڑی برکتیں ہیں اور تجارت کے ذریعے ہی انسان دنیا و آخرت میں خیر کثیر جمع کر سکتا ہے ایک حدیث پاک میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :”تجارت کرو کیونکہ رزق کے دس حصے ہیں نو حصے فقط تجارت میں ہیں اور جو شخص اپنے اوپر سوال (بھیک) کا دروازہ کھولتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر مفلسی کے ستر دروازے کھول دیتا ہے "
ایک حدیث پاک میں حضور صلی علیہ وسلم نے فرمایا :” ہنر مند وپیشہ والے مسلمان کو اللہ تعالیٰ دوست رکھتا ہے "
ایک حدیث پاک حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :” کہ فرایض (نماز روزہ زکوۃ حج وغیرہ) کے بعد حلال کی کمائی حاصل کرنا بھی ایک فریضہ اور عبادت کی حیثیت رکھتا ہے”
دوسری حدیث میں آپنے فرمایا:” کسی انسان نے اس سے بہتر روزی نہیں کھائی جو خود اپنے ہاتھوں سے کما کر کھاتا ہے؛ نبی داؤد علیہ السلام بھی اپنے ہاتھوں سے کام کر کے روزی کھایا کرتے تھے” (بخاری)
لب لباب ؛مقصد اور مطلب یہ ہے کہ
تجارت کرنا سنت ہے قرآن و حدیث میں حکم دیا گیا ہے اس سے مال میں زیادتی ہوتی ہے لہذا تجارت کرنے کا پہلا حق امت مسلمہ میں علماءکرام کا ہونا چاہیے
نیر علمائے کرام کی بارگاہ میں مؤدبانہ و مخلصانہ گذارش ہے کیا شرم کو ایک کونے میں رکھ دیں اور تجارت کی طرف توجہ دیں تاکہ تجارت کو تجارت کے طریقے سے کیا جا سکے ورنہ کوئی ناپ تول میں کمی کرے گا؛ تو کوئی جھوٹ بول کر تجارت کرے گا
اللہ تعالیٰ راہ راست پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ایمان پر خاتمہ نصیب فرمائے آمین یارب العالمین